
اگر آپ نے کبھی حقیقتاً شکار کو اپنے گھر میں آتے نہیںدیکھا ہے تو اپنا ٹیلی ویژن کھولئے اور اسرائیل ‘حماس و حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی عسکری جھڑپوں کا مشاہدہ کیجئے اور ان کے پس پردہ امریکا ایران‘ شام کی موسیقی کی دُھن سماعت فرمایئے اس پھیلتی ہوئی جنگ کی بنیادی وجہ چار دہائیوں پر محیط امریکا و اسرائیل کی ناکام سخت گیر پالیسی عرب سفارتکاری اور قیادت کا زوال اور ایران کی مزاحمتی روش کے پھیلتے ہوئے اثرات کا خطے میں مجتمع ہوجانا ہے۔ اس تصادم کا اسرائیل کے تین سپاہیوں سے جنہیں حزب اللہ اور حماس نے گرفتار کیاہے یا ہزاروں عرب قیدیوں سے جو اسرائیل کی جیلوں میں بند ہیں جزوی تعلق ہے۔ جو چیز ہمارے مشاہدہ میں ہے وہ عرب اور ایرانی معاشرے میں حکمرانوں کا وہ اتحاد ہے جس کا اندازہ پہلے سے ہورہا تھا۔ ان سب کا یکساں خیال یہ ہے کہ ان کے پاس امریکا اور اسرائیل کی متحدہ قوت کا مقابلہ کرنے اور اُن سے ٹکرا جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ عرب دنیا میں عوامی جذبات روز بروز اسلامی تحریکوں مثلاًحماس اور اخوان المسلمون‘ کے ساتھ ہوتے جارہے ہیں اور اس بناء پر اُن کے ووٹرز میں اضافہ روز افزوں ہے۔ حزب اللہ اور حماس جیسے مزاحمتی گروہ اب پہلے سے زیادہ موثر ہوتے ہوئے بڑے عسکری وسائل اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ انہیں عوام کی مضبوط حمایت بھی حاصل ہے۔ ایران اور شام اس صورتحال کو امریکا و اسرائیل مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لیے استعمال کررہے ہیں تاکہ ان دونوں کی پالیسیوں کے حوالے سے عالمی تشویش میں اضافہ ہو۔ اسرائیل ایک عمر یافتہ باکسر ہے جو ایسے گھونسے مارتا ہے جو اپنا اثر کھو چکا ہے اس لیے کہ اس کی جارحیت کا شکار ہونے والے لوگ جان گئے ہیں کہ اس کو کس طرح انگیز کیا جاسکتا ہے اور ان سے کس طرح بچا جاسکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ یہ بھی جان چکے ہیں کہ اپنے آپ کو دھماکوں سے اڑاکر ان کا جواب کس طرح دیا جاسکتا ہے۔ ان کے متکبرانہ انداز اور بلند بانگ دھمکیوں کے پیچھے اسرائیلی جنرلز و سیاستدان بے بسی کے ساتھ سپرانداز ہوگئے ہیں اس لیے کہ ان کے فیصلے ناکام ہوگئے جس کا دارومدار بنیادی طور سے فوجی حل پر رہاہے ‘اور وہ بھی ایسے تنازعات کے لیے جو اصلاً سیاسی نوعیت کے ہیں۔اصل مسئلہ اسرائیل فلسطین تنازعہ ہے جسے صرف اسرائیل و فلسطین کی خود مختار ریاستوں کے باہمی قبول و سلامتی کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے اس طرہ کہ ۱۹۴۸ء کے فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کو بھی منصفانہ اور قانونی طور پر حل کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔ اس کے بجائے اسرائیل آج اُسی حربے کا اعادہ کررہا ہے جس کا وہ استعمال ۱۹۶۸ء کے بعد سے لبنان میں کم از کم ۵ بار پہلے بھی کرچکا ہے اور بغیر کسی کامیابی کے ۔ یعنی وہی درجنوں پلوں‘ سڑکوں‘ بجلی گھروں اور بیروت کے ایئرپورٹ کو تباہ کرنے والا حربہ۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی اداروں کو بھی تباہ کرنا اور جنگجورہنمائوں کو قتل کرنے والا حربہ۔ اس نے ٹھیک یہی روش دسیوں سال سے فلسطینیوں کے لیے بھی اپنا رکھی ہے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ان کا مقصد اسرائیل کے خلاف حملوں کو روکنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے ان اقدامات کا الٹا اثر ہوا ہے۔ حزب اللہ و حماس کے رہنمائوں یا لبنان اور فلسطین کے عام شہریوں کے خلاف یا ان کی حکومتوں کے خلاف کیے جانے والی ہر جارحیت کے نتیجے میں اسرائیل کی ساکھ کو نقصان ہی پہنچتا ہے اوریہ جارحیت بھی بے اثر ہورہی ہے اور یہ ایسے شگاف پیدا کردیتی ہے جس کے نتیجے میں دوسروں کو داخل ہونی کی گنجائش مل رہی ہے۔ حماس اور حزب اللہ کو عوامی مقبولیت حاصل ہورہی ہے جس کی وجہ سے ان کی چھاپہ مار اور مزاحمتی جنگ مزید طاقتور اور توانا ہورہی ہے اور یہ اپنی جنگی ٹیکنالوجی کو بھی بہتر بنارہی ہیں۔ حماس اور حزب اللہ کے ذریعہ چلائی جانے والی امریکا و اسرائیل مخالف مہم کو پورے مشرقِ وسطیٰ میں بلکہ پوری دنیا میں بہت بڑی عوا می اور سیاسی حمایت حاصل ہورہی ہے۔ یہ صورتحال عرب حکومتوں کی سفارتی و عسکری نامردی کو نمایاں کررہی ہے‘ مخالف تحریکوں مثلاً اخوان المسلمون کو مضبوط اور توانا بنارہی ہے اور تہران و دمشق کی سرکش حکومتوں کو مواقع فراہم کررہی ہے کہ وہ خطے کی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام عوامل اپنے حق میں ہموار کرلیں۔ امریکا کا کردار حیران کن طور پر معمولی ہے اور وہ فی الوقت کوئی اہم کردار اس تنازعہ میں ادانہیں کررہا ہے۔ اس کی سوچی سمجھی پالیسی اسرائیل کے ساتھ مکمل موافقت کی ہے۔ اس نے ایران‘ حماس اور حزب اللہ کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں اور وہ اُن سے مذاکرات بھی کرنے کی پوزیشن نہیں ہے۔شام کو تو یہ برسوں سے دھمکیاں دے رہا ہے اور اسے دبائو میں لینے کی کوشش کررہا ہے جس میں اُسے صرف معمولی سی کامیابی ملی ہے۔ دنیا کا واحد سپر پاور امریکا مشرق وسطیٰ کے اس بحران میں حیران کن طور پر ناتواں اور بے بس دیکھائی دیتا ہے اور اس کی وجہ محض اس کی جانبدار انہ پالیسی ہے۔ نہ ہی کوئی عرب ملک کہیں نظر آتا ہے اس لیے کہ کافی عرصے سے یہ ممالک اپنی صلاحیت کھوچکے ہیں اور کسی بامعنی سیاسی روش کو اختیار کرنے سے قاصررہے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل سفارتی طور پر تنہا ہوچکے ہیں اور اپنے دشمنوں پر جو سیاسی اثرات یہ جمائے ہوئے تھے اُسے بھی دن بہ دن کھوتے جارہے ہیں۔ اپنے اس طرز عمل کی وجہ سے یہ گوشہ نشیبی اختیار کرتے ہوئے معلوم ہورہے ہیں جس سے گریز کی کوئی صورت بھی ان کے پاس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریکات اور سرکش حکومتیں عرب رائے عامہ کو اپنا ہمنوا بنارہی ہیں۔ لیکن مسلسل جنگ اور عوامی مصائب و آلام کے ہولناک نقصانات پر اپنے اندر چھپے ہوئے سیاسی تنازعات کو یہ حل نہیں کرسکیں گے۔ خطے کے بہت سارے ممالک حماس اور حزب اللہ کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کہ انہوں نے اسرائیل کے تباہ کن غضب کو اپنی سرزمین پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سارے لوگ اس بات پر خوش ہورہے ہیں کہ اسرائیل زیادہ سے زیادہ طاقت کا استعمال کررہا ہے اور اس کے نتائج کم سے کم برآمد ہورہے ہیں۔جبکہ شکار کرنے کا ارادہ رکھنے والے خود شکار ہوگئے ہیں تو ایسے میں ایک باوقار طریقہ آزمانے کو تیار رہتاہے اور وہ ہے سفارتی مذاکرات جس میں تمام فریقوں یعنی عرب دنیا اسرائیل اور ایران کی جائز شکایات کو سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔ اس علاقائی جنگ کو پھیلانے کے بجائے شاید ایسی کوئی قیادت جو موجودہ عرب اسرائیل اور امریکی قیادتوں سے زیادہ فہیم ہوآگے بڑھے گی اور علاقائی امن کانفرنس کی تجویز پیش کرے گی؟اگر اس کی بنیاد تمام فریقوں کے لیے یکساں حقوق ہوں گے تو پھر یہ کانفرنس کامیاب ہوگی لیکن اگر اس کی بنیاد یہ ہوگی کہ اسرائیل کو خطے میں کسی اور کے مقابلے میں تحفظ و سلامتی کے زیادہ حقوق فراہم کیے جائیں تو اس کے نتیجے میں ہمیں شمار کرنے کو مزید ناکامیاں ملیں گی۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ شمارہ: ۲۴ جولائی ۲۰۰۶)
Leave a Reply