
ایشیا میں چین اور یورپ میں روس سے لے کر مشرقِ وسطیٰ میں داعش تک، سال ۲۰۱۵ء نے ایسے تنازعات کو پھلتے پھولتے دیکھا جن کی نوعیت متعین نہیں۔ یہ تنازعات ایک واضح کھلی جنگ نہیں لیکن معمول کے مقابلے سے بڑھ کر ہیں، جو عالمگیریت سے جڑے ہوئے ہیں اور جن کا مقابلہ کرنے کے لیے لبرل جمہوریتیں مناسب ہتھیاروں سے لیس نہیں۔ قوی امکان ہے کہ متوقع مستقبل میں بھی طاقت کے استعمال کی نوعیت یہی ہوگی اور جھگڑے یوں ہی رونما ہوں گے۔
دانشور تنازعات کی اس نوعیت کو ترکیبی، کُل رنگی، غیر لکیری، آئندہ نسل یا مبہم کہتے ہیں۔ اصطلاحات کی یہ گوناگونی عکاس ہے کہ موضوع کتنا دشوار ہے۔ ان تنازعات میں نفسیاتی، ابلاغی، معاشی، سائبر اور فوجی طریقے ملوث ہیں اور انہیں اعلانِ جنگ کی بھی ضرورت نہیں۔
یوکرائن میں روس کی جاری مہم کو ہی دیکھ لیں، جہاں تُند و تیز روسی پروپیگنڈے نے یوکرائنی معاشرے کے مختلف حصوں میں دشمنی کے بیج بو کر ملک میں انتشار کی ترویج کی اور غلط معلومات کی افراط کے ذریعے مغرب کو الجھن میں بھی ڈالے رکھا۔ اس کے ساتھ ہی روس کی پراکسی فوجوں اور خفیہ فوجیوں نے اس حد تک عسکری کارروائی کی کہ یوکرائنی حکومت کمزور نظر آئے۔ مقصد زمین پر قبضہ کرنا نہیں۔ روس مشرقی یوکرائن کے باغیوں کے زیرِ انتظام علاقے کو بآسانی اپنے ساتھ ملاسکتا ہے۔ لیکن ہدف یوکرائن کو نفسیاتی طور پر غیرمستحکم کرنا اور ملک کے ’’ناکام ریاست‘‘ ہونے کے بیانے کو پروان چڑھانا ہے تاکہ یوکرائن کے اندر اور بین الاقوامی طور پر ’’کیف‘‘ کو ماسکو کے اثر سے آزاد کرنے کی خواہش اور حمایت دم توڑ جائے۔ اور بالآخر روس کے اپنے اندر، جمہوری اصلاحات کی امید بھی ختم ہو جائے۔
چین کا تین طرائقِ جنگ کا نظریہ، جنگ کے اِن غیر مادی پہلووں کو اور بھی آگے بڑھاتا ہے۔ تجزیہ نگار لارا جیکسن کے الفاظ میں، جو اِس موضوع پر کیمرج اور امریکی دفاعی شعبے کے تحقیقاتی منصوبے پر کام کر چکی ہیں، تین طرائقِ جنگ کے نظریے کا مطلب ہے کہ ’’قانونی، نفسیاتی اور ابلاغی طریقوں کو استعمال کر کے بین الاقوامی اداروں کو کمزور کیا جائے، سرحدیں بدلی جائیں، عالمی ذرائع ابلاغ کی تخریب کی جائے اور یہ سب کچھ ایک بھی گولی چلائے بغیر ہو‘‘۔ مغربی اور بالخصوص امریکی طریقہ جنگ حرکی اور ٹھوس اشیا جیسے انفرااسٹرکچر، ہتھیار اور افراد کی فراہمی پر زور دیتا ہے، جبکہ چین ’’جنگ کیا ہے‘‘ اور آج کی دنیا میں ’’کیا بغیر لڑے جیتنا ممکن ہے؟‘‘ جیسے بنیادی سوالات کے جوابات کی دریافت میں مصروف ہے۔
تین طرائقِ جنگ کا ایک فوری مقصد تو بحیرۂ جنوبی چین میں چینی راج دھانی قائم کرنا ہے تاکہ سمندی سرحدوں کو اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے سمندری قانون کی تسلیم شدہ حدود سے بڑھایا جاسکے اور ۵ کھرب ڈالر مالیت کے توانائی کے عظیم ذخائر اور تزویراتی سمندری راستوں پر قبضہ جمایا جاسکے۔ منتہائے مقصود یہی ہے کہ خطہ میں سلامتی کے ضامن کے طور پر امریکا کی جگہ لی جائے۔ اس کے لیے فوجی حکمتِ عملی سب سے پہلے ۲۰۰۳ء میں اپنائی گئی تھی مگر اس کے نتائج ذرائع ابلاغ پر ۲۰۱۵ء میں کھلے۔
سب سے پہلے چین نے متنازع پانیوں میں مصنوعی جزیروں کی تعمیر میں تیزی لانا شروع کی۔ اس کے بعد اُس نے قانونی طریقۂ جنگ کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ چونکہ یہ جزائر اس کی سرزمین ہیں، لہٰذا سمندری قانون کے تحت اطراف کے پانیوں کا وہی حق دار ہے۔ اس دعوے کو نفسیاتی طریقۂ جنگ سے مضبوطی فراہم کی جاتی ہے اور معاشی پابندیوں کی دھمکی دے کر ان اقدامات پر احتجاج کرنے والی ریاستوں کا منہ بند کرا دیا جاتا ہے اور اگر کوئی علاقے میں سرگرداں ہو تو اسے ہراساں کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں بی بی سی کے ایک خبر نگار، جو فلپائن کے ساحل پر واقع چینی فوجی فضائی پٹی کے قریب بین الاقوامی فضا میں محوِ پرواز تھے، اس طرح کے فضائی پیغامات سے پریشان کیے گئے کہ ’’میجی جزیرے کے شمال مغرب میں غیر ملکی فوجی جہاز ہے، ہم چینی بحریہ کے نمائندے ہیں، آپ ہمارے اسٹیشن کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘‘ اور پھر اس کے علاوہ ایک ابلاغی طریقۂ جنگ بھی استعمال ہو رہا ہے۔ مختلف پیش رفتوں، جیسے جاپان کا فوجیں بڑھانا اور امریکی بحریہ کا بین الاقوامی سمندروں میں گشت کرنا، کو چین کے تیزی سے فروغ پاتے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں چینی اقدامات کے جوابی ردِعمل کے بجائے چین کے دشمنوں کی جارحیت کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے۔
چین اور روس، دونوں کی حکمتِ عملی اطلاعات کی جنگ پر زور دیتی ہے۔ لیکن شاید اس سال سب سے قابلِ دید پروپیگنڈا داعش کی جانب سے کیا گیا جس میں نئے جنگجوئوں کو بھرتی کرنے کے لیے سماجی ذرائع ابلاغ کا جارحانہ استعمال اور قتل کیے جانے والوں کی ماہرانہ، مگر لرزہ خیز ویڈیو شامل تھیں۔ داعش نے اسد کی حکومت کے مقابلے میں شام میں اگرچہ سات گنا کم لوگ مارے ہیں، لیکن سماجی ذرائع ابلاغ کا استعمال کر کے (جس میں صرف ٹوئیٹر کے ہی ۴۶,۰۰۰؍اکاونٹ شامل ہیں) خود کو حقیقت سے زیادہ خوفناک ظاہر کیا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ کا ہر صارف، جو داعش کے مواد کو ریٹوئیٹ یا پوسٹ کرتا ہے، چاہے حمایت میں کرے یا مذمت میں، دراصل داعش کے بیانیے کو ہی مضبوط کرتا ہے، وہ بیانیہ جو تاریخ ساز قد و قامت اور آئندہ ہزار سال کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ پیرس میں داعش کے ہولناک دہشت گرد حملے کے نتیجے میں ۱۳۰؍لوگ مارے گئے لیکن کارروائی کے انداز سے لگتا تھا جیسے تنظیم نے کئی گنا زیادہ افراد مارے ہوں۔
ظاہر ہے کہ جنگ کے ایک اساسی ہتھیار کے طور پر معلومات کا استعمال نیا نہیں۔ لیکن ماضی میں عمل کے لیے معلومات ایک ثانوی حیثیت رکھتی تھیں۔ اب معلوماتی عنصر زیادہ نہیں تو کم از کم اتنا ہی اہم ہے جتنا عملی پہلو۔ شام میں روسی فضائی حملوں کو دیکھیے۔ فوجی مہم پر کریملن کا سرکاری مؤقف داعش کو ختم کرنا تھا۔ لیکن درحقیقت اس کے بہت کم حملے داعش پر تھے، اصل نشانہ شامی صدر اور روس کے تابع بشارالاسد سے لڑنے والے امریکی حمایت یافتہ باغی تھے۔ کریملن کے ذہن میں یقینا صرف داعش کو فوجی شکست دینا نہیں۔ روس شام کے منظرنامے میں اس طرح داخل ہوا کہ مغرب اچھنبے میں پڑ جائے اور آئندہ بیانیہ میں وہ خود مرکزی کردار کا حصول یقینی بنالے۔ چاہے وہ بیانیہ اسد کو طاقت میں رکھنے پر مشتمل ہو یا ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ سے متعلق۔ روسی فوج بھلے امریکی فوج کے مقابلے میں کم تر ہو اور روسی معیشت بھی منتشر ہو، لیکن ولادی میر پیوٹن نے بڑی چالاکی سے امریکا کے ’عالمی تھانیدار‘ ہونے کے تاثر کو زَک پہنچائی ہے اور روس کو عظیم عالمی طاقت بنانے پر مائل شخص کے طور پر خود کو پیش کرکے اپنا قد اونچا کیا ہے۔
روایتی معنوں میں یہ ’نرم طاقت‘ کا طریقہ نہیں جس میں ثقافت اور تعلقاتِ عامہ کو استعمال کرکے ایک مثبت قومی تصویر اجاگر کی جاتی ہے۔ بلکہ یہ تو بیانیے کو استعمال کرکے مخالف کو خوف، الجھن اور رعب کا شکار رکھنے کی حکمتِ عملی ہے، جس میں معلومات کی کثرت کو کام میں لاکر خود کو حقیقت سے زیادہ بڑا، خوفناک اور ناگزیر بناکر دکھایا جاتا ہے۔ روس کی شام میں فضائی مہم کے مثبت ضمنی اثرات (ماسکو کے لیے) بھی مرتب ہوئے ہیں جن میں یوکرائن کے تنازع سے توجہ ہٹنا اور مہاجرین کے سیلاب کا برابر یورپ پہنچنا ہے۔ مہاجرین کا سیلاب فرانس اور ہنگری جیسے ملکوں میں دائیں بازو کی جماعتوں کو مضبوط کرتا ہے کیونکہ وہ مہاجرین مخالف خوف کو ہوا دیتی ہیں اور کریملن بھی ان کی حمایت کرتا ہے کیونکہ وہ روس پر سے مغربی پابندیاں اٹھانے کی حامی ہیں۔ اطلاعاتی دور میں ’’غلبہ بذریعہ فوجی تشدد‘‘ (Military escalation dominance) اتنااہم نہیں جو تنازع میں دشمن سے زیادہ ہتھیار متعارف کرانے کی صلاحیت پر زور دینے والا سرد جنگ کے دور کا نظریہ تھا۔ اب ’’غلبہ بذریعہ اطلاعاتی تشدد‘‘ اہم ہے جو مخالف سے زیادہ چونکا دینے والی شہ سرخیاں متعارف کرانے کی صلاحیت کا مقابلہ ہے۔
کئی طریقوں سے غیر متعین تنازعات عالمگیریت کے تاریک پہلو ہیں۔ عالمگیریت جہاں بین الاقوامی میڈیا، اقتصادی انضمام اور لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کی شکل میں ایک ’عالمی گاؤں‘ تخلیق کرتی ہے، وہیں ایک ایسا ماحول بھی بناتی ہے، جس میں ہم زیادہ بُرے طریقوں سے باہم گتھم گتھا ہو سکتے ہیں۔ عالمگیریت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ چین یا روس جیسی ریاستیں مکمل جنگ کا اعلان نہیں کرسکتیں۔ ایک کھلی لڑائی کا خطرہ کیوں مول لیں جو کہ شاید وہ ہار جائیں گے، جبکہ ’مثبت‘ عالمگیریت کے تمام فوائد جیسے عالمی منڈیاں اور غیر ملکی سرمایہ کاری مذکورہ بالا حرکیات کو استعمال خود حاصل بھی کیے جاسکتے ہیں اور دوسروں کو حاصل کرنے سے روکا بھی جا سکتا ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایسی صورتحال کی طرف لے جاتا ہے، جہاں طاقتیں ایک ہاتھ سے لڑ رہی ہیں اور دوسرے ہاتھ سے مصافحہ کر رہی ہیں۔ چین اور امریکا بحیرۂ جنوبی چین میں آمنے سامنے ہیں جبکہ معاشی روابط بھی بڑھا رہے ہیں، روس اور امریکا یوکرائن میں باہم نبرد آزما ہیں، جبکہ شام پر تعاون کی بات بھی کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ سیاسی بے غیرتی کی طرف بھی لے جاتا ہے، جہاں اتحاد فانی اور شاطرانہ ہیں اور بے ثباتی کا شکار ہیں۔ ۲۰۱۵ء کے آغاز میں روس اور ترکی ہمیشہ کے لیے بہترین دوست تھے، دو نَو آمرانہ (Neo authoritarian) ریاستیں، جو قریبی توانائی اتحاد بنانے کے لیے پُرعزم تھیں، آج ترکی کی طرف سے روس کا لڑاکا طیارہ مار گرانے کے بعد، وہ دونوں دشمن ہیں اور دونوں اطراف کے قائد اپنے مقامی تاثر کو بڑھانے کے لیے سینہ ٹھونک کر میدان میں آگئے ہیں۔ یہ جغرافیائی سیاسی تعلقات ہیں جن میں فیس بُک دوستیوں، پسندیدگیوں اور ممانعتوں جتنی گہرائی ہے۔
بہت سے چینی اور روسی کہیں گے کہ مغربی ممالک بھی تو اسی طرح ان کے خلاف غیر متعین تنازعات کھولے ہوئے ہیں۔ اس سال چینی اسٹاک مارکیٹ کے انہدام کے بعد لن زومنگ نے، جو چین کی بڑی ریاستی کمپنیوں میں سے ایک کے طاقتور رکن ہیں، اصرار کیا کہ یہ انہدام اشتراکی جماعت کی حکمرانی کو کمزور کرنے کے لیے امریکا کی طرف سے شروع کی گئی ’’بلاشک و شبہ۔۔۔ ایک معاشی جنگ‘‘ ہے۔ روسی میڈیا بھی امریکا پر سی این این سے لے کر بڑی تیل کمپنیوں، گوگل اور این جی اوز کے ساتھ ساز باز کرکے ماسکو کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتا رہتا ہے۔
امریکا کے پاس بلاشک و شبہ کچھ بہت زبردست معاشی ہتھیار ہیں۔ مثلاً وہ روس پر بین الاقوامی سوئفٹ بینکاری نظام کا دروازہ بند کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے۔ اور خفیہ کارروائیاں کرنے کی مغربی ممالک کی بھی ایک اپنی پوری تاریخ ہے۔ لیکن مغرب کی لبرل جمہوریتیں غیر متعین تنازعات سے نمٹنے کو مشکل پاتی ہیں۔
اس سال نیٹو کے صدر مقام کے صحافتی دورے پر راقم نے اعلیٰ حکام سے دریافت کیا کہ نئے خطرات سے نمٹنے کی نیٹو حکمتِ عملی کیا ہے؟ جواب کا جوہر یہ تھا کہ پیسے، ابلاغ اور ثقافتی جنگ کے معاملے میں نیٹو ردِعمل کی حکمتِ عملی پر کام کرنے کی ابتدا کر رہاہے۔ حکمتِ عملی میں ٹینک اور جوہری میزائل اور سائبر حملے سرِ فہرست تھے۔ ’’غیر متعین‘‘ سے نمٹنے کے لیے جو کچھ بھی تھا، ابھی تیاری کے مرحلے میں تھا۔
آمرانہ ریاستوں میں فوج، ذرائع ابلاغ اور کاروباری اداروں کی کوششوں کو یکجا کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ جبکہ جمہوریتوں میں ان گروہوں کے اپنے مفادات عموماً مختلف النوع ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب اس موسمِ خزاں میں برطانوی حکومت نے نئے برطانوی جوہری ری ایکٹر میں چین کو سرمایہ کاری کی اجازت دینے کا معاہدہ کیا تو خزانے پر مامور آدمی خوش ہوئے، ذرائع ابلاغ میں موجود ’اخلاقی‘ آدمی ناراض ہوئے کہ برطانیہ انسانی حقوق کا سودا کر رہا ہے اور فوجی آدمی پریشان ہوئے کہ برطانیہ کے توانائی و مواصلاتی ڈھانچے میں چین سرائیت کر رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ مغربی طاقتیں پیسے، ذرائع ابلاغ اور فوج کو یکجا کرکے تباہ کُن اور شرانگیز اثر ڈال سکتی ہیں۔ لیکن تب، جب جنگ کا باقاعدہ اعلان ہو (جس کی واضح ترین حالیہ مثال عراقی مہمات میں قبل از جنگ کوششیں ہیں)۔ لیکن غیر متعین جنگ میں، جو غیرعلانیہ بھی ہو، جمہوریتیں عموماً نقصان میں رہتی ہیں۔ وہ بنیادی سوالوں پر مخمصے کا شکار ہوتی ہیں۔ آیا روس یورپی یونین کا دشمن ہے یا ساتھی، جس کے ساتھ معمول کے تعلقات دوبارہ قائم ہو سکتے ہیں؟ آخر کار روس نے سرکاری طور پر یورپی یونین تو کجا، یوکرائن پر بھی کبھی اعلانِ جنگ نہیں کیا۔ جرمن چانسلر انجلینا مرکل نے ویسے تو ۲۰۱۵ء میں روس کے خلاف یوکرائن کے سلسلے میں عائد پابندیوں پر سخت گیری دکھائی لیکن سال کا اختتام دونوں ملکوں کے درمیان نئی پائپ لائن کی تعمیر کے توانائی سودے پر ہوا۔ یہ ماسکو کی ایک بھرپور ضرب تھی۔
اور پھر داعش جیسی مخلوق کے ساتھ کیا کیا جائے، جو بطور ریاست تسلیم شدہ نہیں لیکن ظاہری صورت میں ایک ریاست ہی نظر آتی ہے۔ جب پیرس دہشت گرد حملوں کے بعد برطانیہ نے داعش پر بمباری کے حق میں فیصلہ کیا تو اس عمل کے خلاف ایک دلیل یہ تھی کہ برطانوی فوج کو شام کی قانونی سرزمین کے اندر کارروائیاں کرنا پڑیں گی۔ جبکہ اسد کی حکومت نے عراقی حکومت کے برعکس برطانیہ کو کبھی ایسا کرنے کی دعوت نہیں دی۔ پارلیمان میں تقریریں ۱۹۳۰ء کی دہائی کے مماثل تھیں۔ نئے چرچل اور نئے چمبرلین صلح و درگزر، فاشزم اور تہذیبی چیلنجوں کی بات کررہے تھے۔ یہ بیانیہ بیسویں صدی کی جنگوں کے لیے موزوں تھا، نہ کہ اکیسویں صدی کے لامتناہی تغیرات اور رقیق تبدیلیوں کے لیے۔ تو اس ماحول میں جمہوریتیں مقابلہ کیسے کرسکتی ہیں؟ دفاعی تجزیہ کار اور نیٹو کے سابق پریس افسر بین نیمو، اس کے لیے ایک نیا نظریہ تجویز کرتے ہیں۔ ’’اطلاعاتی دفاع‘‘ کا نظریہ، جس میں حکومتیں اور کثیرالاقوامی تنظیمیں صحافیوں، تھنک ٹینک، دانشوروں اور اکادمیوں کے درمیان روابط بڑھانے میں مدد دیں، جو فوری طور پر پروپیگنڈے کے حملوں کو برداشت کرسکیں۔ اس طرح جب روس دروغ گوئی کی اپنی اگلی مہم شروع کرے گا، مثلاً مولدووا یا پھر قطب شمالی میں، تو ایسے آزاد ماہرین خطے کی صحیح معلومات اور نیٹ ورکس کے ساتھ موجود ہوں گے، جو حقیقتِ حال سامنے لانے کی صلاحیتوں کے حامل ہوں۔ لارا جیکسن بھی تین طرائقِ جنگ سے نمٹنے کے لیے اسی قسم کی پیش بندی تجویز کرتی ہیں۔ ان کے خیال میں بحیرۂ جنوبی چین میں فوجی جہازوں پر کیمروں کی مستقل تنصیب اور چین کی طرف سے جزائر کی تعمیر کی سیٹلائٹ نگرانی ضروری ہے تاکہ ’’یک طرفہ مگر غیر محسوس انداز میں حقیقت کو تبدیل کرنے کی کوشش‘‘ کو روکا جاسکے۔ نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر مارک گیلیٹی ’’غیر حرکی نیٹو‘‘ کا تصور دیتے ہیں جو بدعنوانی جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کی اہلیت سے متصف ہو۔ روسی نظریہ کہتا ہے کہ دوسرے ملک کی اشرافیہ کو بدعنوان بنانے کی کوشش کرنا، نئے دور کی جنگ کا حصہ ہے۔ تو کیا مغرب کے لیے وقت نہیں آگیا کہ وہ بدعنوانی کو ایک سلامتی خطرہ سمجھے؟
داعش سے متعلق بہت سی فکر انگیز تجاویز میں سے ایک سرڈا پوپووک نے دی ہے جو اوتپور (مزاحمت) تحریک کے سابق طالب علم راہنما ہیں۔ اس تحریک نے یوگوسلاویہ میں سلوودان میلاسووچ کو طاقت سے ہٹانے میں مدد دی۔ پوپووک اب دنیا بھر میں پُرامن انقلابیوں کے گرو ہیں۔ داعش ۶۰؍لاکھ سے زائد آبادی پر حکمران ہے جس میں سے کئی لوگ اس کے نظریہ سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن وہ اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ داعش سلامتی اور فلاحی خدمات فراہم کرنے کی بہترین دستیاب قوت ہے۔ ایک حالیہ مضمون میں پوپووک اور شریک قلم کار عالیہ بریلے نے داعش کے ’دارالخلافہ‘ رقا میں سکونت پذیر ایک عورت سعود نوفل کی مثال دی ہے۔ اس عورت نے داعش کے صدر مقاموں کے باہر احتجاج میں تین ماہ صَرف کیے۔ اس نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر اس قسم کے نعرے درج تھے: ’’مجھے اپنے مذہب کے بارے میں نہ بتاؤ، اسے اپنے عمل میں ظاہر کرو!‘‘ اور ’’جبر نامنظور، بے انصاف حکمران نامنظور، تاوان نامنظور، ہاں آزادیٔ فکر منظور!‘۔ پوپووک اور بریلے لکھتے ہیں کہ ’’اس عورت کی کہانی ان بہت سے شامیوں اور عراقیوں جیسی ہے جنہوں نے داعش کا غیرمتشدد مقابلہ کیا اور اپنی کہانی کہنے کو زندہ رہے۔ منظرِ عام پر نہ آنے والی یہ کہانیاں اس بات کی گواہی ہیں کہ اپنی قاتلانہ تصویر کے باوجود اصل میں داعش کا انحصار سنّیوں میں نیک نامی اور حمایت برقرار رکھنے میں ہے۔ کسی بھی حکمران قوت کی طرح داعش کی طاقت بھی بنیادی طور پر ان لوگوں کے تعاون پر مبنی ہے، جن پر وہ حکمران ہے۔
پوپووک اور بریلے داعش کو تباہ و برباد کرنے کے لیے عسکری حکمتِ عملی کے بجائے غیر متشدد طریقے اپنانے پر زور دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ داعش ’’عسکری مخالفت سے مزید توانا ہوتی نظر آتی ہے۔‘‘ مغربی جمہوریتوں کو سب سے پہلے داعش کے زیرِ تسلط رہنے والوں کو متاثر کرنا چاہیے۔ اس کے لیے انہیں داعش کی معصومانہ مذہبیت کے مقابلے میں خطے کے مستقبل کا ایک متاثر کُن خاکہ پیش کرنا چاہیے، جس میں شیعہ گروہوں اور اسد کی فوجوں کی زَد میں آئے ہوئے سنّی مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ ٹھکانہ ہو۔ اس کے بعد انہیں داعش کی اصل کمزوری یعنی سماجی خدمات فراہم کرنے کی اہلیت کو نشانہ بنانا چاہیے۔ مختلف اقسام کے ہنر مند افراد اور کئی ٹیکنوکریٹس داعش کے مقبوضہ علاقوں سے فرار ہو گئے ہیں اور جو باقی بچے ہیں، وہ بھی صرف اس لیے کہ ان کے پاس جانے کو کوئی جگہ نہ تھی۔ پوپووک اور بریلے نے نشاندہی کی ہے کہ ’’داعش بہت زیادہ ٹیکس لے رہی ہے اور کاروباری برادری کے تمام حلقوں سے بھاری رشوتوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ زیادہ تر کسان علاقے سے فرار ہو گئے ہیں اور اگلے سال کی کھیتی بوائی سے محروم ہے۔ منتظموں، ٹیکنو کریٹوں، کارکنوں، قبائلی حکمرانوں اور کاروباری لوگوں کی صفیں داعش سے بغاوت اور عدم تعاون کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔
یہ تصورات ترکیبی تنازعات کے دو اہم عناصر کو نمایاں کرتے ہیں۔ پہلا مقابلے کے اس نئے طرز میں سول سوسائٹی کی طاقت ہے، ایک رجحان جو بہت سی مثالوں سے واضح ہے۔ مثلاً ’’نامعلوم ہیکرز‘‘ گروہ کا داعش کے سماجی میڈیا اکاونٹس کو خراب کرنا، یوکرائن میں سرگرم کارکنوں کا روس کی طرف سے پھیلائی گئی غلط معلومات کی قلعی کھولنا یا بلاگر ایلیٹ ہگنز کا یوکرائن میں روس کی عسکری موجودگی کا واضح ثبوت پیش کرنا۔
دوسرا، ان تنازعات کے بارے میں ایک غیر متناسب روش ہے۔ جب داعش اپنی خون آلود ویڈیو سامنے لاتی ہے یا پیرس میں پارٹی میں جانے والے معصوموں کا گلا کاٹتی ہے، تو وہ مسلمانوں اور مغرب کے دیگر لوگوں میں دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا نتیجہ جسے اس دنیا میں لی پین، آربن اور ٹرمپ جیسے لوگ اپنے مسلمان دشمن بیانات کے ذریعے حقیقت بننے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کے بجائے داعش کے مخالفین کو اُس کے کمزور ترین نکتے یعنی ایک فعال ریاست ہونے کے دعوے پر ضرب لگانے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ اسی طرح جب روس یہ پروپیگنڈا مہم شروع کرتا ہے کہ وہ مغرب کے خطرے سے دوچار قدامت پسند روایات کا چیمپئن ہے تو وہ لوگوں کو ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ جیسی بحثوں میں گھسیٹنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے تاکہ روس کی کمزور معیشت اور یوکرائن میں غیر قانونی جارحیت سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ کریملن کی ذہنی مشقوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ مغرب کریملن کی بدعنوانی کو نشانہ بنائے جہاں روسی حکومت قابلِ جرح ہے۔
اس سارے معاملے میں سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ کوئی بھی غیر متعین تنازع، جس میں بڑی طاقتیں ملوث ہوں، مثلاً بحیرۂ جنوبی چین میں گھومتے امریکی اور چینی جہاز یا جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کی دھمکی دیتا روس ایک کھلی جنگ میں بدل سکتا ہے اگر کوئی فریق حساب کی غلطی کر بیٹھے۔
زیادہ امکان اگرچہ اس بات کا ہے کہ وہ رجحانات جو ۲۰۱۵ء میں نظر آ رہے تھے، سال ۲۰۱۶ء میں اور ابھر کر سامنے آئیں گے۔ لارا جیکسن کے مطابق چین کی نظر میں سمندر اور عمومی لحاظ سے دنیا میں تین طرائقِ جنگ کی مہم کو آزمانے کا محض پہلا تجربہ ہے۔ ایک ایسا تجربہ جو بعد ازاں خلائی حصوں کو قابو کرنے کے عزائم کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ایک چینی افسر کے الفاظ میں چینی فوج اور قانونی مفکرین خلا کو ’’زمینی قبضے کی دیگر شکلوں کی ایک قدرتی توسیع‘‘ کی طرح دیکھتے ہیں۔ روسی فوجی نظریہ مستقبل کی جنگوں کو ’’براہِ راست تصادم سے بے رابطہ جنگ‘‘ کی طرف جاتا دیکھتا ہے۔ جس میں ’’مخالف کو براہِ راست تباہ کرنے کے بجائے باطنی طور پر کمزور کیا جائے۔‘‘ جس میں ’’جنگ مادی ماحول کے بجائے، انسانی شعور اور سائبر اسپیس‘‘ میں لڑی جائے۔ جون میں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی ایک تحقیق نے آشکار کیا کہ کس طرح ویب مہمات کے ایک سلسلے نے امریکا میں انتشار بونے کی کوشش کی۔ یہ کوشش لوسیانا میں داعش کے حملے سے لے کر اِبولا کی وبا اور اٹلانٹا میں پولیس شوٹنگ تک کے بارے میں جعلی ٹوئیٹر پیغامات، وکی پیڈیا صفحات اور آن لائن خبری رپورٹوں کے ذریعے غلط معلومات پھیلا کر کی گئی۔ یہ صرف تفریح پسندوں کا کام نہیں تھا بلکہ یہ ایک مربوط کارروائی تھی جو سینٹ پیٹرز برگ میں موجود کریملن کے حمایت یافتہ ’’ٹرول فارم‘‘ نے شروع کی۔ یہ شاید اس میدانِ جنگ کے اولین سپاہی تھے، جو روسی فوجی نظریہ سازوں کے نزدیک مستقبل کا میدانِ جنگ ہوگا۔ وہ میدانِ جنگ، جو مردوں اور عورتوں کے دماغوں پر مشتمل ہو گا، جہاں ہر کاروباری سودا، ری ٹوئیٹ اور انسٹراگرام پوسٹ اہمیت کی حامل ہوگی اور جسے یہ نظریہ ساز سائیکو اسفیئر (Psychofare) کہتے ہیں۔
یہ ایک نئی بے باک جنگ ہے، جس کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ اختتام۔ جہاں امن اور جنگ، فوجیوں اور شہریوں کی تقسیم بالکل دھندلا گئی ہے اور جہاں میں اور آپ ایک ہدف بھی ہیں اور ایک ہتھیار بھی۔
[urdu](ترجمہ: طاہرہ فردوس)[/urdu]
“Fighting while friending: The grey war advantage of ISIS, Russia, and China”. (“defenseone.com”. Dec.29, 2015)
Leave a Reply