چین کی تیز رفتار ترقی نے مغرب کی نیندیں اڑا رکھیں ہیں۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی وہ چینی معیشت کی نمو کی رفتار کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر چین کا راستہ روکنے کی جتنی بھی کوششیں کی ہیں ان میں انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ چین نے وسط ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقا میں تیزی سے قدم جمائے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا تو اس کا اپنا خطہ ہے۔ اوشیانا کے علاقے میں بیشتر ممالک اس کے زیر اثر ہیں اور اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ مغربی مبصرین اور تجزیہ نگار چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ چین کی ترقی کو لگام دینا اب ممکن نہیں رہا۔ ایسے میں امریکا اور یورپ کو کیا کرنا چاہیے، اس حوالے سے مشورے بھی دیے جارہے ہیں۔ زیر نظر مضمون بھی اسی سلسلے کڑی ہے۔ یہ مضمون کا دوسرا اور آخری حصہ ہے۔
چین نے بحری قوت میں اضافے کی بھرپور تیاری کی ہے۔ اس حوالے سے سرمایہ کاری کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ امریکا کو بحیرہ جنوبی چین میں داخلے سے روکنا چین کا بنیادی مقصد ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے چین دو طیارہ بردار جہاز بھی اپنی بحریہ میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس سے کہیں بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ وہ لڑاکا جہازوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتا۔ وہ روایتی، ایٹمی اور بیلسٹک میزائل داغنے والی آبدوزیں استعمال کرنے پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ اگر یہی سب کچھ یوں ہی رہا تو ۱۵ سال میں چین کے پاس ۷۵ آبدوزیں ہوں گی اور وہ بحری قوت کے معاملے میں امریکا کو منہ دینے کے قابل ہو جائے گا۔ سیتھ کروپسے اور رونالڈ اورورک کانگریشنل ریسرچ سروس کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین راڈار، سیٹلائٹ، سی بیڈ سونر نیٹ ورک اور سائبر وارفیئر کے ذریعے امریکا کو مغربی بحرالکاہل میں زیادہ پاؤں پھیلانے سے روکنا چاہتا ہے۔
آبنائے تائیوان میں بھی چین اپنی برتری قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں بارودی سرنگوں سے لیس جہاز بھی وہاں پہنچائے گئے ہیں۔ چین نے روس سے فورتھ جنریش جیٹ فائٹرز حاصل کیے ہیں۔ اس آبی خطے میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے ۱۵۰۰ سے زیادہ بیلیسٹک میزائل بھی موجود ہیں تاکہ چین اپنی حدود سے نکل کر کسی بھی امریکی جہاز کو نشانہ بنانے کی پوزیشن میں آسکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین فی الحال کسی بھی نوعیت کی جنگ نہیں چاہتا اور کسی بھی ملک پر حملہ کرنے کے موڈ میں نہیں تاہم یہ بھی سچ یہ ہے کہ وہ اپنی تجارتی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے بحری قوت میں اضافہ ناگزیر ہے۔
آبنائے تائیوان
تائیوان کو چین سے بچانا امریکا کے لیے بہت حد تک اخلاقی اور سیاسی نوعیت کا معاملہ ہے۔ چین چاہتا ہے کہ تائیوان کو اپنی حدود میں باضابطہ طور پر شامل کرکے تمام چینیوں کے لیے سیکورٹی کا بے داغ اہتمام کرلیا جائے جبکہ امریکا چاہتا ہے کہ تائیوان میں جمہوریت برقرار رہے اور اس کی خود مختاری پر کوئی آنچ نہ آئے۔ امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر نے تائیوان کو ایسا طیارہ بردار جہاز قرار دیا تھا جسے ڈبونا ممکن نہیں۔ ہومز اور یوشی ہارا جیسے دفاعی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ امریکا کو بھی اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بہتر تو یہ ہے کہ وہ چین کو ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ جارحانہ پوزیشن میں آسکتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا اور بحیرہ جنوبی چین کے علاقے میں اگر چین کو تائیوان پر تصرف حاصل ہو جاتا ہے تو وہ اپنی طاقت میں تیزی سے اضافہ کرے گا۔
رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا ۲۰۲۰ء تک تائیوان کو بچانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کی بحری قوت بھی زیادہ ہے اور جاپان میں اس کا فوجی اڈا بھی ہے مگر اس کے باوجود چین تائیوان سے اپنی قربت کا زیادہ فائدہ اٹھا سکے گا اور امریکا کے لیے معاملہ اس لیے بھی مشکل ہوگا کہ اس کے پاس خطے میں فوجی اڈے کم کم ہیں اور جن ممالک میں اڈے قائم ہیں وہاں ان کی مخالفت کا گراف بلند بھی ہوتا جارہا ہے۔
چین چاہتا ہے کہ تائیوان کو معاشی اور معاشرتی طور پر تسخیر کرلے۔ اس وقت تائیوان کی ۳۰ فیصد برآمدات چین کے لیے ہیں۔ ہر ہفتے چین اور تائیوان کے درمیان ۲۷۰ پروازیں چلائی جاتی ہیں۔ دو تہائی تائیوانی کمپنیوں نے چین میں غیر معمولی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ۷ لاکھ ۵۰ ہزار تائیوانی باشندے ایسے ہیں جو کاروبار اور سیاحت کی غرض سے سال میں چھ مہینے چین میں گزارتے ہیں۔
امریکا کسی بھی طور تائیوان کے معاملے سے دست بردار اس لیے نہیں ہوسکتا کہ اگر وہ چین کو آگے بڑھنے دے اور تائیوانی حکومت اور عوام کو چین کے حوالے کردے تو فلپائن، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، بھارت اور چند افریقی ممالک کو غلط پیغام ملے گا۔ اگر امریکا کسی خطے میں کسی بھی ملک کا ساتھ دے رہا ہے تو اسے لازمی طور پر اس طور ساتھ دینا ہوگا کہ اس ملک کے لیے بعد میں پیچیدگیاں پیدا نہ ہوں۔ تائیوان کے معاملے میں امریکا کی پسپائی چین کو خطے کا بے تاج بادشاہ بنادے گی۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے چین کے خلاف جنگ چھیڑنا کسی طور مناسب نہیں مگر ہاں وہ چاہتے ہیں کہ چین کو ہر وقت یہ احساس ہوتا رہے کہ جنگ اس کے لیے کس قدر مہنگی ثابت ہوسکتی ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ چین کا معاشرہ کھل جائے یعنی وہاں حقیقی جمہوریت آئے، اظہار رائے کی آزادی ہو اور لوگ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اس میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ چین مزید ہاتھ سے نکل سکتا ہے اور جمہوری روایت وہاں مضبوط ہوسکتی ہے۔
بیسویں صدی کے معروف تجزیہ کار نکولس اسپائک مین نے کہا تھا کہ چین اگر چاہے تو جنوبی چین کا سمندری خطہ خلیج فارس کی سی حیثیت اختیار کرسکتا ہے۔ چین کے لیے تیل کی ترسیل اور تجارت کے حوالے سے یہ خطہ بہت اہم ہے۔ اگر امریکا کسی طور اس کی ناکہ بندی کرے تو چینی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نکولس اسپائک مین نے کیریبین یعنی جزائر غرب الہند کے خطے کو امریکا کے لیے بحیرہ روم قرار دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ تجارتی اعتبار سے جنوبی چین کا سمندر چین کے لیے بحیرہ روم کی سی وقعت بھی اختیار کرسکتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے بحری راستوں پر کنٹرول کے بغیر کوئی بھی ملک بڑی قوت میں تبدیل نہیں ہوا۔
سیال عدم تحفظات
بحر الکاہل اور بحر ہند چین کے لیے سپلائی لائن ہیں۔ اگر چین کے لیے تیل کی رسد اور اس کے تجارتی سامان کی دیگر خطوں کو ترسیل روک دی جائے تو معیشت کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ چین کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے زیادہ طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جیکولین نیومائر کا کہنا ہے کہ چین ایسی صورت حال پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں طاقت کے مظاہرے سے بات بن جائے، اس کے استعمال تک نوبت نہ پہنچے۔ امریکا اور دیگر بڑی قوتوں کو چین یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس کے پاس بھی لڑنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ چین نے تائیوان کے نزدیک ایک بحری اڈا تعمیر کیا ہے جس میں ۲۰ آبدوزیں محفوظ کی جاسکتی ہیں۔ چین فی الحال کسی بھی ملک پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتا، مگر ارادہ بدلتے کیا دیر لگتی ہے۔ یوریشیا میں صورت حال تیزی سے چین کے حق میں تبدیل ہو رہی ہے۔ وسط ایشیا کی بیشتر ریاستوں کا جھکاؤ روس یا چین کی طرف ہے اور امریکا کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف امریکا تائیوان کو ۱۱۴ پیٹریاٹ میزائل دے رہا ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت بھی اپنی عسکری قوت میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکا نے پورے خطے پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ عراق کے بعد اب افغانستان میں بھی جنگ ختم ہونے والی ہے۔ کوئی بھی ایشیائی ملک کسی نئی جنگ میں الجھنے کی پوزیشن میں نہیں۔ مگر اپنی قوت میں اضافے کا عمل تو ہر ملک جاری رکھے گا۔ خطے میں طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا بیشتر معاملات میں اب بھی امریکا ہی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ خطے میں امریکا کسی نہ کسی حیثیت میں موجود رہے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ چین کے کسی حملے کی صورت میں امریکا دفاع کے لیے آگے بڑھے۔ امریکا اب لازمی طور پر بحر الکاہل میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرے گا۔ کیرولین مارشل، ناردرن میریانا، سولومن آئی لینڈ اور خطے میں دیگر مقامات پر امریکا کو اپنے اڈوں کی تعداد بڑھانی ہوگی۔ چین کے سامنے بند باندھنے کے لیے یہ سب ناگزیر ہے۔ یہ علاقہ مشرقی ایشیا سے ملحق ہے اس لیے امریکا کے لیے چین کے خلاف دیوار کھڑی کرنا زیادہ دشوار ثابت نہیں ہوگا۔ امریکا کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ وہ گوام میں فوج رکھے اور وہاں سے خطے پر نظر رکھے۔ جاپان، جنوبی کوریا اور فلپائن میں امریکی فوجیوں کی موجودگی اب مقامی لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ گوام کی اینڈرسن ایئر بیس میں ایک لاکھ بم اور میزائل ہیں۔ یہاں ۶ کروڑ ۶۰ لاکھ گیلن جیٹ فیول بھی ذخیرہ کیا گیا ہے۔ پورے بیس پر سی سیونٹین گلوب ماسٹر لڑاکا طیارے اور ایف اے ایٹین طیارے موجود ہیں۔ آبدوزوں کا ایک اسکواڈرن بھی اس ایئر بیس کی زینت ہے۔ یہ خطہ جاپان اور آبنائے ملاکا سے یکساں فاصلے پر واقع ہے۔ امریکا اینڈرسن ایئر بیس کے ذریعے خطے میں اپنی موجودگی بہتر طریقے سے برقرار رکھ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ گریٹ پلان کے تحت کیا گیا ہے۔
۱۰۰ سال بحری امور کے برطانوی ماہر سر جولین کاربیٹ نے کہا تھا کہ برطانیہ کو اپنے جہاز خطے میں اس طور رکھنے چاہئیں کہ ضرورت محسوس ہونے پر انہیں تیزی سے بڑے بیڑے میں تبدیل کرکے کارروائی کی جاسکے۔ امریکا اب اسی تصور کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ وہ چین کو بتانا چاہتا ہے کہ طاقت کا اظہار اور استعمال کس حد تک مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکا چاہے تو اس خطے میں موجود ان فوجی اڈوں سے بھی کارروائی کرسکتا ہے جو فرانس اور بھارت کے تصرف میں ہیں۔ ان میں انڈمان، کوموروز، مالدیپ، مایشس، ری یونین اور سیشلز آئی لینڈز کے فوجی اڈے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
جاپان، جنوبی کوریا اور فلپائن میں بھی فوجی اڈے موجود ہیں مگر ان کی افادیت گھٹتی جارہی ہے۔ اب دیگر اڈوں کو بھی آپریشنل کرنا ضروری ہے تاکہ معاملات متوازن رہیں۔ مقامی آبادیاں بھی اڈوں کے خلاف ہیں اس لیے امریکا کو اب دور رہ کر اپنی موجودگی مستحکم کرنی ہے۔ جاپان میں اوکی ناوا کے فوجی اڈے کا معاملہ سنگین ہو چلا ہے۔ اس اڈے کو ختم کرانے میں ناکامی پر کئی جاپانی حکومتیں گرچکی ہیں۔ جنوبی کوریا میں بھی امریکی فوجیوں کی موجودگی نزاع کا باعث ہے۔ جزیرہ نما کوریا میں ۶۰ سال قبل لڑی جانے والی جنگ کے بعد سے جو کشیدگی پائی جاتی ہے اسے برقرار رکھنے میں امریکا نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور دیگر خطوں میں چین کی قوت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بحر ہند کے خطے میں وہ اپنی برتری ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت کی خواہش ہے کہ امریکا اس خطے میں موجود رہے تاکہ چین کو ایک خاص حد تک رکھنے میں خاطر خواہ مدد ملے۔ ایک ممکنہ منظر نامہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چین خطے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں سے کسی حد تک اشتراک عمل کرے۔ اب تک قوت کے مظاہرے کے حوالے سے جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ نفسیاتی سطح پر ہو رہا ہے۔
۱۹۹۹ء میں سیاسی تجزیہ کار رابرٹ راس نے کہا تھا کہ امریکا روس تعلقات کے مقابلے میں امریکا چین تعلقات قدرے مستحکم اور غیر کشیدہ ہوں گے۔ ان کے باہمی معاملات کبھی اتنے خراب نہیں ہوں گے کہ فوری طور پر جارحیت کی گنجائش پیدا ہو۔ مشرقی ایشیا کی جغرافیائی حقیقت کچھ اور ہے۔ چین ایک معاشی قوت ہے اور اس حوالے سے اس کی پوزیشن یقیناً دن بہ دن مستحکم تر ہوتی جارہی ہے۔ وہ فی الحال کسی سے ٹکرانا نہیں چاہتا۔ امریکا کے مفاد کی بات بھی یہی ہے کہ کوئی نئی جنگ نہ چھڑے۔
(بشکریہ: ’’فارن افیئرز‘‘۔ مئی ۔ جون ۲۰۱۰ ء)
Leave a Reply