
یرانی صوبے لنگہ کے عرب راہنما شیخ خالد بن سعید کی وفات کے بعد انیسویں صدی کے آخر میں اس کی پُررونق بندر گاہ ایرانیوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔تاریخ دان گریمی ولسن کے مطابق’’لنگہ میں نئی حکومت کے آغاز کے بعدکئی ہفتوں اور مہینوں تک ٹیکس مسلسل بڑھائے جاتے رہے اور بنیادی ضروریات کے لیے نئے ٹیکس لگائے جاتے رہے۔‘‘ چند سالوں کے اندر ہی یہ بندر گاہ بد انتظامی کا شکار ہو گئی اوربیسویں صدی کے آغاز تک کئی عرب اور ایرانی تاجر اسے چھوڑ کر دبئی کی آزاد تجارتی بندر گاہ منتقل ہو گئے اورپھر جیسا کہ مشہور کہاوت ہے کہ اس کے بعد کی داستان تاریخ ہے۔
حالیہ دنوں میں عرب خلیجی ریاستوں میں یہ سرگوشیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ تیل کی کم قیمتوں سے نبردآزما حکومتیں آمدنی پر ٹیکس لگانے کا سوچ رہی ہیں۔قیمتوں میں کمی کو خلیج تعاون کونسل کی چھ ریاستوں نے شدت سے محسوس کیا ہے۔ دنیا بھر کے تیس فیصد تیل کے ذخائر ان ریاستوں کی ملکیت ہیں اور ۲۰۱۳ء میں انہوں نے دنیا کی تیل کی طلب کے ایک چوتھائی سے بھی کم کو پورا کیا تھا۔ماہرِ معاشیات ناصر سعیدی کے مطابق ۲۰۱۴ء میں خلیجی ریاستوں کی آمدن کا ۸۵ فیصد حصہ خام تیل کی فروخت کی بدولت تھا۔ تیل کی قیمتیں ۲۰۰۸ء میں ۱۴۵؍ڈالر فی بیرل کی بلند سطح سے ۲۰۱۶ء میں ۳۰ ڈالر فی بیرل کی نچلی سطح پر آگئی ہیں۔ نتیجتاً خلیج میں زیادہ تر ترقیاتی منصوبے ختم یا موخر کر دیے گئے ہیں یا پھر ان پر کام روک دیا گیا ہے۔
تیل سے ہونے والی آمدنی کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے زیادہ تر خلیجی ممالک نے بالواسطہ ٹیکس لگا دیا ہے، جن میں شہری اور سڑک ٹیکس بھی شامل ہیں، اور مستقبل قریب میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس لگانے پر بھی بحث سرِ عام جاری ہے۔خلیجی ممالک نے اپنے شہریوں اور غیر ملکیوں کو صفر آمدنی ٹیکس کا ماحول فراہم کر کے عالمی طور پر نمایاں حیثیت حاصل کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی قابلِ قدر رعایتیں فراہم کرنے کی پالیسی نے، جس نے بہتر معیارِ زندگی کو عام طور سے ممکن بنایا تھا، خلیجی ممالک کو علاقائی بحران کے دنوں میں بھی اپنی داخلی سلامتی قائم رکھنے میں مدد دی۔چنانچہ براہِ راست آمدنی ٹیکس لگانے کا فیصلہ پرانی پالیسی سے براہِ راست متصادم ہو گا جس کے مضمرات کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔
ٹیکس عائد ہونے کے بعد ’’خلیج کاسماجی معاہدہ‘از سرِ نو تشکیل پا سکتا ہے۔دانشوروں نے اس فقرے ’’خلیج کا سماجی معاہدہ‘‘ کو خلیجی شہریوں اور حکومتوں کے درمیان غیر تحریر شدہ معاہدے کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ غیر تحریر شدہ معاہدہ بنیادی طور پرتاجروں اور اشرافیہ سمیت تمام خلیجی شہریوں کے سامنے ایک شرط رکھتا ہے۔ کہ وہ حکمران خاندانوں کے ریاست کو چلانے کے حق پر سوال نہیں اٹھائیں گے اور جواباً حکومت ان پر ٹیکس نہیں لگائے گی۔ ٹیکسیشن کا تصور کم از کم امریکیوں کی نظر میں یہ ہے کہ یہ جمہوری نمائندگی کو مساوی کرتا ہے۔یہ ممکن نہیں کہ یہی تصور خلجی ممالک کے ٹیکسیشن کے تصور پر منطبق ہو۔ انتہائی عدم استحکام کے وقت اس کا مرکزی مقصد سلامتی ہو گا۔
آج خلیجی ممالک دنیا کے ان آخری مٹھی بھرممالک میں سے ہیں، جو کامیابی کے ساتھ اور افراتفری کا شکار ہوئے بغیر جمہوریت کی راہ میں مزاحم رہے ہیں۔ وہی جمہوریت جس نے سرد جنگ کے بعد لاطینی امریکا، مشرقی یورپ اور ایشیا اور افریقا کے بڑے حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ خلیجی ریاستیں شہری نمائندگی کی یکسر مخالف ہیں۔ بلکہ درحقیقت ان تمام چھ ممالک نے مختلف شعبوں میں شہری خودمختاری کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ لیکن ان خودمختاریوں کے ساتھ ایک انتباہ بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ خودمختاری نام نہاد ’’حاکم ریاستی اداروں‘‘ یعنی وزارتِ داخلہ، دفاع، خارجہ اور خفیہ اداروں سے ٹکرانی نہیں چاہیے۔
اگرچہ ابھی تک خلیجی ریاستوں کو آمدنی ٹیکس لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئی لیکن اب بہت سے معاملات نے مل کر طوفان کی شکل اختیار کر لی ہے۔ خلیجی ریاستیں بہت سی جنگوں میں براہِ راست (مثلاً یمن)، بالواسطہ (مثلاً شام اور لیبیا) ملوث ہیں اور بہت سی اتحادی حکومتوں (مصر، سوڈان، مراکش، اردن اور پاکستان) کو مالی طور پر سہارا دیے ہوئے ہیں۔ تیل کی کم قیمتوں کے علاوہ جارحانہ علاقائی پالیسیوں نے خلیجی ممالک کے خزانے پر بے مثال دباؤ ڈالا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بیرونی اثاثوں اور سرکاری سرمایہ کاری فنڈ میں سے خرچ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔خرچوں کو قابو کرنے، بجٹ میں کٹوتیاں اور منصوبوں کو موخر کرنے سے تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے ہونے والے نقصان کا تدارک نہیں ہو سکتا، نہ بڑھتے ہوئے خارجی اور فوجی اخراجات پورے ہو سکتے ہیں
بہت سی عرب ریاستوں کے انہدام اور داعش کے خروج نے خلیجی ممالک کے اندر فوری طور پر اقدام کرنے کے احساس کو پیدا کیا ہے، تاکہ گردو پیش کی تباہی سے اپنے ملک کو الگ رکھا جاسکے۔ چنانچہ ہو سکتا ہے کہ خلیجی شہری آمدنی ٹیکس کے کڑوے گھونٹ کو بادل ناخواستہ ہی سہی حلق سے اتار لیں، اگر اس کی بدولت ان کی زندگیاں محفوظ ہوں۔سعودی عرب اور کویت میں داعش کے حالیہ دہشت گرد حملوں نے خلیجی شہریوں کے اندر اپنے ممالک کے استحکام کے حوالے سے خوف کو بڑھایا ہے۔ انتہائی عدم استحکام کے ماحول میں ٹیکسوں کا لگنا نہ صرف ممکن ہے بلکہ شہریوں کو مزید جمہوری نمائندگی کا حق دیے بغیر بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔
روایتی خلیجی سماجی معاہدہ پر اس سے پہلے کبھی اتنا نازک وقت نہیں آیا اور خلیجی حکومتوں کی طرف سے اس کو از سرِ نو لکھنے کی کوششیں بلاشک و شبہ خطرات سے خالی نہیں۔ پڑوس میں بڑھتے ہوئے خطرات میں سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکسوں کا عائد ہونا نئے سماجی معاہدے کے طور پر شاید قبول کر لیا جائے لیکن پھر بھی خلیجی ریاستوں کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ فی الوقت سلامتی شہریوں اور حکمرانوں دونوں کا مشترکہ مفاد ہے، لیکن یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ مستقبل میں خلیجی شہریوں کے مطالبات اور توقعات نہیں بد لیں گی۔
مزید یہ کہ آمدنی پر ٹیکس، جس کے لیے آئی ایم ایف اگرچہ کئی سالوں سے دباؤ ڈال رہا ہے، آزاد ٹیکس ماحول کی لیے بڑی تعداد میں خطے کا رُخ کرنے والے اور خطے کو ترقی دینے والے غیر ملکی تاجروں اور مزدوروں کی نظر میں خلیج کی اہمیت کم کر سکتا ہے۔ امریکا کے بعد دوسری سب سے بڑی تارکِ وطن برادری رکھنے والا خطے کے لیے ٹیکس عائد کرنے کے بعد ہنر مند اور پیشہ ور مزدوروں کو راغب کرنے کے لیے سخت مقابلہ در پیش ہو گا۔
آمدنی پر ٹیکس کاغذ پر توبہت اچھے لگتے ہیں مگر ان پر عمل در آمد اور ان کے مضمرات بہت پیچیدہ ہوں گے۔ شاید انیسویں صدی میں جنوبی ایران کی بندر گاہ لنگہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“The Gulf’s new social contract”. (“mei.edu”. Feb. 8, 2016)
Leave a Reply