
نمائندہ “Foreign policy in Focusss” سمیر ڈوسانی نے نوم چومسکی سے ایک طویل انٹرویو لیا ہے جس کا متن درج ذیل ہے۔ نوم چومسکی ایک نامور لسانیات، استاد، مصنف اور خارجہ پالیسی امور کے ماہر ہیں۔
سوال: اقتصادیات کی کسی بھی پہلی کلاس میں ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ مارکیٹس نشیب و فراز سے دوچار ہوتی رہتی ہیں لہٰذا موجودہ کساد بازاری معمول سے کوئی باہر کی چیز نہیں ہے۔ لیکن یہ مخصوص گراوٹ دو وجوہ سے دلچسپی کا حامل ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ۸۰ اور ۹۰ کی دہائی کی آزاد معیشت نے خوشحالی کے دورانیے کو مصنوعی طور سے اونچا رکھا۔ لہٰذا کساد بازاری کا دورانیہ خوشحالی کے دورانیہ سے زیادہ گہرا ہو گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ باوجودیکہ وہ معیشت جو ۱۹۸۰ء سے مائل بہ ترقی رہی امریکا کی رہائشی ورکنگ کلاس کی اکثریت کی آمدنی جامد رہی جبکہ دولت نے اپنا کام صحیح کیا لیکن بیشتر ممالک کی اقتصادی پیش رفت میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہوا۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر میرا اندازہ ہے کہ اقتصادی منصوبہ ساز، Keynesianism (برطانوی ماہر اقتصادیات John Manyard Keynes کے نظریات پر مبنی ’’اقتصادِ اکبر‘‘ کا فلسفہ)کی کسی شکل کی جانب پلٹنے والے ہیں جو بریٹن ووڈز سسٹم سے کچھ مختلف نہیں ہے جو ۱۹۴۸ء تا ۱۹۸۱ء رائج رہا آپ کے کیا خیالات ہیں؟
جواب: جی ہاں میں بنیادی طور سے میں آپ کی تصویر کشی سے متفق ہوں۔ میرے خیال میں ۷۰ کی دہائی کے اوائل میں بریٹّن ووڈز سسٹم کی ناکامی شاید ۱۹۴۵ء کے بعد سے رونما ہونے والے اہم بین الاقوامی واقعات میں سے ایک تھی اور یہ اپنے مضمرات میں سوویت یونین کے سقوط سے زیادہ اہم ہے۔ سرسری طور پر ۱۹۵۰ء سے لیکر ۷۰ کی دہائی کے اوائل تک بے نظیر اقتصادی نمو اور منصفانہ اقتصادی نمو کا دور تھا۔ لہٰذا کم آمدنی والے گروہ بھی اچھے رہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب سے اونچی آمدنی والے گروہ سے بھی اچھے رہے۔ یہ مدت آبادی کے لیے بعض محدود مگر حقیقی فوائد کی مدت تھی۔ درحقیقت معاشرتی صحت کا اندازہ لگانے کے جو معاشرتی پیمانے ہیں انہوں نے بھی واضح طور سے ترقی ہی کا پتہ دیا۔ جب ترقی و نمو بڑھتی ہے تو ترقی کے معاشرتی معیارات میں بھی اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ آپ توقع کرتے ہیں۔ بہت سارے ماہرین اقتصادیات اسے جدید سرمایہ داریت کا سنہری دور قرار دیتے ہیں حالانکہ انہیں اسے ریاستی سرمایہ داری کا نام دینا چاہیے کیونکہ حکومتی سرمایہ ہی اس نمو و ترقی کا اصل انجن تھا جو ۷۰ کی دہائی کے وسط میں تبدیل ہو گیا۔ فنانس پر Bretton woods کی پابندیوں کے تار و پود بکھر گئے،فنانس آزاد ہو گئی۔ اندازوں کو ہوا ملی، کرنسی اور دیگر کاغذی حرفت بازیوں کے حوالے سے جو اندازے تھے اُن میں سرمایہ کی بڑی رقم جھونکنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پوری کی پوری معیشت مالیت زدہ ہو گئی۔ اقتصاد کی قوت مصنوعاتی عمل سے مالیاتی اداروں کو منتقل ہو گئی اور جبھی سے آبادی کی اکثریت کو بہت ہی سخت وقت کا سامنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی تاریخ میں ایسا زمانہ شاذ اور نادر ہے۔ کوئی دوسرا زمانہ ایسا نہیں ہے۔ جہاں حقیقی تنخواہیں یعنی وہ تنخواہیں جو افراطِ زر کی تلافی کے لیے ہوں آبادی کی اکثریت کے لیے ایک طویل عرصہ تک کم و بیش منجمد رہی ہوں اور جہاں تک معیارِ زندگی بھی جمود بلکہ زوال کا شکار رہی ہوں۔ اگر آپ معاشرتی علامات پر نظر ڈالیں تو تقریباً ۱۹۷۵ء تک اقتصادی نمو کے آثار ملتے ہیں اور یہیں سے پھر زوال کا آغاز ہوتا ہے جو ہمیں ۱۹۶۰ء کی سطح تک نیچے لے جاتا ہے۔ ترقی تو تھی مگر انتہائی غیر مساویانہ تھی۔ اس ترقی کے فوائد بہت ہی قلیل لوگوں کی جیبوں میں گئیں۔ کچھ مختصر زمانے ایسے رہے ہیں جس میں یہ تبدیل ہوئی چنانچہ لہٰذا ٹیکنالوجی کے اُبال کے دوران جو اُبال کلنٹن کے آخری سالوں میں تھا تنخواہوں میں بہتری آئی اور بے روزگاری کم ہوئی لیکن یہ مستقل جمود اور زوال کے رجحان میں آبادی کی اکثریت کے لیے معمولی سی تبدیلی تھی۔ اس مدت میں مالیاتی بحران شدید ہو گئے جیسا کہ متعدد عالمی ماہرین اقتصادیات کی پیش گوئی تھی۔ ایک بار جب فنانشیل مارکیٹس آزاد ہو گئیں تو مالیاتی بحرانوں میں اضافہ ہی کی توقع تھی اور یہ ہوا۔ یہ بحران چونکہ ثروت مند ممالک میں اُبلنے والا ہے لہٰذا لوگ اس کے متعلق بات کر رہے ہیں لیکن بحران تو دنیا کے اطراف میں مستقل پیدا ہوتے رہے ہیں اور ان میں بعض سے بہت شدید نوعیت کے تھے اور ان بحرانوں کی نہ صرف یہ کہ تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اُن کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں پیش گوئیاں بھی رہی ہیں اور بحثیں بھی اور اس کی معقول وجوہات رہی ہیں۔ تقریباً دس سال پہلے ایک اہم کتاب سامنے آئی تھی جس کا نام تھا Global Finance at risk (عالمی مالیات معرضِ خطر میں) یہ کتاب دو معروف ماہرینِ اقتصادیات Jhon Eatwell اور Lance Taylor کی مشترکہ تصنیف تھی۔ اس میں وہ اچھی طرح شناسا حقیقت کا حوالہ دیتے ہیں کہ مارکیٹس کی فطرت میں کچھ بنیادی نااہلیت پوشیدہ ہیں۔ فنانشیل مارکیٹس کی صورت میں وہ خطرے کو کم قیمت قرار دیتے ہیں۔ وہ عام معاشرتی نقصانات کی صورت میں جو منظم خطرات ہیں ان کو شامل نہیں کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر آپ ہمیں ایک کار فروخت کرتے ہیں تو میں اور آپ اچھی طرح مول کرتے ہیں لیکن ہم معاشرے کو پہنچنے والے نقصانات کو اس میں شامل نہیں کرتے ہیں۔ مثلاً آلودگی اور سڑکوں پر گاڑیوں کے غیر معمولی ہجوم کو یا اس طرح کی دیگر کچھ چیزوںکو۔ فنانشیل مارکیٹوں میں اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آپ نقصانات کو کم قیمت قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا ایک لائق نظام میں جتنے خطرات درپیش ہوتے ہیں اُن کے مقابلے میں زیادہ خطرات مول لیے جاتے ہیں اور یہ یقینا حادثات کو جنم دیتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس مناسب قانون و ضابطہ ہے تو آپ مارکیٹ کے نقائص کو کنٹرول یا ختم کر سکتے ہیں۔ اگر آپ مارکیٹ کو ضوابط کی پابندی سے آزاد کرنا چاہتے ہیں تو گویا آپ اس کے نقائص اور عدم کارکردگی میں اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ علمِ اقتصاد کا ابتدائی سبق ہے۔ انہوں نے اسے اس کتاب میں بحث کا موضوع بنایا ہے۔ دوسروں نے بھی اس پر گفتگو کی ہے اور یہ وہ چیز ہے جو ہو رہی ہے۔ خطرات کو کم قیمت قرار دیا گیا جس کی وجہ سے زیادہ خطرات مول لیے گئے جتنا کہ لیے جانے چاہیے تھے اور جلد یا بدیر مارکیٹ کو تباہ ہونا ہے۔ اُس وقت کسی نے ٹھیک ٹھیک پیش گوئی نہیں کی اور تباہی کی عمق شاید ہی تعجب خیز ہے۔ اس کی جزوی وجہ پُرکشش مالیاتی ذرائع کی تخلیق ہے جنہیں ضابطوں سے آزاد کر دیا گیا جس کا مطلب ہے کہ حقیقتاً یہ کسی کو معلوم نہیں ہے کہ کون کس بات کے لیے کس کے سامنے جوابدہ ہے۔ سب کچھ احمقانہ طریقے سے بکھر گیا۔ لہٰذا بحران کی شدت قدرے سنگین ہے۔ پھر بھی ہم آخری سطح تک نہیں پہنچے ہیں اور اس بحران کے معمار وہ لوگ ہیں جو اب اوباما کی اقتصادی پالیسیاں وضع کر رہے ہیں۔ Dean Baker اُن چند ماہرین اقتصادیات میں سے ہیں جنہوں نے وہ سب کچھ دیکھا ہے جو اب تک ہوتا رہا ہے۔ وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اسامہ بن لادن کو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سپہ سالار بنا دیا جائے۔ Robert Rubin اور Lawrence Summers جو کلنٹن کے ٹریژری سیکریٹری رہے ہیں اس بحران کے اصل معمار ہیں۔ Summers نے مالیاتی اداروں اور ان کے ذیلی اداروں سے متعلق ضابطہ بندی رکوانے کے لیے بھرپور مداخلت کی۔ Rubin جو Summers کے پیشرو تھے نے بجا طور سے Glass-steagall act کو ناکام بنانے میں پیش قدمی کی جس کا ہر پہلو قدرے طعن آمیز ہے۔ Glass-steagall act نے کمرشیل بینکوں کو خطرآمیز سرمایہ کاری کے فرموں اور بیمہ فرموں نیز اسی طرح کی کچھ دیگر فرموں سے تحفظ دیا جو کہ اقتصاد کے محور کو تحفظ دینے کے مترادف تھا۔ ۱۹۹۹ء میں روبن کے زیرِ اثر یہ ایکٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ پھر اس نے فوراً ٹریژری ڈپارٹمنٹ کو چھوڑ دیا اور CityGroup کا ڈائریکٹر ہو گیا جو Glass- Stragall کی شکست و ریخت سے کافی فائدے میں آگیا اور اپنے دائرے کو وسعت دے کر یہ گروپ ’’فنانشیل سپر مارکیٹ‘‘ بن گیا جیسا کہ انہوں نے اپنے آپ کو یہ نام دیا۔
ستم ظریفی (یا اگر آپ چاہیں تو اسے سانحہ کہیں) کو تقویت پہنچا کر ہی CityGroup ٹیکس دہندگان کی سبسڈیز کے سہارے اپنے آپ کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور صرف گزشتہ چند ہفتوں میں اس نے یہ اعلان کر دیا کہ یہ ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہے۔ یہ اپنی کمرشیل بینکنگ کو خطر آمیز سائڈ انوسٹمنٹ سے محفوظ رکھنے کی کوششوں میں پھر مصروف ہے۔ روبن رُسوا ہو کر مستعفی ہو گیا۔ اس بحران کی بیشتر ذمہ داری اُسی پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اب یہ اوباما کے اہم اقتصادی مشیروں میں سے ایک ہے اور سمرس بھی ایک مشیر ہے۔ سمرس کے ہمنوا اور حمایت یافتہ Tim Geithner ٹریزری سکریٹری ہیں۔ ان میں سے حقیقتاً کوئی بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ بہت اچھے اچھے ماہرین اقتصادیات تھے مثلاً David Felix جو کہ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرِ اقتصادیات ہیں جو اس کے بارے میں سالوں سے لکھتے آ رہے ہیں۔ اسباب معلوم ہیں یعنی یہ کہ بازار عدم صلاحیت و عدم کارکردگی سے دوچار ہیں اور یہ کہ معاشرتی نقصانات کم قیمت قرار پاتی ہیں۔ مالیاتی ادارے منظم انداز کے نقصانات کو کم اہمیت شمار کرتے ہیں۔ اگر مان لیں کہ آپ Goldman Sachs کے CEO ہیں۔ اگر آپ اپنا کام ٹھیک کر رہے ہیں اور جب آپ قرض کا معاملہ کرتے ہیں تو اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ آپ کے لیے خطرہ کم سے کم ہو۔
چنانچہ اگر یہ ڈوب جاتا ہے تو آپ اس خسارے سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو پہلے ہی تیار کیے ہوتے ہیں۔ آپ کو جو خطرات لاحق ہیں دراصل آپ اس کی فکر کرتے ہیں، آپ اس کو اہمیت دیتے ہیں لیکن آپ اصولی اور منظم نقصان کو گراں مایہ نہیں سمجھتے ہیں جو کہ وہ خطرہ ہے جو پورے مالیاتی نظام کو تباہ کر دے گااور یہ چیز آپ کے اعداد و شمار کا حصہ نہیں ہوتی ہے۔نااہلی مارکیٹ کی فطرت میں موجود ہے۔
Robin Hahnel نے ابھی حال ہی میں اس کے بارے میں بہت اچھے مضامین اقتصادی مجلّوں میں لکھے ہیں۔ لیکن معاشیات کے مضمون میں پہلے ہی سال پڑھایا جاتا ہے کہ مارکیٹس بے سود ہیں۔ یہ تو ان کی چند نااہلیاں ہیں دوسری اور بھی ہیں۔ انہیں کسی حد تک ضابطے کے ذریعہ کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن لائق اور سود مند مارکیٹس سے متعلق جو مذہبی تعصب ہے اس کے زیرِ اثر یہ ضابطہ تباہ ہو جاتا ہے۔ خصوصاً ایسی مارکیٹیں جو تجربی تعاون اور نظری بنیاد سے محروم ہیں یہ ضابطہ محض مذہبی تعصب پر مبنی تھا۔ لہٰذا اب یہ ختم ہو رہا ہے لوگ Keynesianism کی واپسی کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن یہ معیشت جس انداز میں کام کرتی ہے اُس انداز پر توجہ دینے سے منظم انکار کی وجہ سے ہے۔ مالیاتی اداروں کو مالی ضمانت فراہم کرنے کے ذریعہ معیشت کو اشتراکیائے جانے۔ (Socialising) کے بارے میں بڑا شور و غوغہ ہے۔یہ کام ہم کر رہے ہیں لیکن یہ غیر ضروری ملمع کاری کے مترادف ہے۔ اگرچہ پوری معیشت درحقیقت ہمیشہ سے ہی اشتراکیت زدہ (Socialised) رہی ہے۔ لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے تو یہ حتماً رہی ہے۔ یہ قدیم سوچ کہ معیشت کی بنیاد تاجرانہ اقدام اور صارفانہ پسند پر ہے ایک حد تک درست ہے۔ مثلاً مارکیٹنگ کی غرض سے آپ ایک الیکٹرانک آلہ کا انتخاب کر سکتے ہیں جبکہ دوسرے کا نہیں۔ لیکن اقتصاد کا محور ریاستی سیکٹر پر بہت زیادہ اعتماد کرتا ہے اور ایسا کرنا شفاف بھی ہے۔ چنانچہ گزشتہ اقتصادی خوشحالی کو ہی مثال کے لیے لے لیجے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی تھی۔ یہ کہاں سے آئی تھی؟ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے۔ کمپیوٹرس اور انٹرنیٹ تقریباً ۳۰ سالوں تک مکمل طور سے ریاستی نظام کے تحت رہے۔ ریسرچ، ڈیولپمنٹ، پروکیورمنٹ اور اسی طرح کے کچھ دوسرے کاموں کے لیے۔ بعد میں انہیں منافع کمانے والے نجی منصوبوں کے حوالے کیا گیا۔ یہ اچانک تبدیلی نہیں تھی لیکن صورتحال دھندلی تھی۔ یہ تصویر اقتصادی محور کے لیے زیادہ پسندیدہ تھی۔ ریاستی سیکٹر اختراع کُن بھی تھا اور متحرک بھی۔ یہ حقیقت الیکٹرانک، فارماسیوٹیکل نیز بائیولوجی سے متعلق صنعتوں پر بھی محیط ہے۔ خیال یہ ہے کہ پبلک کو قیمت ادا کرنی چاہیے اور خطرات مول لینا چاہیے اور پھر اگر منافع ہوتا ہے تو یہ آپ نجی کارپوریشنوں کے حوالے کر دیں۔ اگر آپ کو اقتصاد کو ایک جملے میں سمونا ہے تو یہ اس کی اصل تعریف ہو گی۔ جب آپ سبق کی تفصیلات پر غور کریں گے تو اس سے زیادہ پیچیدہ پائیں گے لیکن یہی اصل مضمون ہے۔ اس لیے یہ ٹھیک ہے کہ خطرات اور قیمت کا اشتراک پایا جانا (نفع کا نہیں) مالیاتی اداروں کے لیے جزوی طور سے ایک نیا عمل ہے لیکن یہ صرف اضافہ ہے اُس عمل میں جو اب تک ہوتا آ رہا تھا۔۔۔۔۔(جاری ہے)
(بحوالہ: ’’ڈیلی ٹائمز‘‘۔ ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply