
امریکی تھنک ٹینک ’’رَینڈ کارپوریشن‘‘ نے یہ رپورٹ مئی ۲۰۰۹ء میں شائع کی ہے جسے C.Christine Fair نے مرتب کیا۔ ۵ مئی ۲۰۰۹ء کو امریکی کانگریس کی امورِ خارجہ پر مشتمل کمیٹی کے سامنے اسے پیش کیا گیا۔
چیئرمین اور تمام ممبران! آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے دعوت دی اور امریکا پاکستان تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے بات کرنے کا موقع دیا۔ ’’پیس ایکٹ ۲۰۰۹‘‘ (HR 1986) کے مطابق امریکا کو اس وقت پاکستان کے حوالے سے متوازن، جامع اور ملک گیر حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے جو کہ معاونت کو پورے ملک میں ہدف بنائے ناکہ مخصوص علاقوں پر توجہ دی جائے۔ یہ سوچ ہماری پاکستان کے حوالے سے سابقہ حکمت عملیوں سے زیادہ بہتر اور قابل قبول ہے اور یقینا اس سے پاکستان میں جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ پاکستان اور اس کے شمالی علاقوں میں امن قائم کرنے کا واحد راستہ ریاست میں عوامی حکومت کی یقین دہانی ہے ناکہ بالواسطہ یا بلا واسطہ فوج کی پشت پناہی حاصل کی جائے۔ میں بہت خوش ہوا ہوں کہ پاکستان میں امریکی معاونت اور امداد کے معاملات کو شفاف اور موثر احتساب کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔
پیس ایکٹ ۲۰۰۹ء کے کافی نکات پاکستان کی پارلیمنٹ، سیاسی تنظیمیں، جمہوری ادارے اور سیاسی نظام کو مستحکم بنانے کے حوالے سے مناسب نظر آتے ہیں اور پاکستان کو بحیثیت عوامی ریاست بحال کرنے میں بہت اہم ہیں۔ البتہ کچھ نکات ایکٹ کے مقاصد میں رکاوٹ ہیں اور پاکستان کی پالیسی کو اثر انداز کرنے کی امریکی صلاحیت کی بھی تخفیف کرتے ہیں، اُن ایشوز کے حوالے سے کہ جو صرف پاکستان کے مفاد میں نہیں بلکہ اس خطہ کے دیگر ممالک اور امریکی مفاد میں ہیں۔
میں آج اپنے بیان میں کچھ ایسے چیلنجز کو واضح کرنا چاہتا ہوں جو کہ میں نے پیس ایکٹ ۲۰۰۹ء کی حکمت عملی سے لے کر اس کی تکمیل تک محسوس کیے ہیں۔ خصوصاً میں بات کرنا چاہوں گا ان پانچ ضرورتوں کے حوالے سے جو کہ مجھے مشاہدے سے حاصل ہوئیں۔
(۱) تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی ضرورت (۲) پاکستان کی ترجیحات کے مطابق امریکا کو اپنے اقدامات بڑھانے کی ضرورت (۳) پاکستان کو ازخود مالی وسائل پیدا کرنے کی ضرورت (۴) پاکستان پولیس فورسز کی تمام خطروں سے نمٹنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت (۵) امریکی سیکورٹی معاونت کے حوالے سے واضح اور باوثوق ذرائع سے پاکستان کے احتساب کی ضرورت۔
تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی ضرورت:
بہت سے ایسے تجویز کیے گئے شعبہ جات جو کہ پاکستان کی غیر عسکری اور عسکری صلاحیت کو مستحکم کرنے کے حوالے سے سامنے آئے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ حصہ اس کامیاب شراکت کا ہے جو کہ ان پاکستانیوں کے ساتھ کی گئی کہ جنہوں نے اس تبدیلی سے اپنے آپ کو وابستہ رکھا۔ تبدیلی کے لیے ایسے مددگار اور معاونین کے بغیر اس بات کا اندیشہ ہے کہ ہماری تمام تر محنتیں رائیگاں ہو جائیں۔ گو کہ ایسے اصلاح پسند بہت کم نظر آتے ہیں۔ تبدیلی کے لیے ایسے ساتھیوں کا چنائو کہ جب تجویز کردہ شعبہ جات ان سیکٹرز تک تجاوز کر رہے ہوں کہ جنہیں پاکستان اور دیگر قومیں بھی خود مختار سمجھتی ہوں، بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ خصوصاً پاکستان کا نظام تعلیم ایک مشکل ترین شعبہ ہے کہ جہاں سرکاری طور پر اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس شعبہ کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اقدامات کا ایک حصہ متوجہ ہوا ہے۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں اور نصاب میں نئی اصلاحات کے نفاذ میں جسے یقینا عوامی سطح پر سخت مزاحمت کا سامنا ہو گا۔ جیسا کہ پہلے ہی پاکستانیوں نے پاکستان کے اسکولوں کو لادین کرنے کی امریکی کوششوں کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور یہ ان کا قابلِ جواز حق ہے۔
مزید یہ کہ تجویز کردہ کاموں کے لیے وزارتِ تعلیم سے معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے جو بدستور ان کوششوں کی مزاحمت کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں امریکا کو چاہیے کہ وہ جائزہ لے کہ وہ کون سا کام سب سے بہتر کر سکتا ہے۔ نجی اسکولوں کے اقدامات کو سراہ کر ان کو فروغ بھی دیا جا سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے کچھ اسکالرز کے مطابق نجی اسکول زیادہ موثر ہوتے ہیں اور سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر تعلیمی ماحول فراہم کرتے ہیں۔
اسی طرح امریکا کا مدرسوں میں نئی اصلاحات کے نفاذ پر زور دینا، مذہبی اور ’’ورلڈلی‘‘ (سیکولر) نظام تعلیم میں اُن افراد کی راہ میں رکاوٹ ہے کہ جو پہلے ہی مدرسوں کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں اور ایسے مذہبی اسکالرز پیدا کر رہے ہیں کہ جو ماڈرن اور جدید پاکستان کے حامی ہیں۔ مزید یہ کہ ہمارا یہ اصرار ضائع ہو جاتا ہے اس حقیقت کے سامنے کہ مدرسے پاکستان کے تعلیمی حلقہ میں صرف محدود اور کمزور حصہ کے لیے مختص ہیں جبکہ نجی اسکول ۹۰ فیصد کُل وقتی انرولمنٹ ظاہر کرتے ہیں اور سرکاری اسکول صرف ۳۰ فیصد۔
تعلیمی سفارشات سے تعلق رکھنے والی یہ تمام مثالیں قانون سازی میں محض تمثیلی ہیں اور اسی طرح عدالتی اصلاحات کی سفارشات بھی ایسی ہی محسوس ہوتی ہیں۔ پاکستان کی معاونت کے لائحہ عمل میں کسی چیز کی کمی ہے وہ مشاورتی سوچ ہے کہ جس میں امریکا کو چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ مل کر ان شعبہ جات اور اداروں کی نشاندہی کرے کہ جہاں امریکی معاونت زیادہ سے زیادہ تعمیری ہو۔ موجودہ حکمت عملی سے متعلق مکالمہ نہ تو حکمت عملی ہے اور نہ ہی کوئی مکالمہ۔ ایک ایسی مضبوط اور مستحکم حکمت عملی اور مکالمہ کی ضرورت ہے کہ جس سے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو قائل کیا جائے اور پھر امریکی امداد سے اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے۔ گو کہ یہ تعمیری سوچ محدود ہمواری پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن یہ آخر کار نتیجہ خیز ثابت ہو گی اور ہمارے دخل اندازی کرنے کے اقدامات کو اقتدار و اختیار کی بنیاد پر مسترد کرنے کے رجحان کو کم کرے گی۔ پاکستان کے ساتھ پیشگی وابستگی اور اعتماد کے بغیر میں نہیں سمجھتا کہ اس امداد سے کوئی سودمند نتائج حاصل ہو سکیں گے۔
پاکستان کی ترجیحات کے مطابق امریکا کو اپنے اقدامات بڑھانے کی ضرورت:
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ امریکا کے پاس اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ یہ تمام پروگرام بڑے پیمانے پر اچھے انداز میں اور نتیجہ خیز لاگو کر سکے جبکہ پاکستان میں امریکا کو افرادی قوت کے حوالے سے چیلنجز درپیش ہوں، جہاں سیکورٹی سے جکڑا ہوا ماحول ہو، امریکی عملے کو خطرات درپیش ہوں اور جہاں بااعتماد پاکستانیوں کی کمی موجود ہو کہ جنہوں نے قانون سازی میں موجود صلاحیت اور قابلیت بڑھانے کے اقدامات کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے۔
اس پرعزم لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی سفارتخانہ کو ان تمام حالات سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قابلیت و صلاحیت کی ضرورت ہے اور خطرات سے دور رہنے کے بجائے ان کا زیادہ سے زیادہ سامنا کرنے اور حل کی ضرورت ہے کیونکہ بغیر قابلیت و صلاحیت کے بجٹری معاونت پر ہی زور دیا جاتا رہے گا اس لیے کہ ایسی معاونت کرنا بہت آسان کام ہے۔ قانون سازی میں احتساب کے ساتھ مالی معاونت پر توجہ کے باوجود بھی ایسا کرنے کے بعد یا تو پیسہ غائب ہو جاتا ہے یا پھر تھوڑا بہت صحیح استعمال ہو جاتا ہے۔
مزید یہ کہ US Aid کا نظام ان نمائندوں پر پوری طرح سے انحصار کرتا ہے کہ جو آگے خدمات فراہم کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں امریکا کو اتنی امداد دینے کے عوض کسی حد تک تھوڑے بہت نتائج حاصل ہوئے جبکہ پاکستانی شہریوں کو دیئے گئے فوائد کے موثر اور زیادہ ہونے کے حوالے سے امریکیوں اور پاکستانیوں کی مایوسی زیادہ حاصل ہوئی۔ یہاں تک کہ میں نے گزشتہ سالوں میں پاکستان کے کئی دورے کیے اور میں نے یہ جانا کہ پاکستانی ابھی تک نہیں سمجھ پائے ہیں کہ امریکا پاکستان پر اتنے پیسے کیسے خرچ کر سکتا ہے جبکہ بذات خود انہوں نے صرف چند فوائد دیکھے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی یہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکا نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بامقصد طور پر یہاں فساد برپا کیے رکھا ہے۔ بجائے اس کے کہ نفرتوں کو ختم کیا جاتا بلکہ اس کی وجہ سے بے اعتمادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہاں یہ بھی احساس پایا جاتا ہے کہ امریکا پاکستان کو ضرورت کے مطابق اور کارآمد منصوبہ فراہم نہیں کرتا جبکہ پاکستان اس وقت شدید بجلی کے بحران سے گزر رہا ہے جہاں بڑے بڑے شہروں کو روزانہ کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔ ’’ڈیولپمنٹ اور تعلیم‘‘ کی اہمیت افراطِ زر، غربت اور پانی و بجلی کے بحران سے کم ہوتی ہے۔
پاکستان کو ازخود مالی وسائل پیدا کرنے کی ضرورت:
اس قانون سازی میں ایسا کوئی نکتہ میری نظر سے نہیں گزرا جو کہ پاکستان کو ٹیکس اصلاحات کے نفاذ کے ذریعے اور تمام سابقہ واجب الادا ٹیکس کے معاہدوں کے ذریعے اپنے ڈومیسٹک ریونیو بڑھانے کی صلاحیت پر زور دے جبکہ پاکستان کے منتخب ارباب اختیار جن میں اکثریت جاگیردار اور زمیندار موجود ہیں سرمائے اور ملکیت پر ٹیکس کے حوالے سے ریونیو بڑھانے کے اقدامات، نتیجہ خیز ٹیکس اصلاحات اور بھرپور ٹیکس جمع کرنے کی کوششوں سے متنفر ہیں۔
پاکستان کافی عرصہ سے امداد وصول کر رہا ہے، اس تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام امداد عمومی طور پر غیر موثر کیوں نظر آتی ہے۔ درحقیقت پاکستانی حکومت کو خدمات فراہم کرنے اور بجٹری مدد کرنے کے حوالے سے طویل المیعاد امدادی منصوبوں نے حکومت پاکستان اور عوام کے سماجی معاملات کو کمزور کیا ہے کیونکہ ریونیو کو بڑھانے اور خدمات فراہم کرنے کے لیے امداد کی ترسیل کرنے کے حکومتی اقدامات بہت کم نظر آتے ہیں۔ یقینا یہ ہی معاشرتی و سماجی توجہ بہت ضروری ہے پاکستان میں بھرپور جمہوریت کے قیام کے لیے۔ مزید یہ کہ پاکستان اس حوالے سے پُراطمینان اور پراعتماد ہے کہ اس کے بڑھتے ہوئے عدم استحکام اور بحران نے یہ ناممکن بنا دیا ہے کہ وہ انٹرنیشنل کمیونٹی کی خاطر مزید معاشی، سماجی اور سیاسی تنزلی کی طرف جانے کی غلطی کرے۔ اس کا اجتماعی اثر یہ ہے کہ انٹرنیشنل کمیونٹی کے پاکستان کو اپنے وسائل پیدا کرنے سے دور رکھنے کے مفادات نے ریاست کو اپنے بجٹری معاہدوں کی مضبوط او ر مستحکم منصوبہ بندی سے دور رکھا اور ہیومن ڈیولپمنٹ کی اساس اور دیگر فلاح و بہبود کے حوالے سے سرمایہ کاری پر زور دیا۔ پاکستان اس قابل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ڈومیسٹک ریونیو بڑھانے کی صلاحیت میں اضافہ کرے اور اپنی عوام کے لیے وسائل مہیا کرے اور اس عمل کو سرہانے کی بھی ضرورت ہے۔
پاکستان پولیس فورسز کی تمام خطروں سے نمٹنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت:
پاکستان اس وقت علیحدگی پسند باغی اور دہشت گردوں کی طرف سے سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ گو کہ پاک آرمی ان مختلف باغیوں اور دہشت گردوں کا قبائلی علاقوں میں مقابلہ کرنے میں امریکا کا ساتھ دے رہی ہے۔ تاہم اسکالرلی اور پالیسی پر مبنی لٹریچر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کے زیرانتظام معاملات چلانے کا طریقہ کا آرمی کے زیر انتظام سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ پولیس کو پہلے رکھنے کی حکمت عملی سے پولیس کا نمایاں کردار سامنے آتا ہے جو کہ سویلین انٹیلی جنس کے استعمال میں بھی موثر ہوتا ہے جبکہ آرمی کو خاص امور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً اہم اور ریڈ الرٹ مقامات کو تحفظ دینے کے لیے یا پھر کچھ خاص ڈیوٹی وغیرہ۔ پولیس کی باغیوں اور دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں سے قطع نظر اس قانون سازی میں پاکستان کی نظر انداز پولیس فورس کے حوالے سے ناکافی بات کی گئی ہے مزید جو علاقے پولیس کے سپرد کیے گئے ہیں وہاں بھی پاکستان پولیس کی ان خطرات سے نمٹنے کے حوالے سے فوری صلاحیتیں بڑھانے پر کوئی توجہ نظر نہیں آتی۔ جبکہ امریکا افغانستان سے یہ سیکھ چکا ہے کہ وہاں بھی پولیس کی تعداد اور ان کی صلاحیت کو بڑھانے کی فوری ضرورت ہے۔
تاحال امریکی امداد کا بہت ہی چھوٹا حصہ پاکستان پولیس پر خرچ کیا گیا ہے جبکہ کثیر رقم ملٹری کو مدد کرنے پر مسلسل خرچ کی جارہی ہے۔ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۸ء کے دوران ’’انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول اینڈ لاء انفورسمنٹ‘‘ کے پروگرامات پر خرچ کی گئی رقم تقریباً ۲۶۷ ملین ڈالر ہے جس میں بارڈر سیکورٹی پروگرام کا صرف ۲ء۲ فیصد حصہ شامل رہا۔ جبکہ کولیشن سپورٹ فنڈ پروگرام کے تحت ۱۲ ملین ڈالر امداد ملٹری باز ادائیگی پر خرچ کی گئی۔ تاہم پاکستان آرمی اداروں کی اصلاحات کے حوالے سے غیر سنجیدہ رہتی ہے جبکہ پولیس کے اہم (موجودہ اور ریٹائرڈ) ذمہ داران پولیس میں بہتری اور اصلاح کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اس کام کے حوالے سے مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں لیکن یہ اچھا موقع کھو دیا گیا ہے۔ اگر سیکورٹی اور سیاسی حالات ایسا کرنے میں مشکلات پیش کر رہے ہیں تو امریکا کو چاہیے کہ وہ اچھے آلات اور تربیت کے نفاذ کے لیے دوسرے لوگوں سے معاہدے کرے۔
۲۰۰۵ء سے لے کر اب تک ان باغی گروہوں اور دہشت گردوں نے کئی بار پولیس کو خود کش حملوں، قتل و غارت اور دوسرے وحشیانہ جرائم کا نشانہ بنایا۔ اس دوران تقریباً ۴۰۰ پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے۔ کیونکہ نہ وہ جدید اسلحہ رکھتے ہیں، تعداد میں کم ہیں غیر موثر تربیت یافتہ ہیں اور غیر پیشہ وارانہ ہیں اس لیے با آسانی نشانہ بنائے جاتے ہیں۔
آرمی کا مستقل بنیادوں پر اپنے ہی شہریوں کے خلاف استعمال ہونا عام طور پر آرمی کے خلاف جذبات کو پیدا کرتا ہے۔ پاکستانی افسران نے اپنے اس احساس کا بھی اظہار کیا ہے کہ انہوں نے اپنے شہریوں کو مارنے کی وجہ سے پاکستان آرمی کو نہیں اختیار کیا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کے مقابلے میں آرمی کا مستقل استعمال ان کے ہمت و حوصلہ اور دیگر اہم ذمہ داریوں پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے لہٰذا میں تجویز دیتا ہوں کہ اس دہشت گردی اور بغاوت کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی کے حوالے سے دوبارہ سوچا جائے اور پاکستان کو تحفظ دینے کے معاملے میں پولیس کے کردار کو اہمیت دی جائے مجھے پوری طرح سے اندازہ ہے کہ یہ ایک طویل المیعاد تبدیلی ہے لیکن یہ تبدیلی اسی وقت ممکن ہے کہ جب اس کی تیاری آج سے شروع کی جائے۔
امریکی سیکورٹی معاونت کے حوالے سے واضح اور باوثوق ذرائع سے پاکستان کے احتساب کی ضرورت:
اس قانون سازی میں میری توجہ خاص کر سیکشن ۲۰۶ کے نکات پر ہے جو کہ سیکورٹی معاونت کے حوالے سے بنیادی شرائط پر مبنی ہیں۔ میں ان شرائط کو اچھی طرح سمجھتا ہوں اور اس کے مقصد کی بھرپور حمایت بھی کرتا ہوں۔ امریکا کا پاکستان کی سابقہ جوہری ٹیکنالوجی کے پھیلائو، اس قسم کی سرگرمیوں کے بند ہونے اور مستقبل میں ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کے حوالے سے تحفظات بالکل درست ہیں۔ نیز پاکستان کی مختلف عسکری گروہوں کو جاری حمایت کو ضرور ختم ہونا چاہیے کہ جو ہمارے مفاد، اس کے خطے اور انٹرنیشنل کمیونٹی کے تحفظ کے لیے خطرہ ہیں۔ لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ان اہم معاملات پر زیادہ سے زیادہ تعاون حاصل کرنے کے کم سے کم دو طریقے ہو سکتے ہیں۔
پہلی حکمت عملی تو پاکستان کی سابقہ مایوس کن کارکردگی کے بدقسمت حقائق کو سمجھتی ہے اور امریکا میں پاکستان کے ساتھ صحیح طریقہ سے معاہدہ کرنے کی بڑھتی ہوئی متفقہ رائے کو ترتیب دینا چاہتی ہے۔ اس کے مطابق شرائط کو ہٹانے سے زیادہ بہتر نتائج حاصل ہو سکیں گے یہ شرائط کا طریقہ شاید اس وقت حق بجانب ہوتا کہ جب قانون سازی میں پاکستان کو بھارت کے مقابلہ میں روایتی جنگ کے لیے سیکورٹی معاونت کے حوالے سے بات کی جاتی۔ بہرکیف جہاں تک میں اس قانون سازی کو اچھی طرح سمجھ سکا ہوں اس کے مطابق اس نے ہماری توجہ کو ان سیکورٹی معاونت کے حوالے سے بہت محدود کر دیا ہے کہ جو باغیوں اور دہشت گردوں کو ختم کرنے کی پاکستانی صلاحیت کو بڑھا سکے۔ لہٰذا اس تناظر میں ان مخصوص شرائط کی کوئی ضرورت نہیں البتہ سیکورٹی معاونت کے مقصد اور اہمیت کو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔
ان افراد تک رسائی کی شرائط نے کہ جو جوہری پھیلائو میں شامل تھے درحقیقت بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ بات بھی شاید ہی ممکن ہو کہ پاکستان باآسانی ہمارے مطالبات اور شرائط مان لے جس کے بعد امریکا ایسی صورت حال پر ہو گا کہ اسے اپنے اختیارات کو کم کرتے ہوئے پاکستان کی امداد کو جاری رکھنا پڑے گا۔ اس کے بعد امریکا کا پاکستان سے تعلقات اور اس کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے تمام تر اصولوں اور قوانین سے پیچھے ہٹنے کا فرسودہ سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس طرح سے امریکا کی سنجیدگی پر پاکستانی حوصلہ افزائی بھی ختم ہوتی ہے کیونکہ پاکستان ہمیشہ پُراعتماد رہا ہے کہ واشنگٹن پاکستان جیسے اہم اتحادی سے کبھی تعلق نہیں توڑ سکتا۔ اس سے قطع نظر کہ قومی ترجیحات اور پالیسی کتنی ہی منشر ہوں اگر کوئی اس شرائط پر مبنی طریقہ کار کو ترجیح بھی دینا چاہے تو زیادہ تر شرائط جو قانون سازی میں موجود ہیں ناقابلِ نفاذ ہیں اور بڑی صفائی کے ساتھ ناکارہ اور بے اثر کی جا سکتی ہیں۔ کوئی نکات بھی ایسا نہیں کہ جو معاملات کی توثیق کے لیے کوئی نظام مہیا کر سکے جس سے معاہدوں کے عملدرآمد کو جانچنے کا کوئی طریقہ اختیار کیا جا سکے، ان ایشوز کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ رجوع کرنے کا باقاعدہ طریقہ کار تشکیل پا سکے اور یہاں تک کہ احکامات کی تکمیل کس طرح کی جائے۔ یہ سب بہت اہم ہیں ایک نظام کی تشکیل کے لیے کہ جو پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے شفاف ہو۔
بہرحال یہاں اس بات کے احتساب کی بھی ضرورت ہے کہ امریکی سیکورٹی معاونت پاکستان میں موجود دہشت گردوں اور باغی گروہ کہ جنہیں پاکستانی مدد بھی حاصل ہے کے مقابلے میں اور جوہری ٹیکنالوجی کے حوالے سے اپنے مقاصد کو کتنا حاصل کر رہی ہے۔
دوسری حکمت عملی جو کہ میں سمجھتا ہوں زیادہ شفاف اور نتیجہ خیز ہے۔ اس کے مطابق تمام تر طریقہ کار اور معاملات پاکستانی حکومت کے ساتھ اتفاق پر مبنی ہونا چاہیے۔ امریکا اور پاکستان دونوں کا پیش قدمی کے حوالے سے اور اصلاحات کے نفاذ کے لیے رضامند ہونا ضروری ہے۔ پاکستان ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے میں ایک برابر شریک کی حیثیت سے ہونا چاہیے ناکہ ایک ایسا حریف کہ جسے زبردستی رضامند کیا جائے۔ اگر یہ بہتر اور شفاف طریقہ بھی پاکستان سے مطلوب مقاصد حاصل نہ کر سکا تو پھر امریکا کو سیکورٹی امداد کو روکنے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔
آخر میں میں اس کوشش کو سراہتا ہوں کہ فنڈز کے استعمال میں شفافیت کو ترجیح دی گئی ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے مزید احتساب کی ضرورت ہے کہ امریکا کس طرح سے امداد کی تقسیم کر رہا ہے اور پاکستان اسے کس طرح سے استعمال کر رہا ہے۔ بہرکیف میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ معاونت کی سفارشات کو دوبارہ سے زیرِ غور لایا جائے اور امریکا و پاکستان کی زیادہ سے زیادہ تعلق کے بارے میں سوچا جائے کہ جس سے جوہری ہتھیار کے پھیلائو اور عسکریت پسندی دونوں سے نمٹا جا سکے۔
(ترجمہ: فرقان انصاری)
Leave a Reply