پیو ریسرچ سینٹر (PEW Research Center) ایک امریکی ’’فیکٹ ٹینک‘‘ ہے جو اُن ایشوز، رویوں اور روایتوں کی معلومات فراہم کرتا ہے جو امریکا اور باقی دنیا میں تبدیلیوں کا سبب بنتی اور ان کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ غیرجانبدار ادارہ ہے اور پالیسی سازی میں کو ئی کردار ادا نہیں کرتا۔
یہ اعداد و شمار ’’پیو فورم‘‘ نے ۲۱ جنوری ۲۰۱۰ء کو جاری کیے ہیں، جن سے دنیا بھر میں مسلمان آبادی میں اضافہ کا ایک تخمینہ اور مستقبل کا ایک نقشہ ظاہر ہوتا ہے۔ PEW Forum اسی طرح مسیحی آبادی کے بارے میں بھی کام کررہا ہے۔ اس تحقیقی پروگرام کے لیے The PEW Charitable Trust and John Templeton Foundation نے فنڈز فراہم کیے ہیں۔ ’’پیو فورم‘‘ نے اس کے علاوہ مذاہب کے درمیان نکتہ اختلاط اور دنیا بھر میں عوامی زندگی پر تفصیلی عوامی جائزے کا بھی اہتمام کیا ہے، جس کا آغاز افریقا کے ۱۹؍ممالک سے کیا جائے گا اور اس سال کے آخر تک جاری کردیا جائے گا۔ یہ آنے والا مطالعہ ایک وسیع الاطراف تحقیقی عمل کا حصہ ہے، جس کا مقصد دنیا بھر کے عوام میں مذاہب کے بارے میں آگاہی کو بڑھانا اور مذاہب کے مستقبل کو ظاہر کرنا ہے۔ زیرِ نظر مضمون PEW رپورٹ کا ترجمہ یا خلاصہ نہیں ہے، رپورٹ کے چیدہ نکات اور اعداد و شمار کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ مزید جاننے سے دلچسپی رکھنے والے حضرات www.pewforum.org پر وزٹ کریں۔
یہ رپورٹ ۲۳۲ ممالک اور Territories (وہ خطۂ زمین جسے اقوام متحدہ نے ملک کادرجہ نہیں دیا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کا پاپولیشن ڈویژن اس کی آبادی الگ سے ظاہر کرتا ہے۔ جیسے کہ ہانگ کانگ اور مکاؤ جو چین کے تحت انتظامی علاقے ہیں، اور گرین لینڈ جو خودمختار اور دستوری ملک ڈنمارک کے تحت ہے) وغیرہ سے حاصل شدہ اعداد و شمار کی بنیاد پر مبنی ہے۔
’’پیو فورم‘‘ کی زیرِ نظر رپورٹ کے اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کیے گئے ہیں جیسے مردم شماری (Population Census)۔ بہت سے ممالک نے ۲۰۱۰ء میں مردم شماری کی ہے اور بعض ۲۰۱۱ء میں کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ اس رپورٹ میں جون ۲۰۱۰ء تک کے Population Census کی رپورٹس شامل کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ اقوام متحدہ کی ہیلتھ سروے رپورٹس سے ہر ملک کی Total Fertility Report حاصل کی گئی ہے، جس سے شرح پیدائش اور پیدائش کے وقت ممکنہ اموات کی شرح معلوم ہوتی ہے۔ ایک ملک سے دوسرے ملک میں ہجرت کے رجحانات، اس کے اعداد و شمار اور ترکِ وطن (Migration) کے ضابطوں کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔
آبادی کی پروجیکشن کرتے ہوئے شرحِ پیدائش و اموات، ہجرت اور ترک ِوطن اور آبادی میں نوجوانوں کے تناسب کو موثر عوامل کے طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔
کچھ عوامل جو آبادی میں اضافے اور کمی پر براہ راست اثر انداز تو نہیں ہوتے، لیکن اہم کردار ضرور ادا کرتے ہیں (جیسے تعلیم، بالخصوص خواتین کی تعلیم، معاشی صورتحال، معیارِ زندگی، موانعاتِ حمل، خاندانی منصوبہ بندی، دیہی آبادی کی شہروں میں منتقلی، تبدیلی مذہب) کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔
اسلام قبول کرنے یا چھوڑنے کے بارے میں اعداد و شمار بہت کم دستیاب ہیں۔ کیونکہ آبادی کا سروے کرتے ہوئے بالعموم یہ نہیں پوچھا جاتاکہ پہلے آپ کا مذہب کیا تھا۔ جو بھی معلومات دستیاب ہیں، ان سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں Net اضافے یا کمی کا سبب اسلام قبول کرنا یا اسلام کو چھوڑنا نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں جتنے افراد مسلمان ہوتے ہیں، کم وبیش اْتنے ہی اسلام چھوڑ بھی جاتے ہیں۔
پیو فورم، یونیورسٹیوں میں سماجی علوم کے ماہرین اور ۵۰ کے قریب محققین کے تجزیوں اور دنیا بھر کے تحقیقی مراکز سے حاصل شدہ تقریباً ۱۵۰۰ ذرائع کے تجزیوں بشمول اعداد وشمار کی رپورٹیں، معاشرتی مطالعہ اور عام آبادی کے جائزوں سے گزر کر ان نتائج تک پہنچا ہے۔
یہ رپورٹ آبادی کے موجودہ اعداد و شمار کی پروجیکشن پر مشتمل ہے، جس کے لیے Cohort Component Method کا مستند طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایمیگریشن قوانین، معاشی حالات کی تبدیلی، قدرتی آفات، فوجی تصادم، سائنسی ایجادات اور سیاسی و معاشرتی تحریکیں اس میں تبدیلی لاسکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مسلمان تمام براعظموں میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ ان میں سے ۶۰ فیصد ایشیا میں رہتے ہیں۔
۲۰ ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمان ۹۵ فیصد یا اس سے زیادہ ہیں۔
آج ۷۲ ممالک میں مسلمان ایک ملین یا اس سے زیادہ کی تعداد میں رہتے ہیں، جبکہ ۲۰۳۰ء میں ایسے ممالک کی تعداد ۷۹ ہونے کی توقع ہے۔ مزید جن سات ممالک میں مسلمان ایک ملین یا اس سے زیادہ ہوجائیں گے، ان میں بیلجئم، کینیڈا، کانگو، جبوتی، گنی بساؤ، ہالینڈ اور ٹوگو شامل ہیں۔
آج یورپ میں مسلمان کل آبادی کا ۶ فیصد ہیں، جبکہ ۲۰۳۰ء میں ۸ فیصد ہو جائیں گے۔
کُل مسلم آبادی کا پانچواں حصہ اْن ممالک میں آباد ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔
۲۰۳۰ء میں مسلمان اسرائیل کی آبادی کا تقریباً چوتھا حصہ ہوں گے ۲ء۲۳ فیصد۔ آج ان کا تناسب ۷ء۱۷؍فیصد ہے، جبکہ ۱۹۹۰ء میں ۱ء۱۴؍فیصد تھا۔
PEW کی اِس رپورٹ میں مسلمان کی تعریف بہت وسیع ہے۔ اس کا مقصد ان تمام افراد کو شمار کرناہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہا ہے، وہ سیکولر یا دہریہ ہو یا اسلام پر عامل نہ ہو۔ اس تحقیق میں یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ مسلمان آج کتنے مذہبی (Religious) ہیں اور آئندہ ان کی مذہبیت کا درجہ (Religiosity Levels) کیا ہو گا۔
۱۹۹۰ء میں دنیا کی کل آبادی ۵؍ارب ۳۰ کروڑ تھی جس میں مسلمان ایک ارب ۱۰ ؍کروڑ تھے۔ یعنی کُل آبادی کا ۹ء۱۹؍فیصد۔
۲۰۰۰ء میں مسلمان دنیا کی کل آبادی کا ۶ء۲۱ ہوگئے یعنی ۶ ارب ۱۰؍کروڑ کی آبادی میں مسلمان ایک ارب ۳۰ کروڑ تھے۔
۲۰۱۰ء میں دنیا کی آبادی ۶؍ارب ۹۰ کروڑ ہو گئی۔ اس میں مسلمان ایک ارب ۶۰ کروڑ ہیں، جو کہ کل آبادی کا ۴ء۲۳ فیصد ہیں۔
دس سال بعد، یعنی ۲۰۲۰ء میں دنیا کی آبادی تقریباً ۷ ارب ۷۰ کروڑ ہوگی۔ اور مسلمانوں کی آبادی ایک ارب ۹۰ کروڑ ہو جائے گی، جو کُل آبادی کا ۹ء۲۴ فیصد ہوگی۔
آئندہ ۲۰ برس بعد، یعنی ۲۰۳۰ء میں دنیا کی کل آبادی ۸؍ارب ۳۰ کروڑ ہو گی۔ اُس میں سے مسلمان ۲؍ارب ۲۰ کروڑ ہوں گے اور یہ کل آبادی کا ۴ء۲۶ فیصد ہوں گے۔
اس جائزے کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کی آبادی آئندہ بیس برسوں میں ۳۵ فیصد بڑھ کر اِس وقت کی ۶ء۱؍بلین کے بجائے ۲ء۲ بلین ہو جائے گی۔ اگلے ۲۰ سال تک عالمی سطح پر مسلمانوں کی آبادی، دنیا کی غیرمسلم آبادی کے مقابلے میں دوگنا رفتار سے بڑھنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ مسلم آبادی میں اضافے کی شرح ۵ء۱ فیصد سالانہ ہے، جبکہ غیرمسلم آبادی میں اضافے کی اوسط صرف ۷ء۰ فیصد سالانہ ہے۔ اگر یہی رحجان برقرار رہتا ہے تو ۲۰۳۰ء میں مسلمان دنیا کی آبادی کا ۴ء۲۶ فیصد ہوں گے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں دنیا کی مسلم آبادی نے جس شرح سے ترقی کی ہے، وہ اگلی دو دہائیوں میں برقرار نہیں رہے گی۔ پھر بھی مسلمان، غیرمسلموں کے مقابلے میں افزائشِ نسل کے ذریعہ، زیادہ تیزی سے اپنی آبادی میں اضافہ کریں گے۔
اگر خوش قسمتی سے آپ مسلمان ہیں، تو درج بالا اعداد و شمار سے آپ یقینا خوش ہوں گے اور اگر اپنی مرضی سے آپ مسلمان نہیں ہیں تو تشویش کا شکار ہوں گے کہ مسلمان آئندہ کسی وقت اکثریت میں آجائیں گے۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہود و برہمن کی طرح اسلام کوئی نسلی دین ہے، جس کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ کی بنیاد محض افزائشِ نسل ہے۔
نگاہوں سے اوجھل، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ کسی نسل، قبیلے، برادری سے منسوب نہیں ہے، نہ ہی اسے کسی خطے، ملک یا قوم سے کوئی علاقہ ہے۔ اس کا نام خود ظاہر کرتا ہے کہ ملک گیری اس کا مقصود نہیں۔ ’’اسلام‘‘ کی صفت لوگوں میں پیدا کرنا اس کا مقصد ہے۔ فرد میں بھی، معاشرے میں بھی، سیاست میں بھی، ریاست میں بھی، معیشت میں بھی، تجارت میں بھی۔ آج ہماری سیاست و حکومت میں لادینیت کی آمیزش ہے۔ معیشت و تجارت میں سود اور جذبۂ زَراندوزی کی حکمرانی ہے اور سماج و معاشرت میں شکم وشہوت کی پرستش چھائی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اپنی شناخت وطنی قومیت اور پھر اسلام سے ظاہرکرتی ہے۔ جو اس سے بلند ہوتے ہیں وہ بھی مسلم ’’قوم‘‘ کے دائرے سے بلند نہیں ہو پاتے۔ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ محض آبادی کی بنیاد پر دنیا میں وہ تبدیلی، جو اسلام کو مطلوب ہے، نہیں لائی جا سکتی۔ بلکہ اِسی بڑھتی ہوئی آبادی کی بنا پر ہمیں کچھ اور مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیسے غربت وافلاس، جہالت و پسماندگی۔ بعض لوگ اسی پر خوش ہیں کہ بھوکوں کی تعداد بڑھے گی تو کسی دن بھوک سے بلبلا کر ظالموں کو بھنبھوڑ ڈالے گی اور ہم ان باغیانہ جذبات کو چینلائز کرکے اسلامی انقلاب کی راہ نکال لیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی کوئی حرکت نہ ماضی کے ریکارڈ کا حصہ ہے اور نہ اب ممکن نظر نہیں آتی ہے۔ آج مسلمانوں کی صورتحال حضورﷺ کی اِس پیش گوئی کے مطابق ہے:
ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ کفار تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گے جیسے بھوکے دستر خوان پر۔ صحابہؓ نے سوال کیا، حضورؐ! کیا اُس وقت ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہوں گے؟
فرمایا: نہیں، بلکہ تم بڑی تعداد میں ہوگے۔ لیکن تمہیں ’’وہن‘‘ کا مرض لاحق ہوجائے گا۔
سوال کیاگیا: ’’وہن کیا ہوتا ہے۔‘‘
فرمایا: حب ِ دنیا اور کراہیتِ موت۔
دنیا کی محبت صرف مال و دولت کے جمع کرنے تک ہی محدود نہیں، بلکہ صرف دنیا ہی میں حاصل ہونے والے نتائج پر نظر رکھنا بھی اس میں شامل ہے۔ اسی طرح موت سے کراہت صرف میدانِ قتال میں کود جانے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ یہ پورے طرزِ زندگی پر حاوی ہے۔ حقیقتاً موت تو مومن کے لیے رب سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔ اس لیے بندۂ مومن اس کے تصّور سے ایک درجہ مسرت بھی محسوس کرتا ہے۔ لیکن یہ اْس وقت ہوتا ہے جب اس نے آخرت کے نتائج کو پیشِ نظررکھ کر زندگی گزاری ہو۔ اس لیے قرآن مجید میں کراہتِ موت کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ انہوں نے جو اعمال آگے بھیجے ہیں ان کے برے نتائج کے سبب طولِ عمر کے خواہش مند ہیں، حالانکہ لمبی عمر کسی کو پیش آنے والے برے انجام سے نہیں بچاسکتی۔
PEW کی رپورٹ میں آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بھی دکھایا گیا ہے۔
۲۰۱۰ء میں مسلم ممالک میں ۳۰ سال تک کی عمر کے افراد کا تناسب ۴ء۶۰ فیصد ہے۔ جبکہ ۳۰ سال سے ۶۰ سال تک کے افراد ۳ء۳۲% ہیں اور ۶۰ سال سے زائد ۳ء۷ فیصد ہے۔
۲۰۳۰ء میں مسلم جماعت میں ۳۰ سال تک کی عمر کے افراد کم ہوکر ۴ء۵۰ فیصد رہ جائیں گے۔ جبکہ ۳۰ سال سے ۶۰ سال کے ۷ء۳۷ فیصد ہوں گے اور ۶۰ سال سے زائد عمر کے افراد ۹ء۱۱ ؍فیصد ہو جائیں گے۔
بالعموم مسلم اکثریتی ممالک میں آبادی میں نوجوانوں کا تناسب زیادہ ہے۔ ۲۰۱۰ء کے اعدادو شمار کے مطابق ۳۰ سال سے کم عمر افرادکا تناسب ۶۰فیصد ہے، اس کے برخلاف یورپ اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتاہے کہ وہاں صرف ایک تہائی آبادی ۳۰ سال سے کم عمر کی ہے۔
یہ جوانی بڑی خوش آئند ہے لیکن نوجوان کس صورت حال سے دوچار ہیں اور کس کیفیت میں مبتلا ہیں، اس کا کچھ اندازہ اُس سروے رپورٹ سے ہوتا ہے جو IRI نے چند ماہ پہلے جاری کی تھی۔
International Republican Institute کے سروے جولائی ۲۰۰۹ء کے مطابق پاکستان کے نوجوان ابہام کا شکار ہیں۔ انہیں جمہوریت پر اعتبار نہیں، سیاستدانوں کو مطلب پرست سمجھتے ہیں، مغربی/ امریکی مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں، کرپشن کو مستقل بیماری سمجھتے ہیں جو پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے۔ ان کے نزدیک ملازمتوں کے مواقع کا نہ ہونا اور کم تعلیم، بنیادی مسائل ہیں۔ ان کی سوچ منتشر ہے کہ ملک کو کیسے چلایا جائے۔ ایک تہائی نوجوان جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں کہ یہی بہترین نظامِ حکومت ہے۔ ایک تہائی شرعی قوانین چاہتے ہیں، جبکہ ۷ فیصد ڈکٹیٹر شپ کے قائل ہیں۔ ایک تبصرہ نگار نے اس رپورٹ کے اجراء کے بعد تبصرہ کیا:
’’پاکستانی نوجوانوں کو کسی بات پر پختہ یقین نہیں ہے۔ شاید وہ شرعی قوانین چاہتے ہیں یا شاید جمہوریت۔ اس سب کے باوجود وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں‘‘۔ تمام متضاد رویوں کو دیکھنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ:
“Young Pakistanis don’t like this country, but they love it”. (یعنی نوجوان پاکستانی اپنے ملک کو پسند نہیں کرتے، مگر وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔)
جب کسی ملک میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ پائے جاتے ہوں جن کی افزائشِ نسل کی صلاحیت عروج پر ہو تو یہ وقت ہوتا ہے آبادی میں تیز رفتار اضافے کا۔ اس جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں آبادی میں اضافے کا سبب یہ نہیں ہے کہ ایک مسلم جوڑا زیادہ بچے پیدا کرے گا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیدا کرنے والے جوڑے زیادہ ہیں۔ البتہ ہر جوڑے کی پیداوار کا تناسب زیادہ تر مسلم معاشروں میں مسلسل گر رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً نصف (۸ء۴۷ فیصد) مسلم خواتین مانعِ حمل طریقے اختیار کرتی ہیں۔ اس لیے اسی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۳۰ء کے بعد مسلم آبادی میں اضافے کا تناسب وہ نہیں رہے گا جو آج ہے۔ اور اسی طرح مسلم آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بھی ۲۰۳۰ء کے بعد گرنا شروع ہوجائے گا۔
راکھ کا ڈھیر کتنا ہی بڑا ہو، راکھ کا ڈھیر ہی کہلائے گا۔ البتہ اس میں موجود خفتہ چنگاری کی پہچان، تلاش اور اس کی حرارت میں اضافہ کرنا اصل کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ چنگاری کیا ہے؟ وہ ہے عقیدۂ توحید، محبت رسولؐ اور افرادِ امت کا اپنے ذاتی و وطنی اور گروہی مفاد سے بالا تر ہونا۔ یہ امت برپا ہی تمام انسانوں کے لیے کی گئی ہے اور حقیقتاً تمام انسانوں کے دکھو ں کا مداوہ اس کے پاس ہے۔ پوری انسانیت کو اپنے Canvas اور Focus میں لائے بغیر یہ اُمت نہ اپنا مستقبل بہتر بنا سکتی ہے اور نہ پوری دنیا کے لیے خیرِ اُمت بن سکتی ہے۔
یہ وقت ہے سوچنے، سمجھنے اور کچھ کر نے کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے کہ وہ اصلاحِ احوال پر خصوصی توجہ دیں۔ بالخصوص نوجوانوں پر توجہ کی فوری ضرورت ہے۔ ورنہ جو مواقع اس امت کے لیے آئندہ دو دہائیوں میں پنہاں ہیں، وہ ضائع ہو گئے تو شاید صدیوں تک دوبارہ میسر نہ آسکیں۔
☼☼☼
Leave a Reply