
ڈاکٹر اسٹیفن پی کوہن امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’’بروکنگز انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے سینئر فیلو ہیں۔ انہیں پاکستانی امور سے متعلق ماہرین کا قائد تصور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسٹیفن کوہن نے ’’دی آئیڈیا آف پاکستان‘‘ اور ’’دی پاکستان آرمی‘‘ جیسی کتابیں لکھی ہیں جن کی غیر معمولی پذیرائی کی گئی۔ انہوں نے دو سال قبل ’’پاکستان کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مُدوّن کی ہے۔ اس کتاب میں پاکستان کو درپیش چیلنجز اور مستقبل کے امکانات و خدشات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہاں ہم ڈاکٹر اسٹیفن کوہن سے ایک انٹرویو کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں، جو اگرچہ دو سال قبل لیا گیا تھا، لیکن موجودہ حالات کو سمجھنے میں اب بھی مددگار ہو سکتا ہے:
☼ آپ نے جو کتاب ’’پاکستان کا مستقبل‘‘ مرتب کی ہے، اس میں پاکستان کے بارے میں بہترین معلومات رکھنے والے ماہرین کے خیالات شامل ہیں۔ آپ نے کتاب کا یہ عنوان کیوں رکھا؟
اسٹیفن کوہن: بات یہ ہے کہ کتاب میں پاکستان کے ماضی یا حال کی بات نہیں کی گئی، مستقبل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ۲۰۰۴ء میں اپنی کتاب ’’دی آئیڈیا آف پاکستان‘‘ کی اشاعت کے بعد میں نے محسوس کیا کہ جو خدشات میں نے کتاب میں بیان کیے تھے، وہ درست ثابت ہوتے گئے۔ ایسے میں ناگزیر ہوگیا کہ بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں نئے سِرے سے کچھ لکھا جائے۔ میں نے جن لوگوں سے رابطہ کیا، ان میں بہت سوں کی رائے یہ تھی کہ پانچ سے سات سال کے عرصے میں پاکستان میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ میں نے ان سے کہا کہ پھر بھی کوئی رائے دینے میں کیا ہرج ہے۔ میں نے اپنے باب میں پاکستان کے ایک ریاست کی حیثیت سے ناکام ہوتے چلے جانے کے بارے میں لکھا ہے۔ میں جس قدر غور کرتا گیا، اُسی قدر مایوسی میں ڈوبتا چلا گیا۔
☼ آپ نے کہا ہے کہ آپ اپنے پاکستانی دوستوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتے تھے مگر کچھ نہ کچھ لکھنا اور لکھوانا بھی ناگزیر تھا۔ آپ کے خیال میں وہ کون سے حقائق تھے جنہیں اب بیان کیا جانا چاہیے؟
اسٹیفن کوہن: میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے آپ کو اور سب کو بے وقوف بنایا۔ ان میں وہ سخت گیری نہیں تھی، جس کا مظاہرہ کرنے کی انہوں نے کوشش کی۔ وہ سب کو خوش رکھنا چاہتے تھے، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ وہ ذاتی حیثیت میں لبرل اور سیکولر نظریات کے حامل تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں ملک کو لبرل خطوط پر نئی سمت دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔ امریکا اور پاکستان میں بہت سوں کا خیال تھا کہ پرویز مشرف پاکستان کی آخری امید ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ پاکستانی فوج اور اس سے باہر ایسے بہت سے پاکستانی ہیں، جو بہت عمدگی سے ملک کی قیادت کرسکتے ہیں۔
فوج میں ملک کو بہتر انداز سے چلانے کی صلاحیت نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ دوسروں یعنی سویلینز کو بھی ایسا نہیں کرنے دے گی۔ پاکستان میں بنیادی مسئلہ گورننس کا ہے۔ پاکستان سخت گیر آمرانہ حکومت اور مستحکم جمہوریت کے درمیان اٹکا ہوا ہے۔ پاکستان میں نہ تو اس امر کا امکان ہے کہ فوج ملک کو بہتر انداز سے چلا سکے گی، نہ یہ بات ممکن دکھائی دیتی ہے کہ جمہوریت مستحکم ہوسکے گی۔ کوئی انقلابی تبدیلی اُفق پر دکھائی نہیں دیتی۔ دوسری طرف اس امر کا بھی کوئی امکان نہیں کہ بلوچوں کی علیحدگی پسند تحریک کوئی بڑی کامیابی حاصل کرسکے گی۔ اسلامی شدت پسندوں کے اقتدار میں آنے کا امکان بھی خال خال ہے۔ مگر ہاں، امن و امان کی صورت حال کے باعث ملک کی معیشت داؤ پر لگ چکی ہے۔ فوج اور سیاست دانوں کے تعلقات بھی بہتر نہیںہیں۔ ان میں خرابیاں ہی رونما ہو رہی ہیں۔ چند تبدیلیاں تیزی سے رونما ہوتی محسوس ہوتی ہیں مگر یہ تبدیلیاں کیا ہیں، اِس کے بارے میں واضح طور پر کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
تعلیم اور حکمرانی کی کمزوریوں اور اراضی سے متعلق اصلاحات کے فقدان نے پاکستان کو عالمگیریت کا ہدف بنادیا۔ پاکستان ایسا کچھ بھی نہیں بناتا جسے خریدنے کے لیے دوسرے بے تاب ہوں۔ علاقائی پیمانے پر بھی پاکستان تجارت کے قابل نہیں رہا۔ اسلامی عالمگیریت کے منفی اثرات نے پاکستان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
اسلامی دنیا کے چند انتہائی عجیب اور پیچیدہ تصورات نے پاکستان میں خوب فروغ پایا ہے اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ پاکستانی سرزمین دہشت گردی کا مرکز بن کر رہ گئی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کا شمار اسلامی دنیا کے معتدل ممالک میں ہوتا تھا مگر اب اسے شدت پسندوں نے اپنے پیچیدہ اور لاحاصل نظریات کے فروغ کا گڑھ بنالیا ہے۔
☼ کیا پاکستان مکمل ناکامی کے دہانے پر کھڑا ہے؟
اسٹیفن کوہن: نہیں، پاکستان کے مکمل ناکام یا منتشر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ فوج ایسا نہیں ہونے دے گی۔ پاکستان ایسا ملک ہرگز نہیں جسے اپنی بقا کے لیے فی الحال فوری طور پر باہر سے کسی کی مدد درکار ہو۔ مگر ہاں، معاشی زوال جاری رہا تو ایسا منظر نامہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
پاکستان کو حقیقی معنوں میں جنوبی ایشیا کا ملک بن کر دکھانا ہے۔ اسے بھارت کے ساتھ کئی منصوبوں میں اشتراک عمل کرنا چاہیے تاکہ دوستی کی پائیدار بنیادیں قائم ہوں اور امن کی راہ ہموار ہو۔ بیرونی قوتوں سے اپنی خود مختاری کو بچانے اور سالمیت برقرار رکھنے کے حوالے سے پاکستان کو بہت کچھ کرنا ہے۔
پڑوسیوں کے معاملے میں بھارت قدرے جارحانہ رویوں کا حامل رہا ہے مگر پاکستانیوں میں اپنے مفادات کے دفاع کی صلاحیت موجود ہے۔ بھارت میں بھی ایسے لوگ بہرحال موجود ہیں جو پاکستان سے بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے پاس واحد حقیقت پسندانہ آپشن اشتراکِ عمل اور تعاون کا ہے۔ پاکستان نے تجارت کے حوالے سے بھارت کو سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اِس سے دونوں ممالک کے لیے مواقع پیدا ہوں گے، کیا یہ اقدام امن عمل کی جانب پیش قدمی ثابت ہوگا۔ فی الحال اِس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پاکستان اور بھارت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور ایک دوسرے کے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔
☼ آپ پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے امریکا کے لیے بڑا دردِ سر کیوں قرار دیتے ہیں؟
اسٹیفن کوہن: میں نے اپنی کتاب میں ایک امریکی شخصیت کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان سے مختلف امور میں اتحاد قائم کرکے امریکیوں نے یہ سمجھا یا فرض کرلیا کہ اب پاکستان ایک جمہوری ریاست کے طور پر ابھرے گا۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو امریکا سے خاصی کم امداد ملی ہے اور وہ مختلف معاملات میں اتحادی نہیں رہا مگر اس کے باوجود وہ ایک مضبوط جمہوری ریاست بن کر ابھرا ہے۔
پاکستانی حکمرانوں اور خاص طور پر فوجیوں کو، رول ماڈل تلاش کرنے میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ترکی، ملائیشیا یا انڈونیشیا کا ماڈل پاکستان کے لیے قابلِ تقلید نہیں۔ میرے خیال میں پاکستان کے لیے بہترین نمونہ بھارت ہے جو اگرچہ متنوع ثقافتوں کا حامل ہے مگر اب سیاسی اور معاشی طور پر جنوبی ایشیا کی بڑی قوت بن کر ابھر رہا ہے۔ بھارت میں فوج کا ایک جائز اور طے شدہ کردار ہے مگر وہ سیاسی قیادت کے تحت رہتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ فوج کے لیے ایک جائز اور متوازن کردار تلاش یا وضع کرے۔ اس معاملے میں فوج کو بھی اس کی مدد کرنی چاہیے۔ اس وقت جو بندوبست دکھائی دے رہا ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے کام کرنے کے قابل نہیں۔
☼ آپ کا کہنا ہے کہ آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ پاکستان کس طرف جارہا ہے، مگر وہ جہاں بھی پہنچے گا، کیا آپ بتاسکیں گے کہ وہ وہاں کیوں پہنچا؟
اسٹیفن کوہن: میں نے سابق سوویت یونین میں متعین ایک امریکی سفیر کا بیان نقل کیا تھا۔ انہوں نے یہی بات کہی تھی۔ اب پاکستان کے بارے میں مجھے بھی یہی بات کہنی ہے۔
پاکستان کے معاملے میں امریکا کا کردار ملا جلا ہے۔ دو معاملات ایسے ہیں، جن میں ہم ساتھ چل سکتے تھے۔ ہم نے ۱۹۹۸ء میں بھارت کو جوہری تجربات کے بعد جوہری قوت کی حیثیت سے تسلیم اور قبول کیا۔ پاکستان کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر ہم ایسا کرتے تو پاکستان بہت سے معاملات میں متوازن رویہ اپنانے کے قابل ہو جاتا۔ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے معاملے میں اعتدال کی راہ پر گامزن رہتا۔ ہم نے پاکستان کو جوہری طاقت کی حیثیت سے قبول نہ کیا، تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جوہری ہتھیار بناتا گیا اور ماضی میں جوہری ٹیکنالوجی منتقل کرنے کے معاملے میں اس کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں رہا۔
دوسرے یہ کہ پاکستان کو محض فوجی امداد دیتے رہنے کے بجائے امریکیوں کو اس کے ساتھ تجارت پر بھی توجہ دینی چاہیے تھی۔
☼ پاکستان ہدف پذیری کی حالت اور اپنے پریشان کن ماضی سے کس طور چھٹکارا پاسکتا ہے؟
اسٹیفن کوہن: پاکستان کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تجارت پر توجہ دینی چاہیے۔ بھارت تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ اس سے بہتر اشتراک عمل پاکستان کے لیے بہت سی مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ چین سے بھی بہتر تعلقات استوار رکھنے میں کوئی ہرج نہیں۔ پاکستان، ایران اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ اچھا ہے۔ اس سے خطے میں تعاون کی فضا ہموار ہوگی۔ میں حیران ہوں کہ امریکی اس منصوبے کی اس قدر مخالفت کیوں کرتے رہے ہیں۔ ٹھیک ہے، یہ منصوبہ ایرانیوں کے لیے بہت اچھا ثابت ہوگا اور ان کی معیشت مستحکم ہوگی مگر اس سے افغانستان، بھارت اور پاکستان کو بھی تو فائدہ پہنچے گا۔ اگر ہم محض ایران کو فائدے سے بچانے کے لیے تین ممالک کو نقصان سے دوچار رکھنا چاہتے ہیں، تو یہ کوئی مستحسن بات نہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی قیادت ان لوگوں سے بات چیت کے معاملے میں بزدل ثابت ہوئی، جو ہر معاملے میں جدت کے خلاف ہیں اور ملک کو ساتویں صدی عیسوی کے ماحول کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک سبب شاید یہ ہے کہ ان میں سے چند گروپوں کو پاکستانی قیادت اپنے اسٹریٹجک مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔
☼ آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فوج ملک چلا بھی نہیں سکتی اور سیاسی قیادت کو چلانے بھی نہیں دے رہی؟
اسٹیفن کوہن: فوجیوں کو کاروبار کی تربیت نہیں دی جاتی مگر وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بہت سے کاروباری ادارے قائم کرتے یا چلاتے ہیں۔ فوجیوں کو سیاست دان کی حیثیت سے کام کرنے کی تربیت بھی نہیں دی جاتی۔ سیاست دان کی حیثیت سے مہارت پیدا کرنا انتہائی دشوار کام ہے۔ پاکستان میں کسی کو حکم نہیں دیا جاسکتا۔ ایک دوسرے سے متصادم مفادات رکھنے والے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر مشترکہ مفادات کے لیے اشتراک عمل پر راضی کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ پاکستان میں حقیقی سیاست دانوں کا طبقہ پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان میں فوج ملک کے لوگوں ہی میں سے اپنے دشمن شناخت کرکے انہیں الگ کرتی ہے۔ اپنے ہی لوگوں کو دشمن سمجھنا انتہائی خطرناک کام ہے۔ اس سے صرف نقصان پہنچتا ہے۔ ملک ہی کے لوگوں کو محض نسلی، ثقافتی یا مذہبی اقلیت ہونے کی بنیاد پر الگ کرنا، خطرناک قرار دینا تباہی کے راستے پر چلنے کے مترادف ہے۔
☼ اسلام اور فوج پاکستان کے مستقبل پر کس حد تک اثر انداز رہیں گے؟
اسٹیفن کوہن: میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اسلامی جماعتوں کو ملک پر حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسی صورت ہمیں معلوم ہوسکے گا کہ وہ یہ کام کرسکتی ہیں یا نہیں۔ عمران خان کو بھی حکمرانی کا ایک موقع ضرور ملنا چاہیے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ان میں کس قدر دم خم ہے۔ پاکستان میں جمہوری عمل جاری رہے تو کسی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے، ورنہ خرابیاں پنپتی رہیں گی۔ کسی بھی حال میں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اترنی نہیں چاہیے۔
☼ آپ نے اپنی کتاب میں چند ممکنہ منظر ناموں کی بات کی ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتائیے۔
اسٹیفن کوہن: بعض امریکی سیاست دانوں نے پاکستان کو چھوٹا کرنے یا اس کے حصے بخرے کرنے کی بات کی ہے۔ ایسا کہنا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ ملک کو سلامت رہنا چاہیے اور خرابیاں دور کرنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔ ایک نارمل پاکستان ہی امریکا کا مقصد ہونا چاہیے۔ فوج کو ایک خاص حد تک رکھنے کی بات درست ہے مگر اس معاملے میں بہت سے عوامل اور حقائق کو ذہن نشین رکھنا ہوگا۔
☼ آپ کے کہنے کے مطابق پاکستان کو ’’نارمل ریاست‘‘ بنانے کے لیے فوری طور پر کیا، کیا جانا چاہیے؟
اسٹیفن کوہن: پاکستان کو نارمل ریاست بنانے کے لیے فوری طور پر بھارت سے بہتر تعلقات ناگزیر ہیں۔ اسی صورت پاکستان مستحکم ہوسکتا ہے اور اس کی بقا کے امکانات بھی وسیع ہوسکتے ہیں۔ اسی صورت دونوں ممالک مل کر چل بھی سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ ایسے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ خرابیاں بڑھیں گے، مسائل مزید پیچیدہ ہوتے جائیں گے۔
(انٹرویو نگار واشنگٹن ڈی سی میں شعبۂ صحافت سے وابستہ ہیں)
(“The future of Pakistan”…”The Express Tribune”. Jan. 15, 2012)
Leave a Reply