مستقبل کی افغان ریاست اور طالبان | 5

فی زمانہ اقتدار میں شراکت

طالبان کا سیاسی ونگ کہتا ہے کہ اب حالات بہت مختلف ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ طالبان بارگیننگ پوزیشن میں نہیں رہے، اس لیے اپنے موقف سے ہٹ رہے ہیں۔ اگر طالبان اب بھی عسکری فتح سے ہمکنار ہوں تب بھی سیاسی اجارہ داری قائم کرنا کسی بھی قرینِ دانش نہ ہوگا کیونکہ ایسا کرنے سے صرف خرابیاں پیدا ہوں گی، معاملات مزید الجھیں گے۔ فی زمانہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمتِ عملی ہی بہترین آپشن ہے۔

بی کے کہتے ہیں کہ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں طالبان قائدین کی اکثریت سیاسی اجارہ داری کے حق میں تھی مگر اب ایسا نہیں۔ فی زمانہ سیاسی اجارہ داری کے حق میں بولنے والے خال خال ہیں۔ طالبان قیادت سے تعلق رکھنے والی بیشتر شخصیات اس نتیجے تک پہنچ چکی ہیں کہ وسیع البنیاد حکومت اور جامع ریاستی ڈھانچا تشکیل دینے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات، جماعتوں اور گروپس کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔

غیر ملکی افواج اور افغان فورسز سے لڑنے والے طالبان کی رائے بہت مختلف ہے اور ان کے پاس اختلاف کی ٹھوس وجوہ بھی ہیں۔ سب سے ٹھوس وجہ تو یہی ہے کہ انہوں نے جان و مال کی قربانی دی ہے، بربادی کا سامنا کیا ہے۔ بی ایس کہتے ہیں کہ ابھی تک ہتھیار اٹھائے ہوئے بیرونی اور قومی فوج سے لڑنے والوں کی رائے خواہ کچھ ہو، طالبان کا سیاسی ونگ اب واضح طور پر یہ چاہتا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلے تاکہ حقیقی امن کی راہ ہموار ہو اور ملک میں وہ استحکام آئے جس کے لیے لوگ تقریباً چار عشروں سے ترس رہے ہیں۔ جب طالبان کا قیام عمل میں آیا تھا تب نوجوانوں میں بہت جوش و جذبہ تھا۔ طالبان میں شمولیت اختیار کرنے والے نوجوانوں نے سن رکھا تھا کہ ایک سپر پاور کو مجاہدین نے مار بھگایا، بلکہ شکست و ریخت سے دوچار کردیا۔ ان کی بھی خواہش تھی کہ ایک سپر پاور سے نبرد آزما ہوں۔ جب امریکا نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان میں شامل نوجوانوں میں غیر معمولی جوش و جذبہ تھا۔ وہ ایک سپر پاور اس کے اتحادیوں کے سامنے ڈٹ جانا چاہتے تھے۔ ملا عمر نے بھی اس بات پر زور دیا کہ جنہوں نے اسلامی امارت ختم کی ہے، انہیں بھرپور مزا چکھایا جائے۔ ابتدا میں سب کو یقین تھا کہ یہ جنگ جلد ختم ہوجائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ پھر جب یہ محسوس کیا جانے لگا کہ جنگ یا تو جلد ختم نہیں ہوگی یا پھر بہت طویل مدت تک چلتی رہے گی تب یہ طے کیا گیا کہ مصالحت کی راہ پر گامزن ہوا جائے۔ طالبان قیادت اس بات سے ڈر رہی تھی کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کہیں فتنہ نہ بن جائے یعنی مسلمان آپس ہی میں دست بہ گریباں ہوتے رہیں۔

طالبان قیادت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دشمنوں کو نہ تو مکمل طور پر ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان پر حتمی نوعیت کی فتح پائی جاسکتی ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ لڑائی ختم کرکے امن کی راہ تلاش کی جائے۔ مصالحت کی راہ پر گامزن ہوکر سب کو امن اور استحکام کے پلیٹ فارم پر آنے کی تحریک دی جاسکتی ہے۔ اگر ہر فریق اپنے موقف پر اَڑا رہے اور اپنی کسی بھی بات سے سرِ مُو انحراف کرنے سے صاف انکار کردے تو امن اور استحکام کی راہ کسی طور ہموار نہیں ہوسکتی۔

ایل ایم کی رائے یہ ہے کہ طالبان قیادت کو اب اچھی طرح احساس ہوچکا ہے کہ سیاسی اجارہ خود اس کے لیے اور ریاست کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ سوویت افواج کے انخلا کے بعد مجاہدین کے ہر گروپ نے اپنے طور پر یعنی تن تنہا حکومت بنانے کی کوشش کی اور ناکامی سے دوچار ہوا۔ اس کے نتیجے میں خانہ جنگی چھڑگئی۔ مجاہدین میں اختلافات کے باعث دوسروں کو قبول کرنے سے گریز کو رجحان کا درجہ ملتا گیا۔ سوویت یونین کو ملک سے نکالنے میں گلبدین حکمت یار نے کلیدی کردار ادا کیا تھا مگر جب سوویت افواج کا انخلا مکمل ہوگیا تو وہ اقتدار میں شراکت کے حوالے سے الجھ گئے اور ملک میں مزید عدم استحکام پیدا ہوا۔ اگر سوویت افواج کو نکال باہر کرنے والے مجاہدین مل کر رہتے تو طالبان کے پیدا ہونے یا پنپنے کی گنجائش بھی پیدا نہ ہوئی ہوتی۔

حامد کرزئی نے اقتدار سنبھالا تب بھی یہی مسئلہ پیدا ہوا۔ انہوں نے دوسروں کو اقتدار میں شریک کرنے سے گریز کی راہ پر گامزن رہنا پسند کیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ خرابیاں بڑھتی گئیں اور ملک بھر میں لڑائی ختم ہونے کی منزل سے دور رہی۔ اور اب اشرف غنی بھی اِسی راہ پر گامزن ہیں۔ وہ بھی اقتدار میں شراکت پر زیادہ یقین کے حامل نہیں۔ انہوں نے اپنے نزدیک ترین حریف عبداللہ عبداللہ کو اقتدار میں بھرپور انداز سے شریک کرنے سے یکسر گریز کیا ہے۔ افغانستان میں اب تک کسی بھی جماعت یا گروپ کے لیے تنہا حکومت بنانا ممکن نہیں رہا۔ اگر کوئی گروپ ایسا کرتا ہے تو اس کا اقتدار کابل اور اس کے مضافات تک محدود رہتا ہے۔ اب طالبان قیادت اس رائے کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ مستحکم نظام حکومت اور مستحکم تر ریاستی ڈھانچے کے لیے تمام جماعتوں، طبقات اور گروپوں کی نمائندگی والی حکومت کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔

افغان بحران کے فریقین سے طالبان کی گفت و شنید

وائی ایم نے بتایا کہ طالبان نے بعض مخالف گروپوں سے گفت و شنید کا آغاز کردیا ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں جو دشمن تھے انہیں طالبان اب قبول کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف تو شمالی اتحاد کے سرکردہ رہنما عبداللہ عبداللہ کو گلے لگایا جارہا ہے اور دوسری طرف یونس قانونی کو بھی قبول کیا جارہا ہے۔ محمد قاسم فہیم مرحوم کے علاوہ سابق مجاہد رہنما محمد محقق اور عبدالرب رسول سیاف سے روابط بڑھانے میں بھی الجھن محسوس نہیں کی جارہی۔ بائیں بازو کے لوگوں میں سے نورالحق علومی اور حنیف اتمار سے رابطہ کرنے کو بھی طالبان نے ضروری سمجھا ہے۔

۲۰۱۲ء میں طالبان نے روابط کا آغاز کیا۔ اس کا بنیادی مقصد افغانستان سے مکمل امریکی انخلا کے بعد کی صورت حال کے لیے تیاری کرنا تھا۔ جن شخصیات سے طالبان نے رابطے کرکے بات چیت کی ان میں سے کوئی بھی کسی حکومتی منصب پر فائز نہ تھا۔ طالبان دراصل یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ طاقت کے ریاستی اور غیر ریاستی مراکز میں واضح فرق سمجھتے ہیں۔

ایل ایم نے بتایا کہ جب روابط استوار ہوئے اور گفت و شنید کا مرحلہ شروع ہوا تو بہت سے طالبان رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ابتدا ہی سے دوسروں کو غلط سمجھا۔ روابط بہت احتیاط کے ساتھ شروع ہوئے۔ دسمبر ۲۰۱۲ء میں فرانس اور قطر میں طالبان نے افغانستان کے کئی سرکردہ سیاست دانوں سے ملاقات کی تاکہ مستقبل کے افغانستان کے بارے میں کھل کر بات کرنا ممکن ہو۔

ڈی ایف کا کہنا ہے کہ ملا عمر نے دشمنوں اور حریفوں سے رابطوں کے لیے گرین سگنل دے دیا تھا۔ وہ بھی ایک ایسا نظام چاہتے تھے جس میں سب شریک ہوں۔ بی کے نے بتایا کہ طالبان کی سیاسی کمیٹی نے بھی سرکردہ شخصیات سے روابط شروع کردیے تھے۔ ۲۰۱۵ء کے موسم گرما سے رابطے تھم گئے ہیں جب ملا اختر محمد منصور نے ملا عمر کی موت کا باضابطہ اعلان ہوجانے کے بعد تحریکِ طالبان کا امیر بننے کی کوشش کی۔

اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ تحریکِ طالبان کا سیاسی ونگ جو کچھ کر رہا ہے کیا وہ ان لوگوں کے لیے قابل قبول ہوگا جو طالبان کی طرف سے اب تک افغانستان کی فوج اور بیرونی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ فیلڈ کمانڈرز سیاسی ونگ کی کسی بھی کامیابی کو قبول کریں گے یا نہیں، یہ سوال بہت اہم ہے۔ جن شخصیات کا انٹرویو کیا گیا انہوں نے بتایا کہ ماضی میں فیلڈ کمانڈرز نے سیاسی فیصلوں کو دل کی گہرائی سے قبول کیا ہے۔ سی ایچ کے الفاظ میں بعض کمانڈرز اور لڑنے والے عام طالبان ارکان اسلامی امارت کی بحالی چاہتے ہیں۔ ان کا یہ وژن بہت پختہ ہے۔ اس سے کم پر وہ ہرگز راضی نہ ہوں گے۔ تحریک طالبان کی قیادت ایک عشرے سے پاکستان اور خلیجی ممالک میں پرسکون اور پرآسائش زندگی بسر کر رہی ہے۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں نے طالبان کی طرف سے لڑتے ہوئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا وہ ایسی آسانی سے کیونکر مانیں گے؟ جن کے گھر کے گھر ختم ہوگئے ہیں وہ بھلا انتقام لینے کی ذہنیت سے کیوں کر دور ہوسکیں گے؟ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔

ایم کیو (جو قندھار کے فیلڈ کمانڈر کا رشتہ دار ہے) کہتا ہے کہ بہت سے لوگ کسی قصور کے بغیر ہی مار دیے گئے۔ میرے دو بھائی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکا کی سربراہی میں اتحادی افواج نے کسی جواز کے بغیر بڑے پیمانے پر لوگوں کو قتل کیا ہے۔ ہمارے گاؤں کے ملک (مکھیا) کو بھی قتل کردیا گیا۔ ایسے لوگوں (امریکی و اتحادی) کے ساتھ بیٹھ کر ہم چائے کیسے پی سکتے ہیں؟ ایسے میں ہم افغان حکومت سے کس طور بات کرسکتے ہیں؟

ملک کے بہت سے حصوں میں لوگوں کے پاس بیان کرنے کو بہت سے گِلے، شِکوے ہیں۔ ان کے ذہن سے انتقام کا جذبہ کھرچ کر پھینکنا آسان نہیں۔ قندھار کے فیلڈ کمانڈر کا بھائی آر زیڈ کہتا ہے کہ لاکھوں سال گزرنے پر بھی یہ لوگ نہیں مانیں گے اور اپنا بدلہ لے کر رہیں گے۔

افغانستان میں بہت سے دوسرے تنازعات بھی ہیں۔ بعض علاقوں میں مقامی اور غیر مقامی کا جھگڑا ہے۔ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بھی تنازعات پائے جاتے ہیں۔ مرکزی حکومت میں حصے کے لیے بھی کشمکش جاری رہتی ہے۔ ہلمند کے ضلع گرمسر میں مقامی اور غیر مقامی کا جھگڑا ہے۔ غیر مقامی چونکہ غریب اور کمزور ہیں اس لیے انہوں نے طالبان کا ساتھ دینے کو ترجیح دی ہے تاکہ تحفظ حاصل رہے۔ بہت سے چھوٹے نسلی گروہ اپنے کاروباری مفادات کے لیے بھی طالبان اور دیگر مضبوط گروپوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ کئی علاقوں میں پوست کی کاشت اور منشیات کی تجارت کو بچانے کے لیے بھی طالبان کا ساتھ دیا گیا۔

تحریکِ طالبان کی مسلح افواج کے سربراہان اور فیلڈ کمانڈرز کا پاکستان میں اجلاس ہوتا رہا ہے۔ ۲۰۱۱ء کے اواخر میں فوجی سربراہان اور فیلڈ کمانڈرز کو کوئٹہ میں طلب کرکے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تمام فیلڈ کمانڈرز نے سیاسی رابطوں کی حمایت کی تاکہ انخلا کے بعد کی صورت حال کو بہتر طور پر سمجھا اور کنٹرول کیا جاسکے۔ جنوری ۲۰۱۲ء میں طالبان نے باضابطہ اعلان کیا کہ وہ امریکیوں سے رابطے میں ہیں۔

فیلڈ کمانڈرز اگرچہ سیاسی روابط اور بات چیت پر راضی ہیں مگر اب تک یہ واضح نہیں کہ بہت سے معاملات (گرلز اسکول، عمومی معاملات میں خواتین کا کردار اور مخالف گروہ) میں ان کا ردعمل کیا ہوگا۔ ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد ہیبت اللہ نے بھی عمومی ہدایات دینے ہی پر اکتفا کیا۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے کو نقصان نہ پہنچایا جائے، لوگوں کا احترام کیا جائے یعنی انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے، امدادی اداروں کے کارکنون کو ہراساں یا قتل نہ کیا جائے اور دشمنوں کو ہتھیار ڈالنے پر مائل کیا جائے۔ ماضی کو بھولنے کی خاص طور پر ہدایت کی گئی کیونکہ ملا عمر کے انتقال کے بعد ملا اختر منصور کی ہلاکت نے خود تحریک طالبان کے لیے بقا کا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔

ملا عمر کے انتقال کے بعد طالبان رہنماؤں کی سوچ میں تبدیلی کے رونما ہونے کا عمل شروع ہوا ہے۔ تحریک طالبان کے بہت سے ارکان اب بھی کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسی فوج کا حصہ بن ہی نہیں سکتے جس میں افغانستان کی سابق قومی فوج کے ارکان شامل ہوں۔ افغان فوج کے اہلکاروں کو تکفیر کا بھی سامنا رہا ہے۔ تحریک طالبان کے ارکان کا موقف ہے کہ جس نے بھی افغانستان میں قائم کی جانے والی اسلامی امارت کی مخالفت کی اور اسے ختم کرنے کے عمل میں حصہ دار بنا وہ کافر ہے۔ اور یہ کہ ایسے لوگوں کو معاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ایک پریشان کن بات یہ ہے کہ فیلڈ کمانڈرز اور عام جنگجو تو اپنی جگہ ہے، تحریک طالبان سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے اور سوشل میڈیا پر متحرک نوجوان بھی کسی کو معاف کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی سیاسی ونگ کا فیصلہ ہوگا، اس کے آگے سر تسلیم خم کردیا جائے گا۔ قندوز پر طالبان کا قبضہ ختم ہوجانے کے بعد دو ٹی وی چینلز (تولو اور ون افغانستان) نے خاصی جانب دارانہ کوریج کی جس سے بیشتر طالبان خاصے جزبز ہوئے۔ سوشل میڈیا پر طالبان کے پڑھے لکھے اور آن لائن کلچر سے آشنا ارکان کا کہنا تھا کہ ان دونوں چینلز کو سزا ملنی ہی چاہیے۔ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں طالبان کے پیدل سپاہی اور آن لائن دانشور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔ تولو اور ون افغانستان کے معاملے میں کسی کو نہ بخشنے کی ذہنیت کار فرما تھی۔ ۲۰ جنوری ۲۰۱۶ء کو ایک وین پر حملہ کیا گیا جس میں تولو چینل کے سات ملازمین مارے گئے۔

مستقبل کی ریاست اور اسلام

ایک عشرے کے دوران طالبان کی طرف سے لاکھوں الفاظ پر مشتمل مواد عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے مگر ایک مستحکم ریاست کس طور معرض وجود میں لائی جانی چاہیے اس موضوع پر اس میں کم ہی مواد ہے۔ طالبان رہنماؤں میں بہتر ریاست کے حوالے سے واضح اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ طالبان کی اشرافیہ کن اعمال کو ریاستی ذمہ داریوں میں شمار کرتی ہے اور کن کو نہیں۔ اور یہ کہ کن ایشوز کو وہ ریڈ لائن کے درجے میں رکھتی ہے یعنی کن باتوں سے ریاست کے لیے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔

جب مثالی ریاست کی بات ہوتی ہے تو طالبان کی اہم شخصیات شریعت کی بات کرتی ہیں۔ یعنی ریاست ایسی ہو کہ مذہب کی تعلیمات پر عمل آسان ہو۔ ایس این کا کہنا ہے کہ ریاست اسلامی اقدار، قوانین، عوام کے جان و مال اور سرزمین کی محافظ ہوتی ہے۔ یہی ایک شرعی ریاست کے قیام کا بنیادی مقصد ہے۔ انٹرویوز کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ طالبان رہنماؤں کے نزدیک اسلامی ریاست جان و مال، اقدار اور مذہب کی محافظ ہوتی ہے۔ اور قومی سلامتی و بقا کے لیے بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وہ بنیادی حقوق، شہری آزادیوں اور سیاسی تفاعل کی زیادہ بات نہیں کرتے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ افغان معاشرے میں جو روایات سیکڑوں برس سے چلی آرہی ہیں ان کا احترام کیا جائے مثلاً آپس کے تنازعات کے حوالے سے قبائلی عمائدین کو فیصلہ سازی میں مرکزی کردار ملنا چاہیے۔

اس وقت افغانستان میں جو آئین نافذ ہے اس پر بیشتر طالبان رہنماؤں کو بظاہر کوئی اعتراض نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس آئین میں شریعت کی بالا دستی کی بات کی گئی ہے۔ ہاں، اس امر پر اعتراض ضرور پایا جاتا ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ میں ڈھیل دکھائی گئی ہے اور بیرونی قوتوں کی موجودگی میں آئین پر پوری طرح عمل کیا بھی نہیں جاسکتا۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ افغانستان کے موجودہ آئین میں بعض امور بیرونی قوتوں کی خوشنودی کے لیے رکھے گئے ہیں۔ جب تک اس آئین کو درست نہیں کرلیا جاتا تب تک مستحکم افغانستان کی راہ ہموار نہیں کی جاسکتی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکیوں نے افغانستان میں ۱۴ برس سے ہر معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اس لیے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس مدت کے دوران مرتب اور نافذ کیے جانے والے قوانین ہر اعتبار سے صرف افغانستان کے مفادات کی تکمیل میں معاون ثابت ہو رہے ہوں گے۔ دیکھنا پڑے گا کہ امریکیوں کی مرضی کا کیا ہے اور خود افغانوں کے مفاد میں کیا ہے۔

انٹرویوز کے دوران یہ بات بھی کھل کر کہی گئی کہ غیر ملکی قوت تمام معاملات پر اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ ایسے میں یہ کیونکر مان لیا جائے کہ سب کچھ افغانوں کے مرضی کے مطابق ہوا ہوگا اور ان کے مفاد میں ہوگا۔ افغانستان میں تعینات غیر ملکی اپنے اپنے مشن پر رہے ہیں۔ انہوں نے ملک کو مستحکم کرنے اور اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق چلانے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کیوں کی ہوگی؟

دستور اور اسلامی ریاست

طالبان نے بھی ملک کو ایک دستور دیا تھا۔ ایک علماء کونسل قائم کرکے سپریم کورٹ کی منظوری کے ساتھ جون ۱۹۹۸ء میں ایک آئین نافذ کیا گیا۔ جولائی ۲۰۰۵ء میں اس آئین کی ایک بار پھر توثیق کی گئی۔ اس آئین میں امیرالمومنین کے انتخاب کا کوئی طریقِ کار نہیں دیا گیا۔ چند ایک شرائط ضرور بیان کردی گئی ہیں مثلاً امیرالمومنین مرد اور فقہ حنفی کا پیروکار ہونا چاہیے وغیرہ۔ امیرالمونین کے انتخاب کا طریقِ کار واضح نہ ہونے کے باعث ہی ملا عمر کے انتقال کی خبر آنے پر ان کے جانشین کے انتخاب کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔

ملا وکیل احمد متوکل نے ۱۹۹۶ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ تحریک طالبان میں تمام فیصلے امیر کرتے ہیں۔ جو انہوں نے کہہ دیا وہی فیصلہ ہوتا ہے۔ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ان کا کیا ہوا فیصلہ سنت کے مطابق ہے۔ امیرالمومنین اگر خود منصب چھوڑنا چاہیں تو چھوڑ دیں یا پھر شریعت نافذ کرنے سے انکار پر انہیں ہٹایا جاسکتا ہے۔ منصب سے امیرالمومنین کو ہٹانے کی اور کوئی صورت نہیں۔ امیرالمومنین کی موجودگی میں حکومت پابند ہوگی کہ ان کی مرضی کے مطابق کام کرے۔

طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ امیرالمومنین کی موجودگی میں وزارتی کونسل ان کے ماتحت کام کرے گی اور اس کے سربراہ کو وزیر اعظم کا سا درجہ حاصل ہوگا۔ ملا عمر کے دورِ امارت میں ملا محمد ربانی اس کونسل کے سربراہ تھے۔ انٹرویوز میں طالبان رہنماؤں کا یہ بھی کہنا تھا کہ دورِ امارت میں لایا جانے والا دستور حتمی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ ایک عبوری دور گزرنے پر حالات کا تجزیہ کرکے زیادہ ٹھوس اور جامع دستور لانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ طالبان کے دورِ امارت میں دستور کے مطابق قائم کی جانے والی اسلامی کونسل قانون ساز ادارے کی حیثیت رکھتی تھی۔

۲۰۱۰ء سے طالبان رہنماؤں کی گفتگو سے دستور غائب ہوگیا۔ انہوں نے ایک نئے سیاسی فریم ورک کی بات شروع کی جس میں انخلا کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت ہو اور تمام فریقوں کو ملاکر چلنے کا اہتمام کیا جائے۔ ملا عمر کی موت کی خبر آنے پر اب یہ عمل بھی تھم سا گیا ہے۔

طالبان رہنما اب اس نکتے پر متفق ہیں کہ آئین ہر اعتبار سے متفقہ ہونا چاہیے۔ کوئی بھی ایسا آئین قبول نہیں کیا جاسکتا جو شریعت کی طے کردہ حدود و قیود سے تجاوز کرتا ہو۔ اس کے لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے جس میں جید علماء کے ساتھ قانونی امور کے ماہرین بھی شامل ہوں۔

انٹرویوز میں طالبان رہنماؤں کی اکثریت نے تسلیم کیا کہ موجودہ آئین اپنی روح کے اعتبار سے اسلامی ہے مگر ریاست اسلامی نہیں کیونکہ اُس نے معاملات کو غیر ملکیوں کے ہاتھ میں دے رکھا ہے۔ ان کے خیال میں آئین کے ڈھانچے کوکسی حد تک تبدیل کرنا پڑے گا تاکہ طالبان کو قبول کرنے کی گنجائش پیدا ہو۔

ایل ایم کا موقف یہ ہے کہ افغانستان کا موجودہ آئین غیر ملکیوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر لکھا گیا تھا۔ اب ضروری ہے کہ قومی مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے اس میں ضروری تبدیلیاں لائی جائیں۔ ایک مشکل یہ ہے کہ آئین میں اسلام کا ذکر تو ہے مگر شرعی قوانین نافذ کرنے کی گنجائش کم رکھی گئی ہے۔ شرعی تعلیمات پر عمل بھی نہیں کیا جارہا۔ دوسری طرف اسی آئین میں بین الاقوامی قوانین کے احترام کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ اب ایسے آئین کی ضرورت ہے جس میں توازن بھی ہو اور تسلسل بھی۔ طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہیں موجودہ آئین پر کچھ زیادہ اعتراض نہیں مگر معاملہ عمل کے میدان میں سیاسی کمزوریوں کا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ غیر ملکی افواج اور قومی فورسز سے برسر پیکار فیلڈ کمانڈرز اور عام طالبان اس آئین کے حوالے سے کیا سوچ رکھتے ہیں۔ اگر فیلڈ کمانڈرز ۱۹۹۰ء کے عشرے کے مائنڈ سیٹ کے ساتھ جی رہے ہیں تو پھر ہمیں اُن کی طرف سے آئین کی شدید مخالفت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

سیاسی نمائندگی

طالبان رہنماؤں نے موجودہ انتخابی نظام کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کرنے سے گریز کیا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابی نظام کے بارے میں کم ہی جانتے ہیں یا اظہار خیال کرتے ہیں۔ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کے خلاف جانا بیشتر اسلام پسندوں کی طرح طالبان کا بھی وتیرہ رہا ہے مگر اس کی باضابطہ فکری یا نظریاتی نہیں بلکہ سیاسی وجوہ ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ ایک شخص ایک ووٹ کا نظریہ درست نہیں کیونکہ سب کی ذہنی سطح میں فرق ہوتا ہے۔ ایک ناخواندہ یا جاہل شخص کسی ایسے شخص کے برابر کیسے کھڑا ہوسکتا ہے جس کی ٹھوس علمی حیثیت ہو اور جو ہر معاملے میں علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو۔ طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتخابی نظام میں دھاندلی بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔ ووٹرز چونکہ بڑی تعداد میں ہوتے ہیں، اس لیے بے قاعدگی اور دھاندلی کا امکان مسترد کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اس سلسلے میں افغانستان کے صدارتی انتخابات کی مثال دیتے ہیں۔ موجودہ صدر اشرف غنی جن حالات میں صدر منتخب ہوئے وہ کسی بھی اعتبار سے پسندیدہ قرار نہیں دیے جاسکتے۔ سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کے مقابل اشرف غنی نے پراسرار حالات میں کامیابی حاصل کی۔ طالبان رہنماؤں کا خیال ہے کہ اشرف غنی کو کامیابی دلانے والا انتخاب آزادانہ اور شفاف نہ تھا۔ طالبان رہنماؤں نے سوال انتخابات پر نہیں بلکہ ان کے طریقِ کار پر اٹھایا ہے۔

طالبان کی صفوں میں یہ معاملہ اب تک طے نہیں ہو پایا ہے کہ انتخابات کے لیے کون سا طریقہ بہتر یا سودمند رہے گا۔ جمہوریت اور انتخابات کے بارے میں زیادہ غور و خوض کو اب تک راہ نہیں دی گئی۔ ویسے انتخابات کو مکمل طور پر مسترد کرنے والے خال خال ہیں۔ طالبان کے جن رہنماؤں سے بات کی گئی ان میں سے چند نے انتخابات کو مثبت قرار دیا ہے۔ بعض کے خیال میں معاملہ مشکوک ہے اور چند ایک نے اس معاملے میں غیر جانب دارانہ رائے رکھنے کا اعلان کیا۔ یعنی واضح مخالفت موجود نہیں۔ اس معاملے میں طالبان قیادت نے پاکستان میں دیوبندی تحریک کی جماعتوں سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے تجربے سے استفادہ کرکے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

طالبان نے جمہوریت کو بھی مکمل طور پر مسترد کرنے سے گریز کیا ہے۔ چند ایک امور پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص ایک ووٹ والا معاملہ طالبان کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہیں۔ اے ایم سابق وزیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پارلیمانی نظام اپنانے میں کچھ حرج نہیں مگر اس کی نوعیت بدلنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان چونکہ دیہی معاشرہ ہے اس لیے پارلیمانی نظام میں نمائندگی ضلعی سطح سے ہونی چاہیے۔ یہ بات طالبان کے نافذہ کردہ دستور کے مطابق بھی ہے۔ ضلعی نظام پر نمائندگی کا تعین موجودہ صدارتی نظام سے بھی کسی حد تک مطابقت رکھتا ہے۔ سو اس روٹ لیول پر حقیقی نمائندگی کی راہ ہموار کرنے کا ہے۔ اگر پارلیمانی جمہوریت کا یہ طریقہ اپنایا جائے گا تو افغانستان میں انتخابی طریقِ کار سے متعلق تمام اختلافات پر قابو پانے میں غیر معمولی حد تک مدد ملے گی۔

اے ایم کا خیال ہے کہ قانون ساز اسمبلی اور عدلیہ میں علمائے کرام کو نمایاں نمائندگی دینے سے معاملات کو سلجھانے میں مدد ملے گی۔ ایسی صورت میں ان کے اقتدار میں آنے یا اقتدار کے معاملات میں براہِ راست ملوث ہونے کی راہ بھی مسدود کی جاسکے گی۔ ساتھ ہی ساتھ اے ایم نے یہ بھی کہا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔

علمائے کرام کو قانون ساز اداروں اور عدلیہ میں بڑے پیمانے پر نمائندگی دینا بھی جمہوری اصولوں کی صریح نفی ہے۔ اِسے درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش تو قرار دیا جاسکتا ہے مگر ایک بڑے مسئلے کا حتمی حل سمجھ کر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ دیہات میں بہت سے فیصلے جرگوں میں ہوتے ہیں۔ قبائلی عمائدین اور مذہبی پیشوا معاملات کو مل کر حل کرتے ہیں۔ حکومت کا نظم و نسق چلانا بہت مختلف کام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرگہ سسٹم بعض معاملات میں بہت اچھا ہے کیونکہ عدالتی پیچیدگیوں سے جان چھڑانے میں مدد ملتی ہے۔

چند ایک طالبان رہنماؤں نے درمیانی جمہوریت کے حق میں رائے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ براہِ راست حق رائے دہی استعمال کرنے کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے عمائدین کے ووٹوں سے حکومت تشکیل دی جائے۔ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں ایک شخص ایک ووٹ کا اصول رائج ہے۔ اس سے بہتر یہ قرار دیا گیا کہ عمائدین پورے علاقے یا برادری کی طرف سے ووٹ دیں اور حکومت سازی میں معاونت کریں۔ ایل ایم کا کہنا تھا کہ جب تک کوئی واضح نظام اپنا نہیں لیا جاتا تب تک لازم ہے کہ سربراہِ مملکت یا تو جرگے کے ذریعے منتخب کیا جائے یا پھر اہل حل و عقد یعنی جید علمائے کرام مل کر صدر کا انتخاب کریں۔ اہل حل و عقد کی رائے ہی سے برہان الدین ربانی کو دو سال کے لیے صدر منتخب کیا گیا تھا اور ملا عمر بھی اِسی طریقہ سے امیرالمومنین منتخب کیے گئے تھے۔

انٹرویوز میں چند طالبان رہنماؤں نے کہا کہ طالبان کی اکثریت مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ مغربی جمہوریت کے ڈھانچے کو اپنانے کی صورت میں علمائے کرام کے لیے گنجائش کم ہی نکل پائے گی۔ ایس ایچ کا کہنا ہے کہ اہل حل و عقد کے ہاتھوں انتخابی عمل کا طے کیا جانا ایک اچھا راستہ ہے۔ اگر معاملات درست انداز سے انجام کو پہنچیں تو اہل امیدوار کامیاب ہوں گے اور ملک کو چلانے کے لیے بہتر لوگ میسر آسکیں گے۔ ہر انسان کی رائے مستند نہیں ہوتی۔ اہل علم جب کسی معاملے میں رائے دیتے ہیں تو وہ ٹھوس اور قابل عمل ہوتی ہے۔ عام آدمی میں وہ سیاسی بصیرت نہیں ہوتی جو بہتر فیصلوں کے لیے درکار ہوا کرتی ہے، خاص طور پر ملک چلانے والوں کا انتخاب کرنے کے معاملے میں۔ اہل حل و عقد کے ذریعے انتخابی عمل مکمل کرانے کی صورت میں بے ایمانی یا بے ضابطگی کی گنجائش بھی برائے نام رہ جائے گی۔

سی ایچ کی رائے یہ ہے کہ کوئی ایسا راستہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے جس پر چل کر جمہوری تقاضے بھی پورے ہوں اور انتخابی عمل بھی معتبر ہوجائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ صدر کا انتخاب علمائے کرام اور قانونی ماہرین کی مدد سے عمل میں لایا جاسکتا ہے اور وزیر اعظم لبرل ڈیموکریسی کے اصول کے مطابق عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں خواص کے منتخب کردہ صدر کے مقابل عوام کا منتخب کردہ وزیراعظم ہوگا اور دنیا کو اندازہ بھی ہوجائے گا کہ کس کا انتخاب درست تھا۔ ایسی صورت میں معاملات کو سلجھانے میں خاطر خواہ حد تک مدد مل سکے گی۔

دنیا بھر میں انتخابی سیاست سے اسلامی تحاریک کو شدید نقصان پہنچتا رہا ہے۔ مصر کی مثال بہت واضح ہے جہاں اخوان المسلمون نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو فوج نے اسے اقتدار سے دور رکھا اور عوام کے منتخب صدر کو معزول کرکے گرفتار کرلیا گیا۔ اور پھر اس پر مقدمات بھی چلائے گئے۔ الجزائر میں بھی اسلام پسندوں کی انتخابی کامیابی فوج سے ہضم نہیں ہو پائی تھی۔ تحریک طالبان سے وابستہ سرکردہ شخصیات کا استدلال ہے کہ مغربی طرز کی جمہوریت اور انتخابی طریقِ کار سے اسلامی تحاریک کو نقصان ہی پہنچتا رہا ہے، اس لیے اس پر زیادہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک طالبان کی مطبوعات میں انتخابی سیاست کے خلاف مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔

بی ایس کا کہنا ہے کہ حماس بھی انتخابی فتح کے باوجود فلسطین میں کچھ خاص نہیں کر پائی۔ انتخابی نظام کو صرف ایسی حالت میں قبول کیا جاسکتا ہے کہ مذہبی تعلیمات پر عمل اور بنیادی اقدار کے تحفظ کی راہ ہموار ہوتی ہو۔ پی ڈی کی رائے یہ ہے کہ انتخابی سیاست سے اسلامی تعلیمات کے فروغ اور معاشرے کی بنیادی اقدار کے تحفظ کی راہ ہموار ہوتی ہو تو یہ قابل قبول ہے ورنہ نہیں۔ بیشتر طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر یہ محض مغرب کی نقل ہو تو اپنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہر معاشرے کی اپنی ہیئت اور ضروریات ہوتی ہیں اور لازم ہے کہ ان کا احترام کیا جائے۔

ایل اے کی رائے یہ ہے کہ طالبان کی اکثریت انتخابات کے خلاف نہیں مگر اس نکتے پر ضرور بحث ہوتی ہے کہ نتائج کیا ہوں گے۔ اگر انتخابات عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی راہ ہموار نہ کرتے ہوں تو ظاہر ہے کہ ان کا کوئی جواز ہے نہ ضرورت۔

پی ڈی اور ایل ایم کی مشترکہ رائے یہ ہے کہ انتخابات کا جواز دراصل اجتہاد کا معاملہ ہے۔ علمائے کرام اور قانونی امور کے ماہرین کو اس معاملے پر زیادہ سے زیادہ غور کرنا چاہیے تاکہ عوام کی رہنمائی کا اہتمام کیا جاسکے۔ اگر انتخابات شرعی اصولوں کے مطابق ہیں تو عوام کو بتایا جائے تاکہ وہ مزید الجھنے سے محفوظ رہیں۔ اور اگر شرعی جواز نہیں بنتا تب بھی بتایا جائے تاکہ عوام کی کوئی رائے قائم ہوسکے۔ فی زمانہ انتخابی نظام ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کچھ کمی ہے تو شرائط منسلک کرکے پوری کی جاسکتی ہے۔

ایل ایم کا کہنا ہے کہ طالبان کی صفوں میں انتخابات کے خلاف سخت آراء نہیں پائی جاتیں۔ یہ کوئی بہت بڑا فکری یا نظریاتی چیلنج نہیں۔ نہ اس بات پر کسی کو کچھ اعتراض ہے کہ اقتدار کی سیاست کیوں کر بروئے کار لائی جاتی ہے۔ سوال اسلامی تعلیمات پر عمل کا ہے۔ جن اقدار کے لیے لڑتے آئے ہیں اگر انہی اقدار کا دفاع ممکن نہ ہو تو پھر کوئی بھی سیاسی نظام کام کا نہیں۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*


This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.