
یہ مضمون دراصل ان مضامین کی سیریز کا آغاز ہے جن کا مقصد امریکا اور نیٹو کے لیے بحیرۂ اسود کی اسٹریٹجک اہمیت کا اندازہ لگانا ہے۔ مارچ ۲۰۱۴ء میں کریمیا کے روس سے الحاق نے دنیا کو ایک بار پھر اس علاقے کی طرف متوجہ کردیا جو ماضی کی دو عظیم سلطنتوں (روس اور عثمانی دور پر مبنی ترکی) کے درمیان واقع ہے۔ اور ان دونوں سے برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت کئی یورپی طاقتوں کا بھی اشتراکِ عمل تھا۔ اس تجزیے کا بنیادی مقصد خطے کے حوالے سے ایک مجموعی رائے ظاہر کرنا ہے جو دراصل اس خطے سے تعلق رکھنے والی ماضی کی عظیم طاقتوں کے ارادوں کے حوالے سے ہے۔ یہ طاقتیں جدید دور کے اطوار اپنا کر اس خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم تر کرنے کے فراق میں ہیں۔
۱۷۶۸ء اور ۱۷۷۴ء کے دوران روس اور غیر معمولی حد تک پھیلی ہوئی ترک سلطنت کے درمیان مناقشہ رہا جس کے بعد ۱۷۷۴ء میں دونوں کے درمیان کوچوک کینارکا کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے سے روس کو کرچ اور ازوو کی بندر گاہوں کے ذریعے بحیرۂ اسود تک براہ راست رسائی ملی۔ روس کو ترکی میں عیسائی اقلیت کو تحفظ فراہم کرنے کا حق بھی ملا۔ اور علامتی طور پر خود مختار کریمین خانیت کو تھوڑے بہت اختیارات کے ساتھ مقرر کیا گیا۔ اس معاہدے کے ۹ سال بعد روس کے حکمراں طبقے کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی اصلاحات کے خلاف عوام نے مزاحمت کی۔ دوسری طرف کریمیا کی طرف آباد گاہوں کا بہاؤ جاری تھا۔ اس سے روس کی ملکہ کیتھرین دوم کے ایلچی شہزادہ گریگوری پوٹیمکن کو کریمیا کے روس سے بزور الحاق کا بہانہ مل گیا۔ اسے معمولی سی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی سال یعنی ۱۷۸۳ء میں کریمیا کے دارالحکومت سیواستوپول کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اس بڑی تبدیلی سے روس بحیرۂ اسود میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرا جبکہ سلطنت عثمانیہ نے زوال کی راہ پر طویل سفر شروع کیا۔
سلطنت عثمانیہ کا انحطاط جاری رہا۔ ساتھ ہی بحیرۂ اسود کے خطے میں علاقائی طاقتوں کے درمیان زیادہ اثر و رسوخ ثابت کرنے کی کشمکش بھی جاری رہی۔ کوئی ایک بھی فریق حتمی اور فیصلہ کن فتح کا دعوٰی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ ۱۸۵۳ء سے ۱۸۵۶ء کے درمیان روس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان کریمیا کی جنگ ہوئی جس نے لاکھوں افراد کو لقمۂ اجل بنادیا۔ اس تنازع میں برطانیہ اور فرانس نے عثمانیوں کا ساتھ دیا۔ انہیں یہ خوف لاحق تھا کہ روس کا مزید طاقتور بن کر ابھرنا اس خطے میں اس کی بھرپور بالا دستی کے قیام کی راہ ہموار کردے گا۔ مگر یہ خوف بہت حد تک بلا جواز تھا کیونکہ روس کبھی اس پوزیشن میں نہ آسکا کہ باسفورس اور آبنائے ترکی پر اپنا بھرپور کنٹرول قائم کرسکے۔ پہلی جنگ عظیم میں روس کی شرکت کا ایک اہم محرک یہ تھا کہ آبنائے ترکی پر کنٹرول قائم کیا جائے، مگر یہ منصوبہ بھی ’’بیک فائر‘‘ کرگیا۔ کیونکہ جرمنوں نے ترکوں کے ساتھ مل کر روسیوں کا ناکامی سے دوچار کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اختتام پر روسی اور عثمانی سلطنت زوال سے دوچار ہوئی اور خطے کا جغرافیہ تبدیل کرنے کی کوششیں نئے سرے سے کی گئیں۔ پہلی کوشش ۱۹۲۰ء کا معاہدۂ سیورز تھا اور دوسری، قدرے کامیاب کوشش ۱۹۲۳ء میں لوزان کے امن معاہدے کی صورت میں کی گئی۔ اسی سے ترک جمہوریہ کی راہ ہموار ہوئی۔ ترکی تزویراتی اعتبار سے اچھی پوزیشن میں آگیا تھا اور اس نے لوزان امن معاہدے کے ذریعے یورپی طاقتوں کو پیغام دیا کہ وہ کسی کی مرضی کے سامنے زیادہ نہیں جھکے گا۔ اس کے نتیجے میں ۱۹۳۶ء کے ’’مانٹریکس کنونشن‘‘ نے جنم لیا جس نے آبنائے ترکی پر ترکی کا کنٹرول باضابطہ بنایا اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ بحیرۂ اسود کے جن ممالک سے ترکی کا کوئی مناقشہ نہیں ان کے جنگی جہاز بحفاظت گزر سکیں۔ بحیرۂ اسود کے خطے سے باہر کے ممالک کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ ایسے جنگی جہاز نہ بھیجیں جن کا وزن ۱۵ ہزار ٹن سے زائد ہو اور مجموعی وزن کی حد ۴۵ ہزار ٹن رکھی گئی۔ اور یہ جہاز بحیرۂ اسود میں ۲۱ دن سے زیادہ نہیں رک سکتے تھے۔ امریکا مانٹریکس کنونشن کا فریق نہیں تھا۔
دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ کے بعد کا نظام
طاقت کا یہ توازن بہت نازک تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر کشیدگی ایک بار پھر جاگ اٹھی۔ سوویت یونین کی خواہش تھی کہ ترکی مانٹریکس کنونشن پر نظر ثانی کرے تاکہ علاقے کے پانیوں پر سوویت ریاست کا کنٹرول معقول حد تک قائم ہوسکے۔ ۱۹۴۶ء کے آبنائے ترک بحران میں سوویت یونین نے بحیرۂ اسود میں اپنی عسکری موجودگی بڑھادی تاکہ ترکی میں سوویت فوجی اڈوں کے قیام کا مطالبہ ترک حکومت سے منوایا جاسکے۔ بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث ترکی نے امریکا سے مدد چاہی جس کا جواب امریکا نے فوری اور مثبت دیا یعنی خطے میں جنگی جہاز بھیج دیے۔ سوویت یونین نے پسپائی اختیار کی مگر یہ مناقشہ ۱۹۴۷ء کی ٹرومین ڈاکٹرائن کی بنیاد بنا، جس کی بنیاد پر سوویت یونین کو کنٹرول کرنے اور ایک خاصے خطے تک محدود رکھنے کے لیے امریکا نے ترکی اور یونان کو ۱۹۵۲ء میں معاہدۂ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کی رکنیت دلائی۔ سرد جنگ کے پورے دور میں بحیرۂ اسود کے خطے میں ترکی، نیٹو، امریکا اور سوویت یونین کے درمیان ایک تناؤ بھرا توازن برقرار رہا۔ ۱۹۷۶ء سے ترکی نے سوویت طیارہ بردار جہازوں کو (جو یوکرین میں تیار کیے جاتے تھے) اپنے پانیوں سے گزرنے کی اجازت دی۔
۱۹۹۱ء میں سویت یونین کی تحلیل کے بعد بحیرۂ اسود کا خطہ مغربی طاقتوں کے لیے تزویراتی اعتبار سے پہلا سا اہم نہ رہا، مگر روس کے لیے اس کی اہمیت کم نہ ہوئی۔ کیونکہ اُسے بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے ان پانیوں کی شدید ضرورت ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یوکرین میں موجود جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ تھا۔ ۱۹۹۴ء میں ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ میں مذاکرات کے بعد ایک میمورینڈم پر دستخط کیے گئے۔ جس میں یوکرین نے روس، امریکا اور برطانیہ کی طرف سے سلامتی یقینی بنائے جانے کی ضمانت کے عوض جوہری ہتھیار ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ فرانس اور چین نے بھی اس بات کی ضمانت دی کہ وہ یوکرین کی سلامتی اور سالمیت برقرار رکھنے میں معاونت کریں گے۔
پالیسی کے حوالے سے اس بڑی کامیابی کے باوجود جزیرہ نما کریمیا کے معاملے پر روس اور یوکرین میں کشیدگی برقرار رہی۔ زار کے دور کے روس اور یوکرین کے انضمام کے ۳۰۰ سال مکمل ہونے پر ۱۹۵۴ء میں سوویت یونین کے اس وقت کے وزیراعظم نکیتا خروشیف نے جزیرہ نما کریمیا کو تحفے کے طور پر یوکرین کا حصہ بنایا تھا۔ تب سے یہ علاقہ دونوں ممالک کے درمیان ’’بارگیننگ چپ‘‘ کا سا درجہ اختیار کیے ہوئے تھا۔ روس نے ملٹری انفرا اسٹرکچر برقرار رکھا۔ سیواستوپول کی بندر گاہ میں روس کا فوجی اڈا بھی برقرار رکھا گیا، تاکہ بحیرۂ اسود میں روسی بحری بیڑے کو چلانا ممکن رہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے وقت سیواستوپول میں روس کے ۶۰ فوجی، تکنیکی شعبے اور دیگر امور سے متعلق ایک لاکھ افراد جبکہ ۲۸ آبدوزوں سمیت ۸۳۵ جہاز بحیرۂ اسود میں تھے۔ یہ غیر معمولی عسکری موجودگی سیواستوپول شہر اور اس کے بنیادی ڈھانچے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے یوکرین کی حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کافی تھی۔ جزیرہ نما کریمیا میں روس کے اثرات بہت مضبوط اور نمایاں تھے۔ وہاں قوم پرستی کی لہر موجود تھی جس کا روسی قیادت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کریمیا نے اپنی خود مختار حیثیت برقرار رکھی اور ۱۹۹۵ء تک اس کا اپنا آئین موجود تھا۔ یہ سب کچھ یوکرین کی قیادت پر دباؤ بڑھانے کے لیے کافی تھا۔ ۱۹۹۷ء میں روس اور یوکرین کے درمیان دوستی کا معاہدہ ہوا، جس کے تحت بحیرۂ اسود کے سوویت بحری بیڑے کا ۱۹ فیصد یوکرین کو ملا اور روس کی طرف سے بیشتر قرضے ختم کرنے اور توانائی رعایتی نرخ پر فراہم کرنے کے عوض یوکرین نے سیواستوپول کی بندرگاہ روس کو بیس سالہ لیز پر دے دی۔
نیا روس ابھر رہا ہے !
روس میں یہ تاثر موجود رہا ہے کہ سابق سویت ریاستوں اور بحیرۂ اسود پر اس کا حق فطری طور پر یعنی جغرافیائی حقیقت کی حیثیت سے زیادہ ہے، مگر اس میں اِتنی سیاسی، معاشی اور عسکری قوت نہ تھی کہ اس تاثر کو حقیقت کا روپ دے سکتا۔ ۰۴۔۲۰۰۳ء میں جارجیا کے گلابی انقلاب اور ۰۵۔۲۰۰۴ء میں یوکرین کے نارنگی انقلاب کے بعد روس نے بھی علاقائی بالا دستی قائم کرنے کے حوالے سے اپنی پالیسی مزید سخت کردی اور اپنی بات منوانے کی طرف زیادہ مائل دکھائی دینے لگا۔ جارجیا اور یوکرین میں روس کی طرف واضح جھکاؤ رکھنے والے قائدین کو بدل دیا گیا اور ان کی جگہ وہ لوگ آئے جو مغرب یا یورو اٹلانٹک کے لیے واضح جھکاؤ رکھتے تھے۔ اُسی وقت یعنی ۲۰۰۴ء میں نیٹو نے بلغاریہ اور رومانیہ کو بھی رکنیت دے دی۔ یوں بحیرۂ اسود سے جڑی ہوئی ۶ ریاستوں میں سے ۳ نیٹو کی رکن ہوگئیں اور باقی ۳ میں سے بھی جارجیا اور یوکرین کو رکنیت دینے کی باتیں کی جانے لگیں۔ نیٹو نے ۲۰۰۸ء کی بخارسٹ سربراہ کانفرنس کے اعلامیے میں کہا کہ یورپ اور اٹلانٹک کے خطے کی سلامتی کے لیے بحیرۂ اسود کے خطے میں معاملات کا درست رہنا لازم ہے۔
روسی قیادت نے نیٹو کی طرف سے کیے جانے والے ان اقدامات کو اپنے اثر و رسوخ کے روایتی خطے میں مداخلت سے تعبیر کیا اور بحیرۂ اسود میں اپنے اثرات بڑھانے کے حوالے سے اقدامات کی راہ ہموار کی۔ ۲۰۰۶ء اور پھر ۲۰۰۹ء میں روس نے یوکرین کو رام کرنے کے لیے توانائی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ روس نے یوکرین کے ذریعے یورپ کو قدرتی گیس کی فراہمی بند کردی۔ اور ساتھ ہی توانائی کے نرخ بھی بڑھادیے۔ اگست ۲۰۰۸ء میں روسی افواج نے، جو ۱۹۹۳ء میں جارجیا اور جنوبی اوسیشیا کے قضیے کے آغاز سے جنوبی اوسیشیا میں موجود تھیں، اس الگ ہوجانے والے خطے کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے جارجیا کے صدر کی کوشش ناکام بنائی اور جارجیا میں داخل ہوئیں، اور جارجیا کی فوج پر قابو پالیا اور دارالحکومت تبلسی پر تقریباً قبضہ کرلیا۔ اس لڑائی میں دونوں طرف سے مجموعی طور پر ۳۵۰ فوجی اور ۴۰۰ سے زائد شہری مارے گئے۔ جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روس نے جنوبی اوسیشیا اور ابخازیہ کی طرف سے آزادی کے اعلان کو شرفِ قبولیت بخشا۔ تب سے اب تک روس نے جارجیا پر اپنا کنٹرول بڑھانے کے اقدامات جاری رکھے ہیں۔ وہ انتظامی طور پر دونوں خود مختار علاقوں (جنوبی اوسیشیا اور ابخازیہ) کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے بھی کوشاں رہا ہے۔
دوسرا، جغرافیائی اور عسکری اعتبار سے گہرے اثرات کا حامل واقعہ مارچ ۲۰۱۴ء میں کریمیا کا روس سے الحاق تھا۔ یہ الحاق یوکرین کے صدر وکٹر یانوکووچ کی، عوامی انقلاب کے نتیجے میں برطرفی کے بعد رونماہوا۔ بڈاپیسٹ میمورینڈم اور دوسری کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روس نے جزیرہ نما کریمیا میں دوبارہ عسکری پیش رفت کی اور ساتھ ہی مشرقی یوکرین میں فوجی مداخلت بھی کی، جس کے نتیجے میں اس خطے میں ملٹری ری انفورسمنٹ کی راہ ہموار ہوئی۔ کئی یونٹس کی تعیناتی کے علاوہ اینٹی ایئر اور اینٹی سرفیس میزائل سسٹمز بھی نصب کیے گئے۔ یورپ کے سابق سپریم الائیڈ کمانڈر جنرل فلپ ایم بریڈ لو نے ۲۰۱۵ء میں کریمیا کو روس کی طرف سے طاقت کے اظہار کا پلیٹ فارم قرار دیا۔ روس نے کریمیا میں کی جانے والی لشکر کشی کے ساتھ ہی کسی بھی جوابی کارروائی یا بیرونی مداخلت کی صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی۔ کریملن کا کہنا تھا کہ کریمیا کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے وہ جوہری ہتھیار نصب کرنے کا حق رکھتا ہے۔
خطے میں روسی عسکری موجودگی کو بھرپور استحکام بخشنے کی آخری صورت تھی، ستمبر ۲۰۱۵ء میں شام میں روسی فوجی مداخلت۔ روس نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ بحیرۂ اسود کے بیڑے کے مختلف اجزاء کو متحرّک کیا اور دفاعی و جارحانہ میزائل نظام نصب کیے۔ روس اب شام کے علاقے لتاکیہ میں ایئر بیس کامیابی سے آپریٹ کر رہا ہے۔ اور تارتوس میں اپنے بحری اڈے کو توسیع اور تجدید و تزئین نو کے عمل سے گزار رہا ہے تاکہ وہاں بیک وقت ۱۱ جنگی جہازوں کو لنگر انداز رکھا جاسکے۔ روس نے قبرص سے بھی معاہدہ کر رکھا ہے، جس کے تحت وہاں روسی جہاز لنگر انداز کیے جاسکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ روسی قیادت مصر سے بھی ایک فوجی اڈے کے قیام کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔ لیبیا میں بھی فوجی اڈا قائم کرنے کی باتیں سامنے آرہی تھیں مگر روسی حکام نے انہیں افواہ قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
بحیرۂ اسود کی تزویراتی اہمیت کی واپسی
انیسویں صدی میں روس ایک بڑی اور بالا دست قوت کی حیثیت رکھتا تھا۔ سرد جنگ کے زمانے میں روس کی طاقت غیر معمولی حد تک پھیلی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں اس میں شکست و ریخت کا عمل بھی شروع ہوا۔ ۱۹۹۱ء کے بعد ایک تھکی ماندی قوت کے طور پر ظاہر ہوا۔ بحیرۂ اسود اور بحیرۂ روم میں امریکا اور یورپ کی موجودگی اور عمل دخل گھٹتا جارہا ہے۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لیے روس اب متحرّک ہوتا جارہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کریملن مشرقی بحیرۂ روم میں اپنی موجودگی بڑھانے پر توجہ دے گا یا نہیں۔ کیا وہ کریمیا اور مشرقی یوکرین میں اپنی عسکری موجودگی کو زیادہ تقویت پہنچانا چاہتا ہے؟ اور کیا وہ نیٹو کی موجودگی گھٹانے کے حوالے سے بلغاریہ پر دباؤ ڈالے گا؟ اور کیا وہ ترک پانیوں میں اپنی موجودگی زیادہ مستحکم کرنے کے لیے ترکی سے زیادہ دوستی اور اشتراکِ عمل پر توجہ دے گا؟
۱۸۵۳ء کے بعد سے روس کے لیے بحیرۂ اسود کی تزویراتی اہمیت کے محرّکات تبدیل نہیں ہوئے۔ پہلے انفرادی حیثیت میں ریاستیں روس کے مقابل رہا کرتی تھیں۔ بعد میں امریکا اور یورپ نے تنظیموں اور اتحادوں کی سطح پر روس کے لیے راستے بند کرنے کی راہ ہموار کی۔ کریمیا عسکری اہمیت کا سب سے بڑا منبع ہے۔ ترکی مرکزی حریف کے طور پر کھڑا ہے اور ترک پانیوں کے ذریعے ہی روس کو اپنی اہمیت منوانی ہے۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ مشرقی بحیرۂ روم میں امریکا اور یورپ کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف ’’کاؤنٹر بیلنس‘‘ کے طور پر کام کیا جائے تاکہ وہ مشرقی اور وسطی بحیرۂ کی طرف زیادہ پیش رفت ممکن نہ بناسکے۔
(Boris Toucas واشنگٹن کے سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل افیئرز کے یورپ پروگرام سے تعلق رکھتے ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Geostrategic Importance of the Black Sea Region: A Brief History”.(“csis.org”. February 2, 2017)
Leave a Reply