
وادیاں عموماً حسن و تسکین کا باعث اور د ل فریبی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ وادی کی پراسرار خاموشی، ترنم پوشیدہ خزانوں اور دیومالائی کرداروں کی دنیا کا پتا بھی دیتی ہے۔ اونچے نیچے پہاڑوں سے مزّین زمین بے شمار خزانوں کی آماجگاہ ہے۔ آج جس خزانے کا ذکر آپ کے فکر کی دنیا کے لیے حاضرِ خدمت ہے وہ ہے ’’سِلیکون وادی‘‘۔ سلیکون ربڑ سے حاصل شدہ نامیاتی مرکب ہے جو واٹر پروف ہونے کے ساتھ ساتھ زمین پر آکسیجن کے بعد دوسرا وافر مقدارمیں دستیاب خزانہ ہے جو زندگی کا حاصل ہے اور اسے سلیکون ڈائی آکسائیڈبھی کہتے ہیں۔ جو دیکھنے میں بے رنگ موٹی جیلی سے قدرے ملتا جلتا ہے اور محسوس کرنے میں ربڑ کے گیند کی طرح ہے۔
دنیا کے نقشے پر باقاعدہ سلیکون وادی کوامریکا کے شہر کیلیفورنیا کے جنوبی ساحلی علاقے میں ۱۱ جنوری ۱۹۷۱ء میں قائم کیا گیا، جو تقریباً چار پانچ دہائیوں میں دنیا کی بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جائے پیدائش بن گیا۔ جس میں ایپل، فیس بک، گوگل، نیٹ فلیکس، سیسکو،ٹیسلہ، ٹویٹر، یاہو، اوریکل،ایچ پی، انٹل، ایڈوب وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کے خصوصی اور نامی گرامی ادارے مثلاً سٹینفورڈ یونیورسٹی، کمپیوٹر کا تاریخی عجائب گھر اور ناسا “NASA” کا تحقیقی ادارہ بھی قائم ہے۔
سلیکون وادی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ۱۸۹۳ء میں قائم کی جانے والی نجی تحقیقی یونیورسٹی سٹینفورڈ کے تقریباً چار دہائی پہلے کے ایک تحقیقی پروگرام جس میں کمپیوٹر کی ایک دھاتی اور نامیاتی چیز سلیکون پر تجربات کے مراحل ۱۹۷۱ء کے سال میں پہنچے اور تمام اقسام کے کمپیوٹر ز میں ایک ضروری چیز جسے چپ (Chip) کہتے ہیں، کو کامیابی سے بنانے کے بعد اس میں دھاتی اور نامیاتی سائنسی تبدیلیاں کرنے پر اس کا نام سلیکون ویلی رکھا گیا۔سلیکون وادی کا پورا نام سلیکون ویلی یو ایس اے ہے۔ سلیکون ویلی کئی ایک معاشی خساروں اور تنزلی کے سالوں ہی میں انجینئرنگ پروفیسر فریڈرک ٹرمن (Frederick Terman) نے طالبعلموں کے لیے ملازمت کے مواقع مہیا کرنے کے لیے بنائی، جو ۱۹۹۰ء سے ۲۰۱۳ء تک تقریباً پونے ملین کارندوں کی جگہ بن گئی اور اب تک یعنی ۲۰۱۹ء (کورونا وائرس سے پہلے) دنیا بھر کے لیے ایک تفریحی اور تحقیقی سیاحت کا مرکز بن گئی۔
مذکورہ نامی گرامی سلیکون وادی جو ۱۹۹۰ء میں ماورائی، مجازی اور خوابی دنیا کی تخلیق کی ایک مثال تھی۔ اپریل ۲۰۰۰ء ہی سے دس سال کے عرصے میں ڈرامائی تنزلی کی طرف جانے لگی۔ اس مصنوعی ذہانت کی دنیا میں زمین کے تاجروں اور ریئل اسٹیٹ (Real Estate) نے کیلیفورنیا کو انتہائی مہنگا اور بھیڑ سے بھرپور علاقہ بنا ڈالا۔ جس سے خوفناک ٹریفک اور ماحولیاتی آلودگی نے وادی کا چہر ہ کملا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈاٹ کام (Dot Com) کاروبار تباہ ہونے لگے۔ مگر تحقیقی اداروں نے اس وادی کی ساکھ کو برقرار رکھا۔ ۲۰۰۶ء وال سٹریٹ کے رسالے میں شائع کردہ ایک تحقیق کے مطابق بیس میں سے تقریباً بارہ ایجادات کے مقامات کیلیفورنیا میں ہیں۔ ان بارہ میں سے دس سلیکون وادی میں ہیں!! امریکی سٹاک ایکسچینج کی یہ تحقیق دراصل کتنی درست تھی مگر دنیا بھر نے دیکھا کہ کیلیفورنیا میں رہائشی اور تجاری علاقوں میں زمین کی قیمت آسمان کو چھو رہی تھی اور ٹیکس کی شرح آمدن کی شرح سے مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے ناقابلِ ادائیگی تھی جس سے سلیکون وادی کا نہ صرف کاروبار بلکہ ملازمت بھی بہت مہنگی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایک مسائل مثلاً ناقص منصوبہ بندی، مارکیٹنگ کے غیر حقیقی اہداف اور بیان بازی اور ناپختہ سرمایہ کاری نے ۲۰۲۰ء تک سلیکون وادی کا نقشہ بدل دیا۔ سال ۲۰۲۰ء ہی میں اوریکل اور ایچ پی (Oracle and H.P) اپنے ہیڈ آفس سلیکون وادی سے دور قائم کرنے والے دو بڑے دیو ہیکل ٹیکنالوجی کے تاجر ہیں جو یقینا آخری ثابت نہیں ہوں گے۔ یہ خبر ایک بار پھر سے امریکی میڈیا میں گردش کرنے لگی کہ ٹیک کمپنیاں دنیا کے مضبوط اوراعلیٰ ترین شہر، علمی و خوابوں کے شہر سے پرواز بھرنے لگ گئی ہیں جو کہ درست ثابت ہوئی اور ایلن مسک (Elon Musk) (سپیس ایکس، ٹیسلہ وغیرہ کا مالک) بھی ٹیکساس میں ہجرت کر گیا ہے۔ اپنے حالیہ انٹر ویو میں مسک کہتا ہے کہ ’’کیلیفورنیا ہمیشہ سے امریکا کا ایک فاتح شہر ہے جو اپنے کارگزاروں، کارندوں اور سرمایہ کاروں کو ستائش اور کریڈٹ بہت کم دیتا ہے اور کمپنیاں ٹیکس بہت زیادہ ادا کرتی ہیں۔ کیلیفورنیا کارندوں، جفاکش، جدوجہد کرنے والے نئی اور ترقیاتی سوچ کے حامل لوگوں نے بنایا ہے اور کیلیفورنیا انہیں مالِ غنیمت سمجھ رہا ہے‘‘۔
قارئین محترم! وبا کے شدید دباؤ، پھیلاؤ، تابڑ توڑ حملوں اور تباہی کے سال میں ایک چیز مسلسل منافع کا باعث بنی اور وہ ہے انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ کی بنیاد پر کھڑی تجارت، جس کو رتّی بھر نقصان نہ ہوا بلکہ دنیا بھر میں گھر میں مقید (لاک ڈاؤن) انسانوں میں رابطے کا ایک واحد راستہ جو باقی رہا وہ انٹرنیٹ ہے۔ دیو ہیکل کمپنیاں آئے روز نت نئی تخلیقات سے خوف اور غیر یقینی حالات سے دوچار انسان کے حواس کو قابو کرنے میں مصروف رہیں اور بہت حد تک نفسیاتی اور احساساتی ضبط کو حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئیں۔ دنیا زمین سے اْٹھ کر فضا (آن لائن) میں معلق ہو گئی۔ کاروبار زمین بوس اور کئی انسان بے کار اور نوکری سے فارغ ہوئے۔امیر کبیر ممالک مریخ اور زہرہ سیاروں میں جگہ خریدنے کی سوچ میں ہیں اور غریب کمزور معاشی اور علمی طور پر لاغر قومیں بحالتِ مجبوری یا دیکھا دیکھی فضا میں زیادہ دیر تک معلق نہ رہ سکیں۔سیاروں تک چھلانگ لگانے کی کوئی عملی علمی اورشعوری طاقت نہ رکھ سکیں تو انجام کیا ہوگا؟ واپس پھر وہی آلودہ زمین پر ابتر حیات یا موت۔۔؟
مہنگی رہائش اور ناقابلِ برداشت سفری اخراجات اور وقت کے ضیاع سے بچنے کے لیے امریکی حکومت نے گھر سے کام (Work From Home) کرنے کا قانون نافذ کردیا، جس سے ایک بار پھر ناخواندہ اور انٹرنیٹ کی غیر موجودگی اور غیر معیاری ترسیل نے غریب ملکوں اور علاقوں کو متاثر کیا۔ مونٹانا (Montana) نیو جرسی (New Jersey) امریکا کے ایسے شہر ہیں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ادھر کاروباریوں اور سرمایہ کاروں نے سلیکون وادی کی زمین سے اتنی کمائی کر لی کہ کئی ایک نے ٹیکنالوجی کے کاروبار میں چھلانگ لگا دی اور ٹیک کمپنیوں کو خاطر میں نہ لانے کا تمام بندوبست کر لیا جس کاتوڑ ایک بار پھر امریکا ہی میں سٹیٹ انکم ٹیکس کا نہ ہونا جیسے ٹیکساس اور میامی نے بڑے جینٹ ٹیک (Gaint Tech) کو درپردہ دعوت قیام دی اور خبر یہ بھی ہے کہ بہت ساری نامی گرامی کمپنیاں اپنی ورکشاپ میامی میں بنا رہی ہیں۔ اسی طرح فلوریڈا میں بھی یہی ماحول ہے جو سلیکون وادی کے لوگوں کو ہجرت کرنے میں مدد دے گا۔ اس پر موسمی حالات بھی قابلِ برداشت اور مہنگائی بھی! ادھر نیویارک کی طرف دیکھیں تو ٹیکنالوجی انڈسٹری کے دفاتر بہت کم ہیں۔ مگر وال اسٹریٹ جو امریکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اپنی بے شمار معاشی خدمات مہیا کرنے والی کمپنیوں (Financial Service Providers) سمیت نیویارک ہی میں ہے اور مستقبل قریب میں اس کی ہجرت کی کوئی خبر یا منصوبہ سامنے نہیں آیا، جبکہ ملک میں تقریباً ۱۳۵۰۰ لوگ کیلیفورنیا سے ہجرت کر گئے ہیں۔جس میں ڈراپ باکس (Drop Box)، ٹویٹر اور فیس بک جیسی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو جو کہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں،مستقل طور پر دور دراز کے علاقوں سے کام کرنے کی سہولت دے رکھی ہے۔ ۲۰۲۱ء کے شروع ہی میں تقریباً ۱۸۰۰ کمپنیاں کیلیفورنیا سے سدھار گئیں۔
حالیہ سروے کے مطابق ٹیک کمپنیوں کے کارندوں میں ہر تین میں سے دو گھر میں کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ امریکا کے نقشے پر ابھرنے والی سلیکون وادی مسلسل تنزلی و ہجرت کا شکار ہے۔ کورونا وائرس کووڈ ۱۹ کے تحت بے شمار انسانی جانوں کے ضیاع اور ٹیکنالوجی کی بڑی شفٹ زمین پر بہت سی تبدیلیوں کا باعث بنی اور حال ہی میں امریکا کے بڑے بڑے سرمایہ کار جیسے لیری ایلیسن (Larry Ellison) اور ڈریو ہوسٹن (Drew Houston) وغیرہ بھی کیلیفورنیا کے رویے سے تنگ آکر ہجرت پر تیا ر ہیں۔انہیں گلہ ہے کہ ان کی آزادی مصلوب ہے اور ٹیکس کی مد میں لوٹ کھسوٹ ناقابلِ برداشت ہے۔ موذی وبا زحمت ہونے کے باوجود کئی شعبوں کے لیے رحمت ثابت ہوئی جس نے نظامِ تعلیم کو ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا اور اس مد میں سرمایہ کاری جو ۲۰۱۹ء میں ۶۶ء۱۸ بلین امریکی ڈالر تھی، ایک اندازے کے مطابق سال ۲۰۲۵ء تک ۳۵۰ بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ دنیا بھر میں ۲ء۱ بلین بچے باقاعدہ کلاس روم کی پابندی سے آزاد ہیں اور کئی تحقیقی ادارے بھی اسی طریقہ کار کی طرف داری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سارا تحقیقی مواد آن لائن موجود ہے جو کم وقت میں صارف کو میسر ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ کار اپنا مال آن لائن تعلیم میں لگا رہے ہیں جیسے لینگوئج ایپ (Language App) ، ورچوئل ٹیوٹر (Virtual Tutor) یا ویڈیو کانفرنس کا کوئی آلہ (Tool) کووڈ ۱۹ کے سبب درپردہ تعلیم، طب، سیاحت، فنون، فلم، خریداری، کھانا پینا، فیشن اور تفریح سب کچھ آن لائن آ چکا ہے۔
ان سب حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایک لکھاری ایشلے وینس (Ashlee Vance) نے ایلن مسک سے مصنوعی ذہانت کے بارے میں سوال کیا، جس کے جواب میں ایلن مسک نے کہا کہ اس کا بانی لیری پیج (Larry Page) ان کا دوست اور اچھی شہرت کا حامل اسٹار ہے۔مگر مصنوعی ذہانت ایک خطرناک کھیل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ آپ سوچیں کہ اگر لیری پیج نے کسی غلطی، خام خیالی، تجسس یا تجرباتی و حادثاتی طور پر کچھ ایسا تخلیق کر ڈالاجو انسانیت کی تباہی اور بربادی کا باعث بن جائے تو۔۔۔! حضرت انسان کا مستقبل کیا ہوگا؟
(بحوالہ “hilal.gov.pk”)
Leave a Reply