اپنی آزادی و خودمختاری کا تحفظ افغان قوم کی فطرت میں شامل ہے جسے گزشتہ تیس سالوں میں بیرونی جارح قوتوں نے ’دہشت گردی‘ کا نام دے کر اس کے تشخص کو بری طرح مجروح کیا ہے۔اسی منفی سوچ کے تحت‘ستر (۷۰) کے عشرے میں روسی افغانستان میں داخل ہوئے اور انہوں نے معاشی مساوات کا وعدہ کیا لیکن دھوکا دے کر افغانستان پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ افغانوں کے ساتھ یہ پہلا دھوکا تھا۔امریکا اور پاکستان نے مشترکہ طور پر افغانستان کو روسی جارحیت سے نجات دلانے کی کاروائی کا آغاز کیالیکن جب روسی پسپا ہوگئے توافغانستان میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کی گئی اورافغانوں سے منہ موڑ لیا۔ یہ افغانوں کے ساتھ دوسرا دھوکا تھا۔ ان نامساعد حالات کے باوجود طالبان نے اپنی مزاحمت جاری رکھی اور وہ افغانستان کے ۹۰ فیصد علاقے پرکنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔لیکن اس وقت امریکا اور اس کے اتحادیوں نے (جن میں پاکستان بھی شامل تھا) ۱۱/۹ کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان پر حملہ کر دیاحالانکہ اس سانحے میں ایک بھی افغانی ملوث نہیں تھا لیکن اس کے باوجود افغانوں کو اس ناکردہ جرم کی پاداش میں ظالمانہ سزا دی گئی۔یہ افغا نیوں کے ساتھ تیسرابڑا دھوکا تھا۔افغانستان پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد ۲۰۰۲ء میں بون کانفرنس میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے حکومت سازی کے عمل میں پختون اکثریت کو ان کے جائزحق سے محروم رکھ کر ان کے ساتھ چوتھی مرتبہ دھوکا کیا۔ متعدد بار دھوکا کھانے اورماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں افغان قوم اب آزادی کے نام پر کوئی اور دھوکہ کھانے کیلئے تیار نہیں ہے لیکن اب بھی جارح قوتیں اپنی مکروہ چالیں چل رہی ہیں اور افغانیوں کو ایک بار پھر دھوکا دینے کا عمل شروع ہے۔ لہذا اس نئی سازش کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ فاتح قوت ہی قیام امن کے خدوخال متعین کرتی ہے لیکن افغانستان کے معاملے میں اس حقیقت سے اغماض برتتے ہوئے شکست خوردہ قوتیں‘ یعنی امریکا اور اس کے اتحادی اپنی مرضی کا کام کر نے کی کوششیں کر رہے ہیں۔مالدیٖپ منصوبے کا اعلامیہ واشنگٹن سے جاری کیا گیاجس میں کہا گیا کہ انہیں؛ ’’ایسا افغانستان قابل قبول ہے جو طالبان سے پاک ہو۔‘‘ واضح رہے اس اعلامیہ میں پاکستان کی رضامندی بھی شامل تھی۔ اس طرح افغانستان میں مزید ۳۰ ہزار فوجی بھیجنے کی منظوری بھی دی گئی تاکہ’قیام امن کیلئے گفت و شنید کے وقت امریکا کی پوزیشن مضبوط ہو‘ لیکن طالبان نے قابض فوجیوں میں اضافے پر رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بھاری جانی نقصان پہنچایا جس سے دشمن کا طاقتور پوزیشن پرآنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔‘ اس شرمندگی اور ہزیمت کو چھپانے کیلئے امریکا نے سارا الزام پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی (ISI) اور پاکستان کے اندر قبائلی علاقوں میں حقانی گروپ کی محفوظ پناہ گاہوں پر ڈال دیا۔ہیلری کلنٹن نے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان کے خلاف چارج شیٹ پیش کی جس کی جنرل مولن نے بھی تائیدکی۔برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کیمرون نے ٹونی بلیئر کاحقیقی جانشین ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے یہاں تک مطالبہ کر دیا کہ ان محفوظ پناہ گاہوں کو بمباری کرکے نیست و نابود کر دیا جائے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہزیمت اور شرمندگی کے عالم میں حکمت و دانش بھی کام نہیں آتے جس کا اظہار جنرل پیٹریاس کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ: ’’میں یہاں اس لیے نہیں آیا کہ فوجوں کے پرامن انخلاء کو ممکن بنائوں‘ جبکہ افغان عسکریت پسند ہمیں شکست دینے کیلئے مسلسل جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘ جنرل پیٹریاس بے شک دلیرانہ بیان جاری کرتے رہیںلیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں پر اب یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ وہ طاقت کے زور پر کبھی بھی فتح مند نہیں ہو سکتے لہذاانہوں نے حامد کرزئی کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ قیام امن کے سلسلے میں بات چیت کریں۔
حامدکرزئی نے ابھی تک اس معاملے میں سیاسی بصیرت کامظاہرہ کیا ہے۔کابل میں منعقد ہونے والی گزشتہ کانفرنس‘ جس میں ستر سے زائد ممالک نے شرکت کی تھی‘ ان کے سامنے کرزئی نے طالبان کی دو شرائط تسلیم کرالی ہیں جن میں ’’۲۰۱۱ء کے وسط تک قابض فوجوں کاافغانستان سے نکل جانا اورد وسرا یہ کہ طالبان راہنما جنہیں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے ان پر سے یہ الزام ہٹا یا جائے اور تمام طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے‘‘ شامل ہیں۔ طالبان کی دیگر دو شرائط میں جنگ بندی (Cease-fire) کا اعلان اورافغانستان میں مستقبل کی کثیر الجہتی قومی حکومت کے قیام کے لیے لوئی جرگہ بلانے کامطالبہ شامل ہے۔
ان بدلتے ہوئے حالات نے روس اور بھارت کیلئے نئی تشویش پیدا کر دی ہے اور وہ افغانستان میں اپنا کھیل ختم ہوتا دیکھ کر ایران‘ تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ مل کرایک نیا اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو افغانستان کے شمالی اتحاد کو تھپکی دے گا کہ وہ آگے بڑھے۔یاد رہے اسی طرح کی تھپکی بھارت اور روس نے شمالی اتحاد کے سربراہ احمد شاہ مسعود کو ۱۹۹۲ء میں بھی دی تھی اور کابل میں ان کی حکومت بنائی تھی۔لیکن اب زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ اب شمالی اتحاد امریکی یا روسی ٹینکوں پر سوا ر ہو کر کابل اورقندھار میں فتح مند وں کی صورت داخل نہیں ہو سکے گا کیونکہ دونوں سپر طاقتیں افغانی جہادیوں کے ہاتھوں شکست کھا چکی ہیں۔آج کے طالبان بھی پہلے والے طالبان کی نسبت بالکل مختلف ہیں کیونکہ انہیں سخت ترین لڑائی کا تیس سالہ تجربہ حاصل ہے اور وہ ملا عمر کی قیادت میں متحد ہیں۔ان کے لڑاکا دستوں کی اکثریت کا تعلق نوجوان نسل سے ہے جو گزشتہ تیس برسوں میں جنگ کے سائے میں پیدا ہوئے اورآگ برساتی توپوں کی گھن گرج میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔یہ نوجوان اپنی ملکی آزادی و خودمختاری کیلئے قابض فوجوں کے ساتھ سوائے جہاد کے اور کچھ نہیں جانتے اور یہی افغان قوم کا ناقابل شکست جذبہ حریت ہے جسے شکست دینا ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک افغانستان قابض فوجوں کے تسلط سے آزاد نہیں ہو جاتا۔یہی وہ قوت ہے کہ جس نے دنیا کی دو سپر طاقتوں کوتیس سال کے قلیل عرصے میں شکست سے دوچار کرکے کامیاب عسکری حکمت عملی (Asymmetric War) کا ایک نیا باب رقم کیا ہے جسے ہم اس صدی کا ایک معجزہ کہہ سکتے ہیں۔
وہ عناصر جو صدر حامد کرزئی کے امریکا کی رضامندی سے تیار کیے جانے والے اس امن منصوبے کوسبوتاژ کرنا چاہتے ہیں‘ اس سلسلے میں دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ: ’’امریکا کو افغانستان سے فوجیں نہیں نکالنی چاہئیں بلکہ تزویراتی فوائد اور عالمی برتری کے خواب کو یقینی بنانے کیلئے ایشیاء کے تینوں خطوں کے سنگم پر واقع افغانستان پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہیے۔ اس حکمت عملی میں پاکستان اور بھارت کی باہمی مخاصمت رکاوٹ ڈالتی ہے جس کا سبب پاکستان اور چین کے مابین اسٹریٹیجک پارٹنر شپ (Strategic Partnership) کا معاہدہ ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جس نے موجودہ حالات کو ایک طویل جنگ کی شکل دے دی ہے۔‘‘ یہ حقائق سے چشم پوشی اور ایک ناقص سوچ ہے جو کم ظرفی پر مبنی ہے‘ جسے بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا ابھی تک افغانوں کے نئے جنگی طور طریقوں کے خلاف موثر کاروائی کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کر سکی ہے جو غیر منظم جنگ کے ماہر ہیں اورجدید ترین اسلحہ اور ساز و سامان سے لیس دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کو مسلسل شکست دے چکے ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پشتون آبادی کے افغان سوسائٹی میں دوبارہ شمولیت سے افغانستان میں بڑی واضح تبدیلی آئے گی اور یہ صورت حال امریکا کیلئے ایک صحیح عمل ہوگا۔ اس سے عالمی منظر نامہ بدل جائے گا جہاں امریکا کی نرم قوت (Soft Power) مخالف نظریے سے ہم آہنگ ہوگی۔ صدر اوبامہ اگر’گرائونڈ زیرو‘ پر اسلامی ثقافتی سنٹر قائم کرنے کے وعدے کو عملی جامعہ پہنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہاں سے بلند ہونے والی ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدائیں چہار سو عالم میں امریکا کی نرم قوت کا پیغام پہنچائیں گی جس سے امریکا کے مخالفین کے دلوں میں جاگزیںشکوک و شبہات اور وثوثے‘ محبت و اخوت کے حسین جذبات میں بدل جائیں گے اور اس طرح امریکا دنیا کو امن پسندی کا عملی درس دے سکے گا۔
یہ مفروضہ بھی بے بنیاد ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو گئی تو وہ اپنے نظریات کو دیگر ممالک پر مسلط کرنا شروع کر دیں گے جس سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ افغانی قوم در حقیقت گزشتہ تیس سالوں کی بدامنی سے تنگ آ چکی ہے اور وہ قیام امن کیلئے مخلص ہے جو تمام ہمسایہ اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ علاقائی اور عالمی برتری کے رحجان کا خاتمہ صرف قیام امن کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ روس‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں اور ہمسایہ ممالک کے ہاتھوں اٹھائے جانے والے مظالم کے باوجود افغانستان کی تعمیر نو کے سلسلے میں ان تمام ممالک کا تعاون حاصل کرنا لازم ہے۔یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہے کہ افغان قوم افغانستان میں جاری نئے عظیم کھیل (New Great Game) میں شریک قوتیں جن میں پڑوسی ممالک اور خصوصاً خطے کے ممالک شامل ہیں‘ کی سازشی کاروائیوں کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ افغان قوم بیسویں صدی میں ان سازشی کاروائیوں کا شکار بنی تھی اور اب وہ اپنے رسم و رواج اور تہذیب و تمدن کے مطابق‘ اسلامی نظریے پر قائم رہتے ہوئے امن و آشتی سے رہنا چاہتے ہیں۔او ر یہی افغان قوم کانظریہ حیات بھی ہے۔
افغانی اپنی سرحدوں کو وسعت دینے کے خواہاں نہیں ہیں لیکن وہ اپنے قومی وقار اور ملّی غیرت کا ہر حال میں دفاع کرنا جانتے ہیں۔ قیام امن کی خاطر کیے جانے والے مذاکرات سے وہ خوفزدہ نہیں ہیں لیکن انہیںخوف یا دبائو میںلاکر مذاکرات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا‘ جیسا کہ امریکی کی طلسماتی شخصیت کے حامل صدر جان ایف کینیڈی نے اپنے معروف افتتاحی خطاب میں کہا تھا: ’’بار بار دھوکا اور فریب کھانے کے بعد کسی کو حقیقت اور سچائی کی تہہ تک پہنچنے سے نہیں روکا جا سکتا۔‘‘ اس ضمن میں جارج اورل نے بجا کہا ہے کہ؛ ’’عالمی فریب اور دھوکا کے دور میں سچ کہنا انقلابی قدم ہے۔‘‘ یہی وہ راستہ ہے جس پر افغان قوم گامزن ہے۔
(موصولہ از ’’فرینڈز‘‘ اسلام آباد)
Leave a Reply