
کبھی ’’نوبل پرائز‘‘ کو ’’احمقانہ‘‘ اور ’’موت کے بوسے‘‘ سے تعبیر کیا جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس انعام کی کشش بڑھ گئی ہے اورآج یہ ایک بین الاقوامی وقار و عزت کا نشان سمجھا جانے لگا ہے۔
اس انعام کے محرک الفریڈ نوبل شاید دنیا کے غمگین ترین انسان تھے جنہوں نے اپنے دور کے دو مہلک ترین ہتھیار ایجاد کیے، یہ ڈائنا مائٹ اور بغیر دھویں کی بارود کہلاتے ہیں، ان ایجادات سے انہوں نے کافی دولت کمائی لیکن ان ہتھیاروں کے نتیجے میں پھیلنے والی زبردست تباہی کی وجہ سے انہوں نے خود کو ایک بڑا مجرم محسوس کیا اور وہ خواہش کرنے لگے کہ کاش وہ پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے۔
۱۸۸۸ء میں فرانس کے ایک اخبار نے الفریڈ نوبل کے بھائی کی موت کی خبر کو خود ان کے انتقال کی خبر سمجھ کر اس پر ایک تفصیلی مضمون شائع کیا جس میں انہیں ’’ڈائنامائٹ کے بادشاہ‘‘ اور موت کے سوداگر سے تعبیر کیا گیا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت سے الفریڈ نوبل کے ذہن و دماغ پر سخت ردعمل ہوا اور اس وقت انہوں نے اپنی لامحدود دولت کو مفید کاموں میں خرچ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ لہٰذا انتقال سے ایک سال قبل اپنے خودنوشت وصیت نامے میں نوبل نے یہ ہدایت تحریر کی کہ ان کی وسیع دولت کے بیشتر حصے کو پانچ بین الاقوامی انعامات کے لیے استعمال کیاجائے، اس طرح یہ انعامات فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، لٹریچر اور پیس (امن) کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو دیے جانے لگے۔
کئی برسوں سے نوبل انعام کی عزت میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ اس انعام کو اعلیٰ کارکردگی اور ذہانت کی بین الاقوامی علامت تصور کیا جانے لگا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے انعامات اگرچہ نسبتاً قدیم اور بیش قیمت ہیں لیکن عزت افزائی کے اعتبار سے نوبل پرائز کے ہم پلّہ قرار نہیںپاتے جو دنیا کا سب سے بڑا افتخار ہے جس سے کسی باصلاحیت آدمی کو نوازا جاسکتا ہے۔
نوبل انعامات کے لیے ایک سال قبل امیدواروں کی نامزدگی کے بارے میں دعوت نامے پرانے انعام یافتہ افراد کو اور ۱۵ ممالک کی یونیورسٹیوں نیز اداروں کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ سائنس کے تینوں انعامات کے لیے نامزدگی کے کاغذات انعامات تقسیم ہونے والے سال میں یکم فروری تک وصول ہو جانے چاہئیں۔ مختلف کمیٹیاں انعامات کی تقسیم عمل میں لاتی ہیں جن میں فزکس اور کیمسٹری کے انعامات کے لیے ’’سوئڈش اکاڈمی آف سائنس‘‘، میڈیسن کے انعام کے لیے ’’اسٹاک ہوم کا کارونسکا انسٹی ٹیوٹ‘‘، ادب کے انعام کے لیے اسٹاک ہوم میں واقع ’’اکاڈمی فار لٹریچر‘‘ اور امن کے انعام کے لیے ناروے کی پارلیمنٹ کے پانچ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ مذکورہ کمیٹیاں پہلے تجاویز کی بنیاد پر جائزہ لیتی ہیں اور اس وقت سے لے کر اکتوبر تک جبکہ انعامات کا اعلان ہوتا ہے کمیٹی کے ارکان اور متعدد دیگر ماہرین امیدواروں کی کارکردگی کے بارے میں گہری تحقیقات کرتے ہیں۔
مذکورہ آٹھ ماہ کے دوران فزکس اور کیمسٹری کے انعامات دینے والی کمیٹی کی نشستیں بارہ مرتبہ ہوتی ہیں جن میں رسمی مباحثے شامل نہیں ہیں۔ کمیٹی کے مختلف ارکان میں یہ کام تقسیم کر لیا جاتا ہے کہ وہ احتیاط کے ساتھ ادب کا جائزہ لیں اور فیصلہ کریں کہ امیدوار نے کتنی اہلیت، جدت اور تدّبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ ممبران یہ فیصلہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ آیا انعام پانے والا امیدوار اپنے کام میں منفرد ہے یا انعام کے حصہ دار کچھ دیگر افراد بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کمیٹیاں ستمبر یا اکتوبر تک اپنی رپورٹیں پیش کر دیتی ہیں اور انعام پانے والوں کا انتخاب اکثریت کے فیصلے سے کر دیا جاتا ہے۔
ایک نظر میں انعامات کے لیے انتخاب کا یہ طریقہ اگرچہ مکمل محسوس ہوتا ہے لیکن اس میں فیصلے کی بعض غلطیاں سرزد ہونے کا امکان بہرحال موجود ہے، چنانچہ گزشتہ سال کے لیے امن کا نوبل انعام جس شخصیت کو دیا گیا ہے وہ امریکا کے صدر بارک اوباما ہیں اور اس پر کافی تنقید ہوئی۔ اسی طرح ادب کے انعام پر بارہا انگلیاں اٹھائی گئیں کیونکہ اس کو دینے میں اکثر ایک خاص نقطہ نظر کے حامل ادیبوں کو ترجیح دی گئی ہے جبکہ تیسری دنیا کے ممالک اور خاص طور پرایشیا کے متعدد اہل و لائق ادیب اس سے محروم رہے ہیں۔ بہرحال اولمپک کھیلوں کی طرح ‘‘نوبل انعام‘‘ کی اپنی ایک اہمیت ہے اور اس کے بعض انعامات پر خواہ وقتی طور پرکتنی ہی نکتہ چینی ہو، لیکن یہ الفریڈ نوبل کو موت کا سوداگر نہیں علم کا محسن اور امن کو فروغ دینے والا ثابت کرنے کا کام بخوبی انجام دیتے ہیں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۴ نومبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply