
ہم کہہ چکے ہیں کہ الٰہیات کے مسائل نہج البلاغہ میں دو طریقوں سے بیان ہوئے ہیں۔ ایک میں دنیائے محسوس کو ان نظاموں کے ساتھ جو اس میں کارفرما ہیں۔۔۔ ایک ایسے آئینے کے عنوان سے پیش کیا ہے جو کہ اپنے پیدا کرنے والے کی معرفت کراتا ہے۔۔۔ مورد غور و فکر قرار دیا گیا ہے اور دوسرے طریقہ میں محض عقلی افکار و نظریات اور خالص فلسفی انداز و محاسبات کو بروئے کار لایا گیا ہے، نہج البلاغہ کی زیادہ تر الٰہی بحثیں خالص عقلی تفکرات اور خالص فلسفی محاسبات سے تشکیل پائی ہیں۔ ذاتِ حق کے صفات کمالیہ و جلالیہ اور اس کے مختلف پہلوئوں کے سلسلے میں فقط دوسرے طریقے سے استفادہ کیا گیا ہے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس قسم کی بحثوں کی قدر و قیمت اور اس طرزِ تفکر کو کام میں لانے کو لوگ شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں، ہمیشہ ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے ایسی بحثوں کو عقلی یا شرعی یا دونوں رُخ سے ناروا قرار دیا ہے۔ ہمارے زمانہ میں ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس طرح کا تجزیہ و تحلیل روحِ اسلام کے ساتھ سازگار نہیں ہے اور مسلمان یونان کے فلسفہ کے زیر اثر۔۔۔۔نہ کہ قرآنی الہام و ہدایت سے متاثر ہو کر۔۔۔۔ ایسی (ناروا) بحثوں میں پڑ گئے ہیں اگر وہ قرآن کی تعلیمات کا بغور مطالعہ کرتے تو خود کو ایسی پُر پیچ بحثوں میں گرفتار نہ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ سرے سے نہج البلاغہ کی اس قسم کی بحثوں سے حضرت علی علیہ السلام کی کوئی نسبت ہونے کی اصل و حقیقت کے سلسلے میں ہی شک میں مبتلا ہیں۔ دوسری، تیسری صدی ہجری میں ایک گروہ نے شرعی لحاظ سے ایسی بحثوں کی مخالفت کی تھی۔ اس گروہ کا دعویٰ تھا کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ ظواہر الفاظ سے جو چیز عام لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے بس اسی حد تک وہ سمجھیں اور اسی پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ ہر قسم کے سوال و جواب اور چوں و چرا بدعت ہے۔ مثلا ً اگر کبھی کسی نے قرآن کی آیت ’’الرحمن علی العرش استویٰ‘‘ کے بارے میں پوچھ لیا تو پیشانی پر بل آ جاتے تھے اور ناراض ہو کر کہتے تھے:
الکیفیۃ مجھولتہ والسؤال بدعۃ
حقیقت حال ہم نہیں جانتے لیکن اس کے بارے میں سوال کرنا ممنوع ہے۔ تیسری صدی ہجری میں یہ گروہ جو بعد میں اشاعرہ کے نام سے مشہور ہوا۔ معتزلہ پر، کہ جو اس طرح کے عقلی نظریات کو جائز سمجھتے تھے کامیاب ہو گیا اور اس کامیابی نے اسلام کی عقلی زندگی پر ایک کاری ضرب لگائی خود ہمارے یہاں (یعنی ایران اور مکتبِ تشیع میں) اخباریوں کا گروہ بھی دسویں صدی سے لیکر چودہویں صدی ہجری تک خصوصاً دسویں اور گیارہویں صدی ہجری میں اشاعرہ کے افکار کی ہی پیروی کرنے لگا تھا۔ یہ تو تھا شرعی پہلو۔
لیکن عقل کے لحاظ سے علوم طبیعیات میں قیاس و نظریات پر حسی اور تجرباتی روش کی کامیابی کے بعد یورپ میں یہ فکر پیدا ہو گئی کہ عقلی و نظری روش نہ صرف طبیعیات میں بلکہ کسی بھی میدان میں قابل اعتبار نہیں ہے اور اگر کوئی فلسفہ قابل اعتماد ہے تو وہ صرف حسی فلسفہ ہے اس بات کا فطری اثر و نتیجہ یہ تھا کہ الٰہیات کے مسائل ناقابل اعتماد قرار دے دیئے جائیں کیونکہ یہ حسی و تجرباتی مشاہدات کے دائرہ سے باہر کی چیز ہیں۔
دنیائے اسلام میں اشعری طرزِ فکر کی لہر نے ایک طرف سے اور علوم طبیعیات میں پے در پے اور حیرت انگیز حسی و تجرباتی کامیابیوں نے دوسری طرف سے غیر شیعہ صاحبانِ قلم مسلمانوں میں ایک ہیجان پیدا کر دیا جو ایک معجون نظریے کے وجود میں آنے کا سبب بن گیا اور اس نے الٰہیات میں غور و فکر کی روش اپنانے کو شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے غلط قرار دے دیا۔ شرعی لحاظ سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ خدا شناسی کے لیے قرآن کی رو سے فقط ایک ہی راستہ قابل اعتماد ہے اور وہ حسی و تجرباتی روش ہے یعنی موجودات عالم کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ہر راہ فضول و بیکار ہے قرآن نے اپنی دسیوں آیتوں میں کمال صراحت کے ساتھ لوگوں کو مظاہر طبیعت کا مطالعہ کرنے کی دعوت دی ہے اور مبدأ و معاد کا راز اسی عالم طبیعت میں مخفی جانا ہے اور عقلی لحاظ سے یورپ کے حسی فلاسفہ کے اقوام کو اپنی باتوں اور تحریروں میں منعکس کیا ہے۔
فرید وجدی نے اپنی کتاب ’’علی اطلال المذھب المادی‘‘ میں اور سید ابوالحسن ندوی ہندی نے اپنی کتاب ’’ماذا خسر العالم با نحطاط المسلمین‘‘ اور جماعت ’’اخوان المسلمین‘‘ کے صاحبان قلم جیسے سید قطب شہیدؒ وغیرہ نے اپنی کتابوں میں اس نظریہ کی تبلیغ و ترویج کرتے ہوئے مخالف نظریہ کو نہایت ہی خطرناک قرار دیا ہے۔
مولانا ابوالحسن ندوی جاہلیت سے اسلام کی طرف مسلمانوں کا گزر نامی فصل کے ذیل میں ’’الٰہیات میں محکمات وبینّات‘‘ عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ:
’’پیغمبروں نے لوگوں کو خدا کی ذات اور صفات، دنیا کے آغاز و انجام اور انسان کے آخری انجام سے آگاہ کیا اس سلسلے میں مفت اطلاعات انسان کے حوالے کر دیں اور اس کو ان مسائل سے بحث کرنے کے سلسلہ میں کہ جس کے مبادیات و مقدمات اس کے اختیار میں نہیں ہیں (کیونکہ یہ علوم حس و طبیعت کے دائرے سے باہر ہیں انسان کے علم و فکر کی حکومت صرف محسوسات میں منحصر ہے) بے نیاز کر دیا لیکن لوگوں نے اس نعمت کی قدر نہیں کی اور ان مسائل میں بحث و فحص کرنے لگے کہ جو لامعلوم و تاریک علاقہ میں قدم بڑھانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
مولانا ندوی صاحب اپنی کتاب کی ایک دوسری فصل میں جہاں مسلمانوں کے انحطاط سے متعلق ’’مفید علوم‘‘ کی کم اہمیتی کے عنوان سے بحث کی ہے۔ علماء اسلام پر اس طرح تنقید کرتے ہیں کہ:
’’اسلامی دانشوروں اور مفکروں نے ما بعد الطبیعت سے متعلق بحثوں کو جو انہوں نے یونان سے سیکھی تھیں، جتنی اہمیت دی اتنی عملی و تجرباتی علوم کو نہیں دی مابعد الطبیعت اور یونانی فلسفۂ الٰہی ان کے ان بت پرستی کے معتقدات کے سوا کچھ اور نہیں ہے جن کو انہوں نے فن کا رنگ دے کر پیش کیا ہے۔ یہ وہم و گمان تصورّات و خیالات اور لفاظیوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس کا حقیقت و معنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خدا وند عالم نے مسلمانوں کو اپنے آسمانی تعلیمات کے ذریعہ ان مسائل میں بحث و تلاش اور تجزیہ و تحلیل سے کہ جو شبہات میں کیمیائی تجزیہ و تحلیل سے الگ نہیں ہیں‘‘ بے نیاز کر دیا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس عظیم نعمت کا کفران کیا اور اپنی جودتوں اور صلاحیتوں کو ان ہی مسائل میں صرف کر دیا۔
بلا شبہ فرید وجدی اور مولانا ندوی کے مثل افراد کی فکر ایک طرح سے اشعریت کی جانب (رجعت اور واپسی) ہے لیکن ذرا جدید انداز اور نئی روشنی میں یعنی فلسفۂ حسی کے ساتھ پیوند خوردہ لباس میں ہے۔
ہم ابھی فلسفی لحاظ سے فلسفی تعقلات اور اندازِ فکر کی اہمیت سے متعلق بحث میں نہیں پڑ سکتے، ہم اپنی کتاب ’’اصول فلسفہ و روش ریالزم‘‘ میں ’’معلومات کی اہمیت اور ادراکات میں کثرت کی پیدائش‘‘ کے عنوان کے تحت مقالوں میں اس پر سیر حاصل بحث کر چکے ہیں، یہاں قرآنی نقطہ نظر سے بحث کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ کیا قرآن کریم الٰہیات کی تحقیق میں فقط آثارِ قدرت اور طبیعت کے مطالعہ کی راہ کو ہی کافی سمجھتا ہے اور کسی دوسری راہ کو اپنانے کی اجازت نہیں دیتا ہے؟ یا ایسا نہیں ہے؟۔
لیکن پہلے ایک نکتہ کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اشعری و غیر اشعری میں اختلاف نظر اس (بات) میں نہیں ہے کہ آیا مسائل الٰہی میں استفادہ کے لیے قرآن و حدیث کو منبع قرار دینا چاہیے یا نہیں؟ بلکہ اختلاف استفادہ کے طریقے میں ہے اشعریوں کے لحاظ سے ان سے سراپا تسلیم کی صورت میں استفادہ کیا جا سکتا ہے اور بس۔ یعنی ہم صرف اسی نہج سے خدا کو وحدت و علم اور دوسرے تمام اسمائے حسیٰ سے متصف کریں کہ جو شرع میں بیان ہوئے ہیں ورنہ ہم نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں کہ خدا ان اوصاف سے متصف ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس کے اصول و مبادی ہمارے اختیار میں نہیں ہیں پس ہمیں یہی قبول کر لینا چاہیے کہ خدا ایسا ہے لیکن خدا ایسا ہے ہم اس بات کو جان اور سمجھ نہیں سکتے اس سلسلے میں دینی نصوص کا کام بس یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ دین کی نظر میں کس طرح غور کرنا چاہیے تاکہ اسی طریقہ سے ہم غور کریں اور کس طرح کا عقیدہ قائم کرنا چاہیے تاکہ اسی انداز سے عقیدہ قائم کریں۔
لیکن ان کے مخالفوں کی نظر سے یہ مطالب دوسرے تمام عقلی و استدلالی مسائل کی طرف قابل فہم ہیں۔ یعنی ان کے لیے کچھ اصول و مقدمات درکار ہیں کہ اگر انسان ان سے واقف ہو جائے تو ان مطالب کو سمجھ سکتا ہے۔ نصوص شرعی کا کام عقول و افکار کو الہام بخشنا اور فکر و نظر کو حرکت میں لاناہے۔ یہ ضروری اور قابل ادراک اصول و مبادی کو بشر کے اختیار میں دے دیتی ہیں بنیادی طور پر فکری مسائل میں تعبد کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ انسان کا حکم کے تحت فرمائشی فکر و فیصلہ کرنا اور نتیجہ نکالنا ایسا ہی ہے جیسے کسی نظر آنے والی چیز کو کسی کی فرمائش کے زاویہ سے دیکھے اور اس سے پوچھے کہ ہم اس چیز کو کیسی دیکھیں؟ بڑی یا چھوٹی؟ سفید یا سیاہ یا نیلی؟ خوبصورت یا بدصورت؟ فکر کے سلسلہ میں تعبد یا سراپا تسلیم ہو جانے کا مطلب سرے سے فکر نہ کرنے اور بغیر تفکر کے ایک چیز کو قبول کر لینے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ بحث اس بات میں نہیں ہے کہ آیا اولیائے وحی کی تعلیمات سے آگے قدم بڑھانے کی انسان قدرت رکھتا ہے یا نہیں؟
معاذ اللہ! اس سے آگے بڑھنے کا تو کوئی راستہ ہی نہیں ہے جو کچھ وحی و خاندانِ وحی کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے ہمارے لیے معارف الٰہی کی وہی آخری معراج اور حدِ کمال ہے(ہماری گفتگو) بشر کی عقل و فکر کی استعداد کے سلسلے میں ہے کہ ان مسائل کے اصول و مبادی کو سامنے رکھ کر انسان علمی و عقلی سیر کرے یا نہ کرے۔
اب رہا عالم فطرت کے مطالعہ اور تحقیق کے سلسلے میں قرآن کریم کی دعوت اور اس کو خدا کی معرفت اور مابعد الطبیعیات کی شناخت کا وسیلہ و ذریعہ قرار دینے کا مسئلہ تو ہم عرض کریں گے کہ عالم طبیعت اور اس کی موجودات کے بارے میں انسان کا غور و فکر کرنا اور اس کو معرفت الٰہی کی علامت سمجھنا قرآن کی تعلیمات کا ایک اساسی اصول ہے۔
قرآن نے زمین و آسمان، حیوان و انسان، یہاں تک کہ پیڑ پودوں کے بارے میں غور و فکر کرنے پر بھی بہت زیادہ زور دیا ہے کہ لوگ ان کے متعلق سوچیں، تلاش کریں اور علمی تجزیہ کریں۔ اس میں تو بحث کی گنجائش ہی نہیں ہے اور یہ کہ مسلمانوں نے اس راستہ کو اس نہج سے طے نہیں کیا جو حق تھا، اس میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں ہے شاید اس سستی کی اصل علّت وہی یونان کا فلسفہ بنا ہو کہ جو محض قیاس اور فکر پر مبنی تھا۔ یہاں تک کہ وہ طبیعیات میں بھی اسی روش سے استفادہ کرتا تھا اور البتہ جیسا کہ علوم کی تاریخ گواہ ہے کہ مفکرین اسلام نے تجرباتی روش کو یونانیوں کی طرح کلی طور سے دور نہیں پھینکا بلکہ تجرباتی روش کے اولین مؤجد و مخترع مسلمان ہی شمار ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف جیسا کہ لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے یورپ والے اس روش کے مؤجد و مبتکر نہیں ہیں بلکہ انہوں نے مسلمانوں ہی کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔
آثار و آیات میں تدبّر کی اہمیت
ان سب کے باوجود ایک نکتہ قابل غور ہے اور وہ یہ کہ قرآن نے زمین و آسمان کی مخلوقات کے بارے میں غور و فکر کرنے کو بہت اہمیت دی ہے، کیا اسی طرح اس نے دوسرے کسی بھی طرح کے راستہ کو باطل قرار دے دیا ہے؟ یا جس طرح قرآن نے لوگوں کو آیاتِ الٰہی کے مطالعہ اور ان میں تدبر و تفکّر کی دعوت دی ہے کیا اسی طرح اس نے دوسرے طریقوں سے بھی غور و فکر کی دعوت دی ہے؟ بنیادی طور پر مخلوقاتِ عالم اور آثارِ آفرینش کے مطالعہ کی مدد سے ان معارف کو سمجھنے میں کہ جو مطلوبِ قرآن ہیں اور اس عظیم آسمانی کتاب میں جن کی طرف اشارہ ہوا ہے اس تدبر و تفکّر کی کتنی قدر و قیمت ہے؟۔
حقیقت یہ ہے کہ آثار آفرینش کے مطالعہ کے ذریعہ ہو سکنے والی مدد کی مقدار بہ نسبت ان مسائل کے کہ جو قرآن نے صریحی طور پر بیان کر دیئے ہیں، بہت کم ہے قرآن نے الٰہیات کے ایسے مسائل بیان کیے ہیں جو کسی نہج سے بھی عالم طبیعت اور خلقت کے مطالعہ کے ذیرعہ قابل تحقیق نہیں ہیں۔
آثار آفرینش میں غور و فکر کی قدر و قیمت بس اتنی ہے کہ وہ واضح طور پر دنیا میں ایک صاحبِ تدبیر اور علم و حکمت کی حامل قوت کے وجود کو ثابت کر دے دنیا کا حسی و تجرباتی لحاظ سے ایک آئینہ ہونا اسی حد تک ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم طبیعت سے ماوراء بھی کوئی دانا و توانا موجود ہے جو اس دنیا کے کارخانے کو چلا رہا ہے۔
لیکن قرآن انسان کے لیے بس اتنا جان لینا ہی کافی نہیں سمجھتا کہ اس دنیا کو ایک صاحب علم و دانا و توانا چلا رہا ہے۔ یہ بات کہنا شاید دوسری تمام آسمانی کتابوں کے لیے صحیح ہو لیکن قرآن کے بارے میں، کہ جو آخری آسمانی کتاب ہے اور جس میں خدا اور مابعدالطبیعت کے بہت زیادہ مسائل بیان ہوئے ہیں، یہ کہنا ہر گز صحیح نہیں ہے۔
خالص عقلی مسائل
اس سلسلے میں پہلا بنیادی مسئلہ جس کو صرف عالم فطرت کے آثار کے مطالعہ سے ثابت نہیں کیا جا سکتا وہ عالم طبیعت سے ماوراء خود اس قوت و طاقت کا واجب الوجود ہونا اور مخلوق نہ ہونا ہے۔
آئینۂ جہان میں زیادہ سے زیادہ اس بات کی نشاندہی کی قوت ہے کہ وہ دنیا کو چلانے والے اور کنٹرول کرنے والے ایک دانا و توانا کا وجود ثابت کر دے لیکن وہ کیا ہے اور اس کی کیفیت کیا ہے۔ آیا خود اس کا اختیار کسی اور ہاتھ میں ہے یا قائم بالذات ہے ؟ اگر وہ کسی دوسری قوّت کے ہاتھ میں ہے تو اب وہ دوسرا ہاتھ کس طرح کا ہے؟ قرآن کا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ ہم جان لیں اس جہاں کو ایک دانا و توانا طاقت چلا رہی ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم جان لیں وہ چلانے والا ’’اللہ‘‘ ہے، اور ’’اللہ‘‘ لیس کمثلہ شئی (اس کے مثل کوئی شئے نہیں ہے) کا مصداق ہے۔ مستجمع جمیع کمالات ہے، دوسرے لفظوں میں کمال مطلق ہے اور خود قرآن کی زبان میں ’’لہ المثل الاعلیٰ‘‘ ہے۔ عالم طبیعت کا مطالعہ ہم کو بھلا کس طرح ان مفاہیم سے آشنا کر سکتا ہے؟
دوسرا مسئلہ خدا وند عالم کی یکتائی اور وحدانیت کا ہے، اس مسئلہ کو قرآن نے استدلالی شکل میں پیش کیا ہے اور منطق کی اصطلاح میں ایک قیاس استثنائی کے ذریعہ مطلب کو ادا کیا ہے اور اس پر وہی برہان قائم کیا ہے جس کو اسلامی فلسفہ نے ’’برہان تمانع‘‘ کا نام دیا ہے۔ کبھی تمانع علل فاعلی کے ذریعہ مسئلہ کو چھیڑا ہے:
لوکان فیھما الھۃ الاّ اللہ لفسدتا
یاد رکھو! اگر زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ اور بھی خدا ہوتے تو زمین و آسمان دونوں برباد ہو جاتے (یعنی زمین و آسمان کا برباد نہ ہونا اللہ کے ایک ہونے کی دلیل ہے)
اور کبھی تمانع علت غائی کی راہ سے اس مسئلہ کو سمجھایا ہے:
ترجمہ: ’’یقینا خدا نے کسی کو فرزند نہیں بنایا ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہے ورنہ ہر ایک خدا اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا اور ہر ایک دوسرے پر برتری کی فکر کرتا، (اور کائنات کا تباہ و برباد نہ ہونا خدا کے واحد ہونے کی دلیل ہے)‘‘
قرآن نے ہر گز خدا کی وحدانیت و یگانگی کی معرفت کے حصول کے لیے نظامِ خلقت کے مطالعہ اور اس کی موجودات کے بارے میں غور و فکر پر اس طرح زور نہیں دیا ہے جس طرح اس راہ سے ماورا خالق کی اصلی معرفت حاصل کرنے کی تاکید کی ہے۔ ظاہر ہے اس طرح کا حکم صحیح بھی نہیں ہے۔
قرآن میں اس طرح کے جو مسائل بیان ہوئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
ترجمہ: ’’اس کا کوئی مثل نہیں ہے، اللہ کے پاس بلند ترین صفات ہیں‘‘
ترجمہ: ’’اس کے لیے بہترین نام ہیں اور اس کے لیے بلند و بالا مثالیں ہیں ‘‘۔
ترجمہ: ’’وہ اللہ پاکیزہ صفات، بے عیب، امان دینے والا، نگرانی کرنے والا صاحب عزت اور زبردست کبریائی کا مالک ہے‘‘۔
ترجمہ: ’’تم جس طرف بھی رُخ کر لو گے سمجھو بس اس جگہ خدا موجود ہے‘‘۔
ترجمہ: ’’وہ آسمانوں اور زمین ہر جگہ کا خدا ہے‘‘۔
ترجمہ: ’’وہی اول ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے‘‘۔
ترجمہ: ’’وہ اللہ زندہ بھی ہے اور اسی سے کل کائنات قائم ہے۔ اللہ برحق بے نیاز ہے‘‘
ترجمہ: ’’اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد، اس کا کوئی کفو اور ہمسر نہیں ہے‘‘
یہ مسائل قرآن نے کس مقصد کے تحت بیان کیے ہیں؟ آیا یہ سمجھ میں نہ آنے والے اور درک نہ کیے جانے والے مسائل کے طور پر۔۔۔اور مولانا ندوی کے بقول ان کے اصول و مبادی بشر کے اختیار میں نہیں ہیں۔ انسان کے سامنے قرآن نے پیش کر دیئے ہیں؟۔ اور یہ چاہا ہے کہ تدبر و تفکّر اور سوچے سمجھے بغیر وہ انہیں تسلیم کرے یا واقعاً قرآن نے یہ چاہا ہے کہ لوگ خدا کو ان ہی پہلوئوں اور صفات کے ذریعہ پہچانیں۔ اگر قرآن کا مقصد یہ ہے کہ خداوند عالم ان صفات کے ذریعہ پہچانا جائے تو اس کی راہ کیا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات کا مطالعہ ہمیں ان معارف تک پہنچا دے، کائنات کا مطالعہ تو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خدا علم والا ہے یعنی اس نے جو چیز بھی پیدا کی ہے وہ علم و دانائی کے ساتھ پیدا کی ہے لیکن ہم سے قرآن کا صرف اتنا ہی مطالبہ نہیں ہے کہ ہم یہ جان لیں جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے وہ علم و دانائی کی رو سے پیدا کیا ہے بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ:
ترجمہ: ’’وہ اللہ ہر شئے کا خوب جاننے والا ہے۔۔۔ اس کے علم سے آسمان و زمین کا کوئی ذرّہ دور نہیں ہے۔
آپ کہہ دیجیے کہ اگر میرے پروردگار کے کلمات کے لیے سمندر بھی روشنائی بن جائیں‘‘….
یعنی علم خدا لامتناہی ہے اس کی قدرت لامحدود ہے مخلوقات کے عینی و حسی مشاہدہ سے خدا کے لامحدود علم و قدرت کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔
قرآن میں اور بھی بہت سے مسائل بیان ہوئے ہیں مثلاً اس میں کتب علوی لوح محفوظ، لوح محوداثبات، جبرو اختیار، وحی و اشراق وغیرہ کا ذکر ہے اور مخلوق کے مطالعہ کے ذریعہ ان میں سے کسی ایک کی بھی تحقیق نہیں کی جا سکتی۔
قطعاً قرآن نے ان مسائل کو دروس کے ایک سلسلہ کے عنوان سے پیش کیا ہے اور دوسری طرف ان دروس کے بارے میں مندرجہ ذیل آیت کے مثل آیات کے ذریعہ تدبر کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے:
ترجمہ: ’’کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے، ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں‘‘۔
ترجمہ: ’’ یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں‘‘۔
چنانچہ ہم اس اعتراف پر مجبور ہیں کہ ان حقائق تک رسائی کے لیے اس نے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور معتبر جانا ہے اور ان کو درک نہ ہونے والے مجہولات کے ایک سلسلہ کے عنوان سے پیش نہیں کیا ہے۔
مابعدالطبیعت کے سلسلہ میں قرآن نے جن مسائل کا تذکرہ کیا ہے ان کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے کہ مادّی مخلوقات کا مطالعہ جن کا جواب پیش کر سکتا ہے انہیں چیزوں کی وجہ سے مسلمان کبھی روحانی و عرفانی سیروسلوک کے ذریعہ اور کبھی عقلی و فکری راہ و روش کے ذریعہ ان مسائل کو حل کرتے ہیں۔
میں نہیں جانتا کہ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن نے الٰہیات کے مسائل کے لیے صرف موجودات و مخلوقات کے مطالعہ کو کافی سمجھا ہے وہ ان تمام متنوع مسائل کے بارے میں۔۔ کہ جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور اس مقدس آسمانی کتاب کے مختصات میں سے ہیں۔۔۔ کیا فرماتے ہیں؟
گزشتہ دو فصلوں میں جن مسائل کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ان کی طرف صرف اور صرف قرآن مجید کی تفسیر نے علی ابن ابی طالب کو اُبھارا اور متوجہ کیا ہے۔اگر علی نہ ہوتے اور اس طرح قرآن کی تفسیر بیان نہ کرتے تو شاید قرآن کے عقلی معارف ہمیشہ کے لیے بغیر تفسیر کے رہ جاتے۔
(بحوالہ مصنف کی کتاب ’’مطالعۂ نہج البلاغہ‘‘)
Leave a Reply