
تہذیب و ثقافت، محض چند رسوم و رواج اور افکار وخیالات کے مجموعے کا نام نہیں ہے، بلکہ تہذیب و تمدن میں حقیقی طور پر مذہبی عنصر غالب ہے۔ کسی بھی تہذیب میں پائے جانے والے نظریات و خیالات اور اس میں موجود رسوم و رواج کا سلسلہ، کسی نہ کسی طرح مذہب سے ضرور ملتا ہے۔اس بحث سے قطع نظر کہ وہ رسوم و رواج مذہب کی نظر میں صحیح ہیں یا غلط، ہمارے ارد گرد ہونے والے رسوم ورواج نسل در نسل چلے آرہے ہیں۔ رواجوں کو دوام عطا کرنے کے لیے انہیں بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، اس لیے کسی بھی دین کا سچّا متبع بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اس دین کی ثقافت اور کلچر کو بھی اپنائے اور اپنی زندگی میں کسی دوسری قوم کی ثقافت کو بسنے کا موقع نہ دے۔
گزشتہ چند سالوں سے گلوبلائزیشن کی اصطلاح کے ساتھ، دوسری دو اصطلاحوں کوبھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے :
۱۔ تہذیبوں کاتصادم
۲۔ تہذیبوں کے درمیان مذاکرات
عالمگیریت کے کچھ مؤیدین کا یہ خیال ہے کہ دنیا میں پائی جانے والی مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا جائے، ہر تہذیب کے ماننے والے، دوسری تہذیبوں سے بھی اچھی باتیں اخذ کریں اور انہیں اپنی زندگی میں جگہ دیں، اس کے لیے مختلف تہذیبوں کے نمائندے، باہمی مذاکرات کی راہ اپنائیں اور ہر تہذیب کی قابل قبول باتوں پر اتفاق کرلیں، اس طرح ایک عالمی تہذیب اور یکساں ثقافت کا وجود ہوسکتا ہے۔
لیکن اگراس نظریے کو مذہبی تناظر کے ساتھ ساتھ موجودہ صورتِ حال کی روشنی میں دیکھا جائے، تو یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ اس لیے تہذیب و تمدن کا ترک کرنا، دراصل اس مذہب کو ترک کرنے کے مترادف ہے، علاوہ ازیں گزشتہ چند سالوں میں دنیا کے مختلف گوشوں میں، تہذیبوں کو قریب لانے سے متعلق جو کانفرنسیں ہوئیں، ان میں اسلامی تہذیب ہی کو نشانہ بنایا گیا اور اسلامی ثقافت کے بڑے حصّے کو پس پشت ڈال دینے کی ترغیب دی گئی۔ نیز اس کی جگہ مغربی تہذیب و تمدن کو اپنانے پر زور دیا گیا ، اس لیے ’تہذیبوں کو قریب لانے‘ کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے، بلکہ یہ محض فریب اور دھوکا ہے!!
موجودہ دور میں جس کو حقیقت کہا جاسکتا ہے ، وہ یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کے ٹھیکے داروں کی یہ کوشش رہی ہے اور مستقبل میں بھی یہی رہے گی کہ ہر قوم کی تہذیب، ثقافت اور اس کے تمدن کو ختم کردیا جائے اور پوری دنیا میں ایک ہی طرح کی تہذیب رائج کردی جائے، جو مغربی بلکہ امریکی اقدار پر مبنی ہو، تاکہ دنیا اس تہذیب کو اپنا کر اس طرح زندگی گزارے کہ مغربی مفادات میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو اور عالمگیریت اپنے تمام مقاصد میں کامیابی سے ہم کنار ہوجائے، اس لیے کہ جب سطح زمین پر پائی جانے والی قومیں، امریکی ثقافت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں گی، تو اْنہیں امریکا کی سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں کو اپنانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ثقافتی عالمگیریت پوری دنیا میں کس طرح فروغ پارہی ہے؟ اس کے کیا اسباب و عوامل ہیں؟ کیا اہداف و مقاصد ہیں؟ اور کیا آثار و نتائج ہیں؟
Michel Bugnon Mordant اپنی کتاب ’’امریکا المستبدۃ‘‘ (عربی ترجمہ) میں لکھتے ہیں:
’’کسی بھی قوم کا تہذیبی ورثہ اس کی زبان، تاریخ، مہارت و لیاقت، فنی ادبی اورعلمی صلاحیتیں رسوم و رواج اور اس کے اقدار ہوتے ہیں۔ جس طرح یہ مذکورہ چیزیں تمدن کا ایک حصہ ہیں، اسی طرح اسی قوم کا لباس، کھانے پینے کی اشیا، اْسلوبِِ عمل، کھیل کودکے طریقے، محبت و مسرت اور خوشی و غم کا انداز اور اس کے احساسات وجذبات بھی ثقافت میں شامل ہیں، اگر ہم کسی قوم سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنی مذکورہ صفات سے کنارہ کش ہوجائے، اپنے اندازِ فکر اور احساسات و نظریات سے عہدہ برآ ہوجائے اوراپنی زبان و لباس کو تبدیل کردے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس قوم سے اس کی ثقافت کو سلب کررہے ہیں اور اس کے تمدن کو چھین کر ، دوسری تہذیب اس پر مسلط کررہے ہیں‘‘۔
اب اگر وہ قوم ان تبدیلیوں کو قبول کرلے اور اپنی ثقافت سے منہ موڑ لے، تو گویا اس نے اپنے تشخص کا خاتمہ کردیا اور اپنے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
گلوبلائزیشن جہاں سیاسی اور اقتصادی سطح پر اپنے آپ کو نافذ کرناچاہتا ہے، وہیں تہذیب و ثقافت کو بھی اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ سیاست اور معیشت کے بعد، اس کا مقصد یہ ہے کہ ثقافت کی بھی عالم کاری کردی جائے اور پوری دنیا پر ایک ہی طرح کا تمدن مسلط کردیا جائے۔ لوگوں میں رنگ و نسل کا اختلاف تو پایا جائے(جو قدرتی اور یقینی ہے)، لیکن زبان، مزاج و مذاق، رہن سہن اور معیارِ زندگی، حتیٰ کہ فکر و نظر میں بھی مماثلت اور یگانگت قائم ہو جائے۔ لوگوں کی زبان ایک ہو، جبکہ بقیہ زبانیں تاریخ کے حوالے کردی جائیں، ان کے احساسات و نظریات ایک طرح کے ہوں، تاکہ نظریات کے اختلاف کی وجہ سے، کسی کے مفادات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی ہوسکے اور ان کا طرزِ زندگی بھی ایک ہو، تاکہ زندگی میں پرتعیش اشیا کو بنانے اور فروخت کرنے والی کمپنیوں کو کبھی کساد بازاری کی شکایت نہ ہوسکے۔
اب تک عالمگیریت کے دیگر شعبوں میں مغربی اور امریکی اقدار کا غلبہ رہا ہے، بلکہ دیگر رجحانات کی طرف نظر التفات بھی نہ کی گئی، سیاست کو امریکی مفاد کے مطابق ڈھالا گیا، اقتصادیات کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی خواہشات کے مطابق تشکیل دیا گیا، لہٰذا جب ثقافتی عالم گیریت کی باری آئی تو فطری طور پر مغربی اور امریکی ثقافت ہی کو اقوام عالم پر مسلط کرنے کے لیے منتخب کیا گیا، اسی کو یہ حق دیا گیاکہ وہ پوری دنیا کی مشترکہ تہذیب بنے، اسی کو اس لائق سمجھا گیا کہ وہ عالمی تمدن کی شکل اختیارکرلے۔
ثقافتی عالمگیریت کو اگرچہ بعض لوگ کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے، لیکن درحقیقت عالمگیریت کا سب سے خطرناک پہلو ’ثقافتی عالمگیریت‘ ہی ہے، کیونکہ سیاست اور اقتصادیات کی عالم کاری مادیت کے پیش نظر کی جارہی ہے جبکہ ثقافت کا تعلق مذہب سے ہے، خصوصاً اسلامی تہذیب و تمدن، مذہبِ اسلام کی اساس ہے، اس لیے دنیا کی تمام تہذیبوں بشمول اسلامی تہذیب کو ختم کرکے صرف مغربی تہذیب کو مسلط کرنا ، براہِ راست مذہب پر حملہ ہے، بنا بریں ثقافتی عالمگیریت کو سہل پسندی کے ساتھ نہیں لیا جاسکتا۔
عالمگیریت کے پالیسی ساز ادارے، تہذیب و تمدن کی عالم کاری اس لیے کرنا چاہتے ہیں تاکہ رسوم و رواج، عادات و اطوار اور معیارِ زندگی میں مماثلت کی وجہ سے انسانیت دو طبقوں میں تقسیم ہوجائے، ایک طبقہ جس کے افراد زیادہ ہوں، ان کی حیثیت عالمی بازار کے ایک صارف کی ہو، ان کا کام ٹیکس ادا کرنا اور عالمی ثروت کے حق دار طبقے کی خدمت کرنا ہو، جبکہ دوسرا طبقہ کم افراد پر مشتمل ہو، جو سب کے سب تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار ہوں، ان کا کام اپنی تجارت کو فروغ دینا اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانا ہو۔
ثقافتی عالمگیریت کایہی مقصد ہے کہ مغربی ثقافت کے رواج پانے سے جہاں سیاسی مفادات پورے ہوں، وہیں اقتصادی منصوبوں میں بھی کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو اور روئے زمین پر کوئی ایسا شخص باقی نہ بچے، جس کے ذہن میں مغربی پالیسیوں کے بارے میں سوالات کھڑے ہوں، جس کی زبان سے صہیونی مفادات کے خلاف کوئی حرف نکلے اور جس کی سوچ اور نظریے سے دوسرے لوگ بھی راہ پائیں اور عالمگیریت کے راستے میں حائل ہوجائیں۔
ثقافتی بالادستی: ایک قدیم روش
ہرباشعور اور زندہ قوم ، اپنی تہذیب و تمدن کو اپنے لیے مایۂ افتخار سمجھتی ہے ، اس کے نزدیک ثقافت سے بڑھ کر کوئی اجتماعی دولت نہیں ہوتی، اس لیے قدیم زمانے ہی سے تہذیب و ثقافت کی نشرواشاعت کا سلسلہ قائم ہے، ہر قوم نے اپنے تمدن کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، فرق یہ ہے کہ کسی نے امن کی راہ اختیار کی، تو کسی نے پرتشدد طریقے سے یہ کام انجام دیا۔
چنانچہ قدیم مصری تاریخ میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ اس زمانے کی مصری تہذیب ہی دیگر اقوام کے لیے نمونہ سمجھی جاتی تھی، بقیہ تہذیبیں اپنے اپنے علاقوں تک محدود تھیں یا ان کا ٹمٹماتا ہواچراغ بجھا چاہتا تھا، مصری تہذیب کے بعد یہ مقام و مرتبہ کنعانی ثقافت کو حاصل ہوا، قدیم ہندوستان کی ثقافت کوبھی یہ مرکزیت حاصل رہ چکی ہے۔
چین کا تمدن بھی اپنے زمانے میں لوگوں کے لیے باعثِ تقلید بنا ہے، سکندر اعظم کی فتوحات کے ساتھ ، یونانی تہذیب نے دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنے جھنڈے گاڑے ہیں اور اس کو مغرب سے لے کر مشرق تک، مرکزی تہذیب ہونے کا شرف حاصل رہا ہے، پھر رومی اور فارسی تہذیبوں کے بعد اسلامی تہذیب و تمدن کو یہ مقام حاصل رہا، جو شمال مغرب میں ’اندلس‘ کوعبور کرکے یورپ تک پہنچی، شمال مشرق میں وسط ایشیا تک اور جنوب مشرق میں فارس، ہندوستان، حتیٰ کہ چین تک اس کی روشنی پھیلی ہوئی تھی، لیکن اسلامی تہذیب اور اسلام سے ماقبل کی ثقافتوں میں فرق یہی رہا ہے کہ جس طرح اسلام، اخلاق و مساوات اور بلند اقدار جیسی تابندہ تعلیمات کے نتیجے میں چار دانگ عالم میں پھیلا ہے، اسی طرح اسلامی تہذیب نے بھی اپنی امتیازی خصوصیات کی بنا پر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہے اور اقوامِ عالم نے رنگ و نسل کے اختلاف کے باوجود اس میں کشش محسوس کی ہے جبکہ سابقہ اقوام نے اپنی ثقافت کو رائج کرنے کے لیے طاقت و قوت اور تشدد کی راہ اختیار کی اور زبردستی لوگوں کواپنی تہذیب کا ہم نوا بنایا۔
آج جب تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے اور تقدیر نے مغرب کو مشرق پر فوقیت عطا کی ہے تو مغربی تہذیب و تمدن کے ماننے والوں کی یہی کوشش ہے کہ وہ اپنی تہذیب کو اطراف عالم میں رائج کر دیں۔ وہ لوگ اپنی ان کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں، اس لیے کہ مغربی تہذیب اگرچہ اعلیٰ اخلاقی اقدار سے یکسر عاری ہے، لیکن اس کی نشرواشاعت میں تشدد کا زیادہ حصہ نہیں رہا ہے بلکہ اس مرتبہ مغربی تہذیب کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے نئے طریقے ایجادکیے گئے اور ان پر بڑی چالاکی کے ساتھ منصوبہ بند طریقے سے عمل درآمد کیا گیا، اسی طرح انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑھتی ہوئی ترقی نے کام مزید آسان کردیا اور مغربی تہذیب کو اس کے کھوکھلا ہونے کے باوجود دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیا۔
آج ہم جس تہذیب کو مغرب کی جانب منسوب کرتے ہیں، وہ دراصل امریکی تہذیب ہے، اس لیے کہ یورپ کے پاس، جو ماضی میں ایک منفرد تہذیب کا حامل تھا، اب کچھ بچا ہی نہیں، جس کو وہ تہذیب کا نام دے۔ چند ممالک نے بہت دیر میں غفلتوں سے بیدار ہونے کے بعد اپنی زبان کو ثقافتی ورثے کی حیثیت سے بچانے کی کوشش شروع کی ہے ، ورنہ زبان کے علاوہ اب یورپ کے پاس اپنا کچھ نہیں رہ گیا، بلکہ سب کچھ امریکی رنگ میں رنگ چکا ہے، اس لیے زبان کے استثنا کے ساتھ مغربی تہذیب دراصل امریکی تہذیب ہی کہلاتی ہے، جسے امریکا نے یورپ سمیت پوری دنیا میں مواصلات کے ذریعے عام کیا اور اس میدان میں ترقی کی رفتار کے ساتھ ساتھ امریکی تہذیب کے پھیلاؤ میں تیزی آتی گئی۔
مواصلات: مغربی ثقافت کا ہتھیار
عالم گیریوں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ مستقبل میں اگر سیاسی اور اقتصادی میدان میں اپنی بالادستی قائم رکھنی ہے تو امریکی ثقافت کی بھی عالم کاری کرنی ہوگی، اس مقصد کے لیے انہوں نے ’مواصلات‘ کو، بہ الفاظ دیگر ذرائع ابلاغ کو ذریعہ بنایا۔ انہیں یہ معلوم تھا کہ اگر پورے عالم کی امریکا کاری کرنی ہے تو امریکی طرزِ زندگی کو مثالی اور قابلِ تقلید بنانا ہوگا، لوگوں کی عقلوں پرکمند ڈال کر ان کو اپنے قابو میں لینا ہوگا۔ لوگوں کے افکار و خیالات پر شب خون مارنے کے لیے انہوں نے ذرائع ابلاغ کا انتخاب کیا اور اس راہ سے پوری دنیا میں امریکی ثقافت کو قابلِ تقلید بنانے کی کامیاب کوشش کی۔
درحقیقت عالم گیریوں نے یہ طریقہ کار یونانیوں سے اخذ کیا تھا، ’سقراط‘ کے زمانے میں ہی یونان کے فرماں رواؤں کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ محض سیاست کے گلیاروں پر قبضہ کرکے اپنے اقتدار کودوام نہیں بخشا جاسکتا، اس کے لیے عوام کی ذہن سازی کرنی ہوگی۔ انہیں اپنے تیار کردہ نقشِ راہ پر چلانا ہوگا، اپنے رسوم و رواج کو ان کے نزدیک پرکشش بنانا ہوگا اور ان کی سوچ کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنا ہوگا، یہی طریقہ عالم گیریوں نے اپنی تحریک کو دوام بخشنے کے لیے اختیار کیا اور اس طریقے کو ہمہ گیر بنانے کے لیے ذرائع ابلاغ کا انتخاب کیا۔
مواصلات دراصل ایسے افعال کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے لوگ آپس میں جذبات، احساسات، تاثرات، افکار، خیالات اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں، یہ تبادلہ ایسے وسائل کے ذریعے ہوتا ہے جن کو دو الگ الگ قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ ایسے محدود وسائل، جو محدود افراد کو باہم مربوط کریں، ان وسائل میں ٹیلی فون، فیکس وغیرہ کے ساتھ ساتھ جلسے، کانفرنسیں اور سیمینار بھی شامل ہیں چونکہ یہ بھی چند افراد کے باہمی رابطے کا ذریعہ ہیں۔
۲۔ ایسے وسائل جو غیر محدود افراد تک بات پہنچانے کا ذریعہ ہوں، ان میں اخبار، ٹی وی، سنیما، فلمیں، ٹی وی کے اشتہارات اور انٹرنیٹ وغیرہ داخل ہیں۔
امریکی ثقافت کے فروغ میں، دوسری قسم کے وسائل نے اہم کردار ادا کیا، جس پر امریکا نے آغاز ہی سے اپنا کنٹرول قائم کرلیا تھا اور امریکا کے واسطے سے یہودیوں نے ذرائع ابلاغ کو اپنے قبضے میں کر رکھا تھا جو آج تک انہی کے زیر اثر ہے اور بدقسمتی سے جمہوریت کا چوتھا ستون کہلاتا ہے۔
امریکی میڈیا: خبر رساں ایجنسیاں
یوں تو امریکی ذرائع ابلاغ کو ’امریکی میڈیا‘ کہا جاسکتا ہے، لیکن درحقیقت یہ خالص یہودی میڈیا ہے جو ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے اور یہودی کمیونٹی کا سب سے بڑا ہتھیار سمجھا جاتا ہے، حتیٰ کہ امریکی سیاست پر بھی اس کی اتنی گہری چھاپ ہے کہ انتخابات میں کھڑا ہونے والا ہر امیدوار، اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے یہودی میڈیا کی خوشامد کرتا نظر آتا ہے، دراصل یہودیوں نے اپنے دانشوروں کے ’پروٹوکولز‘ کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ ’یہودی پروٹوکولز‘ کے بارہویں باب میں درج ہے کہ:
’’ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ خبر کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہم یہودیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ خبررساں ایجنسیاں قائم کریں، جن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کاجمع کرنا ہو، اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کرسکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہوسکے‘‘۔
۱۔ یہودی اپنے ’پروٹوکولز‘ کو تشکیل دینے سے پہلے ہی امریکا میں ۱۸۴۸ء میں ایک خبر رساں ایجنسی قائم کرچکے تھے، اس ایجنسی کو امریکا کے پانچ بڑے روزناموں نے مل کر ’ایسوسی ایٹیڈ پریس‘ کے نام سے قائم کیا۔ نصف صدی گزر جانے کے بعد ۱۹۰۰ء میں یہ ایجنسی عالمی سطح پر کام کرنے لگی اور امریکا میں شائع ہونے والے تمام اخبارات و رسائل سمیت، دنیا کے دیگر علاقوں کے ذرائع ابلاغ کو خبریں فراہم کرنے لگی، ۱۹۸۴ء کے اعداد وشمار کے مطابق اس ایجنسی سے امریکا میں تیرہ سو (۱۳۰۰) روزنامے اور تین ہزار سات سو اٹھاسی (۳۷۸۸) ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن وابستہ ہیں، امریکا سے باہر، گیارہ ہزار نو سو ستائیس (۱۱۹۲۷) روزنامے، ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن وابستہ ہیں، سیٹلائٹ اور دیگر ذرائع سے روزانہ ۱۷؍ ملین (ایک کروڑ ستر لاکھ) الفاظ پر مشتمل مضامین میڈیا کو فراہم کیے جاتے ہیں۔
اقتصادی اور مالی خبروں کے خاص شعبے ہیں، جہاں سے پوری دنیا کے ۸ ہزار مرکزی بنکوں کو تازہ ترین خبریں فراہم کی جاتی ہیں، ان خبروں کا معاوضہ غیر معمولی حد تک گراں ہوتا ہے۔ اس نیوز ایجنسی کے امریکا میں ایک سو سترہ (۱۱۷) دفاتر اور دوسرے ملکوں میں ۸۱؍ اخباری مراکز ہیں، جہاں ۵۵۹ نامہ نگار متعین ہیں، ایجنسی میں کام کرنے والے ایڈیٹروں اور صحافیوں کی تعداد جو صدر دفتر میں متعین ہیں، ڈھائی ہزار (۲۵۰۰) ہے، یہ ایجنسی صد فی صد یہودی سرمائے سے چلتی ہے، اس کے علاوہ ۹۵ فیصد کارکن یہودی ہیں، اس لیے اس کو ’یہودی نیوز ایجنسی‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
۲۔ ۱۹۰۷ء میں امریکا کے دو یہودی سرمایہ کاروں نے ’یونائٹیڈ پریس‘ کے نام سے ایک نیوز ایجنسی کی بنیاد ڈالی، اس کے دو سال بعد ۱۹۰۹ء میں ’انٹرنیشنل نیوز سروس‘ کے نام سے کمپنی قائم ہوئی، جس نے بعد میں ایسے عالمگیر اشاعتی ادارے کی حیثیت اختیار کرلی جس کی شاخیں دنیا بھر میں پھیل گئیں، یہ دونوں نیوز ایجنسیاں بھی صد فیصد یہودیوں کی تھیں۔ پھر ۱۹۵۸ء میں ’یونائٹیڈ پریس‘ اور ’انٹرنیشنل نیوز سروس‘ آپس میں ضم ہوگئیں اور ’نیویارک ٹائمز‘ کی ملکیت میں آگئیں جو ایک یہودی کے ماتحت ہے۔ ۱۹۸۴ء میں ان کو ’میڈیا نیوز کارپوریشن‘ میں ضم کر دیا گیا۔ اس نیوز ایجنسی کے خریداروں کی تعداد ۷۰۷۹ ہے، جن میں سے ۲۲۴۶ خریدار: اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن، امریکا سے باہر کے ہیں۔ اس مرکزی خبررساں ایجنسی کے ماتحت ۳۰ خبر رساں ایجنسیاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔
۳۔ ’یونائٹیڈ پریس انٹرنیشنل‘ سے امریکا میں ۱۱۳۴؍اخبارات، پبلشنگ ادارے اور ۳۶۹۹ ریڈیو اسٹیشن وابستہ ہیں، پوری دنیا میں اس ایجنسی کے ۱۷۷؍ مراکز ہیں، صرف امریکا میں اس کے ۹۶ دفاتر ہیں، روزانہ ۱۸؍ملین الفاظ پر مشتمل مضامین اور خبریں خریداروں کو بھیجی جاتی ہیں جب کہ روزانہ ۸۲ تصاویر بھیجنے کا اوسط ہے۔
۴۔ عالمی نیوز ایجنسیوں کا جب تذکرہ آتا ہے تو مشہور خبررساں ایجنسی ’رائٹر‘ کا نام سرفہرست آتا ہے۔ یہ ایجنسی برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ذرائع ابلاغ کو سب سے زیادہ خبریں فراہم کرتی ہے، لیکن خود اس ایجنسی کا حال یہ ہے کہ اس کی اکثر خبریں، امریکی خبررساں اداروں سے ماخوذ ہوتی ہیں، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کے پاس خبررساں ایجنسیوں کا ایسا ’بلاک‘ ہے جو دنیا میں شائع ہونے والی ۹۰ فیصد خبروں کا واحد ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ امریکی اخباروں میں ۱۸۵۱ء سے مسلسل شائع ہونے والے اخبارات میں ’نیویارک ٹائمز‘، ’ہیرالڈ ٹربیون‘، رسائل و مجلّات میں ’ریڈر ڈائجسٹ‘، ’نیشنل جیوگرافک میگزین‘، ’ٹائم‘ اور ’نیوز ویک‘۔ ٹی وی چینلوں میں N.B.C، A.B.C اور ۱۹۸۰ء سے عالمی سطح پر مشہور ہونے والے چینل CNN کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، جو بلامبالغہ پوری دنیا میں امریکی پالیسی کے لیے ماحول سازگار کرنے میں سب سے زیادہ ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ امریکا اپنے مضبوط ترین ذرائع ابلاغ کی وجہ سے ہی، کروڑوں لوگوں کے افکار و خیالات کو ہم آہنگ بنانے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ اس وسیع ترین میڈیائی جال ہی کی بدولت امریکی ثقافت و رسوم و رواج پوری دنیا میں پھیلے ہیں، حتیٰ کہ امریکی میڈیا نے اس بات پر بھی اپنی توجہ مرکوز کی ہے کہ لوگ خواہ دنیا کے کسی بھی خطّے سے تعلق رکھتے ہوں، امریکن انداز ہی پر انگلش زبان لکھیں اور امریکی طریقے کے مطابق ہی انگلش لفظ کے ہجے (اسپیلنگ) کریں۔
امریکی میڈیا کی قوت کا اندازہ عمومی سطح پر پہلی خلیجی جنگ کے موقع پر ہوا، جبکہ عراق میں پوری طرح امریکی ذرائع ابلاغ کا کنٹرول تھا۔امریکی نیوز ایجنسیوں اور ٹی وی چینلوں نے حقیقت بیانی سے کام نہیں لیا، بلکہ امریکی حکومت کی منشا کے مطابق خبریں نشر کیں، نیز جنگ سے پہلے پوری دنیا میں امریکا کے حق میں فضا سازگار کی اور عراق کو ایک دہشت گرد ملک کی صورت میں پیش کیا۔
مواصلاتی دنیا پر امریکی سایہ
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ سیاسی اور اقتصادی میدان کے ساتھ ساتھ، عقلوں کو فتح کرنے اور اپنی ثقافت کو پوری دنیا میں رائج کرنے کے لیے امریکا نے ذرائع ابلاغ اور مواصلاتی نظام کا سہارا لیا اور اپنی اقدار و روایات کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا دیا۔ امریکا کے نزدیک عالمی مواصلاتی نظام کتنی اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور نائب صدر ایلگور نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کے لیے بنیادی جنگوں میں سے ایک جنگ ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھتی ہے، اس موقع پر ایلگور نے یہ بھی اعتراف کیا کہ امریکا گزشتہ ۱۰؍ سالوں میں اس جنگ کو جیتنے کے لیے ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زائد خرچ کرچکا ہے۔
امریکی دفاعی ادارے ’پنٹاگون‘ کے سابق رکن اور مشہور امریکی یونیورسٹی ’ہارورڈ‘ میں ’کینیڈی کالج‘ کے موجودہ سربراہ ’جوز ایس نائی‘ کا کہنا ہے کہ:
’’امریکا اپنی بے مثال صلاحیتوں کی بنا پر مستقبل قریب میں عالمی ذرائع ابلاغ اور مواصلاتی نظام کا تنہا مالک ہوگا‘‘۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکا کے پاس وسائل ہیں؟ کیا مواصلاتی دنیا پر واقعی امریکا کا مہیب سایہ مسلط ہے؟
جہاں تک اخبارات، ریڈیو اسٹیشن، ٹی وی اور نیوز ایجنسیوں کا تعلق ہے، ہم پہلے ہی ذکر کرچکے ہیں کہ میڈیا کے ان تمام ذریعوں پر امریکا کا مکمل کنٹرول ہے، اس کے علاوہ مواصلات کے آلات بھی امریکی کمپنیوں کے زیر اثر ہیں، جو پوری دنیا میں اپنے آلات بنا کر سپلائی کررہی ہیں۔کمپیوٹر، ٹیلی فون، ٹی وی سیٹ، وی سی آر، سی ڈی اور سیٹلائٹ وغیرہ کے میدان میں امریکا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں چھائی ہوئی ہیں، چنانچہ دنیا کے سب سے دولت مند شخص بل گیٹس کی کمپنی ’مائیکرو سوفٹ‘ نے IBM کے ساتھ کمپیوٹر کے عالمی بازار پر غلبہ حاصل کرنے کے مقصد سے حال ہی میں ایک معاہدہ کیا ہے۔
مواصلاتی دنیا کو زیر اثر کرنے کی اس خفیہ جنگ میں امریکا کے ساتھ اس کے طاقتور حلیف بھی شامل ہیں، جو صنعتی اور مالیاتی اداروں کی شکل میں پوری دنیا میں سرگرم ہیں، ان اداروں میں TCI، ٹائم وارنر، یو ایس ویسٹ اور ’فیکوم‘ کمپنی قابل ذکر ہیں، جس نے ’ہالی وڈ‘ کی سنیما کمپنی ’پرمونٹ‘ کو ۱۰۰؍ ملین ڈالر میں خریدا ہے۔ مذکورہ کمپنی کو خریدنے کے بعد ’فیکوم‘ دنیا میں سب سے زیادہ ویڈیو کیسٹ فروخت کرنے والی کمپنی بن گئی۔جبکہ ’بلاک بسٹر انٹرٹینمنٹ‘، جو مشہور موسیقی چینل MTV کے ساتھ مربوط ہے اور پوری دنیا میں ۲۳۰ ملین افراد کو اپنے پروگرام دکھاتا ہے، دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح ’ہاکرز‘ نامی ایک مواصلاتی کمپنی ’ڈائرکٹ ٹی وی‘ کے نام سے ایک سیٹلائٹ نظام کا تجربہ کرنے جارہی ہے جس کے ذریعے وہ ڈیڑھ سو سے زائد چینل پوری دنیا میں نشر کرسکے، دوسری طرف مشہور عالمی کمپنی AT&T، Silicon Graphics اور ’ٹائم وارنر‘ کے نمائندوں پر مشتمل ایک گروپ ایسا نیٹ ورک تیار کررہا ہے جس پر پوری دنیا میں کہیں بھی ہمہ وقت ۵۰۰ سے زائد امریکی فلمیں دستیاب ہوسکیں گی۔
مذکورہ بالا کمپنیاں عالمی مواصلاتی نظام کو امریکا کے زیرنگیں کرنے کے لیے اس کی پوری طرح معاونت کررہی ہیں، موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ یہ خفیہ اور غیرعلانیہ جنگ اپنے اختتام پر ہے اور اس جنگ میں بھی دیگر جنگوں کی طرح فتح کا سہرا امریکا ہی کے سر ہے۔
(۔۔۔جاری ہے!)
(بشکریہ: ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور۔ نومبر ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply