
عرب ریاستوں میں رقابت نے ہمیشہ ہی فلسطین کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ قطر اور چار عرب ریاستوں کے درمیان ایک ماہ سے برقرار کشیدگی کے غیرمتوقع نتائج سامنے آئے اور فلسطین کے دو مخالف گروہ حماس اور غزہ کے سابق سیکورٹی چیف محمد دہلان قریب آگئے ہیں۔ حماس تنظیم غزہ میں اکثریت رکھتی ہے اور اسے قطر کی حمایت حاصل ہے۔ غزہ کے سابق سیکورٹی چیف محمد دہلان ان دنوں متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں، وہ فلسطین پر حکومت کررہی فتح پارٹی کی قیادت کے قریب سمجھے جاتے رہے ہیں۔
حماس نے اس ہفتے تسلیم کیا ہے کہ ان کے نمائندے کچھ عرصے سے محمد دہلان کے کیمپ سے رابطوں میں ہیں اور یہ بات چیت حتمی نتیجے یعنی معاہدے تک پہنچ گئی ہے۔ یہ انکشاف حماس کے پولیٹیکل بیورو کے نائب سربراہ خلیل الحیہ نے غزہ میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مذاکرات کے باعث ہی سعودی وزیر خارجہ عدل الجبیر نے حماس کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا۔ یہ فہرست سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے تشکیل دی تھی جس میں قطر کے حمایت یافتہ انسٹھ افراد اور تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔
سینئر فلسطینی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ مذاکرات کے حالیہ دور قاہرہ میں محمد دہلان کے گھر پر ہوئے، جس میں حماس تنظیم کے وفد نے غزہ میں اپنے سربراہ یحییٰ السنوار کی قیادت میں شرکت کی۔ اس موقع پر حماس کے سینئر رہنما ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق، محمد دہلان اور ان کے چیف لیفٹیننٹ اور فتح پارٹی کے سابق سیکورٹی عہدے دار سمیر المشاروی بھی موجود تھے۔
خلیل الحیہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کئی اہم نکات بیان کیے۔
اول:۔ خلیل الحیہ نے دعویٰ کیا کہ مصری حکام سے حالیہ مذاکرات میں حماس کو اہم پیش رفت حاصل ہوئی، جسے انہوں نے اب تک کی بہترین پیش رفت قرار دیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ مصر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ محاصرے میں گھرے غزہ والوں کے مسائل میں کمی کے لیے اقدامات کرے گا، جس میں رفح سرحد روزانہ کی بنیاد پر کھولنے اور سامان کی نقل و حمل کے لیے کمرشل راہداری کا قیام بھی شامل ہے۔
دوم:۔ خلیل الحیہ نے یہ اعلان کیا کہ خلیج کے حالیہ تنازع میں حماس غیرجانب دار رہے گا۔ خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ حماس سب ملکوں سے متوازن تعلقات چاہتا ہے اور تنظیم اس تنازع کا حصہ نہیں۔ حماس کو غیرضروری طور پر اس تنازع میں الجھایا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوحا کی طویل اور مستقل حمایت کے باجود حماس اس وقت قطر کے مورچے کا حصہ نہیں۔ حماس نے شام کے تنازع سے سبق سیکھا ہے، جس میں ابتداً تنظیم کے حامی دمشق اور اپوزیشن کی اسلام پسند جماعتوں کے درمیان تقسیم ہوگئے تھے۔ حماس اب ماضی میں کی گئی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتی۔
سوم:۔ خلیل الحیہ نے پریس کانفرنس کے دوران حماس کے ایران سے تعلقات کو متوازن اور بہتر قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اْن کی تنظیم تہران سے تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے اور فلسطینیوں کی حمایت کے لیے ایران کی کوششوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے حماس اور تہران کے درمیان مفاہمت قریب ہے۔
چہارم:۔ خلیل الحیہ نے بتایا کہ حماس، قومی محاذ برائے نجات، کے قیام کے لیے فلسطین کے تمام گروہوں سے رابطے میں ہے۔ یہ قومی محاذ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے متبادل یا متوازی اسٹرکچر کے طور پر کام کرے گا۔
مصر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے حماس کے لیے اچانک نرمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ملکوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ قطر کو فلسطین کارڈ سے ہمیشہ کے لیے محروم کردیا جائے۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف مرکزی مزاحمتی تحریک کے طور پر حماس کو عربوں کی واضح حمایت حاصل ہے اور قطر کے حریف اپنے اقدامات سے یہ اشارہ دینا چاہ رہے ہیں کہ دوحا کے خلاف اقدامات کی وجہ حماس کے لیے قطر کی حمایت ہرگز نہیں۔ یہ منصوبہ ظاہراً کامیاب نظر آرہا ہے اور اس نے دوحا میں مقیم حماس کی قیادت، خاص طور پر حماس کے سینئر رہنما خالد مشعل کو تکلیف دہ صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ خالد مشعل نے قطر کے معاملے میں محمد دہلان سے مفاہمت کی مخالفت کی تھی۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ قطر کی جگہ متحدہ عرب امارات غزہ کی پٹی کا بڑا مالیاتی اور معاشی حامی بن کر سامنے آئے گا، محمد دہلان اس کا ذریعہ بنیں گے اور مصر کی رضامندی سے یہ سہولت کاری اور تعاون فراہم کیا جائے گا۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ حماس بھی متبادل کے طور پر مصر کو سیکورٹی معاملات میں سہولت فراہم کرے گی۔ اس میں مصر سے ملحقہ غزہ کی سرحد کا تحفظ، پہلے سے موجود سرنگیں بند کرنا اور نئی سرنگوں کی تعمیر روکنا شامل ہوں گی۔ اس کے علاوہ سینائی میں داعش سے تعلق رکھنے والے سترہ مشتبہ افراد کی حوالگی بھی متوقع ہے۔ مصر کا موقف ہے کہ داعش کا اہم کمانڈر شادی المنائی غزہ میں چھپا ہوا ہے۔
محمد دہلان ۲۰۰۷ء سے پہلے غزہ میں حماس کے سخت حریف تصور کیے جاتے تھے لیکن فتح پارٹی کی گزشتہ برس کی کانگریس میں اْن کا اخراج ہوا اور اب حماس سے یہ رابطے اس بات کا اعلان ہیں کہ محمد دہلان نے رام اللہ میں محمود عباس اور ان کی حکومت سے مکمل قطع تعلق کرلیا ہے۔ یہ معاملہ فی الواقع غزہ کی پٹی کی آزاد اور جداگانہ حیثیت کو مضبوط دلیل فراہم کرتا ہے یا اسے درحقیقت امارت کہا جائے۔
محمود عباس غزہ والوں کے اچھے ساتھی نہیں اور انہوں نے غزہ کی پٹی میں فلسطینی حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی جیسا جانب دارانہ اقدام کرکے فاش غلطی کی۔ مزید برآں انہوں نے غزہ والوں کو تنہا کیا اور غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کی کوششوں کو دوام بخشا۔ اب محمود عباس غزہ کی پٹی کے شمسی توانائی منصوبے کے لیے ایندھن کی ادائیگیوں کو روکنے کی دھمکی دے رہے ہیں اور غزہ کی بجلی منقطع کرنے کے لیے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ محمود عباس یہ امید بھی لگاسکتے ہیں کہ اسرائیل پر دوبارہ میزائل حملے کے نتیجے میں غزہ میں گڑ بڑ ہو۔ اس کا مقصد اسرائیل کو اشتعال دلانا ہے تاکہ وہ جواب میں غزہ پر تباہ کن حملہ کرکے حماس کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔ لیکن گزشتہ موقعوں کی طرح یہ بھی غلط ثابت ہوگا۔
محمود عباس حماس کو سزا دینے کے لیے یہ اقدامات اس یقین کے ساتھ کررہے ہیں کہ غزہ والے حماس تنظیم اور اس کی تحریک کے خلاف بغاوت کردیں۔ لیکن محمود عباس اس طرح صرف اپنے بھوکے اور محاصرے میں گھرے ہم وطنوں کو ہی سزا دے رہے ہیں جبکہ حماس کو اپنے اقتدار کے دشمن محمد دہلان کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
بیشتر فلسطینیوں کو شبہ ہے کہ محمود عباس درحقیقت غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور حماس۔دہلان معاہدے سے اس خواہش کے حصول میں مدد ملی ہے لیکن یہ خواہش محمود عباس کو ایک بازو سے محروم صدر بنادے گی جو کسی امن معاہدے یا سیاسی رابطوں کے لیے تمام فلسطینی عوام کی نمائندگی کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ سب فلسطینیوں اور ان کی جدوجہد کے لیے تباہ کن ہوگا۔
اسرائیل خود بھی غزہ کی پٹی کو الگ کرنا چاہے گا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل مغربی کنارے میں اپنے قبضے اور غیرقانونی آبادیوں کی تعمیر پر توجہ مرکوز کرے گا۔ فلسطینی اتھارٹی کے چالیس ہزار جوانوں پر مشتمل سیکورٹی فورس اس کام میں اسرائیل کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرکے اپنی موجودگی کا جواز فراہم کرے گی۔
جہاں تک فلسطینی عوام کا تعلق ہے، اِن چالوں سے اْنہیں کوئی سروکار نہیں۔ زیادہ تر فلسطینی عوام، خاص کر غزہ کے رہنے والے اِس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کی تگ و دو میں ہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ معاشی، سیاسی اور جسمانی پابندیوں کے باعث اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت کی خواہش دم توڑ گئی ہے۔ مزاحمت کی اس تحریک نے جب بھی زور پکڑا تو اس کا انداز نیا ہوگا اور نئی قیادت کے تحت یہ تحریک آگے بڑھے گی۔ چاہے یہ قیادت فتح پارٹی سے ہو، حماس سے یا کہیں سے بھی سامنے آئے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں۔
(ترجمہ: فیض اﷲ خان)
“The Gulf Crisis and Palestine”. (“raialyoum.com”. June 27, 2017)
Leave a Reply