
مفت راشن، مفت روٹی، مفت دسترخوان، مفت منٹ، مفت واؤچرز نے پوری قوم کو اپنے سحر میں گرفتار کیا ہوا ہے۔ زندگی میں ہر شخص، ہر معاملے میں ’’مفتے‘‘ کی تلاش میں ہے۔ اس مزاج نے پوری قوم کو ذہنی طور پر ’’معذور‘‘ کرکے رکھ دیا ہے۔ جسمانی طور پر معذور قوم امیر ہوسکتی ہے، مگر ذہنی طور پر معذور قوم؟
قوم ہو یا فرد، آپ کو دو قسم کے مزاج ملیں گے: معمار یا معذور۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی تربیت کرکے انھیں معمارانِ امت کے کردار کا انتخاب کرنے والا بنا ڈالا۔لیکن، آج کے ہم دردانِ قوم نے افرادِ قوم کو معذورانِ امت میں تبدیل کردیا۔
خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مستقل سنت یہ تھی کہ آپ نے بھیک کی بیخ کنی کی۔ ایسا کوئی عمل جس سے ’’بھیک مزاج‘‘ کو تقویت ملتی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا۔ سیرت نبویؐ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ خود قرآن پاک سے ہمیں بڑی واضح ہدایت ملتی ہے کہ ہم ہر چلتے پھرتے ایرے غیرے کے ساتھ صدقہ خیرات نہ کریں، بلکہ پوری توجہ اور دل جمعی کے ساتھ پوشیدہ افراد کو صدقہ کریں جن کے بارے میں ہمیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ ضرورت مند ہیں۔
قوموں کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کی اکثریت، معذور اور معمار میں سے کس کردار کا انتخاب کرتی ہے۔ آج مسلمانوں کے زوال کے بڑے اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب ہے، حتیٰ کہ یہ مزاج آپ کو معاشرتی، معاشی، سیاسی، علمی۔۔۔ ہر شعبے میں دکھائی دے گا۔ چنانچہ ہم اپنے بہتر مستقبل کے لیے بھی دوسروں کی پالیسیوں کی طرف دیکھتے ہیں۔
مفت کے مزاج نے مفت دسترخوان ہی کو پروان نہیں چڑھایا، ہماری سیاست اور سیادت بھی اسی وائرس سے متعدی ہے۔
Leave a Reply