
گزشتہ سال ۵ جون کو جب سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر کی جانب سے قطر پر پابندیاں عائد ہوئیں تو بہت کم لوگوں کا خیال تھا کہ یہ زیادہ عرصے برقرار رہیں گی۔ ایک سال بعد قطر کی خارجہ پالیسی سے مایوس ہوکر اسے بدلنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات نے سیاسی اختلافات کو مزید گہرا کردیا ہے بلکہ اب خلیجی ممالک کا اتحاد بھی خطرے میں نظر آتا ہے۔
آج کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان پابندیوں کے منفی اثرات تمام متعلقہ ممالک پر مرتب ہوئے ہین جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔سعودی عرب نے اس اقدام کے ذریعے خلیجی ممالک کے دفاع کو داؤ پر لگا دیا ہے جنہیں وہ ایران کے توسیع پسندانہ عزائم سے بچانا چاہتا تھا۔
یہ بات واضح ہے کہ ابتدا میں قطر کو امید تھی کہ یہ پابندیاں کم وقت کے لیے ہوں گی اور اُس وقت قطر تعلقات کی بحالی کے لیے بے تاب تھا۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ قطر ایسا ہر قیمت پر چاہتا تھا۔جوں جوں ہفتے اور مہینے گزرتے گئے قطر نے اس کوشش پر زور دیا کہ وہ اس بحران میں سے بھی کوئی مثبت پہلو ڈھونڈنکالے۔تاکہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کی جانب سے تنہا کر دیے جانے کے جھٹکے سے نبٹ سکے ۔
قطر نے ملک میں بحرانی کیفیت کو معاشرتی ہم آہنگی اور معاشی پائیداری میں بدلنے کی صلاحیت کا متاثر کن مظاہرہ کیا ہے۔اس میں وہ مالی پالیسیاں بھی شامل ہیں جنہیں اپنانے سے پابندیوں کے دوران بھی قطری ریال مستحکم رہا۔
البتہ، ان مشکل حالات میں ایک مثبت چیز یہ تھی کہ اس بحران نے نادانستہ طور پر قطر کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کی تباہ کن پالیسیوں سے دور رکھا ہے ۔اس کی وجہ سے قطر کو خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔
قطر یمن کی جنگ سے علیحدہ ہونے پر مطمئن ہے:
پابندیوں کے ابتدا میں ہی قطر کو اس اتحاد سے بے دخل کر دیا گیا تھا جو یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ قطر نے اس اتحاد میں ہچکچاتے ہوئے حصہ لیا تھا جس کی وجہ صرف سعودیوں کو خوش کرنا تھا۔
یمن کی جنگ میں مزید ایک سال گزرنے کے بعدبھی مصائب واموات کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔اس کے علاوہ سعودی پابندیوں نے بھی ملک کی ۲۸ ملین آبادی کوتباہی کی طرف دھکیل دیا۔ان اقدامات کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہوئے، لیکن خوش قسمتی سے قطر ان منفی اثرات سے محفوظ رہا۔یہ عالمی ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کی نظر میں قطر کی پہلی جیت تھی۔
مزید یہ کہ یمن کے مستقبل کے حوالے سے اختلافِ رائے کے باعث سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اتحاد میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ اس صورتحال میں قطر ایک قابل اعتماد فریق بن کرسامنے آیا ہے کیونکہ اس کے یمن کی علاقائی سالمیت کے حوالے سے کوئی عزائم نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب بہار نے جو صورت اپنائی اس نے قطر کی خارجہ پالیسی کی ساکھ کوکافی نقصان پہنچایا ہے۔ عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر یہ تاثر موجودتھا کہ قطر کی ساکھ متاثر کرنے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ہاتھ ہے اور موجودہ پابندیوں نے اس تاثر کو مزید پختہ کر دیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا ساتھ دینے اور امریکی سفارت خانے کی یرو شلم منتقلی کے معاملے پر امریکا کی خاموش حمایت کرنے کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات عرب دنیا میں اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں۔
پابندیوں کے دوران قطر نے کسی بھی قسم کی جوابی کاروائی سے گریزکیا اورعالمی قوانین کی پیروی کرتے ہوئے محتاط سفارت کاری کا راستہ اپنایا۔ اس طرح قطر نے نہ صرف رائے عامہ کو اپنے حق میں کرلیا بلکہ پابندیوں کے دوران اخلاقی برتری بھی حاصل کیے رکھی۔
پابندیوں کے خاتمے کے لیے اپنی خودمختاری کو قربان نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ سے قطر کے پاس یہ اختیار موجود رہا کہ وہ ایران کے جوہری معاہدے کے حوالے سے اپنا آزاد موقف رکھے اور مجبوراََ امریکا کی حمایت نہ کرے۔
اس فیصلے نے قطر کو اپنے ہم خیا ل عرب،یورپی اور ایشیائی ممالک (اور سمجھ بوجھ رکھنے والے امریکی سیاست دانوں)کے ساتھ لا کھڑاکیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سالوں کی محنت اور بات چیت کو اس طرح نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا اتحاد خطرے میں ہے:
ماضی کے ان مثبت اور حوصلہ افزا حالات کے باوجود قطر کے لیے آگے کا راستہ دشوار ہے۔اہم سوا ل یہ ہے کہ موجودہ پابندیوں کے بعد قطر نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے ،کیا قطر آگے کا راستہ بھی اکیلے ہی طے کرنا چاہتا ہے؟
قطر خطے میں اپنے سیاسی،معاشی اور معاشرتی اثر ورسوخ کو پھیلانا چاہتا ہے، لیکن موجودہ پابندیاں اس کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قطر اپنی طویل مدتی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے۔
قطر کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ موجودہ انداز کو برقرار رکھتے ہوئے ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کرے اور یہ امید رکھے کہ قطر مخالف اتحاد (جس میں پہلے ہی دراڑیں موجود ہیں) اندرونی انتشار کی وجہ سے ٹوٹ جائے گا۔
ابو ظہبی،متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی دوریاں،صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم پر ہونے والی تحقیقات اور اسرائیلی وزیر اعظم پر بدعنوانی کے الزامات پر تحقیقات کی وجہ سے امریکا، سعودی عرب،متحدہ عرب مارات اور اسرائیل کا اتحاد بھی اپنی طاقت کھوتا جارہا ہے۔
سعودی شہزادے محمد بن سلمان اپنے ملک میں تبدیلی لانے کے لیے پر عزم ہیں ۔لیکن ان تبدیلیوں کی وجہ سے وہاں وہابی ازم اور آلِ سعود کو خطرات لاحق ہیں۔محمد بن سلمان کے فلسطین کے حوالے سے متنازع بیانات کی وجہ سے سعودی عرب بھی عربوں کی نظر میں اپنی قدر کھو چکا ہے۔
اگر محمد بن سلمان اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئے تو انھیں قطر کا شکر گزار ہوناہوگا۔ کیونکہ قطر نے ہی محدود آزادی اور وہابی ازم کی نسبتاََ آزاد معاشرہ متعارف کروا کے اس تبدیلی کا راستہ دکھایا تھا۔
قطر کے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرلے ۔پابندیاں جتنی طویل ہوں گی قطر اور ایران کے قریب آنے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔کویت اور عمان بھی ایران کے حوالے سے عقلی موقف رکھتے ہیں۔یہ دونوں ملک قطر کے احسان مند ہیں کہ وہ سعودی جارحیت کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔کیونکہ اگر قطر پابندیوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا تو پھر یہ دو ممالک بھی اس ہی طرح کی پابندیوں کا شکار ہوتے۔
قطرکے ایران کے ساتھ مستقل اور ناگزیر تعاون کے لیے ضروری ہے کہ ایران بھی اپنی پالیسیوں میں معتدل رہے۔لیکن ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے سے پیچھے ہٹنے کے امریکی فیصلے کی وجہ سے ایران کے سخت گیر افراد مزید طاقتور ہو جائیں گے۔صدر ٹرمپ اپنی تنگ نظری کے باعث ایران کے موجودہ صدر حسن روہانی اور ان کے پیش رو احمدی نژاد میں فرق نہ کر سکے۔ قطر کے لیے کامیابی کاراستہ یہی ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ مل کر ایران جوہری سمجھوتے کو بچانے کی کوشش کرے اور اس دوران ایران کی اعتدال پسند حکومت کے لیے حمایت حاصل کرے۔اس کے علاوہ قطر ایران کو یہ سمجھانے میں بھی مدد کر سکتا ہے کہ عرب ممالک میں ایران کے توسیع پسند عزائم ایران کے مفاد میں نہیں ہیں۔
صورت حال بہت بہتر رہے گی اگر ایران اپنی توجہ ملک میں گیس کی تلاش ، صنعتی فروغ اور ترقی پر مرکوز رکھے۔
گیس کارٹیل کے لیے امکان موجود ہے!
قطر کو خلیج تعاون تنظیم کی ناکامی سے پریشان ہونے کے بجائے دیگر ممالک کے ساتھ نئے دفاعی اور معاشی معاہدوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
قطر اپنی کل گیس برآمدات کا ۴۰ فی صدجنوبی کوریا اور جاپان کو برآمد کرتا ہے ۔ ان ممالک کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی تجدید کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے۔ اس وجہ سے قطر کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ گیس کی عالمی منڈی میں اپنی الگ حیثیت منوائے تاکہ اسے امریکا اور آسٹریلیا جیسے حریف ممالک کے مقابلے میں فائدہ حاصل ہو۔
اس کے لیے قطر کو چاہیے کہ وہ روس ، الجیریا اور ایران کے ساتھ مل کر ایک گیس کارٹیل بنانے پر دوبارہ غور کرے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ معاشی اتحاد آگے چل کر دفاعی اتحاد بھی بن جائے۔لیکن قطر کو ترکی جیسے ممالک کے لیے بھی اپنے دروازے کھلے رکھنے ہوں گے جنہوں نے پابندیوں کے دوران قطر کی حمایت کی۔
یہ اقدامات صرف پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے نہیں ہونے چاہییں۔ قطر کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کس طرح عالمی برادری کو اپنی معیشت کے حوالے سے مطمئن کر سکتا ہے۔ کیوں کہ یہی اس بات کی ضمانت ہوگی کہ قطر اب بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“The Gulf crisis one year on: What next for Qatar?”. (“aljazeera.com”. June 5, 2018)
Leave a Reply