
حجاب اپنائے ہوئے مجھے دو ماہ گزر چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر قدامت پرست ہونے یا ظلم کا نشانہ بننے والی خاتون ہونے کا لیبل چسپاں کریں، میں یہ وضاحت کردینا مناسب سمجھتی ہوں کہ میں ماسٹر ڈگری کی حامل ہوں اور اس سے قبل میں نے نفسیات میں گریجویشن کیا تھا۔ میں بتانا چاہتی ہوں کہ کیوں حجاب میرے لیے سب سے زیادہ آزادی بخش تجربہ رہا ہے۔
جب میں نے حجاب استعمال کرنا شروع نہیں کیا تھا تب میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں کبھی حجاب استعمال کروں گی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ سادگی میرے ایمان اور ثقافت کا حصہ تھی مگر میں نے سوچا نہیں کہ میں اِسے خاصے انوکھے رنگ میں دریافت کروں گی اور میں نے کبھی اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی۔
ٹونی بلیئر فیتھ فاؤنڈیشن میں فیتھز ایکٹ فالوئر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے مجھے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ اشتراکِ عمل اور انہیں سمجھنے کا موقع ملا۔ میں نے محسوس کیا کہ مختلف مذاہب کے ساتھ کام کرنے سے میں اپنے دین کو بہتر طور پر سمجھنے کی طرف مائل ہو رہی ہوں۔ جب مجھ سے میرے دین کے بارے میں مختلف سوالات کیے جانے لگے تو میرے لیے لازم ہوگیا کہ میں دین کی بنیادی باتیں جانوں اور دوسروں کی تشفی کروں۔ اسلام کے بارے میں بنیادی باتیں جاننے کا سفر شروع ہوا اور ساتھ ہی میں نے حجاب کی دنیا کی طرف بڑھنا بھی شروع کیا۔
دنیا بھر میں حجاب کو جس طور تعلیم، سیکورٹی، انسانی حقوق اور حتیٰ کہ مذہب کے لیے خطرہ قرار دینے پر سارا زور صرف کیا جارہا ہے اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ دنیا بھر میں میڈیا محجوب خواتین کو ستم رسیدہ بناکر دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ حجاب اِن خواتین پر تھوپا گیا ہے اور یہ کہ اُنہوں نے اِس شعار کو اپنی مرضی سے نہیں اپنایا۔ میرا ذاتی تجربہ بہت مختلف ہے۔ میں تو حجاب کو آزادی کی علامت کے طور پر لیتی ہوں۔ میں ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جنہوں نے حجاب کو مسلط کی ہوئی خاموشی یا بنیاد پرست نظام حکومت کے لیے یا خلاف پلے کارڈ بنا رکھا 7
انسانی حقوق اور خواتین کی تقویت کے حجاب میں کام کرتے ہوئے میرے اندر یہ احساس مزید توانا ہوتا جاتا ہے کہ مسلم خواتین کو بھی اپنے حقوق کا شِدّت سے احساس ہے اور یہ کہ وہ اِس حوالے سے آواز بلند کرنے کا شعور اور حوصلہ رکھتی ہیں۔ اِس احساس ہی نے مجھے یہ حوصلہ بخشا کہ اِس سال اپنی سالگرہ کے موقع پر میں دنیا کو بتا سکوں کہ اب میں حجابی ہوں۔
جس معاشرے میں ہر طرف بے حجابی ہے وہاں اگر میں اپنا سر اور چہرہ ڈھانپنا چاہتی ہوں تو مجھے کیوں جبر پسند کہا جائے؟ حجاب استعمال کرنے کا معاملہ خالص ذاتی نوعیت کا ہے اور یہ اِس بات کا مظہر ہے کہ میرے جسم پر میرا پورا اختیار ہے۔ حجاب اُس دنیا میں شخصی آزادی کی ایک توانا علامت ہے جس میں عورت کو محض ایک شے قرار دے دیا گیا ہے۔ میں اِس بات کے خلاف ہوں کہ کِسی عورت کی قدر اُس کے حسن اور ملبوسات کے ذریعے سے ناپی جائے۔ میں سمجھ نہیں پاتی کہ آزادی اور مساوات کی یہی ایک علامت کیوں اپنائی گئی ہے کہ عورت بے حجاب، بلکہ قدرے بے لباس ہوکر گھومتی پھرے؟ میں اُس دن کے انتظار میں ہوں جب کسی بھی عورت کو اپنے حقوق کی طرف سب کی توجہ مرکوز کرنے کے لیے اپنی نمائش کے عذاب سے نہیں گزرنا پڑے گا۔
جس دنیا میں عورت کی آزادی کا تصور جسم کی نمائش اور مکمل بے حجابی سے جُڑا ہوا ہے، اُس میں حجاب کا استعمال اور جسم کو ڈھانپنا عورت کے لیے اپنے حق کے لیے لڑنے کے تصور کی بہت توانا علامت ہے۔ یہ بنیادی حق کے لیے جدوجہد کا خالص نِسوانی اظہار ہے۔ میں حجاب کو اس تصور کے ساتھ لیتی ہوں کہ مجھے معلوم ہے اپنے وجود کو کس طور دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ یہ بات میرے لیے تقویت کا باعث کیوں نہیں ہوسکتی؟ میرے جسم پر سب سے زیادہ حق تو میرا ہے۔ میں اپنے جسم کو اپنی مرضی کے مطابق دنیا کے سامنے پیش کرسکتی ہوں۔ جس طور بے حجابی اپنے اختیار کا معاملہ ہے، محجوب رہنا بھی اپنے اختیار کی بات ہے۔ میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ حجاب میرے جسم، نِسوانیت اور روحانیت کو خالص میری مرضی اور اختیار کے مطابق پیش کرنے کا نام ہے۔ میں جانتی ہوں کہ بہتوں کو میری اس بات سے اتفاق ہوگا کہ حجاب در اصل اپنے خالق سے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ خالص اُس روحانی تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو روزمرہ زندگی کے بیشتر امور میں ہماری راہ نُمائی کرتا ہے۔
حجاب میری مکمل ذاتی، روحانی اور مذہبی شناخت ہے۔ کسی بھی مجمع میں کوئی بھی حجاب کے ذریعے مجھے شناخت کرسکتا ہے۔ حجاب ہی کے ذریعے میں اپنی شناخت قائم کرکے ان تمام بے بنیاد تصورات کی نفی کرسکتی ہوں اور اُن تمام غلط فہمیوں کو دور کرسکتی ہوں جو اَب اسلام سے جوڑ دی گئی ہیں۔ حجاب میری شخصیت اور شناخت کی توسیع ہے اور اس کے ذریعے میں یہ غلط تصور بھی پوری قوت سے مسترد کرسکتی ہوں کہ محجوب خواتین میں حالات کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں ہوتی، یا یہ کہ وہ زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتیں، یا پھر یہ کہ کسی بھی اتھارٹی کو چیلینج کرنے کی قوت اپنے میں نہیں پاتیں۔
میں جب بھی آئینے کے سامنے ہوتی ہوں، تو اپنے آپ کو ایک ایسی مسلم عورت کی حیثیت سے دیکھتی ہوں جس نے اپنے حق کو استعمال کیا ہے اور جو اپنی بات اپنی اقدار کے تناظر میں کہنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ حجاب اپناکر ہی میں ایک ایسی دنیا کا حصہ بنی ہوں جس میں عورت کو اس کے حسن یا ملبوسات کی بنیاد پر شناخت نہیں کیا جاتا، جہاں اسے اپنے جسم پر اپنے اختیار کے حق کی خاطر لڑنا نہیں پڑتا۔ یہ ایسی دنیا ہے جس میں مذہب اور ذاتی حقوق کے درمیان کسی بھی تضاد یا تنازع کا سامنا کیے بغیر عورت وہ بن سکتی ہے جو وہ چاہتی ہے۔
(۲۳ سالہ عائشہ نصرت کا تعلق نئی دہلی، انڈیا سے ہے)
(“The Freedom of the Hijab”… “New York Times”. July 13th, 2012)
Leave a Reply