
غیر مستحکم حکمرانی کے باوجود حیرت انگیز طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی مستحکم رہی۔ چین اس کا ہر دور کا دوست رہا جبکہ امریکا صرف اچھے دنوں کا دوست بنا۔ تاہم پچھلے چند سال قبل خصوصاً ۱۱/۹ کے بعد پاکستان کو اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی تائید کرنے کے فیصلے اور اپنے علاقوں میں انتہا پسندوں کی بغاوت کے بعد اسے اپنی خارجہ پالیسی خصوصاً اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی پالیسی میں تبدیلی لانا پڑی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ نئی جمہوری حکومت کی خارجہ پالیسی بھی مستقبل قریب میں دلچسپ اور اہم ہو گی۔ اس حکومت کو ملک میں بدحال معیشت اور سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہندوستان، افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں گے جبکہ خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات بھی مزید بہتر ہو جائیں گے۔ اس نئے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں معیشت اور معاشی مفادات، سیاست سے زیادہ اہم ہوں گے۔
پاکستان چین تعلقات:
طاقتور معیشت اور پاکستان کا قدیم حلیف ملک ہونے کے ناطے چین، پاکستان کی خارجی پالیسی میں سرفہرست رہے گا۔ حالانکہ امریکا کے ساتھ خوشگوار تعلقات چین اور پاکستان کی دوستی کے لیے چیلنج بن گئے ہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے دباؤ کے باوجود اپنے تعلقات کو مضبوط رکھا۔ چین، پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا رہا گا۔ اس نے پاکستانی معیشت کے بہت اہم شعبوں جیسے ٹیلی کام اور انفراسٹرکچر بلڈنگ میں کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے علاوہ چین، جنوب مغربی پاکستان کے گوادر پورٹ (بندرگاہ) کی تیاری کا بھی اہم شراکت دار ہے جو چین کے لیے ایک قابل قدر سرمایہ کاری ثابت ہو سکتی ہے اوریہ بندرگاہ اسے خلیجی علاقوں میں اپنی اشیاء برآمد کرنے اور وہاں سے تیل اور گیس درآمد کرنے کے لیے آسان رسائی فراہم کرے گی۔ پرویز مشرف اور اتحادی حکومت کے چند اہم ارکان کے چین کے حالیہ دورہ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ چین، پاکستان کا مضبوط اتحادی بنا رہے گا اور کئی وجوہات کی بناء پراسے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہمیت حاصل رہے گی۔
پاک ہند تعلقات:
ایک اور طاقتور معیشت ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر بھی پاکستان میں تبدیل کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ ظاہری طور پر پرانی رقابت ختم ہو رہی ہے اور معاشی اور تہذیبی تعاون اس کی جگہ لیتا جا رہا ہے۔ پالیسی میں یہ تبدیلی جسے مشرف نے متعارف کروایا تھا آگے تک چلے گی کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعمیری اور دوستانہ روابط میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ دو سال میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور تہذیبی تعاون میں قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ نئی جمہوری حکومت میں بھی یہ سب جاری رہے گا۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی جمہوری حکومتوں نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ حال ہی میں نواز شریف اور آصف زرداری کی جانب سے دونوں پڑوسی ممالک میں ویزا کی شرط کو ختم کرنے کی تجویز خوش آئند ہے دونوں جانب سے اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک نے گزشتہ سالوں میں علاقے میں اونچی شرح ترقی درج کی ہے اور دونوں کا معاشی مظاہرہ حیرت انگیز رہا۔ بہتر سفارتی، تہذیبی اور تجارتی تعلقات دونوں کی باہمی ترقی میں مددگار ہوں گے تاہم ماضی کے تجربوں کو دیکھتے ہوئے ڈرامائی تبدیلیوں کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لیکن رجحانات یقیناًمثبت ہیں اور پاکستان کی نئی حکومت کے تحت اس کے جاری رہنے کی توقع ہے۔
پاکستان امریکا تعلقات:
پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات بین الاقوامی میڈیا اور پریس کی توجہ کا مرکز بنے رہیں گے۔ دراصل جاری مخالف انتہا پسندی مہم میں نو منتخب حکومت کے تعاون کو جانچا جائے گا جبکہ پرویز مشرف کی حکومت کے تحت تعاون آسان تھا لیکن موجودہ جمہوری طرز کی حکومت کا جوابدہی کی خاصیت کی وجہ سے عوامی ردعمل کی پرواہ کیے بغیر امریکا کے منصوبوں پر عمل کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود دونوں کے درمیان تعاون جاری رہے گا کیونکہ امریکا پہلے ہی تسلیم کر چکا ہے کہ وہ شمالی پاکستان میں انتہا پسندوں کے خلاف لڑائی میں تعاون طلب کرنے سے پہلے نئی حکومت کی حدود کو مدنظر رکھے گا۔ توقع ہے کہ امریکا نومنتخبہ حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے اپنے رویہ میں تبدیلی کرے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو معاشی امداد کے طور پر ۷ بلین ڈالر دینے کی بھی تجویز ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مہم میں دیگر مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا کے ساتھ بھی پاکستان کا تعاون برقرار رہے گا۔
ایران پاکستان تعلقات:
افغانستان میں طالبان کے زوال کے بعد ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں قابل لحاظ بہتری ہوئی ہے۔ مستقبل قریب میں کئی وجوہات کی بناء پر ایران اور پاکستان کے درمیان سفارتی اور معاشی تعلقات میں بہتری کی توقع ہے۔ ایک اہم سبب مجوزہ گیس پائپ لائن ہے جو جنوبی ایران سے پاکستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان تک آئے گی۔ اس کا نام ایران، پاکستان، انڈیا پائپ لائن آئی پی آئی اور پیس پائپ لائن ہے۔ بہت عرصے سے یہ تجویز زیر غور ہے لیکن اب ایران کے معاشی طور پر تنہا ہونے اور اپنے گیس ذخائر کے ذریعہ بیرونی زرمبادلہ کی ضرورت، ہندوستان میں گیس کی طلب اور پاکستان کی ٹرانزٹ فیس کی ضرورت کے پیش نظر مستقبل قریب میں اس پر عملدرآمد کی امید ہے۔ درحقیقت امریکا کی جانب سے اس کی شدید مخالفت ہو رہی ہے کیونکہ وہ ایران کو تنہا کر دینا چاہتا ہے۔ لیکن ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی نے اس طرح کے دباؤ کی مزاحمت کی اور اس پراجیکٹ کی کامیابی کے لیے کوشش جاری رکھی۔ ایران، پاکستان اور ہندوستان کے عہدیدار معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے اس پراجیکٹ کو آگے بڑھانے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ ۲۰۰۸ء میں ہی اس معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔
پاکستان کی نومنتخب حکومت کو کئی معاشی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔ جسے اندرونی اور بیرونی پالیسی کے ذریعہ حسن و خوبی سے نمٹانا ہو گا۔ ایسے دور میں جب معاشی ترقی ایک معیار بن گئی جس سے تمام حکومتوں کی کارکردگی کو جانچا جا رہا ہے پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت اور پاکستان کے مستقبل کے لیے خارجہ پالیسی بے حد اہم ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ شمارہ: ۲۵ مئی ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply