
چار ؍اگست کو ہونے والے دھماکے کی عکاسی کرتے ہوئے Boris Prokoshev نے بیروت کی انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے لبرٹی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ دھماکے کے خود ذمہ دار ہیں انہیں اس خطرناک دھماکا خیز سامان سے جلداز جلد جان چھڑانی چاہیے تھی، انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ لبنان کے کسانوں کو یہ سامان دے دیتی تاکہ وہ زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے اس کو استعمال کرلیتے۔ اگر کوئی اس سامان کے بارے میں نہیں پوچھ رہا تھا تو اس کا مطلب تھاکہ سامان کا مالک کوئی نہیں ہے۔
کشتی کے مالک نے بی بی سی کی درخواست کے باوجود اس سانحے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ Mv.Rhosus کے مقدمے کے حوالے سے اس کے وکلا یہ کہتے ہیں کہ ہماری اپیل کی کامیابی کی بنیاد یہی تھی کہ ’’عملے کے افراد خطرے سے دوچار ہیں‘‘ ہم نے سامان کی خطرناک نوعیت کا بتایا تھاجو کہ کشتی میں موجود تھا۔
۲۰۱۵ء اکتوبر میں وکلا کا ایک مضمون شائع ہوا، جو ان خوفناک الفاظ کے ساتھ ختم ہورہا ہے ’’مقروض کشتی ایک خطرہ ہے کیونکہ اس میں دھماکا خیز امونیم نائیٹریٹ موجود ہے۔ بندرگاہ کی انتظامیہ نے امونیم نائیٹریٹ کو قریب ہی گودام میں منتقل کردیا ہے لیکن سامان اور کشتی ابھی تک نیلامی یا تلف ہونے کے منتظر ہیں‘‘۔
دھماکا اور اس کے باعث آسمان کو چھوتے ہوئے دھویں کے گنبد کو دیکھتے ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ نیوکلیئر بم کا دھماکا ہے لیکن وہ نیوکلیئر دھماکا نہیں تھا بلکہ وہ طاقتور دھماکا تھا، خوفناک دھماکا!
امونیم نائیٹریٹ کو دنیا بھر میں زرخیزی کے لیے ہائی نائیٹروجن کے طور پر زراعت میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اسے طاقتور دھماکے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے خاص طور پر دھات یا معدنیات کی کانوں کے لیے اسے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
امونیم نائیٹریٹ کا کسی بھی دوسرے دھماکاخیز مواد سے موازنہ کرنا غلط ہے، لیکن برطانیہ کے بم ڈسپوزیبل ماہرین کا کہنا ہے کہ بیروت دھماکا ۲ کلو ٹن ٹی این ٹی کی طاقت کے برابر تھا، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے کچھ زیادہ ہی تھا،اس کا موازنہ اس طرح سے کیا جاسکتا ہے کہ۱۹۴۵ء میں ہیروشیما، ناگاساکی پر پھینکا جانے والا بم ۱۲ سے ۱۵ کلو ٹن توانائی کے برابر تھا۔
امونیم نائیٹریٹ کو شہر کے وسط میں اس طرح نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن امونیم نائیٹریٹ کو دھماکے سے اڑانے کے لیے بھی کسی چیز کی ضرورت تھی تویہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آگ گودام میں کیسے لگی، جس کی وجہ سے یہ خوفناک دھماکا ہوا۔ بیروت کے لوگوں نے بڑے دھماکے سے پہلے کچھ چنگاریوں اور پٹاخوں کی آواز سنی، جیسے بہت ساری آتش بازی!
کسٹم کے ڈائریکٹر بدری دہر سے بیروت میڈیا نے پوچھا کہ قریب میں کہیں آتش بازی کا سامان بھی موجود تھاتو جواب ملا ’’ہاں شاید موجود تھا‘‘۔
کچھ رپورٹس یہ بھی بتاتی ہیں کہ آگ شاید ویلڈنگ کی وجہ سے لگی۔بندر گاہ کے جنرل منیجر حسن کوریٹم نے او ٹی وی کو بتایا جسے سی این این نے بھی نقل کیا کہ ہمیں اسٹیٹ سیکورٹی کی طرف سے گودام کے دروازے کو ٹھیک کرنے کا حکم ملا تھا اور ہم نے دوپہر تک کام کرلیا تھا لیکن دوپہر کے بعد کیا ہوا اس کا ہمیں اندازہ نہیں۔ جو کچھ بھی آگ لگنے کا باعث بنا لیکن لگی آگ کو بجھانے کے لیے فوری طور پر آگ بجھانے کے عملے کو بھیج دیا گیا تھا جس میں ایک خاتون بھی شامل تھی، یہ کل ۱۰ افراد تھے جس وقت دھماکا ہوا یہ افراد وہاں موجود تھے جن میں سے دو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے باقی افراد تاحال لاپتا ہیں۔
یہ اب مکمل طور پر واضح ہوچکا ہے کہ لبنا ن کی حکومت کے کئی افراد کو یہ معلو م تھا کہ بندرگاہ میں دھماکا خیز مواد موجود ہے، البتہ بیروت کے عام شہریوں کو دھماکے کے بعد اس کی موجودگی کا علم ہوا کسٹم افسران عوام کے غیظ و غضب کی توقع کررہے ہیں، اس لیے انہوں نے عوام کے غصے سے بچنے کے لیے امونیم نائیٹریٹ کی موجودگی سے متعلق تمام کاغذات ضائع کر دیے تاکہ دھماکے کی ذمہ داری ان پر نہ عائد کی جاسکے۔
۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۷ء تک کسٹم افسران نے تقریباً ۵ خط جج کے نام لکھے جس میں امونیم نائیٹریٹ کو بیچنے یا دوبارہ بر آمد کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی۔ یہ خط یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکام گودام میں موجود سامان کی نوعیت اور اس کی خوفناکی سے واقف تھے۔ہوسکتا ہے کہ ججوں نے یہ خط پڑھے ہوں اور یہ سمجھ کر نظرانداز کردیا ہو کہ کسٹم افسران نے معاملے کو نمٹا لیا ہوگا، کسٹم افسران کے مطابق خط کا کوئی جواب ججوں کی طرف سے نہیں دیاگیا۔ لیکن اس بیانیے کو تیزی سے چیلنج کیا گیا حالانکہ کسی نے بھی خطوط کی صداقت پر شک نہیں کیا، پھر بھی جوابی حملے نے خط و کتابت کو ایک الگ تناظر کی طرف دھکیل دیا ہے۔
ریاض قوبیسی جوکہ ’’الجدید براڈکاسٹ‘‘ سے وابستہ ایک تجربہ کارتحقیقی صحافی ہیں، جن کی صحافتی زندگی کا بڑاحصہ کرپشن کی تحقیق اور بیروت کی بندرگاہ اور کسٹم پر کام کرتے ہوئے گزرا ہے۔ دھماکے کے اگلے دن ہی انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خط بھیجنے کے صحیح طریقہ کار کو مدنظر نہیں رکھا گیا جبکہ جج کی طرف سے بار بار مزید معلومات کی درخواست بھی کی گئی تھی۔قوبیسی نے مزید کہا کہ کسٹم کی طرف سے ایک ہی خط بار بار بھیجا گیا۔
بیروت میں ایک این جی او سے وابستہ نزار سغیح نے بی بی سی کو بتایا کہ کسی بھی سامان کو بندرگاہ پر اتارنے کے لیے وزیرٹرانسپورٹ اور پبلک ورک کے پاس بھیجی جانے والی ساری درخواستوں کے لیے اجازت جج دیتا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ سامان ایک مناسب جگہ پر بحفاظت موجود تھا بندرگاہ میں اسے وزیر کی اجازت سے رکھا گیا تھا اور پھر کسٹم کے حوالے کیا گیا۔
یہ ایک بڑی غلطی تھی کیونکہ لبنان کا قانون کسی بھی دھماکا خیز مواد کو بندرگاہ میں ذخیرہ کرنے سے منع کرتا ہے، سغیح کایہ بھی کہنا ہے کہ امونیم نائیٹریٹ کوبندر گاہ میں ذخیرہ کرنے کی ذمہ داری وزیر،کسٹم اور انتظامیہ سب پر عائدہوتی ہے، جج کی یہاں پر کوئی غلطی نہیں ہے۔یہاں پر ایک قانون ہے جو یہ کہتا ہے کہ ’’اگر کشتی پر موجود سامان خطرناک ہے تو اسے فور ی طور پر بہانے یا تلف کرنے کی اجازت دی جائے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سامان کی ذمہ داری زیادہ تر وزیر ٹرانسپورٹ اور پبلک ورک پر عائد ہوتی ہے، وزیر نے یہ ذمہ داری کسٹم کے حوالے کی تھی۔جج نے یہ ذمہ داری وزیر ٹرانسپورٹ کی لگائی پھر وزیرٹرانسپورٹ نے یہ کسٹم کو سونپ دی۔
انہیں کیا کرنا چاہیے تھا؟ سغیح کے مطابق یا تو یہ سامان فروخت کردیتے یا اسے تلف کرنے کی اجازت لیتے یا بغیر اجازت لیے ہی تلف کردیتے لیکن وہ بس خطوط بھیجتے رہے۔
بیروت کی یہ کہانی نئی نہیں ہے۔ فروری ۲۰۰۹ء میں سپریٹ فلیگ نامی کشتی جوکہ ۹۸ کنٹینروں پر مشتمل تھی عسکری سامان سے بھری ہوئی تھی اسے دریائے احمر پر امریکی بحریہ نے روک لیا تھا، اس کشتی پرقبرص میں سورج کی روشنی میں سامان لادا گیا تھا، ایونگلس فلوراکس نیول بیس پر ۱۱ جولائی ۲۰۱۱ء کو اس کشتی میں ذخیرہ کیا گیا سامان دھماکے سے پھٹ گیا، اس میں ۱۳؍ افراد ہلاک ہوئے جبکہ ۳ بلین یوروکا نقصان بھی ہوا تھا۔
ایک اسپتال کے مالک سے پوچھا گیا کہ ’’کیا لوگ اسپتال کے دروازے پر ہی مرجائیں گے؟ اس نے جواب دیا ’نہیں‘ لوگ اسپتال کے اند رمریں گے کیونکہ اسپتال میں دوائیں اور آلاتِ جراحی کم پڑجائیں گے‘‘۔ یہ گفتگو دھماکے کے فوراً بعد کی ہے جب اسپتال بھر چکے تھے اور بندرگاہ تباہ ہوچکی تھی۔ دھماکے سے پہلے اور کووڈ ۱۹کی وجہ سے گزشتہ برس بہت لمبا سال رہا، اب جب دنیا نارمل زندگی میں قدم رکھ رہی ہے، لبنان ایک بھیانک اورڈراؤنے خواب میں قدم رکھ چکا ہے۔
۴؍اگست کو ایک خوفناک دھماکا ہوااس دھماکے کے ساتھ ہی بندرگاہ کے جڑواں ستون مصیبت کا شکار ہوگئے، ایک کرپٹ نظام جواحتساب سے محفوظ رہتا ہے، دوسری معیشت جسے ایسے لوگوں نے سنبھالا جو انتخابات میں دھاندلی کر کے اسٹیبلشمنٹ کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔
پچھلا سال ملک میں خانہ جنگی کے بعد کا دور رہا، جب معیشت پہلے ہی کمزور تھی پھر حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے معیشت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔عوام حکومتی طبقے کا رویہ محسوس کررہے تھے کہ وہ عوام کے مستقبل کی فکر کے بجائے اپنی دولت اور طاقت بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں مظاہروں میں شدت آئی، عوام اس بات کے لیے متحرک ہوگئے کہ تین عشروں سے جاری لوٹ مار کا حساب لیا جائے۔
غصے کی شدت کے ساتھ لوگوں کی حیرت میں بھی اس وقت اضافہ ہوا جب طویل انتظار کے بعدملک میں انقلابی تحریک برپا ہوئی، حکومتی نظام کے خلاف پوری قوم انقلاب کے لیے متحرک ہوگئی۔ سڑکوں پرایک نئی طاقت نے جنم لیا جس نے سیاسی طبقے کو ہلا کر رکھ دیا، سیاستدان نہ سڑکوں پر نظر آتے تھے، نہ ہی ٹی وی اسکرین پر۔پورے شہرکے ہر چوک پر لوگوں کا ایک جم غفیرٹینٹ لگا کر بیٹھ جاتا اوررات بھر ملکی صورحال پر بحث ہوتی رہتی۔ عوام کے مطابق سیاسی، معاشی اور قانونی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، جس نے ایک چھوٹے امیر طبقے کو امیر تر اور طاقتور بنا دیا ہے اور عوام کی حالت بد سے بد تر ہوگئی ہے۔
یہ در اصل صدیوں پرانے فرقہ وارانہ شراکتی حکومتی نظام، تیس سال پرانے معاشی نظام اور سب سے بڑھ کر بینکوں کے لیے ایک امتحان تھا۔ ۱۹۹۰ء کے آغاز سے یہ سود پر قرض کی بدولت منافع جمع کرتے رہے ہیں۔ سیاستدان اور ریاستی ادارے ریاست کے وسائل کو استعمال کرکے ہر ادارے میں اپنے من پسندلوگوں کو نوازتے رہے ہیں۔
حکومتی اخراجات سود پر قرض اور پھر اس پر مزید سود کے گرد گھومتے رہے ہیں۔لبنان کے ریاستی نظام نے کئی دھچکے برداشت کیے ہیں، جن میں قتل و غارت، اسرائیل کے ساتھ جنگ، سیاسی نظام کی طویل مفلوجیت،معیشت کا بیٹھ جانا شامل ہے۔عالمی بنک کی طرف سے امداد نے اس گرتے ہوئے نظام کو کسی حد سنبھالا۔
فرانس اور سعودی عرب ہی کم و بیش لبنان کے معاشی نظام کی ضمانت دیتے رہے ہیں، اکثر وبیشترلبنان کی معاشی حالت تباہی کے دہانے پر ہی رہتی ہے سابقہ حکومت نے خزانے کو ڈپلومیسی کے لیے استعمال کیا بعد کی حکومتوں نے اسے بین الاقوامی ضمانت کے طور پر استعمال کیا۔
حال ہی میں لبنان کی حکومت نے مزید طویل دورانیے کے نئے قرضے لیے ہیں، پرانے قرضوں پر ابھی تک لبنان کی حکومت سودادا کررہی ہے ا ن قرضوں کے علاوہ بھی سب سے بڑی چیز جو معیشت کو سنبھالا دیتی ہے وہ تارکین وطن کی ترسیل زرہے لیکن ۲۰۱۱ء سے ضمانت اور ترسیلات دونوں ہی آہستہ آہستہ زوال کی طرف جارہے تھے۔
شام کی خانہ جنگی نے سیاحت اور درآمد کے راستے کو بند کر دیا۔ ۲۰۱۴ء میں خلیجی ریاستوں کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں اضافے نے ترسیلات کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا اور ایک طرف امریکا بھی سیاسی جماعتوں اور حزب اللہ کو لگام دینے کے لیے اسے بڑھائے ہی جارہا ہے۔
خلیج کی وہ ریاستیں جو امریکا کی اتحادی ہیں انہوں نے فرانس کی طرز پر اپنی ضمانتیں یہ کہہ کر واپس لے لی ہیں کہ سرمایہ داری اصلاحات کی یقین دہانی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بگڑتی صورتحال کے بعد بینک نے لوگوں کے اکاؤنٹ ضبط کرلیے ہیں لیکن پھر بھی بڑی رقوم نکل رہی ہیں، لبنانی کرنسی زوال پذیر ہے، مقدارِ زر اپنی انتہاؤں پر ہے، نوکریاں ختم ہوچکی ہیں،مڈل کلاس شہری غربت کا شکار ہیں اور غریب بدترین غربت میں پسے جارہے ہیں۔ مسلسل خراب ہوتے حالات کی وجہ سے احتجاجی تحریک پوری شدت کے ساتھ شروع ہوئی، یہ دراصل ریاستی اداروں اور ان کے اتحادیوں کے خلاف زبردست احتجاج تھا۔ اس دوران اس احتجاجی تحریک کو سمیٹنے یا اس کے فوائد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی سیاسی رہنما یا سیاسی اتحاد سامنے نہیں آیا۔ طاقت اور حکومت اب اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کے ہاتھ سے نکل رہی تھی، احتجاجی تحریک نے اس بات کا عزم کر رکھا تھا کہ وہ حکومتِ وقت سے اس معاشی تباہی کی پوری قیمت وصول کریں گے۔
بیروت دھماکے کے بعد لوگوں کاغصہ اشتعال میں بدل گیا، اب وہ تباہی کے ذمہ داروں کی موت چاہتے ہیں۔لبنان کی جدید تاریخ ایک ایسے نظام کا انکشاف کرتی ہے کہ لبنان کے شہری ذمہ داروں کو سامنے لاتے ہیں اور انہیں ان کے انجام سے دوچار کرتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے کرپٹ اور منافع خور اپنے مخالفین اور صحافیوں کی وجہ سے عوام میں بے نقاب ہوتے رہے ہیں، ان مسائل پر لمبی چوڑی بحثیں بھی کی گئی ہیں لیکن ان کااحتساب کبھی نہیں کیا گیا۔ اب سارے دھڑوں کے خلاف مزاحمتی تحریک ذمہ داروں کے انجام تک چلائی جائے گی، افسران اور سیاستدانوں کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی دراصل ان کا احاطہ کیا جارہا ہے۔ بیورو کریسی اپنی مخصوص پوزیشن کے ساتھ شیعہ، سنی اور عیسائیت کے دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔
کسی بھی سیاسی تنظیم کے لیے کامیابی اس کا پالیسی پروگرام نہیں رہابلکہ وہ اپنے قریبی لوگوں کونوازنے کے لیے اقتدار حاصل کرتے رہے ہیں، وہ اپنے لوگوں کو نوکریاں فراہم کرتے ہیں افسران عام شہری کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت کے طور پر کام کرتے ہیں۔
لیکن اب جب کہ ۲۷۰۰ ٹن امونیم نائیٹریٹ ۶ سال تک بندرگاہ پر پڑی رہنے کے بعد ہولناک دھماکے کی وجہ بن گئی تو سوال یہ ہے کہ یہ کھیل کون کھیلے گا؟ ہزاروں لوگ زخمی ہیں اسپتال بھر چکے ہیں، دوائیاں ختم ہوچکی ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور ان میں سے اکثر اب اپنا گھر دوبارہ تعمیر کرنے کا خرچ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔
گزرے ہوئے ماہ و سال اور کووڈ ۱۹ سمیت ریاست کو پہنچنے والا ہر دھچکا لبنانی عوام کو یہ بتاتا ہے کہ ان کی زراعت زوال پذیر ہے، ان کی معیشت عدم استحکام کا شکارہے، یہاں تک کہ ان کی معاشی خودمختاری تک داؤ پر لگی ہوئی ہے۔یہ سارے مسائل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اب لبنان کے عوام کی بنیادی ضروریات کا انحصاربھی درآمدات پر ہے جبکہ زیادہ تر برآمدات کا انحصار بیروت کی بندرگاہ پر ہی ہے۔
(مترجم: سمیہ اختر)
“The inferno and the mystery ship”.(“bbc.uk”. August 8, 2020)
Leave a Reply