
آج جو دینی تعلیم ہم دے رہے ہیں، اس کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ ہمارے سامنے ہونے چاہییں۔ میں ذرا بے تکلف بات کروں گا۔ آپ برا نہ مانیے گا۔ میرا تعلق آپ ہی کے طبقہ سے ہے۔ وہ ایک شعر ہے کہ:
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
تو گفتگو میں تھوڑی سی تلخ نوائی کا عنصر آنے کی اجازت دیجیے۔ جب دارالعلوم دیوبند قائم ہوا، اس وقت مسلمانوں کو مسئلہ کیا درپیش تھا؟ اس وقت مسلمانوں کو مسئلہ یہ درپیش تھا کہ انگریز نے پورے برصغیر پر قبضہ کر لیا تھا، مسلمانوں کے اوقاف سب ختم کر دیے تھے، ایک ایک کر کے ضبط کر لیے گئے تھے، تعلیمی ادارے سب بند کر دیے گئے تھے۔ علماء کرام جو سارے نظام کو چلا رہے تھے، ان کو ملازمتوں سے الگ کر دیا گیا تھا۔ عدالتوں کا نظام جو شریعت کے مطابق تھا، اس کو ختم کر کے انگریزی عدالتیں قائم کر دی گئیں، انگریزی قانون شریعت کی جگہ نافذ کر دیا گیا۔ فارسی جو نظامِ حکومت کی زبان تھی، اس کو ختم کر کے انگریزی جاری کر دی گئی۔ جہاں جہاں مسلمان مقرر تھے، ان کی جگہ ہندوئوں کو مقرر کر دیا گیا۔ بڑے مناصب پر انگریز آگئے اور مسلمان ہٹ گئے۔ جو چیزیں مسلمانوں کی عزت کا ذریعہ تھیں، وہ مسلمانوں کی ذلت کا ذریعہ بنا دی گئیں۔ مسلمانوں کا لباس، مسلمانوں کے عہدے، مسلمانوں کے مناصب، مسلمانوں کے القاب، ہر چیز جو اونچے درجے کی تھی، اس کو نیچے درجے میں انھوں نے متعارف کروا دیا۔ یہ وہ حالات تھے جن میں انھوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ نصاب یا وہ نظام جو آسانی سے اس وقت اپنایا جاسکتا ہے، اس کو اپنا لیا جائے۔
اس وقت درسِ نظامی برصغیر میں رائج تھا۔ درسِ نظامی کیا ہے؟ یہ بھی عرض کر دوں۔ درسِ نظامی نہ کوئی آسمانی چیز ہے، نہ قرآن میں آیا ہے، نہ حدیث میں، نہ اس کا اسلام کے مستقبل یا ماضی سے کوئی تعلق ہے۔ یہ ایک اچھی مفید چیز ہے، اس کی افادیت سے انکار نہیں۔ اصل میں انگریز کی حکومت جب برصغیر میں قائم ہوئی تو اس وقت ہندوستان میں چار پانچ قسم کے درس رائج تھے۔ ایک درس مشرقی ہندوستان، جون پور وغیرہ میں رائج تھا جو شیراز ہند کہلاتا تھا۔ شیراز ہند اس لیے کہلاتا تھا کہ جون پور اور مشرقی علاقوں میں عقلیات اور فلسفے پر زور زیادہ تھا اور وہاں کے فارغ التحصیل حضرات منطق اور فلسفے کے ماہر ہوتے تھے۔ مسلمانوں میں عقلیات پر جتنی کتابیں برصغیر میں لکھی گئیں، وہ خیرآبادی اسکول کی طرف سے لکھی گئیں۔ فضل حق خیرآبادی اور فضل امام خیرآبادی اس اسکول کے معروف نام ہیں اور ان کی لکھی ہوئی کتابیں ’ہدیہ سعیدیہ‘ اور ’شمس بازغہ‘ وغیرہ سے آپ واقف ہیں۔
ایک دوسرا درس تھا جو افغانستان کے اثرات سے آیا تھا اور موجودہ صوبہ سرحد، افغانستان اور موجودہ پنجاب میں رائج تھا۔ اس میں صرف و نحو اور نحوی بحثوں پر زور دیا جاتا تھا۔ کافیہ اور اس کی شرح پڑھنے پر لوگ دس دس سال لگاتے تھے۔ کافیہ میں کیا لکھا ہے، اس سے بحث نہیں ہوتی تھی، لیکن مفردا مرفوع ہے یا منصوب یا مجرور، اس پر تین تین دن بحث ہوتی رہتی تھی۔ پھر کافیہ کی شرح، شرح جامی پڑھائی جاتی تھی۔ پھر شرحِ جامی کی شرح، پھر اس کے حواشی سوال باسولی، سوال کابلی، تحریر سنبٹ وغیرہ اور دس دس سال اس میں لگ جاتے تھے۔ بہرحال یہ تخصص کا ایک میدان تھا۔ ان کی دلچسپی تھی جس پر ہمیں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔
تیسرا نصاب وہ تھا جو مغربی ہندوستان اور سندھ میں رائج تھا جس میں علمِ حدیث پر نسبتاً زیادہ زور تھا۔ شیخ علی المتقی، کنز العمال کے مصنف عبدالوہاب المتقی، ہمارے سندھ کے علماء کرام شیخ محمد حیات سندھی، شیخ محمد عابد سندھی اور شیخ ابوالحسن سندھی وغیرہ حضرات اس نظام سے وابستہ تھے۔ ان حضرات کا اعتنا علومِ حدیث سے زیادہ تھا۔
یہ تین مختلف نظامِ ہندوستان میں رائج تھے اور کچھ تھوڑی تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ ان سے مختلف بھی تھے، لیکن بڑے انداز یہی تین تھے۔ اس کی تفصیل اگر آپ دیکھنا چاہیں تو مولانا مناظر احسن گیلانی کی ضخیم کتاب ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت‘‘ میں دیکھ لیجیے۔ جب انگریز ہندوستان میں آئے، ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو سب سے پہلے بعض سرحدی علاقوں بمبئی، مدراس اور کلکتہ وغیرہ پر قبضہ کیا۔ کلکتہ پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے تجارتی کوٹھیاں بنائیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی پولیس اور فوج رکھنا شروع کی جس کی ایک لمبی داستان ہے۔ آج کل اس کے parallels اور اس کی مشابہتیں بڑی نمایاں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آپ کے ملک میں بدامنی ہے، آپ کے ہاں راستوں میں ڈکیتیاں بہت ہوتی ہیں، اس لیے ہم اپنی جان و مال اور راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی فوج الگ رکھیں گے۔ ان کو فوج رکھنے کی اجازت دے دی گئی اور انھوں نے راستوں پر سپاہی رکھنے شروع کر دیے۔ ہوتے ہوتے انھوں نے پورے بنگال پر قبضہ کر لیا اور بالاخر نواب سراج الدولہ کے خلاف فوج کشی کر کے اس کو demote کر دیا۔ بنگال پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے بہار اور اڑیسہ پر قبضہ کر لیا اور الہ آباد پہنچ گئے جو مشرقی یوپی کا سب سے بڑا شہر تھا۔ جب تین صوبوں بنگال، بہار اور اڑیسہ پر ان کا قبضہ ہو چکا تو ہندوستان میں مسلمانوں کے کان پر جوں رینگی اور یہاں کا جو حکمران تھا، غالباً شاہ عالم ثانی، وہ ان کے مقابلے کے لیے اپنی فوج لے کر نکلا۔ اس کو ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی کے نتیجے میں الٰہ آباد میں ایک معاہدہ ہوا جو معاہدۂ دیوانی کہلاتا ہے۔ یہ معاہدہ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب کے انتقال کے کوئی تین سال بعد ہوا۔ اس معاہدہ میں شاہ عالم ثانی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ان تینوں صوبوں کا انتظام سپرد کر دیا یعنی اس کو قانوی طور پر ایک جائز قبضہ تسلیم کر لیا اور کہا کہ میری طرف سے آپ ان تینوں صوبوں کا نظام چلائیں گے لیکن اس کی یہ شرائط ہوں گی۔ (انگریز ہمیشہ شروع میں شرائط مان لیتے ہیں جو ان کو سوٹ کرتی ہیں۔ پیروی اور پابندی وہ کتنی کرتے ہیں، یہ ہم سب کے سامنے ہے)
ان شرائط میں ایک بات یہ تھی کہ مسلمانوں کے سارے معاملات شریعتِ حقہ محمدیہ کے مطابق ہوں گے۔ یہ معاملات قاضی اور مفتی طے کریں گے کہ شریعت کیا ہے اور اس کو کیسے نافذ کیا جائے۔ یہ ان شرائط میں ایک چیز تھی۔ جب انگریزوں نے یہ شرائط مان لیں تو انگریزوں میں یہ خوبی ضرور ہے، ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ ہر کام بڑے methodical طریقے سے کرتے ہیں۔ ہر کام کا ایک نظام ہوتا ہے۔ پہلے قانون بنتا ہے، اس کے مطابق نظام چلتا ہے۔ تو انگریزوں نے یہ معلوم کیا کہ مسلمانوں میں کسی کو جج مقرر کرنے کے لیے اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے کہ وہ عالم یا فقیہ ہے؟ انھوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ تین چار قسم کے نصاب رائج ہیں اور ہر ایک کے فارغ التحصیل کو عالم کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کوئی ایسا نصاب ہونا چاہیے جو ان تینوں خصائص کا جامع ہو۔ اب ان تینوں خصائص کا جامع نظام وہ تھا جو فرنگی محل میں رائج تھا۔
فرنگی محل ایک بہت بڑے مکان کا نام تھا جو جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے دیا تھا۔ جہانگیر اس زمانے میں بیمار ہوا، کئی لوگوں نے اس کا علاج کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ ایک انگریز ڈاکٹر نے علاج کر دیا تو اس نے خوش ہو کر پوچھا کہ کیا چاہیے؟ انگریز ہمیشہ اپنی قوم کا وفادار ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ میری قوم کے کچھ لوگ یہاں لکھنؤ میں تجارت کے لیے آئے ہیں، ان کو مشکل پیش آتی ہے تو آپ ان کو تجارت کی اجازت دے دیں اور ان کو کوئی charter یا کوئی guarantees ایشو کر دیں۔ جہانگیر نے فرمان جاری کر دیا اور لکھنؤ میں ایک بہت بڑا محل یا کوٹھی ان کو دے دی۔ انگریزوں کی وجہ سے وہ کوٹھی ’فرنگی محل‘ کہلاتی تھی۔ اورنگ زیب کے زمانے میں کسی حوالے سے اس کو خبر ملی کہ انگریزوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جو جہانگیر نے طے کیا تھا اور بعض ایسے کام کیے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ اورنگ زیب نے وہ کوٹھی ان سے ضبط کر لی اور ان کو نکال کر وہ کوٹھی ملا نظام الدین سہالوی کو دے دی جنھوں نے فتاویٰ عالم گیری مرتب کرایا تھا اور کہا کہ آپ یہاں درس گاہ قائم کریں۔ چنانچہ اس درس گاہ کے علما فرنگی محلی کہلانے لگے۔ مولانا جمال میاں فرنگی محلی، عبدالوہاب فرنگی محلی، عبدالباری فرنگی محلی، یہ نام آپ نے سنے ہوں گے۔ فرنگی محل میں ملا نظام الدین سہالوی کا مرتب کردہ جو نصابِ تعلیم تھا، اس میں انھوں نے منطق، فلسفہ، نحو اور حدیث کے ساتھ ساتھ اصولِ فقہ اور فقہ کی بنیادی کتابیں بھی شامل کر دیں، اس لیے کہ وہ خود فقہ کے مخصص تھے، مفتی اور محتسب رہے تھے اور فتاویٰ عالم گیری کی ترتیب میں بھی شریک رہے تھے۔
جب انگریزوں کو پتا چلا کہ فرنگی محل کا جو نصابِ تعلیم ہے، اس میں فقہ کی اچھی بنیاد موجود ہے اور وہاں کے فارغ التحصیل حضرات فقہ کے ماہر ہوتے ہیں تو انھوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اسی درسِ نظامی کے فارغ التحصیل حضرات کو قاضی و مفتی مقرر کیا جائے گا۔ چنانچہ بڑے پیمانے پر چونکہ قاضی و مفتی مقرر ہونے لگے اور درسِ نظامی کے فارغ التحصیل حضرات کو ایک اچھا دنیاوی موقع ملا، ان کی تنخواہیں اچھی تھیں، ان کے وسائل اچھے تھے، معیارات اچھے تھے تو بڑے پیمانے پر مدارس نے اسی نصاب کو اپنانا شروع کر دیا اور بڑی تعداد میں انگریزوں نے اس نصاب کے فارغ التحصیل علماء کرام کو مفتی و محتسب مقرر کر دیا۔ آپ ۱۸۵۷ء سے پہلے کی تاریخ میں بیسیوں علماء کرام کے نام سنیں گے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم کے طور پر کام کرتے تھے۔ مفتی صدر الدین آزردہ کا نام آپ نے سنا ہو گا۔ وہ اسی درسِ نظامی کے پڑھے ہوئے تھے اور انگریزوں کے نظام میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ’صدرالصدور‘ تھے یعنی دہلی اور اس کے قرب و جوار کے مذہبی امور کے جتنے قاضی تھے، ان کی سربراہی ان کے پاس تھی۔ آپ انھیں اس علاقے کا چیف جسٹس کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔
یہ نصاب تھا جس سے لوگ مانوس تھے اور گذشتہ کم و بیش سو برس یا ۸۰ برس سے لوگ اس نصاب کو پڑھتے چلے آرہے تھے۔ جب مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اﷲ نے دارالعلوم کے قیام کا فیصلہ کیا تو انھوں نے بھی اسی نصاب کو اپنا لیا اور لوگوں کے ساتھ وہ بھی اس نصاب کے پڑھے ہوئے تھے۔ ان کے والد، ان کے ساتھی دوسرے علماء کرام، مثلاً مولانا محمد یعقوب نانوتوی جو دارالعلوم کے پہلے صدر مدرس بھی منتخب ہوئے، ان کے والد مولانا مملوک علی، سب اسی نظام کے پڑھے ہوئے تھے اور وہ دہلی کالج میں جسے ایسٹ انڈیا کمپنی چلاتی تھی، عربی کے پروفیسر تھے۔ اس نصاب کو اپنانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ دینی تعلیم بقدرِ ضرورت اس میں شامل تھی۔ اس میں عربی زبان بھی تھی، فقہ بھی تھی، اصولِ فقہ بھی تھی، حدیث بھی تھی، تفسیر کی ایک دو کتابیں بھی انھوں نے شامل کر دیں۔ حدیث کی مزید کتابیں شامل کر دیں۔ اس سے پہلے تک حدیث کی صرف ایک کتاب مشکوٰۃ اور ایک آدھ کتاب ہوتی تھی۔ ان حضرات نے مزید کتابیں شامل کر دیں اور ایک نیا نصاب انھوں نے بنا دیا جس میں ہندوستان کے دینی تقاضوں کو اس وقت پورا کیا۔
کیا پاکستان بننے کے بعد بھی دینی مدارس کے تقاضے یہی تھے؟ میرے خیال میں یہ نہیں تھے۔ پاکستان بننے کے بعد دینی مدارس سے تین قسم کے تقاضے ہیں اور ان تینوں تقاضوں کی ضروریات الگ الگ ہیں۔ ایک تقاضا تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو مساجد ہیں، ان میں ہمیں تربیت یافتہ امام درکار ہیں۔ یہ سب سے پہلا تقاضا ہے جو مسلمانوں کی دینی زندگی کا سب سے لازمی مطالبہ ہے جسے پورا ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ ایک امام مسجد کو درسِ نظامی پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر وہ ’ہدیہ سعیدیہ‘، ’سوالِ کابلی‘، ’سوال باسولی‘ اور ’تحریر سنبٹ‘ وغیرہ نہیں پڑھے گا تو بھی وہ اک اچھا امام ہو سکتا ہے۔ اور اگر پڑھ لے گا تو اس کے اچھا امام بننے میں ان کتابوں سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اچھا امام بننے یا نہ بننے میں ان علوم و فنون کا سرے سے کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے یہ تحصیل حاصل ہے اور وقت کا بھی ضیاع ہے اور وسائل کا بھی۔ آپ نے ہزاروں ایسے لوگوں کو دیکھا ہو گا اور آگے چل کر کروڑوں ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جنھوں نے آٹھ دس سال لگا کر یہ ساری چیزیں یاد کیں، پھر پچاس سال امامت کی اور پچاس سالہ امامت میں کسی نے ان سے ’ہدایۃ الحکمۃ‘ کا کوئی سوال نہیں پوچھا۔ وہ تو ان کو پڑھائے نہیں جاتے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ شیئرز مارکیٹ میں پیسہ لگانا جائز ہے یا نہیں اور ان میں سے اکثر کو یہی پتا نہیں ہوتا کہ شیئر کہتے کس کو ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ نظام اچھا امام تیار نہیں کر سکتا۔ اب ایک اچھے امام کی حقیقی ضروریات کیا ہیں، اس پر غور و فکر ہونا چاہیے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ایک کم از کم تعلیمی معیار کے بعد، جو میٹرک ہو سکتا ہے، آپ دینی مدارس میں طلبہ کو داخلہ دیں۔ میٹرک کے بعد حفظِ قرآن لازمی ہونا چاہیے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ دینی مدارس میں حافظ کے علاوہ کسی کو داخلہ نہیں دینا چاہیے۔ اس وقت جامعہ ازہر کے تحت جو ادارے کام کر رہے ہیں، ان میں طلبہ کی تعداد کم و بیش پندرہ لاکھ ہے جو پاکستان کے دینی مدارس کے طلبہ کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ان کی آبادی ہم سے آدھی بلکہ اس سے بھی کم ہے لیکن وہاں حفظِ قرآن لازمی ہے۔ گویا پندرہ لاکھ حافظ طلبہ اس وقت جامعہ ازہر کے زیرِ انتظام اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ اگر وہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
اس کے بعد تین سال کا ایک نظام اور نصاب ایسا ہو جس میں بقدرِ ضرورت عربی زبان پڑھائی جائے۔ اتنی کہ طالب علم تفسیر اور حدیث کی کتابیں اور فقہ کی عام کتابیں پڑھ سکے۔ عربی زبان کے علاوہ حدیث اور علومِ حدیث پر کوئی ایک آدھ جامع کتاب مثلاً مشکوٰۃ کا انتخاب یا معارف الحدیث یا کوئی اور اچھی کتاب پڑھا دی جائے۔ اسی طرح اردو کی کوئی تفسیر، مثلاً تفسیرِ عثمانی اور کوئی ایک عربی کی مختصر تفسیر پڑھائی جائے۔ ایک دو فقہ کی کتابیں ہوں اور کوئی ایک آدھ کتاب جدید معاشیات پر۔ اس طرح کا ایک تین سالہ نصاب ہو جس میں تقریر کی مشق بھی ہو اور تجوید بھی اس میں شامل ہو۔ جو یہ نصاب مکمل کر لے، وہ امام بننے کا اہل ہو اور اس کو پھر امام بننے کا موقع دینا چاہیے تاکہ وہ اپنا اور ادارے کا مزید وقت اور وسائل ضائع نہ کرے، اس لیے کہ اس کو اس سطح سے آگے کام نہیں کرنا۔
اب یہ ایک تقاضا ہے جس کے لیے آپ جب تک کوئی نظام نہیں بنائیں گے، وہی کچھ ہوتا رہے گا جو آج ہو رہا ہے۔ آپ ایک اور تلخی کی بات سنیے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور جب تک آپ حقائق کا سامنا نہیں کریں گے، مستقبل کی تشکیل نہیں کر سکتے۔ آج ہمارا امام جب سوسائٹی میں جا کر یہ محسوس کرتا ہے کہ میں نے جو کچھ پڑھا ہے، وہ تو irrelevant ہے اور یہاں لوگ جو سوال کرتے ہیں، اس کا میرے پاس جواب نہیں ہے تو وہ اپنی پڑھی ہوئی چیزوں کو relevant بنانے کے لیے وہاں وہ مسائل پیدا کرتا ہے جو اس کے اپنے مسائل ہیں تاکہ وہ لوگوں کے بھی مسائل بن جائیں اور جب وہ ان کے مسائل بن جائیں گے اور وہ پوچھیں گے تو میں ان کا جواب دوں گا۔ وہ مسائل کیا ہوتے ہیں؟ وہ فرقہ وارانہ ہوتے ہیں۔ اب جن بیچاروں کو کچھ پتا نہیں اور نہ کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوتا ہے کہ حضور نور تھے یا بشر تھے، ان کے لیے امام یہ مسئلہ پیدا کر دیتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حکم واجب التعمیل ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا لیکن اس پر زور دینا شروع کرتا ہے کہ آپ بشر تھے اور دوسرا اس پر کہ آپ نور تھے۔ وہ نور کا ایک محدود مفہوم بیان کرتا ہے، یہ بشر کا ایک محدود مفہوم بیان کرتا ہے اور جب علم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کا ایک گروہ اس کام کے لیے تیار ہو جائے گا تو اب امام صاحب کی نوکری پکی ہو جائے گی اور انھیں کوئی وہاں سے نہیں ہٹائے گا۔ یہ ایک افسوسناک بات ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔ اس کو محض تنقید کے مفہوم میں نہ لیں۔ جب تک مرض کی آپ تشخیص نہیں کریں گے، اس وقت تک اس کا علاج نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے امام کو اس کام کے لیے تیار کریں جو سوسائٹی کے relevant مسائل ہیں۔ جب اسے یہ مسائل معلوم ہوں گے تو وہ غیرمتعلق مسائل پیدا نہیں کرے گا۔
اس کے بعد تعلیم کا دوسرا درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دینی علوم کے مدرس یا معلم بننا چاہتے ہیں۔ آج پاکستان کے ہر اسکول اور کالج میں ایف اے تک اسلامیات لازمی ہے۔ بہت سے لوگ بی اے میں بھی پڑھتے ہیں۔ ہر کالج اور ہر اسکول میں اسلامیات کے ٹیچر ہوتے ہیں۔ یہ دو طرح کے لوگ ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو سرکاری اداروں سے ایم اے کر کے آئے ہیں جن کا علم بڑا ناپختہ ہوتا ہے۔ وہ اردو میں پڑھ کر امتحان پاس کر لیتے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ قرآن پاک بھی ناظرہ نہیں پڑھ سکتے۔ میں نے اسلامیات کے لیے ایسے اساتذہ دیکھے ہیں کہ جن سے نماز پڑھانے کے لیے کہا جائے تو نماز نہیں پڑھا سکتے۔ قرآن پاک کی شاید چار سورتیں بھی ان کو حفظ نہ ہوں، اس لیے کہ انھوں نے پڑھا ہی نہیں ہوتا۔ اردو میں پڑھ کر پاس کر لیتے ہیں اور اسلامیات کی ڈگری ان کو مل جاتی ہے اور وہ اسلام کے مجتہد اور مفتی بھی بن جاتے ہیں۔ یہ ایک دوسری خطرناک بات ہے جو ہو رہی ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو مدرسوں کی لائن سے آئے ہیں۔ مدرسوں میں میبذی، شرح عقائد اور خیالی قسم کی جو اسلامیات پڑھائی جاتی ہے، وہ یہاں کام نہیں کرتی۔ یہاں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے ہم نے ان لوگوں کو تیار نہیں کیا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ابتدائی تین چار سال کے بعد مزید تین سال کا ایک نصاب ہونا چاہیے جس کا مقصد یہی ہو کہ آپ کو اسکولوں اور کالجوں کے لیے اسلامیات کے معلم تیار کرنے ہیں۔
اس کے بعد تیسری ضرورت یہ ہے کہ ہمیں ایسے لوگ درکار ہیں جو خود ان دینی مدارس میں اعلیٰ درجے کے مخصص ہوں، جو کتابیں پڑھا سکیں اور اعلیٰ درجے کے علوم و فنون کی تدریس کر سکیں۔ ہمیں فقہا درکار ہیں، محدثین درکار ہیں، مفسرین درکار ہیں، مفتی درکار ہیں جو ان سب علوم کے مخصص ہوں۔ اس کے لیے الگ سے چار پانچ سال کی تیاری چاہیے۔ جب تک وہ تیاری نہیں ہو گی، مطلوبہ افراد تیار نہیں ہوں گے۔ اس وقت درسِ نظامی میں کیا ہوتا ہے؟ درسِ نظامی میں سب سے neglected چیز قرآن پاک ہے جس پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔ اب بعض مدارس میں ترجمہ قرآن شروع ہو گیا ہے۔ اول سے آخر تک ترجمہ پڑھا دیتے ہیں جس کی نوعیت اس عام درس سے مختلف نہیں ہوتی جو عام مسجدوں میں ہوتا ہے جس میں بیٹھ کر لوگ سن لیتے ہیں۔ ایک عالم صاحب نے درس دے دیا، لوگوں نے عقیدت سے سن لیا۔ کچھ یاد رہا، کچھ یاد نہیں رہا۔ اسی طرح مدرسوں میں جو درس ہوتا ہے، وہ اکثر لوگوں کو یاد نہیں رہتا۔ جو تفسیر پڑھاتے ہیں، وہ بیضاوی کی سورہ بقرہ ہے۔ میرے خیال میں بیضاوی کوئی اچھی تفسیر نہیں ہے۔ میں امام بیضاوی کے پورے احترام کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں۔ نہ وہ تفسیر کا اچھا نمونہ ہے، نہ کسی اور چیز کا۔ تفسیر بیضاوی انھوں نے کیوں لکھی؟ وہ اصل میں متکلم تھے اور اصولِ فقہ کے آدمی تھے۔ انھوں نے بطور متکلم یہ دیکھا کہ زمخشری کی تفسیر بڑی مقبول ہو رہی ہے اور اس کے ہاں معتزلی عقائد ہیں تو انھوں نے کہا کہ زمخشری کی تفسیر سے اس کے جو بلاغت کے نکتے ہیں، وہ لے لیے جائیں اور معتزلی عقائد کو نکال کر اشعری عقائد اس میں ڈال دیے جائیں اور اس طرح سے تفسیر بیان کر دی جائے۔ اب جن جن باتوں میں انھوں نے زمخشری کی تردید کی ضرورت سمجھی، وہ ساری سورہ بقرہ میں آگئیں، اس لیے وہ تو بڑی لمبی ہو گئی اور باقی تفسیر میں بس مختصر حواشی ہیں جنھیں کوئی پڑھتا نہیں۔ چنانچہ عملاً تفسیرِ قرآن تو طلبہ کو پڑھائی نہیں جاتی۔ میں نے جید علماء میں سے بھی بہت سوں کو دیکھا کہ علمِ تفسیر سے واقف ہیں، نہ علومِ قرآن میں جو مسلمانوں کے کارنامے ہیں، ان سے آشنا ہیں۔ اکثر لوگوں کو بڑی تفسیروں کے نام بھی پتا نہیں ہوتے۔ آپ چاہیں تو بیضاوی کے کسی استاد سے پوچھ لیں کہ دس بہترین تفسیروں کے نام بتا دیں تو شاید طبری اور ایک آدھ کے علاوہ وہ چھٹا ساتواں نام نہ بتا سکیں۔ اکثر صورتوں میں واقفیت کا عالم ہوتا ہے۔ بعض صورتیں مستثنیٰ ہیں۔
اب قرآنِ پاک ہمارے علوم و فنون کی اساس ہے تو پھر اس کو فی الواقع تعلیم کی بھی اساس ہونا چاہیے۔ یہ بات کہ آپ نے پہلے طالب علم کو ساری چیزیں پڑھا کر اس کے ذہن کا ایک سانچہ بنایا، اس کے بعد اس سانچے کے مطابق آپ اسے قرآن پڑھا رہے ہیں، یہ میرے خیال میں قرآن کی توہین ہے۔ قرآن اصل سانچہ ہے۔ قرآن کے سانچے سے باقی علوم کو جانچنا چاہیے۔ باقی علوم کے سانچے سے قرآن کو نہیں جانچنا چاہیے۔ ہم پہلے متاخرین کے عقائد اور فتاویٰ پڑھا کر طالب علم کا ایک ذہن بناتے ہیں، پھر اس ذہن سے کہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ کو توڑو مروڑو اور توڑ مروڑ اس کے مطابق ایڈجسٹ کرو۔ یہ میرے خیال میں قرآن کا صحیح استعمال نہیں ہے۔ اس لیے میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ علومِ قرآن کی تعلیم کا ایک نیا نظام ہونا چاہیے۔ کیا ہونا چاہیے؟ اس پر کبھی بات ہو گی تو اس پر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہوں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ علومِ قرآن میں تخصص موجودہ درسِ نظامی سے حاصل نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اپنی ذاتی دلچسپی یا ذوق سے پیدا کر لیں تو کر لیں، نظام میں اس کا بندوبست نہیں ہے۔ کوئی inherent mechanism نظام میں نہیں ہے کہ قرآن کے مخصصین پیدا ہوں۔
یہی حال علمِ حدیث کا ہے۔ علمِ حدیث کا مخصص ازخود کوئی پیدا ہو جائے، اﷲ تعالیٰ انور شاہ کشمیری کی طرح کسی آدمی کو پیدا کر دے تو کر دے، لیکن اس نصاب کو پڑھ کر جو لوگ تیار ہوتے ہیں، ان میں کوئی علم حدیث کا مخصص نہیں ہوتا۔ ان کو محض چند فقہی موضوعات سے متعلق وہ حدیثیں یاد ہوتی ہیں جن میں فقہاے احناف کا کوئی کلام یا فقہاے شوافع کا کوئی مستدل ہے۔ مدارس میں تین تین ماہ تک اس پر بحث ہوتی رہتی ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ یہاں لوگوں کے ایمان ضائع ہو رہے ہیں۔ لوگ ایمان ہی کو نہیں مان رہے کہ ایمان بھی کوئی چیز ہے۔ اور اس کو چھوڑ کر آپ تین مہینے اس پر بحث کرتے رہتے ہیں کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے کسی کو بحث نہیں۔ آپ نے ایمان کے بارے میں کیا فرمایا، وہ کسی کا concern نہیں۔ لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے کسی مقتدا یا پیشوا کے نقطۂ نظر کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے ثابت کر دیں۔ اس کے بعد اگلے چھ مہینے ان احادیث پر خرچ ہو جاتے ہیں جن میں فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین کی طرح کے اختلافی موضوعات بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد جو طالب علم سب سے تیز پڑھنے والا ہوتا ہے، اس کو کہتے ہیں کہ تم پڑھو اور روزانہ چالیس صفحے پڑھو۔ نہ استاد کو اس سے کوئی بحث ہوتی ہے اور نہ شاگردوں کو ہی کچھ پتا چلتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی جو ساری شریعتوں کا ناسخ اور ہر چیز کا معیار ہے اور جس کے بعد ہر بات کالعدم ہے، اس میں کیا بات کہی گئی ہے۔ کتبِ حدیث کی شروح کو دیکھ لیجیے۔ جو شروع کی بحثیں ہیں، ان میں ایک باب تین جلدوں میں آیا ہے تو دوسرا باب چار جلدوں میں جبکہ آخر میں تین تین چار چار سطروں کے حاشیے ہیں کہ کذا قال فلان یا انظر فلانا۔ یہ شرحوں کی کیفیت ہے۔ تو حدیث میں بھی کوئی تخصص مدارس میں پیدا نہیں ہوتا۔ فقہ میں تخصص کی صورتِ حال بھی یہی ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان دو مرحلوں کے لیے مخصصین کے لیے ایک نیا نصاب ہو جس میں درسِ نظامی کی ساری کتابیں شامل ہوں۔ درسِ نظامی کی کسی کتاب کو میں مخصصین کے لیے غیرضروری نہیں سمجھتا، لیکن اس کے ساتھ مزید بہت کچھ شامل کرنا ضروری ہے تاکہ واقعی ایسے مخصص پیدا ہوں جو اس فن یا علم کو آگے چل کر پڑھا سکیں۔
یہ تین درجے تو عام ہیں جن کی ہر وقت ضرورت ہے۔ ان کے بعد ایک درجہ اور ہے جس کے لیے مزید محنت درکار ہے۔ یہ درجہ وہ ہے کہ جو مغربی علوم و فنون کی تنقیح کا فریضہ انجام دے اور ناقدانہ جائزہ لے کر یہ بتائے کہ ان میں کیا چیز کمزور ہے اور کیا چیز مضبوط ہے، کون سی بات اسلام کے مطابق ہے اور کون سی اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ ان میں جو فقہ کا مخصص ہو، وہ مغربی قانون کا تنقیدی جائزہ لے۔ جو فقہ المعاملات کا مخصص ہو، وہ ان کی معاشیات کا جائزہ لے۔ جو اصول فقہ کا مخصص ہو، وہ ان کے اصولِ قانون کا جائزہ لے۔ اس میں کتنا وقت لگے گا، کتنے لوگ تیار ہوں گے، یہ اﷲ بہتر جانتا ہے، لیکن جب تک یہ سارے کام نہیں ہوں گے، اس وقت تک اُمتِ مسلمہ کا مستقبل اس طرح بن نہیں سکتا جس طرح ہم بنانا چاہتے ہیں۔ آج صورت یہ ہے کہ نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اسلام سے واقف نہیں ہیں۔ اسلام کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی تو ہے اور ان میں بہت سے اچھے مسلمان بھی ہیں، لیکن جذباتی وابستگی کی بنیاد پر عمارت بنانے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ ریت پر بیس منزلہ عمارت بنانا چاہیں۔ جیسے وہ قائم نہیں رہ سکتی، اسی طرح یہ عمارت بھی لازماً گر جائے گی۔ چنانچہ جب تھوڑی سی ایسی بات آتی ہے جو اس طبقے کے خیالات سے مختلف ہو تو وہ فوراً اس پر تاویلیں کرتے ہیں، کیونکہ intellectual framework نہیں ہے، اس کا انفرااسٹرکچر نہیں ہے۔ اس کے لیے وقت درکار ہے۔ وہ ایک دو دن میں نہیں ہو گا۔ کسی وعظ یا مطالبے یا بینر یا دھرنے سے نہیں بنے گا۔ اس کے لیے لگ کر کام کرنا پڑے گا۔
حاضرینِ محترم! یہ وہ چند باتیں تھیں جو میں اسلامی علوم و فنون کے طلبہ سے کرنا چاہتا تھا۔ چونکہ آپ اس میدان کے شہسوار ہیں اور اس ضرورت کی تکمیل کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے، اس لیے میری گفتگو میں تھوڑی سی تلخی آگئی جو میں نے جان بوجھ کر شامل کی تاکہ اس تلخی کا احساس آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ ہم جو بات کر رہے ہیں، اس کا تعلق کسی ذہنی عیاشی یا محض فکری سرگرمی سے نہیں ہے، بلکہ وہ واقعی بڑی اہم بات اور مسلمانوں کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ میں ایک شعر پر بات ختم کرتا ہوں۔ فارسی کا شعر ہے:
نواے من ازاں پر سوز و بے باک و غم انگیز است
کہ خاشا کم در شعلہ افتاد و باد صبح دم تیز است
یعنی میں اس لیے تلخ باتیں کر رہا ہوں کہ میرے آشیانے کو آگ لگ گئی ہے اور ہوا تیز ہے اور مجھے جلدی بچانے کی ضرورت ہے۔ امرِ واقعہ یہی ہے کہ آشیانے کو آگ لگ چکی ہے اور باد صبح دم تیز ہے۔ آشیانہ جل جانے کا خطرہ ہے اور بہت جلد اس کو بچانے کی ضرورت ہے۔
(بحوالہ الشریعہ ڈاٹ کام)
Leave a Reply