غزہ کے حالات معمول پر آ سکیں گے؟

غزہ کا پانچ سالہ محاصرہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ لڑائی ختم ہوچکی ہے۔ بمباری کا اب نشان نہیں۔ یہ بجائے خود خوشی کا موقع ہے۔ مگر حماس کے حلقوں میں دور دور تک حقیقی مسرت کے آثار نہیں۔ حماس نے ۱۴؍جون کو ملٹری ٹیک اوور کی سالگرہ منانا بھی گوارا نہ کیا۔ غزہ شہر کی انتظامیہ معاملات درست کرنے میں مصروف ہے۔ داخلی سلامتی کو بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ انتظامی امور کو بہتر انداز سے انجام تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مصر سے تجارتی روابط بڑھائے جارہے ہیں تاکہ مشکلات کم ہوں اور معیشت رواں ہوں۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ حماس اب سیاسی سمت کے اعتبار سے مخمصے میں ہے۔ چند ماہ کے دوران حماس نے الفتح سے تعلقات بہتر بنانے پر خاص توجہ دی ہے۔ اب تک اس حوالے سے تذبذب کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ ہچکچاہٹ اور جوش و خروش کی ملی جلی کیفیت نے حماس کو معاملات سلجھانے کی منزل سے دور رکھا ہے۔ الفتح کے پاس فلسطین کا بڑا حصہ ہے۔ غرب اردن پر اس کا کنٹرول ہے۔

غزہ کے لوگوں کو اس بات کا شکوہ ہے کہ حماس جو کچھ کر رہی ہے وہ بہت حد تک گروہی مفاد میں تو ہوسکتا ہے، قومی مفاد میں ہرگز نہیں۔ ایک اسرائیلی جیل سے حماس کے عسکریت پسند حسن سلامہ نے کہا کہ حماس اور الفتح کے قائدین نے مل کر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اب فتح اور حماس کے زیر اہتمام ایسی حکومتیں قائم ہیں جو اپنے اپنے مفادات کی نگہبانی تو کرتی ہیں، مجموعی طور پر قومی مفاد کو سامنے نہیں رکھتیں۔

۲۰۰۶ء کے انتخابات میں حماس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جمہوریت اور مساوات کی طرف بڑھے گی۔ یعنی فیصلے مشاورت سے کیے جائیں گے اور دولت کی تقسیم منصفانہ ہوگی۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ حماس نے اصولوں پر سمجھوتہ کرلیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ غزہ پر حماس نے اپنا کنٹرول سخت کردیا ہے۔ فورسز نے باہم لڑنے والے گروہوں کو کنٹرول کرلیا ہے۔ لڑائی رک گئی ہے۔ کہیں فائرنگ نہیں ہوتی۔ ساحلی علاقوں کو عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ٹیکس کا سخت تر نفاذ کیا گیا ہے تاکہ غزہ کی معیشت کو بہتر انداز سے چلایا جاسکے۔

حماس کی زیادہ توجہ اس بات پر ہے کہ تعمیر نو جلد از جلد ممکن بنائی جاسکے۔ مصر سے سرنگوں کے ذریعے تعمیراتی سامان بڑے پیمانے پر منگایا جارہا ہے۔ کل تک جن عمارات میں فورسز کے ٹھکانے تھے اب ان میں اسکول قائم کیے جارہے ہیں۔ عوام کے لیے پارکس کھولے جارہے ہیں۔ بڑی تجارتی عمارات قائم کی جارہی ہیں۔ معیشت کو پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے تاکہ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو اور وہ زیادہ سکون سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔

معیشت کو بحال کرنے کی کوششیں مجموعی طور پر ملے جلے اثرات کی حامل رہی ہیں۔ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ مکمل کامیابی نصیب ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس کی پوزیشن اب تک خاصی کمزور ہے۔ غزہ کے اخبار ’’الرسالہ‘‘ کے ایڈیٹر وسام عفیفہ (Wesam Afifa) کا کہنا ہے کہ ہم اپنے مسائل کے لیے بیرونی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہرایا کرتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اور ہم ہی انہیں حل کریں گے۔

عوام دیکھ رہے ہیں کہ ناکہ بندی کے باوجود حماس کی قیادت بھرپور مزے لوٹنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کے پاس جدید ترین ماڈل کی بہترین کاریں ہیں۔ زندگی کی دیگر بنیادی سہولتیں بھی انہیں اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ میسر ہیں۔ کاروں اور دیگر پٰرتعیش اشیا کی خریداری پر خطیر رقوم ضائع کی جارہی ہیں۔ پارلیمان کے ارکان اور وزرا احتساب کا خوف محسوس کیے بغیر اپنی مرضی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ کی شکایات عام ہیں۔

کرپشن اور دیگر خرابیوں سے نفرت کرنے والے اسلام پسند عناصر حماس پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اسلام کا نام استعمال کرکے اقتدار کو زیادہ سے زیادہ پرتعیش بنانے کے لیے سرگرم رہی ہے۔ حماس کے لیے بہت کچھ تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ اس نے عسکریت پسندی کو بہت حد تک ترک کردیا ہے۔ اب وہ حملے کرنے پر نہیں بلکہ دفاع پر یقین رکھتی ہے۔ بہت سے عسکریت پسند رہنما شام، قطر اور دیگر محفوظ ممالک منتقل ہوچکے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب حماس کے پاس جمہوریت کو اپنانے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ حماس کے سرحدی محافظ اب دیگر فلسطینی ملیشیائوں کے ارکان کو اسرائیل میں میزائل داغنے سے روکتے ہیں۔ اس سے سوچ اور حکمت عملی کی تبدیلی کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حماس عسکری تربیت بھی فراہم کر رہی ہے اور ہتھیار بھی منگوا رہی ہے مگر مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ لڑنے بھڑنے پر زیادہ یقین نہیں رکھتی بلکہ دفاعی صلاحیت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حماس کے پاس ایسے میزائل ہیں جو اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔

کیا الفتح سے مفاہمت معاملات کو درست کرسکتی ہے؟ کیا اس سے پورے فلسطین میں امن قائم ہوسکے گا اور زندگی معمول پر آ سکے گی؟ حماس کے رہنما خالد مشعل غرب اردن کی حکومت چلانے والی فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے مفاہمت اور اشتراک عمل کے معاہدے کے لیے تیار ہیں۔ الفتح کے اخبارات غزہ میں آج بھی ممنوع ہیں۔ الیکشن کمیشن کو حال ہی میں ووٹر کی فہرستیں اپ ڈیٹ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

حماس کے کئی رہنما قومی اتحاد کی خاطر اقتدار کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ وزیر زراعت کا کہنا ہے کہ اگر غزہ اور غرب اردن کے لوگ ایک ہوسکتے ہیں تو میں اس کے لیے اپنی وزارت بخوشی قربان کرسکتا ہوں۔

اگر الفتح اور حماس کے درمیان کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو محمود عباس دونوں علاقوں کے وزیراعظم ہوں گے۔ حماس کی فورسز اور بیورو کریٹس کو مزید چھ ماہ مل جائیں گے۔ حماس کی مقبولیت میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ بات انتخابات کے دوران اس کی پوزیشن پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اگر چھ ماہ میں انتخابات نہ ہوسکے تو طے شدہ امور کے تحت قومی حکومت بنائی جائے گی جس میں حماس بھی تقریباً نصف کی حقدار ہوگی۔ اس صورت میں حماس اقتدار کو طول دینے میں کامیاب ہوسکے گی۔

(“The Gaza Strip Will Normality ever Return?”.. “Economist”. June 16th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*