جرمنوں نے اپنی تاریخ سے بہت کم سیکھا ہے۔۔۔!

نازی دور کے جنگی مجرم ہانس فرانک کے بیٹے نکلاس فرانک کو اپنے ہم وطن جرمن باشندوں کی ’جمہوری قابلیتوں‘ پر شبہ ہے۔ ان کے بقول مہاجرین کے حالیہ بحران سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنوں نے اپنی تاریخ سے بہت کم سبق سیکھا ہے۔

نکلاس فرانک کے مطابق وہ اپنے نام کی وجہ سے بطور انسان اپنے بہن بھائیوں کی طرح شخصی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہو سکتے تھے۔ ان کا ایک بھائی عادی شراب نوش بن گیا تھا اور ایک بہن نے خود کشی کر لی تھی۔ یہ دونوں اپنی اپنی ذات پر اس خاندانی نام کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، جو انہیں ان کے والد ہانس فرانک نے ورثے میں دیا تھا۔

نکلاس فرانک کے والد ہانس فرانک ایک ایسے نازی رہنما تھے، جنہیں نازیوں کے زیر قبضہ پولینڈ کا گورنر جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ وہ ان بڑے نازی جنگی مجرموں میں سے بھی ایک تھے، جنہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن شہر نیورنبرگ کے تاریخی مقدمات کے بعد ۱۹۴۶ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔

لیکن اہم بات یہ ہے کہ نکلاس فرانک اپنے والد کے اس نام کی وجہ سے ٹوٹے نہیں جو خود ان کے نام کا بھی حصہ ہے۔ انہوں نے اس تاریخ کا سامنا کرنے کی کوشش کی، جو اب کسی حد تک خود ان کی اپنی کہانی بھی ہے۔ نکلاس فرانک ایک صحافی بھی ہیں اور ایک پبلیشسٹ بھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ اپنے نام کے پیچھے چھپ بھی سکتے تھے لیکن انہوں نے ایک بڑی وجہ سے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’جرمنی میں نازی دور کے بارے میں اختیار کی جانے والی خاموشی زیادہ سے زیادہ حد تک میرے اعصاب پر سوار ہوتی جاتی تھی۔ اس حد تک کہ پھر میری برداشت ختم ہو گئی‘‘۔

انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان اور ایک حقیقی مجرم

نکلاس فرانک نے ۱۹۸۷ء میں ایک کتاب لکھی تھی، جس میں انہوں نے ایک بیٹے کے طور پر اپنے والد کے جرائم کا سامنا کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کتاب کو انہوں نے ’باپ: ایک میزانیہ‘ کا عنوان دیا تھا۔ اس کتاب میں انہوں نے جو کچھ لکھا، اس میں وہ اپنے والد سے جگہ جگہ مخاطب ہوتے ہوئے ’تم‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، جس سے بار بار کئی سوال پوچھے جاتے ہیں۔

نکلاس فرانک کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے ذریعے اپنے والد کو بعد از مرگ یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ ’ایک انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان لیکن درحقیقت ایک مجرم‘ تھے۔

نکلاس فرانک کے والد ہانس فرانک کے بارے میں نازی دور کے ان کے ساتھی رہنما کیا سوچ رکھتے تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہانس فرانک کو ’پولینڈ کا قصاب‘ اور ’کراکاؤ کے یہودیوں کو قتل کرنے والا قصائی‘ کہتے تھے۔

ایسا ہانس فرانک کے مقبوضہ پولینڈ کی گورنری کے دور میں ہی ہوا تھا کہ مقبوضہ پولینڈ میں چار ایسے نازی اذیتی کیمپ قائم کیے گئے تھے، جن میں لاکھوں یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو گیس چیمبروں میں بھیج کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تب یہ جرم ایک ایسی مجرمانہ سوچ کے تحت کیا گیا تھا، جسے نازی دور میں ’یہودیوں کے مسئلے کا حتمی حل‘ قرار دیا گیا تھا۔

ہانس فرانک کے لیے جوزف گوئبلز کے الفاظ

ہانس فرانک نے مقبوضہ پولینڈ کے گورنر کے طور پر نازی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے کیا کچھ اور کس انداز میں کیا، اس بات کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ایک بار نازی دور کے پراپیگنڈا وزیر جوزف گوئبلز نے پولینڈ میں ہانس فرانک کے بارے میں کہا تھا، ’’ہانس فرانک وہاں حکومت نہیں حکمرانی کرتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ ہانس فرانک کو اپنی طاقت کا جو لامحدود نشہ تھا، اسی کو استعمال کرتے ہوئے اس نازی رہنما نے اپنی اہلیہ کو بھی اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ وہ یہودیوں سے چھینے گئے زر و جواہر سے خود کو مزید امیر بنا لے۔

بے دریغ قتل عام کا حکم

ہانس فرانک کی شروع سے ہی یہ سوچ تھی کہ مقبوضہ پولینڈ کے تعلیمی، سائنسی، اور ثقافتی منظر نامے کو تباہ کر دیا جائے۔ پولینڈ پر قبضے کے کچھ ہی دیر بعد وارسا یونیورسٹی بند کر دی گئی تھی۔ کراکاؤ کی یونیورسٹی میں پولستانی طلبہ کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا تھا اور بہت سے پروفیسروں کو اذیتی کیمپوں میں پہنچا دیا گیا تھا، جہاں ان میں سے کئی ہلاک کر دیے گئے تھے۔

ہانس فرانک کے مقبوضہ پولینڈ کے بارے میں ارادے کیا تھے، یہ اس نازی رہنما نے اکتوبر ۱۹۳۹ء میں ہی اپنی ایک تحریر میں واضح کر دیا تھا: ’’اس خطے کو بے دریغ قتل و غارت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔‘‘ پھر مقبوضہ پولینڈ کو ایک قتل گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور وہاں پائے جانے والے تمام مادی اور خام وسائل جرمنی کی جنگی صنعت میں استعمال کے لیے نازی جرمنی پہنچائے جانے لگے۔

نازی ذہنیت ابھی پوری طرح مری نہیں!

نکلاس فرانک کے خیال میں دوسری عالمی جنگ کے بعد ان کے والد کو تو پھانسی دے دی گئی تھی اور بہت سے نازی رہنما یا تو مارے گئے تھے یا انہوں نے خود کشی کر لی تھی۔ لیکن ان نازیوں کی موت کے ساتھ جرمنی میں ان کی سوچ پوری طرح مری نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’جرمنی میں نیشنل سوشلزم یا نازی سوچ ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہوئی‘‘۔

نکلاس فرانک کی والدہ برگِٹے کا انتقال ۱۹۵۹ء میں ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ نازی دور کے بعد کے برسوں میں ان کی والدہ نے یہ تسلیم کرنے میں دیر نہیں کی تھی کہ انہیں بھی شدید احساس جرم تھا۔ نکلاس فرانک کے مطابق تب برگِٹے فرانک نے یہ بھی تسلیم کیا تھا، ’’جو کچھ ہوا وہ غلط اور ناانصافی تھا‘‘۔

مہاجرین کے بحران سے نسبت

نکلاس فرانک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ یورپ خاص طور پر جرمنی کو اپنے ہاں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے جس بحران کا سامنا ہے، وہ اس حقیقت کے ادراک کا بہترین موقع ہے کہ جرمن قوم ابھی تک اپنے اندر کیا کچھ لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا، ’’نازی دور میں جرمنی میں عام لوگوں میں پائی جانے والی سماجی ہمت اور بہادری کی کمی تھی‘‘۔

نکلاس فرانک کے بقول ماضی میں جرمنوں نے نازی حکمرانوں کی بات سنی تھی اور اس پر یقین بھی کیا تھا۔ آج بھی کئی جرمن باشندے اسی طرح کی سوچ کے حامل سیاسی عناصر کی باتوں پر توجہ دے رہے ہیں۔

’’یہی وہ پہلو ہے جو مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ جرمنوں نے اپنی تاریخ سے بہت کم سیکھا ہے اور وہ پوری طرح جمہوریت کے اہل ابھی بھی نہیں ہیں‘‘۔

اب خود بھی بہت بوڑھے ہو چکے نکلاس فرانک کے مطابق اگر جرمن باشندے اپنے ماضی سے پوری طرح سبق سیکھتے اور اندرونی طور پر جمہوریت کے قائل ہوتے تو ان کا جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن سے رویہ اس سے مختلف ہوتا، جیسا کہ اب تک کئی شخصیات کی طرف سے متعدد مرتبہ دیکھنے میں آ چکا ہے۔

نکلاس فرانک نے اپنے انٹرویو کے آخر میں یہ بات زور دے کر کہی کہ، ’’جرمنوں کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ اگر سماجی ہمت اور حوصلہ نہ ہو، سچ کے لیے کھڑا ہونے کا عمل ناقص یا نامکمل رہ جائے، تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اگر سماجی سطح پر عام لوگ بہادری کا مظاہرہ نہ کریں، تو نتیجہ گیس چیمبرز کی شکل میں نکلتا ہے۔ یہ بات ہم جرمنوں کو اس لیے پتا ہونا چاہیے کہ ہم نے ہی اس ہمت کے فقدان کے باعث شدید ترین ظلم کیے تھے‘‘۔

(بحوالہ: ’’ڈی ڈبلیو ڈاٹ کام‘‘۔ ۲۶؍اگست ۲۰۱۸ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*