تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حماس اور الفتح گروپ کے درمیان مصالحت پر مبنی جو سمجھوتا ہوا ہے، وہ قلیل المیعاد بنیاد پر تو فریقین کو کوئی فائدہ پہنچاسکتا ہے، تاہم طویل المیعاد بنیاد پر اِس سے کچھ بھی حاصل نہ ہوسکے گا۔
حماس اور الفتح کے درمیان ۲۳؍اپریل کو طے پانے والا سمجھوتا فلسطینیوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ختم کرنے کی کوششوں کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ ایک طرف امریکا مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے حوالے سے کوششیں کر رہا ہے اور دوسری طرف فریقین میں اندرونی کشمکش بڑھ رہی ہے۔ اندرونی کمزوریوں کے تناظر میں فلسطینی گروپوں کی مذاکرات سے متعلق ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ الفتح اور حماس کے درمیان سمجھوتے میں ان مسائل کے حل کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے جن کے باعث ان کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع اور گہری ہوئی ہے۔ فریقین کی سیاسی قیادت کو اس سمجھوتے سے سیاسی طور پر جو وزن ملے گا، اُس کی بنیاد پر اگر کوئی مثبت تبدیلی رونما ہو تو ہو۔ ایک بات تو یقینی ہے اور وہ یہ کہ الفتح اور حماس کے درمیان سمجھوتے سے اسرائیل اور فلسطینی گروپوں کے درمیان بات چیت کا عمل بری طرح الجھ جائے گا۔
ایک ’’تاریخی‘‘ سمجھوتا
حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ نے شتی پناہ گزین کیمپ میں اپنے گھر پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حماس اور الفتح کے درمیان طے پانے والا سمجھوتا تاریخی نوعیت کا ہے یعنی اس سے خطے میں غیر معمولی استحکام کی راہ ہموار ہوگی اور مختلف ممالک میں آباد فلسطینیوں کو بھی سکون کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اب کشیدگی کا دور لد گیا۔ حماس اور الفتح کے درمیان یہ کوئی پہلا بڑا سمجھوتا نہیں۔ ۲۰۰۷ء میں مکہ مکرمہ میں، ۲۰۱۱ء میں قاہرہ میں اور ۲۰۱۲ء میں دوہا (قطر) میں سمجھوتا ہوا، مگر ان میں سے کسی بھی سمجھوتے کو نافذ نہ کیا جاسکا۔ مئی ۲۰۱۳ء میں بھی فریقین نے اعلان کیا کہ وہ اب تک کے تمام معاہدوں اور سمجھوتوں کی پاسداری کریں گے اور قومی شناخت کو مضبوط بنانے پر توجہ دیں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔
فتح اور حماس کے درمیان تازہ ترین سمجھوتا قاہرہ میں شناخت کی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ فریقین کے درمیان بنیادی اختلاف قومی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے رہا ہے۔ اب تک ایسی کوئی بھی جامع حکومت تشکیل نہیں دی جاسکی جس میں تمام فریق شریک ہوں اور جسے فلسطینی عوام کسی ہچکچاہٹ یا تحفظات کے بغیر قبول کرسکیں۔
فلسطینی اتھارٹی میں ایک بڑا مسئلہ پی ایل او کی مکمل بحالی کا ہے۔ چھ ماہ کے دوران انتخابات پر اتفاق ہوا ہے تاکہ حقیقی نمائندہ اور قابل قبول حکومت تشکیل دی جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ پی ایل او کو بھی فعال کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
نئے سمجھوتے میں اِس امر کی صراحت نہیں کی گئی کہ غزہ کی پٹی اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں قائم الگ الگ حکومتی سیٹ اپ کس طور ایک ہوکر کام کرسکیں گے۔ اس وقت الفتح اور حماس نے اپنے اپنے علاقے طے کر رکھے ہیں۔ اِس تفریق نے لوگوں کو سخت مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ اس وقت غزہ میں تعینات الفتح گروپ سے تعلق رکھنے والے ۷۰ ہزار ملازمین فلسطینی اتھارٹی سے تنخواہیں پاتے ہیں مگر ان کے تقرر اور تعیناتی کا معاملہ حماس کے متعین کیے ہوئے افسران کے ہاتھ میں ہے۔
اسرائیل اور مصر میں داخلے کے مقامات کا کنٹرول سنبھالنے کا معاملہ بھی اختلافی امر ہے۔ حماس اور الفتح دونوں ہی چاہتے آئے ہیں کہ یہ کنٹرول اُن کے ہاتھ میں رہے۔
حماس اور الفتح کے درمیان سب سے بڑا اختلافی نکتہ یہ ہے کہ حماس نے اب تک اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد ترک نہیں کی اور وہ دو ریاستوں کا نظریہ قبول کرنے کو تیار نہیں یعنی وہ اسرائیل کو ایک ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ دوسری طرف الفتح گروپ چاہتا ہے کہ دو ریاستوں کے تصور کی بنیاد پر فلسطین و اسرائیل کے درمیان پایا جانے والا قضیہ ختم کردیا جائے۔ حماس کے رہنماؤں نے بارہا کہا ہے کہ وہ محمود عباس کے پی ایل او کے چیئرمین کی حیثیت سے اسرائیل سے مذاکرات کے حق میں ہیں، تاہم وہ کوئی جامع امن معاہدہ اور اسرائیل کا وجود تسلیم کیے جانے کے اصول کو کسی بھی حالت میں قبول نہیں کریں گے۔ اور بھی بہت سے اختلافی نکات ہیں جن کا سمجھنا اور جن سے نمٹا جانا ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے خلاف جذبات کو مکمل سرد کرنا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ فلسطینیوں کے دلوں میں اب بھی اسرائیل کے لیے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ مسلح جدوجہد کے لیے بھی ہزاروں نوجوان تیار ہیں۔ حماس کے زیر تصرف علاقوں میں اب بھی لاکھوں ہتھیار اور میزائل وغیرہ ہیں جن کی مدد سے کسی بھی وقت اسرائیل پر ایک بڑا حملہ کیا جاسکتا ہے۔ حماس کو دہشت گرد تنظیم بھی قرار دیا جاچکا ہے۔ ایسے میں اگر فلسطینی اتھارٹی کی کسی حکومت میں حماس کو شامل کیا جائے تو بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے دی جانے والی امداد کی راہ میں رکاوٹ بھی کھڑی ہوسکتی ہے۔ حماس کو حکومت کا حصہ بنائے جانے کی صورت میں اسرائیل کی طرف سے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اسرائیل کی طرف سے دیا جانے والا حصہ روکا بھی جاسکتا ہے، اور ایسا ہو بھی چکا ہے۔
محمود عباس کہتے ہیں کہ حماس سے معاہدہ جامع اور بین الاقوامی نوعیت کا ہے۔ اسرائیل سے مذاکرات کا اس معاہدے سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یہ کہ اس معاہدے سے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان جاری بات چیت پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوگا۔ دوسری طرف اسماعیل ہانیہ نے جو کچھ کہا ہے وہ محمود عباس کے بیان کردہ موقف سے یکسر مختلف ہے۔ اسماعیل ہانیہ کہتے ہیں کہ یہ سمجھوتا حقیقی مصالحت اور جامع قومی حکومت کی طرف پہلا قدم ہے۔
چیلنجز اب بھی ہیں اور پیچیدگیاں بھی برقرار ہیں مگر اس کے باوجود مصالحت کا تاثر فریقین کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ حماس کو خطے میں تازہ ترین تبدیلیوں سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ الفتح سے مصالحت کا تاثر اس کی مشکلات میں کمی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ شام، مصر اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے دی جانے والی امداد میں غیر معمولی کٹوتی سے حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ مصر سے ملحق علاقے میں سرنگوں کے ذریعے عوام کی آمد و رفت رک گئی ہے۔ سرنگوں کے ذریعے ٹیکس کی مد میں جو آمدنی ہوا کرتی تھی، وہ اب نہیں رہی۔ آمدن کم ہونے سے حماس کی انتظامیہ کے لیے مالی مشکلات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ الفتح اور حماس کے درمیان مصالحت سے فریقین کو فائدہ پہنچے گا۔ بالخصوص حماس کی تنہائی ختم ہوگی اور اسے قبول کرنے کی راہ زیادہ ہموار ہوگی۔ مصر نے کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی متحدہ حکومت تشکیل پاتی ہے تو وہ غزہ سے ملنے والی سرحد پر رفاہ کراسنگ پوائنٹ کھول دے گا۔ یہ ایک اچھا مثبت اشارہ ہے۔
حماس سے سمجھوتا خود الفتح گروپ کی بھی کمزوری تھی۔ وہ بھی سیاسی افق پر اپنی پوزیشن زیادہ مستحکم دیکھنا چاہتی تھی۔ محمود عباس اس بات کو سمجھتے ہیں کہ پی ایل او کی سینٹرل کونسل کے اجلاس سے قبل کوئی حقیقی اور بڑی کامیابی ناگزیر تھی تاکہ وہ اجلاس میں کسی کامیابی اور اعتماد کے ساتھ شریک ہوں۔ الفتح اور اسرائیل کے درمیان بات چیت کے مثبت نتائج سامنے آنے کے باوجود حماس سے الفتح کا سمجھوتا بہت سوں کے لیے حیرت انگیز ہے۔ وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر محمود عباس کو یہ سمجھوتا کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
ایہود یاری دی واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے لیفر انٹر نیشنل فیلو اور اسرائیل کے چینل ٹو ٹیلی وژن کے لیے مشرق وسطیٰ سے متعلق امور کے مبصر ہیں۔ نیری زلبر دی واشنگٹن انسٹی کے وزیٹنگ اسکالر، صحافی اور مشرق وسطیٰ کی سیاست و ثقافت کے محقق ہیں۔
“The Hamas-Fatah reconciliation agreement: Too early to judge”. (“Policy Watch”. April 24,2014)
Leave a Reply