
زیر نظر مضمون کا بنیادی مقصد خوارج اور ترکی کی گولن تحریک کے طریق ہائے فکر و کار میں مماثلت تلاش کرنا ہے۔ یہ مضمون فتح اللہ گولن کی تحریک کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔
یہ مضمون ترکی سے باہر ان مسلم نوجوانوں کے لیے ضبطِ تحریر میں لایا گیا ہے، جو گولن تحریک کے بارے میں تمام بنیادی باتیں اُس طور نہیں جاتے جس طور ترکی کے لوگ جانتے ہیں۔
خوارج کی نفسیات … حقیقت پسندانہ سوچ
لوگوں کو قتل کرنے، اداروں کو تباہ کرنے اور کسی بھی ریاست یا خطے میں ترقی کے پورے عمل کو بنیاد سے محروم کرنے کے بہت سے طریقے رائج رہے ہیں۔ کچھ طریقے یکسر تباہ کن ہوتے ہیں اور کچھ ذرا کم۔ مسلم دنیا میں انتہائی تباہ کن طریقے انہوں نے اختیار کیے ہیں، جن میں عقل سے کام لینے کی صلاحیت برائے نام پائی جاتی ہے۔ ان کی سفاکیت اور حیوانیت اسی طور عیاں ہے جس طور سورج کی روشنی ہوا کرتی ہے۔ یہ بات ان کے مزاج میں پائی جاتی ہے یا پھر ذہن نشین کرادی گئی ہے کہ وہ جس قدر غیر انسانی طریقے اختیار کریں گے اسی قدر زیادہ غصہ باہر آسکے گا۔ اپنے فکری رجحانات سے باہر کی دنیا کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، گویا اس کا وجود ہی نہ ہو۔
خوارج نے امت میں زیادہ سے زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کے لیے اپنے غیر انسانی اطوار کو بھرپور قوت کے ساتھ اپنایا ہے۔ بیشتر کبار علما کے نزدیک خوارج دراصل منحرفین ہیں اور انہیں کافر نہیں گردانا جاسکتا۔ حضرت علی اور سعد بن ابی وقاص جیسے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے ان کا سامنا کیا مگر انہیں کافر قرار دینے سے یکسر گریز کیا۔ خوارج کا فتنہ دراصل حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ کے دور میں ابھرا۔ یہ طبقہ انقلابی نوع کی سوچ کا حامل تھا۔ ان میں بیشتر وہ تھے جو دور افتادہ علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور آخر آخر میں ایمان لائے تھے۔ انہوں نے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متعلق براہِ راست تربیت نہ ملنے پر بھی اپنے طور پر بہت کچھ سیکھا اور دین پر عمل کیا۔ مورخین بیان کرتے ہیں کہ خوارج میں بیشتر کا دین کے حوالے سے سخت غیر لچک دار میلان تھا۔ وہ کھانے پینے اور آرام کے معاملے میں عام آدمی سے بلند تھے اور رات کا ایک حصہ عبادت میں صرف کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد یہ خوارج حضرت علیؓ سے آملے مگر بعد میں اختلافات ابھرے۔ خوارج نے حضرت علیؓ کے بارے میں یہ رائے دی کہ وہ اللہ کی تعلیمات پر پورے کا پورا عمل نہیں کرتے۔ جب خوارج نے عام مسلمانوں کا خون بہانا شروع کیا تو حضرت علیؓ نے ان کی سرکوبی کی کوشش کی۔ خوارج کے سرغنہ عبدالرحمن ابن ملجم نے خود حضرت علیؓ کو شہید کیا۔ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق یسر بن عامر نے سہل ابن حنیف سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرمؐ نے پوچھے جانے پر بتایا کہ عراق کی طرف سے خوارج ظاہر ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر اللہ کا کلام ان کی زبان تک محدود رہتا ہے، حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ یہ اسلام سے اسی طور گزریں گے جس طور حلق سے کوئی تیر گزرتا ہے۔ ایک اور حدیث میں مذکور ہے کہ خوارج اہل ایمان کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ حدیث میں مزید مذکور ہے کہ اگر میں اُس دور میں ہوتا تو خوارج کو وہی سزا دیتا جو قوم عاد کو دی گئی تھی۔ ابو داؤد کی بیان کردہ ایک اور حدیث کے مطابق خوارج اس طور سامنے آئیں گے کہ ان کی زبان پر انتہائی شیریں کلام ہوگا اور عمل اس کے بقدر تلخ یا زہریلا ہوگا۔
آج ہم ’’داعش‘‘ کی شکل میں جس فتنے کا سامنا کر رہے ہیں، وہ دراصل خوارج ہی کی ایک شکل ہے۔ خوارج کا ’’نظریہ‘‘ تین ستونوں پر استوار ہوتا ہے۔
٭ اُن کے (خوارج کے) سوا تمام (مسلمان) کافر ہیں۔
٭ کسی بھی حکومت یا ریاست کی عملداری قبول نہ کی جائے۔ اور
٭ مسلمانوں کا خون بہانا جائز ہے، کیونکہ وہ اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ اب اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔
جہیمن کا طریق کار
مکہ مکرمہ کی معروف بغاوت، ہجری سن ۱۴۰۰ کے آغاز پر واقع ہوئی۔ جہیمن العتیبی کا تعلق ایک معزز گھرانے سے تھا۔ اس نے مدینہ کی اسلامی یونیورسٹی میں شیخ عبداللہ بن الباز کی سرپرستی میں دین کی تعلیم پائی تھی۔ جہیمن نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں انقلاب برپا کرنے کے حوالے سے کام کیا تھا۔ اس نے اپنے اچھے خاصے معتقدین تیار کیے۔ اسے دوسرے عرب معاشروں سے بھی ’’عقیدت مند‘‘ میسر ہوئے۔ وہ اچھا منتظم تھا اور اس کی بنیادی سوچ یہ تھی کہ انقلابی اطوار اپناکر معاشرے کو اپنی ذاتی کوششوں کی بدولت بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی عائد کی جائے، غیر مسلموں کو ارضِ مقدس سے نکال دیا جائے، ٹیلی وژن کی نشریات پر پابندی عائد کی جائے اور ملک کو مغرب کے سانچے میں ڈھالنے کا عمل روک دیا جائے۔ اس نے سعودی حکمران خاندان کو بھی بدعنوان قرار دے کر اس کے خلاف لڑائی کا اعلان کیا۔ اسے اور اس کے ساتھیوں کو کچھ مدت کے لیے قید کیا گیا، مگر بعد میں علما کی طرف سے کلیئرنس اور یہ کہے جانے پر کہ وہ معاشرے کے لیے کوئی خطرہ نہیں، انہیں چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد جہیمن العتیبی نے خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوکر امام مہدی کی آمد کا اعلان کیا۔ جہیمن نے محمد بن عبداللہ القہتانی سے ملاقات کی، جس کا تعلق ایک انتہائی معزز گھرانے سے تھا۔ بعد میں محمد بن عبداللہ القہتانی اس کا برادرِ نسبتی ہوگیا۔ دونوں بظاہر متقی مگر درحقیقت زہریلے تھے۔ دونوں کی طرز زندگی میں سادگی تھی اور وہ اسراف سے گریز کرتے تھے۔
جہیمن العتیبی نے ایک دن اپنے برادر نسبتی محمد ابن عبداللہ سے کہا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ مہدیٔ موعود وہ (محمد ابن عبداللہ) ہے۔ اس نے امام مہدی کا اسکرپٹ تیار کیا اور اسے پوری قوت کے ساتھ بیان کیا۔ اس نے ایک حدیث کا سہارا بھی لیا جس میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرمؐ نے بیان کیا کہ ’’قیامت برپا نہ ہوگی جب تک قہتان سے ایک ہانکنے والا نہ آجائے اور سب کو ہنکاتا ہوا لے جائے‘‘۔ سنن ابی داؤد میں بھی ابو سعید الخدری سے روایت درج ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ مہدی میرے سلسلۂ نسب سے ہوگا۔ وہ کشادہ پیشانی کا حامل اور بڑی، پتلی اور مڑی ہوئی ٹھوڑی کا حامل ہوگا۔ وہ دنیا میں ہر طرف امن اور انصاف کا بول بالا کردے گا۔ اس کی حکمرانی سات برس تک رہے گی۔ حدیث میں یہ بھی درج ہے کہ ایک خلیفہ کی موت پر تنازع کھڑا ہوگا۔ مدینہ کا ایک شخص تیزی سے مکہ مکرمہ تک آئے گا۔ مکہ مکرمہ کے کچھ لوگ اسے اس کی مرضی کے خلاف نکال کر باہر لائیں گے اور خانہ کعبہ کی حدود میں اس سے وفاداری کا عہد کریں گے۔ اس کے خلاف شام سے ایک فوج بھیجی جائے گی، جسے مکہ مکرمہ اور مدینۂ منورہ کے درمیان صحرا نگل لے گا۔ جب لوگ یہ دیکھیں گے تو شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے اللہ کے برگزیدہ بندے مکہ مکرمہ پہنچ کر خانہ کعبہ کی حدود میں اس مہدیٔ موعود سے وفاداری کا حلف اٹھائیں گے۔
جہیمن العتیبی اور القہتاوی نے طے کیا کہ خانہ کعبہ پر قبضہ کرکے وہاں آئے ہوئے لوگوں سے اس (القہتاوی) کے لیے بیعت لیں گے۔ جہیمن العتیبی نے سعودی عرب اور باہر سے اپنے ۵۰۰ عقیدت مندوں کو تیار کیا۔ انہیں مسلح کرکے مختلف بھیس بدلواکر خانہ کعبہ میں پہنچایا گیا۔ پھر ۲۱ نومبر ۱۹۷۹ء کا دن بھی آیا جب جہیمن نے فجر کی صلوٰۃ کے بعد امام کعبہ سے مائکروفون چھینا اور مہدیٔ موعود کے ظہور کا اعلان کیا۔ مہیمن العتیبی کے کہنے پر مسلح افراد کو جگہ جگہ کھڑا کردیا گیا تھا تاکہ وہ حرمِ کعبہ کی حدود میں موجود لوگوں سے القہتاوی سے وفاداری کا حلف لیں۔ یہ سب کچھ ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے القہتانی کو وہاں بزور لایا گیا ہو۔ حرم میں بہت سے نمازیوں اور طواف میں مصروف افراد نے شدید بے حواسی کے عالم میں القہتانی کے ہاتھ پر بیعت بھی کی۔ اس صورت حال نے سعودی حکومت کو شدید مشکل میں ڈال دیا، کیونکہ حرم کی حدود میں خون بہانا حرام ہے۔ یہ فتنہ کم و بیش دو ہفتے جاری رہا اور متعدد پولیس اہلکار خوارج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ حکومت نے شیخ عبداللہ بن الباز سمیت تمام جیّد علماء سے مشاورت کی اور انہوں نے فتویٰ جاری کیا کہ خانہ کعبہ کا محاصرہ کسی بھی طور ختم کرایا جائے۔ اس کارروائی میں معتمرین سمیت ۱۰۰ سے زائد افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ جہیمن کو اس کے ۶۷ معتقدین سمیت سزائے موت سنائی گئی اور ان کے سر قلم کردیے گئے۔ سزائے موت پر عمل کیے جانے سے قبل صرف شیخ محمد امین شنقیتی کو جہیمن العتیبی سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔ اس نے شنقیتی سے کہا کہ اس نے جو کچھ بھی کیا وہ معاشرے اور حکومتی نظام کی اصلاح کے لیے تھا۔
فتح اللہ گولن کا (نیا) طریق کار
ترکی کے فتح اللہ گولن کی حزمت تحریک ایک باضابطہ مسلک یا فرقے کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ انگریزی میں کہیے تو یہ ایک cult ہے۔ عام تعریف کے مطابق cult کا مطلب ہے ’’کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے اختیار کی جانے والی مذہبی تعلیمات کی تعبیر جس میں مرکزی شخصیت یا چند شخصیات کے لیے غیر معمولی عقیدت شامل ہو‘‘۔ حزمت تحریک بھی چار عشرے قبل اسلام کی سربلندی اور غلبۂ دین کے احیا کے نام پر شروع کی گئی تھی مگر رفتہ رفتہ اس میں شخصیت پرستی داخل ہوتی گئی۔ اس تحریک کی معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی اور بہبودِ عامہ سے متعلق سرگرمیوں کا جائزہ لینا اس مقالے کا بنیادی مقصد نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فتح اللہ دین کا فہم رکھتے ہیں اور وہ عبادات کے حوالے سے بھی نمایاں حیثیت کے حامل رہے ہیں، مگر حزمت تحریک کے ذریعے انہوں نے جو طریق کار اختیار کیا ہے، اس کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ان کی منافقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دنیا کو دکھانے کے لیے وہ امن پسند اور معاشرتی تبدیلیوں کے نقیب ہیں جبکہ دوسری طرف وہ ترک معاشرے میں غیر معمولی بنیادی تبدیلیاں یقینی بنانے کے حوالے سے فری میسن تحریک کی طرز پر سرگرمیاں جاری رکھتے آئے ہیں۔ ان کے سابق دست راست لطیف ایردوان نے (جن کا ترک صدر رجب طیب ایردوان سے کوئی رشتہ یا تعلق نہیں) اپنی نئی کتاب کا عنوان (شیطان کا مسکراتا ہوا چہرہ) بالکل درست رکھا ہے۔ فتح اللہ گولن نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جو طریق اختیار کیا ہے، وہ جدید اسلامی تاریخ میں نمایاں ہے۔ گیارہویں صدی میں حشیشین کی دین مخالف تحریک سے البتہ اس کے ڈانڈے ملتے ہیں۔
حشیشین دراصل شیعہ فاطمی خلافت کا پیدا کردہ پیشہ ور قاتلوں کا گروہ تھا۔ اس کا سرخیل حسن الصباح تھا۔ اس گروپ کا بنیادی کام عباسی اور سلجوق حکمرانوں کے علاقوں میں فاطمی سلطنت کی توسیع کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کرنا تھا۔ یہ گروپ اس قدر طاقتور تھا کہ لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے بھی خوف محسوس کیا کرتے تھے۔ حشیشین غیر معمولی تربیت یافتہ ہوتے تھے۔ وہ اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے کبھی کبھی برسوں صبر سے انتظار کیا کرتے تھے۔ وہ بھیس بدلنے کے ماہر تھے اور مقامی زبانیں اور بولیاں بھی سیکھتے تھے تاکہ ہدف تک پہنچنا آسان ہو۔ جن سیاسی اور حکومتی شخصیات کو قتل کرنے کا ہدف انہیں سونپا جاتا تھا، اس سے نزدیک ہونے کی وہ بھرپور کوشش کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ بہت سی قربانیاں بھی دیتے تھے اور اپنے آپ کو تمام ممکنہ اہداف کی نظر میں قابل اعتبار بناتے تھے۔ اس طریق سے وہ محافظیں میں بھی سرایت کر جاتے تھے اور اس صورت میں ان کا کام بہت آسان ہو جاتا تھا۔
حزمت یا گولن تحریک موجودہ حیثیت میں اپنے آپ میں ایک ریاست کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کا ایک مسلح بازو ہے، جس سے وابستہ افراد ریاست کے نہیں بلکہ فتح اللہ گولن کے وفادار ہیں۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس مسلح بازو کی پولیس فورس ہی نہیں بلکہ باضابطہ جنگجو فورس بھی ہے جو فضائی اور بحری حملے کرنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔ گولن تحریک کا نام یا اس کے ماننے والوں کی نمایاں علامات کسی بھی اعتبار سے چونکانے والی نہیں۔ اس کے کسی بھی ونگ کا نام القاعدہ یا داعش کی طرح عربی طرز کا نہیں۔ فتح اللہ گولن کے معتقدین داڑھیاں نہیں رکھتے۔ تعلیمی اداروں، میڈیا آؤٹ لیٹس اور سرکاری مشینری میں مصروف اس تحریک کے لوگ مکمل آزادی کے ساتھ کام کرتے آئے ہیں۔ اگر کہیں کوئی رکاوٹ کھڑی ہوئی تو انہوں نے یا تو سفاکی سے کچل دی یا پھر ریاست کے نام پر قانونی جنگ لڑی تاکہ کسی کو کوئی شبہ نہ ہو۔
کسی کو قتل کرنے کا ایک یہی طریقہ نہیں ہے کہ اس کی گردن اڑادی جائے یا کسی اور طریقے سے سانسوں کا تسلسل ختم کردیا جائے۔ نفسی سطح پر بھی قتل کیا جاسکتا ہے یعنی انسان کو اس قابل ہی نہ چھوڑا جائے کہ وہ ڈھنگ سے جی سکے یا عزائم کی راہ میں دیوار بن سکے۔ بہت سے ممالک اس حوالے سے مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے پاس غیر معمولی مقدار میں قدرتی وسائل موجود ہیں مگر پورا نظام اس قدر مفلوج ہے کہ بالکل عمومی سطح پر زندگی بسر کرنے سے زیادہ کا سوچنا ان کے بس کی بات نہیں۔ دنیا بھر میں ایسے معاشرے موجود ہیں جنہیں مختلف طریقے اختیار کرکے مفلوج کردیا گیا ہے۔ یعنی ضروری نہیں کہ قتل عام کے ذریعے ہی کسی معاشرے کو مفلوج کیا جائے۔ سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کرکے، قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کی راہ میں روڑے اٹکاکر بھی یہ مقصد بخوبی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو تباہی سے دوچار کرنے کے لیے توپ چلانا لازم نہیں۔ تعلیمی نظام کو صفر کی سطح پر لاکر بھی یہ ہدف عمدگی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ کسی نہ کسی طور اپنے مقاصد کا حصول یقینی بنانا چاہتے ہیں وہ کوئی بھی طریق اختیار کرسکتے ہیں اور ہر طریق کو وہ اپنے لیے درست ہی قرار دیتے ہیں۔
’’آفاقی امام‘‘ کا ذہن
فتح اللہ گولن ڈھکی چھپی شخصیت کے حامل ہیں۔ ایسے لوگ آسانی سے لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتے۔ وہ اپنی سوچ اور ارادوں کو ایک خاص حلقے تک محدود رکھتے ہیں۔ گولن اپنے خول میں بند رہنے کے فن میں ماہر ہیں۔ وہ کبھی کبھی میڈیا کے سامنے آتے ہیں مگر اس انداز سے کہ لوگ ان سے ہمدردی محسوس کریں۔ کہیں وہ بلڈ پریشر چیک کرا رہے ہوتے ہیں اور کہیں دوا لے رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ یہ دکھانے کے لیے ہے کہ وہ امریکا میں مقیم ہیں تو صرف علاج کی غرض سے، اور کوئی مقصد نہیں۔
گمنامی یا ’’لو پروفائل‘‘ میں رہنے والی شخصیات عام طور پر اپنی بات ایک خاص حلقے کی حدود میں رہتے ہوئے کرتی ہیں۔ اور اگر کبھی عوام سے براہِ راست بات کرنا پڑے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگ ان کی بات آسانی سے سمجھ نہ پائیں اور بس غور ہی کرتے رہ جائیں۔ اپنے حلقے سے باہر یہ لوگ عموماً خاموش رہتے ہیں یا بہت ہی کم بولتے ہیں۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ فریق ثانی کی بات سن رہے ہیں جبکہ ان کا ذہن تیزی سے کام کر رہا ہوتا ہے، نئے منصوبے تیار کر رہا ہوتا ہے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ وہ سب کے ساتھ ہیں مگر در حقیقت یہ لوگ صرف اپنے قریبی یا اندرونی حلقے کے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔
یہاں عرب دنیا اور ترکی کے مزاج اور حالات کا فرق سمجھنا لازم ہے۔ عرب دنیا میں مطلق العنان حکمرانوں نے مخالفین کو کچلنے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ معمولی اختلاف کرنے والوں کو بھی ٹھکانے لگایا جاتا رہا ہے۔ عرب حکمرانوں نے عبادات پر کبھی کوئی قدغن نہیں لگائی مگر جب بھی کوئی شخص معاشرتی اور سیاسی تبدیلی کی بات کرتا ہے، وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں اور نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے یا ایسا سوچنے والوں کو نہیں چھوڑتے۔
ترکی میں معاملات بہت مختلف رہے ہیں۔ کمال اتا ترک کے دور سے ’’عربوں کا مذہب‘‘ زندگی کے ہر معاملے سے خارج کرنے کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ کئی نسلیں الحاد اور مادّہ پرستی کے سائے میں جوان ہوئی ہیں۔ یہ لوگ جب عملی زندگی میں کچھ کرنے کے قابل ہوئے تو مذہب کے خلاف صف آرا رہے۔ انہی میں سے حکمران بھی آئے، جو الحاد اور سیکیولر ازم کو ہر معاملے کی بنیاد بنانے پر کمر بستہ رہے۔ انہوں نے زندگی کے ہر شعبے سے اسلام کو دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ تعلیمی ڈھانچا پورا کا پورا سیکیولر کردیا گیا، جس کے نتیجے میں آنے والی نسلیں الحاد اور سیکیولر ازم سے متصف ہوتی رہیں۔
ایسے ماحول میں اسلام کا احیا پرامن طریقوں سے ہی ممکن تھا۔ جو لوگ اسلام کی بات کرنا چاہتے تھے، وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ ایسا کچھ نہ کریں جس سے لوگ متنفر ہوجائیں اور اپنی طرز زندگی کے لیے کوئی بڑا خطرہ محسوس کریں۔ اسلام کی بات کرنے والے غیر محسوس طریقے سے یہ پیغام دیتے تھے کہ اسلام جدید مغربی طرز زندگی کا مخالف نہیں اور اس سے ہم آہنگ ہو رہنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ترکی میں صوفی گروپ پہلے سے موجود تھے، جن سے حکومتی نظام کو بظاہر کوئی خطرہ نہ تھا مگر اسلام کی بات کرنے والے اپنی الگ شناخت چاہتے تھے۔ صوفی گروپوں سے بھی ان کے روابط تھے اور کسی حد تک ہم آہنگی بھی تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ اپنی الگ شناخت قائم کریں۔ انہوں نے یہ محسوس کرانے کی بھی کوشش کی کہ وہ لہو و لعب میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کے لیے تیار ہیں اور بدعنوان لوگوں کو بھی۔
فتح اللہ گولن اس ماحول کی پیداوار ہیں۔ جہیمن العتیبی کی طرح وہ بھی انتہائی باصلاحیت ہیں مگر ان میں موقع شناسی اور چالاکی جہیمن سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ صبر و تحمل سے کام لینے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے جہیمن کی طرح خود کش حملہ آور کے سے انداز سے سامنے آنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ سیکیولر عناصر کے ساتھ چلتے رہے ہیں۔ ان میں گھل مل کر انہوں نے ہر وہ کوشش کی ہے، جو بھرپور کامیابی کے لیے کی جانی چاہیے۔ فتح اللہ گولن نے سابق صدر کنعان ایورن جیسے انتہائی سیکولر ذہن کے حامل شخص کے ساتھ بھی کام کیا اور سابق وزیر اعظم سلیمان دیمرل کے دور میں بھی نمایاں کام کیا۔ یہ دونوں ترکی میں اسلام کے احیا کی ہر کوشش کا قلع قمع کرنا اپنا فرض گردانتے تھے۔ کنعان ایورن اور سلیمان دیمرل نے فتح اللہ گولن کو استاذ نجم الدین اربکان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ نجم الدین اربکان ترکی میں اسلام کا اس کی روح کے ساتھ احیاء چاہتے تھے۔ فتح اللہ گولن نے کنعان ایورن اور سلیمان دیمرل کو بھی ایک طرف ہٹاکر اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کی۔
سیکولر عناصر اپنی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ برداشت نہیں کرتے۔ وہ ہر حال میں اپنے اقتدار کی طوالت چاہتے ہیں۔ جیسے ہی وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اقتدار کی راہ میں کوئی دیوار کھڑی ہو رہی ہے، وہ اس کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اقتدار کو محفوظ رکھنے اور طول دینے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنے ذاتی تحفظ سے بھی غرض ہوتی ہے۔ اس معاملے میں کوئی بھی ان کی نفسیات سے خوب کھیل سکتا ہے۔
ایردوان کو چالاکی سے مات دینے میں شکست
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ رجب طیب ایردوان نے اختلافات کے باوجود فتح اللہ گولن کی راہ میں کوئی بڑی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ملک کی انتظامی مشینری میں قابل اور اسلام کی طرف واضح رجحان رکھنے والوں کی کمی تھی۔ اس کمی کو پورا کرنے میں ایردوان نے دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ گولن تحریک سے بھی استفادہ کیا۔ گولن کے بہت سے معتقدین کو اہم سرکاری عہدوں پر فائز کیا گیا۔
ایردوان کو سمجھنے میں گولن سے غلطی ہوئی۔ ایردوان میں غیر معمولی دور اندیشی ہے۔ وہ ملک کے حال کے ساتھ ساتھ مستقبل پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے ملک کے طویل المیعاد استحکام کو ہمیشہ اولیت دی ہے۔ انہوں نے ریاست کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے والوں سے گلوخلاصی کی جامع حکمت عملی تیار کی ہے۔ ایردوان واضح کرچکے ہیں کہ وہ ریاست کے اندر ریاست کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اس معاملے میں انہیں موت کی بھی پروا نہیں کہ کفن ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ انہوں نے اہم سرکاری عہدوں پر فتح اللہ گولن کے خیالات سے اتفاق کرنے والوں کو فائز کرنے میں بخل یا سختی سے کام نہیں لیا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ فتح اللہ گولن نے ایردوان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، انہیں دھوکا دیا۔ ایردوان کو سرکاری مشینری میں اسلامی رجحان رکھنے والوں کو کھپانا تھا۔ اس معاملے میں افرادی قوت انہوں نے گولن تحریک سے بھی لی۔
فتح اللہ گولن سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے شدید خود اعتمادی کی لہر میں یہ سمجھ لیا کہ اب وہ ایردوان کو بلیک میل کرکے اپنی مرضی کے مطابق کام کرسکیں گے۔ ۲۰۱۱ء کے عام انتخابات کے موقع پر گولن نے ایردوان کو ۱۰۰؍افراد کے نام پیش کیے اور ان کے لیے انتخابی ٹکٹ کی فرمائش کی۔ یہیں سے بگاڑ پیدا ہوا۔ ان میں سے کوئی ایک نام بھی ایسا نہ تھا جسے مقبولیت حاصل ہوئی ہو اور عوام میں ان کی جڑیں بھی نہ تھیں۔ انہوں نے گولن کی دی ہوئی فہرست مسترد کردی۔ یہ بات گولن کو سیخ پا کرنے کے لیے کافی تھی۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
(The Gulen Movement by Mohammad Asim Alavi)
Leave a Reply