
نائن الیون کے بعد پاکستان کے سرکردہ رہنماؤں نے امریکی قائدین سے اپنی پہلی ملاقات میں ان پر زور دیا تھا کہ افغانستان پر حملہ نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے القاعدہ کے خلاف ہدفی کارروائیاں کی جائیں۔ امریکا میں پاکستان کی سفیر ہونے کے ناطے مجھے تب اعلیٰ سطح کے متعدد اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ ان اجلاسوں میں پاکستانی حکام نے انتباہ کیا تھا کہ عسکری کارروائی کارگر ثابت نہ ہوگی۔ اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ امریکا نائن الیون کے ذمہ دار گروپ القاعدہ اور طالبان میں فرق ملحوظِ خاطر رکھے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ طالبان کو قبول کرتے ہوئے انہیں ساتھ کام کرنے دیا جائے۔
نائن الیون اتنا بڑا المیہ تھا کہ اس کے نتیجے میں شدید صدمہ پہنچا تھا۔ ایسے میں واشنگٹن میں قائدین کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہیں تھے۔ بیس سال بعد امریکا نے جب افغانستان سے انخلا کیا تب تک وہ بہت کچھ جھیل کر یہ سیکھ چکا تھا کہ اپنی طویل ترین جنگ ختم کیسے کی جائے۔ اس کے لیے طالبان سے مذاکرات کی ضرورت تھی مگر یہ سب کچھ القاعدہ کے کچل دیے جانے کے کئی سال بعد ہوا۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان قریبی اشتراکِ عمل نے القاعدہ کو ختم کرنے کا مقصد تو حاصل کرلیا، تاہم اس جنگ نے شدید رفاقت و شراکت اور گہری اجنبیت کے مراحل سے گزرنے والے دو طرفہ تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کردی۔ نائن الیون سے بہت پہلے جغرافیائی و سیاسی تفکرات نے امریکا کی علاقائی رفاقتوں اور ترجیحات کو نئی شکل دے دی تھی۔ دو طرفہ تعلقات مختلف مراحل سے گزرے ہیں۔ سب سے پہلے تو سرد جنگ کے زمانے میں اشتراکیت کو دبوچنے اور محدود رکھنے کا ہدف طے کیا گیا۔ اس معاملے میں امریکا کے لیے پاکستان نے سب سے زیادہ جُڑے ہوئے اتحادی کا درجہ حاصل کیا۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ء میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد اس یلغار کی بساط لپیٹنے کی باری آئی۔ بعد ازاں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر القاعدہ کو شکست سے دوچار کرنے کا مرحلہ آیا۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سب سے زیادہ آزمائش طلب مرحلہ تھا، جس سے دونوں ممالک کے مستقبل کے تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ افغانستان میں امریکا کی چھیڑی ہوئی لامتناہی جنگ نے پاکستان سے اس کے تعلقات کو مزید داغ دار کردیا۔ اسلام آباد میں قائدین کی طرف سے یہ مشورہ دیا جاتا رہا کہ عسکری حکمتِ عملی کو سیاسی حکمتِ عملی سے تبدیل کیا جائے مگر واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے امریکی قائدین کو یقین تھا کہ امریکا کی انتہائی طاقتور افواج اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر طالبان کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
امریکا نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جاری رکھی اور ساتھ ہی ساتھ اسلام آباد میں ہچکچاہٹ سے نبرد آزما حکام سے ’’ڈو مور‘‘ (دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات) کا مطالبہ کرتا رہا۔ امریکیوں نے یہ حقیقت نظرانداز کردی کہ یہ تنازع اتنا پھیل چکا ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرکے ہی دم لے گا اور پاکستان کی حدود میں دہشت گردانہ حملوں سمیت اس کے شدید معاشی اور معاشرتی مضمرات واقع ہوں گے، بڑے پیمانے پر جانی نقصان بھی ہوگا۔ بعد میں جب براک اوباما کے دور میں امریکا نے لڑائی کے ساتھ ساتھ بات چیت کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی تب بھی اسلام آباد کے قائدین نے ایک بار پھر امریکی حکام پر زور دیا کہ وہ بات چیت کے ذریعے جنگ ختم کرے۔ جب دہشت گرد نیٹ ورکس کو ناکام بنانے سے متعلق امریکی کوششیں ناکام ہوئیں تب پاک امریکا تعلقات مزید داغ دار ہوئے اور اعتبار تحلیل ہوگیا۔
پاکستان نے طالبان سے رابطے جاری رکھے اور اس بات پر بھی ان کا یقین رہا کہ ایک دن سبھی ان سے بات چیت پر مجبور ہوں گے۔ معاملات خراب ہوجانے پر پاکستان پسپا ہوتے ہوئے دنیا کے دوسرے سرے تک جانے کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس دوران امریکا نے مئی ۲۰۱۱ء میں پاکستان کی حدود میں کارروائی کرکے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قتل کیا تو پاک امریکا تعلقات پست ترین سطح تک گرگئے۔ پاکستان کی حدود کا احترام نہ کیے جانے پر عوام مشتعل ہوگئے اور مسلح افواج کے سربراہان اور حکومتی قائدین کو بھی بہت غصہ آیا۔
اس آپریشن کے دوران تاریکی میں رکھے جانے پر اسلام آباد میں قائدین نے شدید احتجاج کیا، گوکہ حکام درونِ خانہ اس بات سے مطمئن تھے کہ اسامہ بن لادن کو ختم کردیا گیا۔ دوطرفہ تعلقات میں در آنے والی کشیدگی ختم کرنے میں کئی ماہ لگے تاہم کچھ دو اور کچھ لو کی سی کیفیت کا حامل تعلق برقرار رہا۔ امریکا کو افغانستان میں اپنے مفادات کی فکر لاحق تھی اور پاکستان کی انہیں کچھ خاص پروا نہیں تھی، جس پر پاکستان کے قائدین بجا طور پر سیخ پا ہوئے۔
طالبان سے رابطے استوار رکھنے کی بدولت بعد میں پاکستان اس وقت بامقصد اور تعمیری کردار ادا کرنے کے قابل ہو پایا جب ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں واشنگٹن نے جنگ کے دائرے سے باہر نکلنے کی بات کہی اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے معاملے میں مدد چاہی۔ (پاکستان کی وساطت سے) امریکا اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات ہوئے اور فروری ۲۰۲۰ء میں معاہدہ طے پاگیا، جس کے نتیجے میں افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج کا انخلا ممکن ہوا اور اب خطے میں ’’مابعد امریکا دور‘‘ شروع ہوچکا ہے۔
افغانستان سے امریکا کے انخلا سے پہلے سے خطے میں سیاسی اور اسٹریٹجک تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں کیونکہ چین نے سفارتی اور معاشی سطح پر تحرک بڑھادیا تھا اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو (بی آر آئی) شروع کردیا تھا۔ دوسری طرف روس نے بھی سفارت کاری کے محاذ پر جارحانہ رویہ اپنانا شروع کردیا تھا۔ پاکستان سمیت خطے کے بیشتر ممالک نے یہ محسوس کرنا شروع کردیا تھا کہ خطے میں امریکا کے اثرات اور مفادات کا دائرہ سکڑ رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ پالیسی نے اشارہ دے دیا تھا کہ امریکا اب اس خطے سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنا چاہتا ہے۔ اسی دوران چین سے پاکستان کے تعلقات مزید گہرے اور مستحکم ہوئے۔ بی آر آئی میں پاکستان کا کردار اس کی خوب نشاندہی کرتا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں میں چین کی بھاری سرمایہ کاری بھی معاملات کی خوشگوار نوعیت ظاہر کرتی ہے۔ دوسری طرف امریکا کے حوالے سے یہ تاثر مزید مستحکم ہوا کہ وہ جنوبی ایشیا (اور یوریشیا) کے خطے میں ایسا پارٹنر ہے جو غیر مستقل مزاج بھی ہے اور اپنے اندرونی مسائل میں الجھا ہوا بھی۔ چین کے بارے میں یہ تاثر تیزی سے ابھر کر پروان چڑھا کہ وہ خطے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہا ہے اور یہ کہ اس کے پاس سرمایہ کاری کے لیے بہت کچھ ہے۔ مزید برآں چین بدلتی ہوئی عالمی صورتِ حال میں زیادہ تعمیری اور پائیدار تعلقات کا خواہش مند بھی دکھائی دیا۔
چین گو کہ پاکستان کی نمایاں ترین اسٹریٹجک ترجیح ہے، اسلام آباد کے قائدین امریکا سے مستحکم تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستانی برآمدات کے لیے امریکا سب سے بڑی منڈی ہے اور سپر پاور کی حیثیت سے عالمی سطح پر اس کا اثر و نفوذ بھی کم نہیں بالخصوص عالمی مالیاتی اداروں میں جن سے ملنے والی امداد پر پاکستان کی کمزور معیشت بہت حد تک منحصر ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ پاکستان اس مناقشے کے (منفی) اثرات سے محفوظ رہنا چاہتا ہے، مگر خیریہ ایسا آسان نہیں کہ محض کہنے سے ہو جائے۔
بی آر آئی سے جُڑے ہوئے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں کے مجموعے چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) کے بارے میں امریکا نے اپنی بدطینتی اور بدگمانی صیغۂ راز میں نہیں رکھی۔ اسلام آباد میں حکام بھی امریکا سے اب زیادہ توقعات وابستہ رکھتے دکھائی نہیں دیتے کیونکہ افغانستان سے انخلا کے بعد وہاں آپریشنز کے حوالے سے امریکیوں کاپاکستان پر انحصار ختم ہو جائے گا۔ پاکستان کے لیے یہ بات البتہ تھوڑی سی تشویش کی ہے کہ امریکا نے خطے میں پارٹنر کی حیثیت سے اب بھارت کو منتخب کیا ہے۔
افغانستان میں بدلی ہوئی صورتِ حال نے تعاون اور اشتراکِ عمل کی تھوڑی سی گنجائش ضرور پیدا کی ہے۔ امریکی حکام نے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اشتراکِ عمل اور خفیہ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے پاکستانی حکام سے رابطے بڑھائے ہیں۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے اسلام آباد میں پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں سرگرم انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں داعش اور القاعدہ کے بچے کھچے عناصر کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں۔ پاکستان اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو سمجھتا ہے جس نے سرحدی علاقوں میں بہت سے جان لیوا حملے کیے ہیں۔
پاکستان کے قائدین اس عالمگیر سوچ کے بھی حامل ہیں کہ طالبان افغان سرزمین کو تشدد برآمد کرنے کے اڈے کے طور پر استعمال نہ ہونے دیں۔ افغانستان کے تمام ہی پڑوسی بدلی ہوئی صورتِ حال سے پیدا ہونے والے عدم استحکام سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ چین کو اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ سے خطرات لاحق ہیں، روسی قائدین داعش کو خطرہ گردانتے ہیں اور وسط ایشیا کی ریاستیں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کو خطرہ سمجھتی ہیں۔ تمام پڑوسیوں کا مفاد اس بات میں ہے کہ افغانستان میں استحکام رہے اور وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کو ساتھ لیے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا۔
افغانستان کے مستقبل کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ طالبان ڈھنگ سے حکومت کر بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ طالبان نے ۲۰۰۱ء تک پانچ سال افغانستان پر حکومت کی تھی۔ عوام کی توقعات تب کے معاملات سے بہت مختلف ہیں۔ اب طالبان کو اقتدار مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ہمہ گیر معیشتی ناکامی سے بچنا بھی ہے۔ افغانستان کے زر مبادلہ کے ذخائر امریکا نے منجمد کردیے ہیں جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک نے فنڈنگ معطل کردی ہے۔
افغانستان کو جن مالیاتی مشکلات کا سامنا ہے اْن کے نتیجے میں انسانی المیہ خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ مکمل سیاسی اور معاشی ناکامی صرف افغانستان کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے شدید منفی اثرات کی حامل ثابت ہوگی۔ فنڈ تک رسائی اور معیشت کو چلتا رکھنے کے لیے درکار تعاون یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ طالبان کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ دوسری طرف طالبان کو بھی وہ سب کچھ کرنا ہے جس کی ان سے توقع وابستہ کی جارہی ہے یعنی یہ کہ حکومت میں معاشرے کے تمام طبقات کو شامل کریں، بنیادی حقوق کا احترام کریں اور دہشت گرد گروہوں کو قابو میں رکھیں۔
پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ افغانستان پُرامن اور مستحکم رہے۔ افغانستان میں عسکری مداخلت اور جنگ کے چار عشروں کا خمیازہ پاکستان نے بھی بھگتا ہے۔ تیس لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین پاکستان میں ہیں اور افغانستان سے ملحق سرحد غیر محفوظ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو ترقی سے ہم کنار کرنا ممکن نہیں ہوسکا۔ اب پاکستان کے لیے لازم ہے کہ افغانستان میں امن رہے۔ بھارت سے ملحق مشرقی سرحد پر تناؤ کا سامنا ہے۔ ایسے میں مغربی سرحد (افغانستان) کا عدم استحکام پاکستان کی مشکلات بڑھائے گا۔ بھارت سے مذاکرات کئی سال سے معطل ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو غیر قانونی طور پر بھارت کا حصہ بنانے کا رسمی اقدام کیا تو دو طرفہ تعلقات نئی پستی سے دوچار ہوئے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک ڈور رابطے رہے ہیں مگر اس کے باوجود امن عمل کی بحالی کا امکان خاصا کمزور ہے۔ امریکی پالیسی ساز واضح طور پر بھارت کی طرف جھک گئے ہیں، اس لیے بھارت سے معاملات درست کرنے میں امریکا سے غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کے حامل دو ہمسایوں کے تعلقات میں مزید غیر یقینیت اور بگاڑ پیدا ہوا ہے، بالخصوص طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے، کیونکہ یہ بھارت کے لیے ایک شدید اسٹریٹجک دھچکا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں دو عشروں کے دوران قائم کی جانے والی حکومتوں سے بھرپور تعاون کیا ہے۔
افغانستان میں بدلی ہوئی صورت حال نے چین کے لیے اثرو نفوذ بڑھانے کی گنجائش پیدا کی ہے۔ دوسرے یہ کہ اب علاقائی طاقتیں اپنے آپس کے تنازعات اور مسائل حل کرنے کے لیے کسی بیرونی قوت کی طرف دیکھنے کے بجائے ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گی اور یوں علاقائی سطح پر ہم آہنگی اور اشتراکِ عمل میں اضافے کی بھی گنجائش پیدا ہوگی۔ بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان میں جنگ ختم کرکے خاصا جرأت مندانہ کام کیا ہے۔ اب امریکا کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ اپنے مقاصد کی تکمیل اور اثر و نفوذ میں اضافے کے لیے سفارت کاری اور دوسروں کا احترام ہی بہترین ذریعہ ہے۔ طاقت کے بے محابا استعمال، عسکری جبر اور اقتصادی پابندیوں کے نفاذ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
(ملیحہ لودھی سفارت کار، دانشور اور تزویراتی امور کی ماہر ہیں۔ انہوں نے دو بار امریکا میں پاکستان کی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔ وہ برطانیہ میں ہائی کمشنر کے علاوہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The future of American power”. (“The Ecnomist”. September 9, 2021)
Leave a Reply