
تحریک اسلامی جس تبدیلی کی داعی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ جہاں پوری استقامت اور استقلال کے ساتھ اسلام کی اصولی دعوت پیش کرتی رہے وہیں اپنے زمان و مکان کے اہم نظریاتی، سماجی و سیاسی رجحانات سے ضرور تعرض کرے اور اپنے مخاطب سماج کے ساتھ خیر خواہانہ رابطے اور اس میں رائج خیالات کے ساتھ بامقصد مکالمے کا عمل جاری رکھے۔ اس مخاطبت کے لیے ضروری ہے کہ تحریک کے پاس ایسا بیانیہ ہو جو اپنی فکری بنیادوں سے مضبوطی سے وابستہ ہو اور ساتھ ہی اپنے زمانے کے اہم ترین سوالات اور زیر بحث موضوعات اور افکار کے سلسلے میں واضح اور مدلل موقف کا بھی حامل ہو۔
اس وقت ہمارے ملک میں ایک غالب فکری رجحان وہ ہے جس کی نمائندگی ہندتوا (Hindutva) کی تحریک کرتی ہے۔ یہ رجحان تیزی سے ملک کے پڑھے لکھے عوام میں مقبول بھی ہورہا ہے۔ چناں چہ اب ہندتوا کی سیاسی پیش قدمی روکنے کی کوشش کافی نہیں ہے بلکہ زیادہ ضروری، فکر و نظریے کی سطح پر ان کا مقابلہ ہے۔ اس نظامِ فکر کا خالص اسلامی بنیادوں پر جائزہ و تجزیہ ہمارے زمانے کی ایک اہم دعوتی و نظریاتی ضرورت ہے۔ ہم آئندہ چند ماہ تک اس فکر کو زیر بحث لانے کی کوشش کریں گے۔ اس تحریک کے مفکرین اور قائدین کے سیاسی مواقف اور عملی و سیاسی اقدامات پر تجزیوں کی تو کوئی کمی نہیں ہے۔ مسلم حلقوں میں بھی ہماری صحافت کا اب یہ اہم موضوع بن گیا ہے۔ ہم اس سلسلہ مضامین میں ان امور کا احاطہ نہیں کریں گے بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں کیا ہیں؟ ان کا ورلڈ ویو کیا ہے؟ وہ کس طرح کی سماجی، سیاسی اور تہذیبی تبدیلی کے داعی ہیں؟ ہماری کوشش ہوگی کہ ان باتوں کو اس تحریک کے اولین فکر سازوں کے حوالوں سے بھی سمجھیں اور اُن کے افکار میں جو ارتقا یا تبدیلی واقع ہوتی رہی ہے اور موجودہ دور میں جو سوچ پائی جاتی ہے اس کا بھی سنجیدہ مطالعہ کریں۔
ہمارے ملک میں متعدد فکری رجحانات اس نظامِ فکر کے حریف کے طور پر سامنے آتے ہیں اور سیکولر، سماج واد، اشتراکیت وغیرہ شناختوں کے ساتھ، ہندتوا کے مقابلے کے دعوے دار ہیں۔ ہم ان کو بھی زیر بحث لائیں گے۔ ان میں سے ہر مکتبِ فکر نے اس ہندتوا کو اپنے زاویہ نظر سے دیکھا ہے۔ یہ زاویے ہم پر، یعنی مسلمانوں اور وابستگان تحریک کی سوچ پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہم خیال و نظر کے ان زاویوں کو بھی گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ان کی خوبیوں اور کمزوریوں کو زیرِ بحث لائیں گے اور ان کی اُن نظریاتی، عملی اور سیاسی و سماجی غلطیوں کے تجزیے کی کوشش کریں گے جو ان کے نظریاتی زوال اور ان کے مقابلے میں زیرِ بحث فکر کے تیز رفتار فروغ کا سبب بن رہی ہیں۔
اس تحریک کو مسلمان اپنے لیے شدید نقصان دہ سمجھتے رہے اور مختلف طریقوں سے اس پر ردِ عمل کا مظاہرہ بھی کرتے رہے۔ مختلف طرح کے مسلم رد عمل کی پشت پر بھی سوچ کے مختلف دھارے ہیں۔ بعض دھارے مسلمانوں کے اپنے ہیں اور بعض معاصر سیکولر و دیگر تحریکات سے مستعار یا ان کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔ رد عمل کی ان مختلف اقسام کا، خصوصاً نظریاتی ردِ عمل کی اقسام کا بھی تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ بڑی اہم بحث ہے جو ہم چھیڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس میں پیش کیے جا رہے خیالات پر ایک سے زیادہ آرا اور بحث و مباحثے کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ اس سلسلے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ان موضوعات پر سنجیدہ اور گہرے مباحث آگے بڑھیں اور عملی سیاست کی وقتی الجھنوں کے بجائے اس تحریک کو ان کے افکار کی گہرائی میں جاکر سمجھا جائے۔ مجھے امید ہے کہ اہل علم اس بحث کو آگے بڑھانے میں ہماری مدد کریں گے۔
اہم نظریہ ساز
ہندتوا تحریک کے نظریہ سازوں میں شاید سب سے اہم نام ونایک دامودر ساورکر (وفات: ۱۹۶۶ء) کا ہے۔ چٹپاون مراٹھی برہمن خاندان میں پیدا ہونے والے ساورکر، اس وقت تمام ہندو احیا پرست تحریکوں کے باوا آدم مانے جاتے ہیں۔ مراٹھی اور انگریزی میں ان کی جملہ ۳۸ تصانیف دستیاب ہیں۔ Six Glorious Epochs of Indian History ایک اہم کتاب ہے جس سے ہندوستان کی تاریخ کو دیکھنے کا ساورکر کا نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ تاریخ پر ان کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں، کچھ آپ بیتیاں اور جیل کی روداد وغیرہ ہیں۔ سب سے اہم کتاب ’ہندتوا‘ ہے جو ۱۹۲۳ء میں ساورکر نے اپنے نام کے بغیر ’ایک مراٹھا‘ (A Maratha) کے نام سے شائع کروائی تھی۔ یہ ۶۸ صفحات کا مختصر کتابچہ ہے۔ اب جو ایڈیشن عام طور پر فروخت ہوتا ہے وہ Hindutva: Who is a Hindu? کے نام سے، مقدمے وغیرہ کے اضافے کے ساتھ، قدرے تفصیلی (۱۵۹ صفحات) ہے جس میں ہندتوا کے نظریے کی وضاحت کی گئی ہے۔
ساورکر ایک قوم پرست تھے اور خود کو دہریہ کہتے تھے۔ ان کے افکار زیادہ تر یورپ کے سیکولر قوم پرست اور نازی خیالات سے متاثر تھے۔ آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک، مادھوراو گولوالکر (وفات ۱۹۷۳ء) نے ان افکار کو قدیم ہندو فلسفوں اور روحانی و مذہبی خیالات کی بنیاد پر نیا پرکشش جامہ پہناکر ہندو عوام میں مقبول بنایا ہے۔ گولوالکر کو سنگھ کے حلقوں میں گروجی کہا جاتا ہے۔ اس وقت وہ ان حلقوں کے سب سے مقبول مفکر ہیں اور سب سے زیادہ انھی کے حوالوں سے یہ نظامِ فکر زیر بحث آتا ہے۔ ان کی باقاعدہ تصانیف توصرف دو ہیں۔ ایک Bunch of Thoughts اور دوسری We or Our Nationhood Defined۔ ان کے علاوہ ان کی جملہ تقریروں اور تحریروں کو ۱۲ جلدوں میں جمع کیا گیا ہے۔ یہ ہندی کتاب بھی آسانی سے دستیاب ہے۔ انگریزی میں Guruji Vision and Mission نامی کتاب میں ایک جلد میں ان کے خیالات کو مختلف عنوانات کے تحت جمع کیا گیا ہے۔
سنگھ کے فلسفے اور نظریات کی سب سے زیادہ تفصیلی وضاحت گولوالکر ہی کی تصانیف سے ملتی ہے اور انہی کا حوالہ سب سے زیادہ دیا بھی جاتا ہے۔ ساورکر کی طرح ان کے بعض خیالات بھی انتہائی شدید ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس وقت سنگھ کے سب لوگوں کو ان خیالات سے اتفاق نہ ہو۔ بعض دفعہ اس کا اظہار بھی کیا گیا ہے، مثلاً آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت نے ان کی بعض باتوں کو آج کے احوال سے غیر متعلق قراردیا ہے۔ (تفصیل آگے آرہی ہے) لیکن اکثر تجزیہ نگار وں کے نزدیک اس تحریک کی اصل سوچ کی سب سے زیادہ دیانتداری کے ساتھ وضاحت گولوالکر ہی نے کی ہے جب کہ دیگر مفکرین نے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر لاگ لپیٹ سے کام لیا ہے۔
دین دیال اپادھیائے (وفات ۱۹۶۸ء) کی اہمیت یہ ہے کہ انھیں سیاسی جماعت، جن سنگھ اورپھر اس کی بدلی ہوئی شکل یعنی بی جے پی کا اصل نظریہ ساز مانا جاتا ہے۔ انھوں نے ۱۹۶۵ء میں ممبئی میں دیے گئے اپنے چار لیکچروں میں اپنی پارٹی کے نظریے کی وضاحت کی ہے اور اس نظریہ کو ’متکامل انسانیت پسندی‘ (Integral Humanism) کا عنوان دیا ہے۔ انٹیگرل ہیومنزم کو بی جے پی، اپنا سیاسی نظریہ قرار دیتی ہے۔ یہ بات بی جے پی کے دستور (دفعہ ۳) میں باقاعدہ لکھی ہوئی ہے۔ بی جے پی کا رکن بننے کے لیے بھی انٹیگرل ہیومنزم پر یقین و ایمان کے عہد نامے پر دستخط کرنے ہوتے ہیں۔
اس طرح ساورکر، گولوالکر اور اپادھیائے کے خیالات کو اس تحریک کی اساسی فکر کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے بعد اس تحریک کی فکر کو سمجھنے کے لیے کئی مصادر سے مدد ملتی ہے۔ سنگھ کے سرچالکوں کے خیالات کو جمع کرکے کئی کتابیں شائع کی گئی ہیں۔ اس کے ترجمان آرگنائزر میں متعدد قائدین مسلسل لکھتے رہے ہیں۔ ان میں بلراج مدھوک (وفات ۲۰۱۶ء)، کے ایس سدرشن (وفات ۲۰۱۲ء) ایچ وی سیشادری (وفات ۲۰۰۵ء) اٹل بہاری واجپئی (وفات ۲۰۱۸ء) بھیا جی جوشی، منموہن ویدیہ، سیشادری چاری وغیرہ کا مختلف ادوار میں اس تحریک کی نظریہ سازی میں رول رہا ہے۔ حال ہی میں (ستمبر ۲۰۱۸ء) سنگھ کے موجودہ سرسنگھ چالک، موہن بھاگوت نے دلی کے وگیان بھون میں تین روز تک سنگھ کے افکار و پالیسیوں پر لیکچروں کے سلسلے کا اہتمام کیا تھا اور تیسرے دن سوالات کے جوابات بھی دیے تھے۔ ان لیکچروں کو Future India: An RSS Perspective کے عنوان سے کئی زبانوں میں شائع کیا گیا ہے۔ ان سے موجودہ قائدین و مفکرین کی سوچ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ذیل کی سطروں میں ہم ان سب سرچشموں کو سامنے رکھ کر اس تحریک کی فکر کے تجزیے کی کوشش کریں گے۔
اگرچہ یہ مفکرین اس بات کا بار بار دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے نظامِ فکر میں مختلف عقائد، افکار اور مذاہب کے تنوع کی گنجائش ہے اور یہ ان کے نظامِ فکر کی قابلِ فخر خصوصیت ہے۔ اس سلسلے میں عملی رویوں کا جائزہ ہم الگ سے لیں گے لیکن جہاں تک اعلان شدہ فکر کا تعلق ہے اس میں بھی کم سے کم درج ذیل باتیں ایسی ہیں جسے اس نظامِ فکر کی امتیازی خصوصیات کہا جاسکتا ہے۔ سنگھ کے مفکرین کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور پر کسی مصالحت کے لیے وہ تیار نہیں ہیں جب کہ یہ ایسے افکار ہیں جن کے ذریعے وہ ملک کے کچھ طبقات کو باقاعدہ الگ (exclude) کرتے ہیں۔
وجود کی وحدت
کسی بھی نظامِ فکر کی اصل بنیاد اس کا ورلڈ ویو ہوتا ہے۔ ہندتوا کے ورلڈ ویو کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ایک اہم سوچ جو تمام مفکرین میں مشترک نظر آتی ہے وہ وجود کی وحدت Unity of Existence)) کا نظریہ ہے۔ یہ قدیم ہندو فلسفہ ہے جسے ہندو لٹریچر میں ادویتا ویدانتا کہا گیا ہے۔ اس فلسفے کی جڑیں ہندوؤں کی تمام مقدس کتابوں ویدوں، برہما سُوترا اور بھگوت گیتا میں ملتی ہیں۔ آٹھویں صدی عیسوی میں مشہور ہندو فلسفی آدی شنکر نے اس قدیم فلسفے کے احیا کی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں عہد وسطیٰ اور عہد جدید کے برہمن روحانی افکار میں یہ فکر غالب رہی ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات میں اصل حقیقت صرف ایک یعنی برہما ہے۔ انسانی روح بھی اصلاً اسی کا حصہ ہے اور کائنات کے سارے اجزا دراصل اسی ایک وجود کا حصہ ہیں۔ باقی جو بھی نظر آتا ہے وہ محض مایا یعنی اسی ایک حقیقت کا فریب ظہور ہے۔ اس فکر کے اثرات سے بعض مسلمان صوفیا میں بھی وحدت الوجود جیسے نظریات کی بعض انتہا پسندانہ شکلوں کا فروغ ہوا۔ (حالاں کہ صوفیا کے تصورات اور ادویتا میں بعض جوہری فرق ہیں جن پر آئندہ ہم گفتگو کریں گے) سنگھ کے مفکرین اس نظریے کو اپنے نظامِ فکر کی اہم بنیاد قرار دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہاں رہنے والے سب لوگ اسے تسلیم کریں۔ اس وقت دارا شکوہ اور بعض مسلمان صوفیا کے افکار کو مقبول بنانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، اُس کے پیچھے بھی یہی محرک ہے۔ بظاہر یہ محض ایک روحانی نقطۂ نظر محسوس ہوتا ہے لیکن آگے ہم واضح کریں گے کہ جس طرح اس کی تعبیرات کی گئی ہیں، اس سے گہرے سماجی، مذہبی، تہذیبی، قانونی بلکہ سیاسی نتائج بھی نکلتے ہیں۔
گولوالکر سے ایک مسلمان صحافی جیلانی نے تفصیلی انٹرویو لیا تھا۔ آج کل اس انٹرویو کے متن کو خوب پھیلایا جارہا ہے۔ اس میں انھوں نے کہا کہ:
اسے آپ ادویتا کہیں یا کچھ اور کہیں لیکن یہ فلسفہ نہ ہندوؤں کا ہے نہ مسلمانوں کا (یعنی سب کا ہے)۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وجود صرف ایک ہے۔ وہی ایک سچائی ہے۔ (وہی) حقیقی مسرت ہے۔ وہی خالق ہے، رب ہے اور وہی تباہ کرنے اور ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہمارے درمیان خدا کے جتنے مختلف تصورات پائے جاتے ہیں وہ اسی حتمی حقیقت کے محدود تصورات ہیں۔ اس حتمی حقیقت کی بنیادیں ہم سب کو جوڑتی ہیں۔ یہ حقیقت کسی خاص مذہب تک خود کو محدود نہیں رکھتی… مذہب صرف پرستش کا طریقہ ہے۔
گولوالکر کا یہ فلسفیانہ بیانیہ اپادھیائے کے انٹیگرل ہیومنزم میں ایک سیاسی و سماجی بیانیے کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ اپادھیائے نے فرد پسندی (individualism) کے مغربی تصور کو مسترد کیا۔ ان کے مطابق سماج، افراد کے درمیان سماجی معاہدے کا نتیجہ نہیں ہے (جیسا کہ مغربی ماہرین سماجیات بیان کرتے رہے ہیں) بلکہ سماج خود ایک زندہ وجود ہے۔ اس کی اپنی روح ہے۔ اس کے چار اہم اجزا جسم، دماغ، عقل اور روح ہیں۔ اور ان چاروں کے ساتھ چار طرح کی کوششیں وابستہ ہیں جنھیں انھوں نے ارتھا (معاشی اطمینان) کاما (خواہش کی تسکین)، دھرما (اخلاقی اطمینان ) اور موکشا (نجات) کے الفا ظ سے تعبیر کیا۔ یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جدید مغربی تصورات نے صرف جسم اور دماغ کو ایڈریس کیا اس لیے وہ ناکام ہیں۔ فرد کی طرح سماج کی بھی روح ہوتی ہے جسے انھوں نے چیتی کا نام دیا۔ انسانی روح عظیم ترین الہامی روح کا اظہار ہے۔ انسانی روح جب اپنے تمام کمالات حاصل کرلیتی ہے تو الوہی روح میں ضم ہوجاتی ہے جو موکشا ہے اور انسان کا حتمی مقصد ہے۔ اس کے حصول کے مختلف طریقے مذہبی رہ نماؤں نے بیان کیے ہیں۔ جس کو جو طریقہ پسند ہو اس کے مطابق وہ یہ مقصد حاصل کرسکتا ہے یا اپنا طریقہ و راستہ خود ایجاد کرسکتا ہے۔ ہندوستانی تہذیب ان چاروں کو ملاکر ایڈریس کرتی ہے۔
فرد، سماج، فطرت اور کائنات یہ شعور کی چار سطحیں ہیں لیکن ان میں باہم کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کے درمیان ہم آہنگی ہے۔ ان کے درمیان توازن کا نام ہی دھرما ہے۔
انھوں نے ان اصولوں کی بنیاد پر سیاسی و سماجی نظاموں کا ایک خاکہ پیش کیا جو ان کے مطابق ہندوستان کی تہذیبی روح سے ہم آہنگ ہے۔ اسی خاکے کو بی جے پی اپنا سیاسی نظریہ قرار دیتی ہے۔
سنگھ کے موجودہ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے اپنے لیکچر میں ہندوستانی مذہبی فکر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بہت سے اختلافات ہیں لیکن چند باتوں پر مکمل اتفاق ہے۔ یہ اتفاق ہی ہندوستانیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس اتفاق کو انھوں نے پانچ اصولوں کی صورت میں بیان کیا۔ جن میں چوتھا اصول یہ ہے کہ:
پورے وجود کا تم ایک حصہ ہو۔ تمہاری تشکیل اس ایک مکمل وجود کی وجہ سے ہوئی ہے۔۔۔ جسم مجھے والدین کی وجہ سے ملا۔ تہذیب مجھے خاندان کے ذریعے ملی۔ تعلیم، سماج اور اساتذہ کے ذریعے ملی۔ کپڑا پہنتا ہوں تو کہیں مل چلتی ہے، کہیں کوئی بُنتا ہے۔ کسان کھیتی کرتا ہے جو کپاس مہیا کرتا ہے۔۔۔ آپ اس کائنات کے جزو ہیں۔ آپ کو اس کے لیے تعاون پیش کرنا ہے۔ اس کے حوالے سے ممنون رہنا ہے۔ وہ ایک (وجود) کیا ہے؟ جب اس کا تجزیہ شروع ہوتا ہے تو کوئی اس کو معبود مانتا ہے، کوئی تحریک مانتا ہے کوئی کُل مانتا ہے۔ باہمی اختلاف بھی ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی مذمت اور رد بھی ہوتا ہے۔ لیکن کوئی کسی کو ختم نہیں کرتا… (یہ بھارتیتا ہے)
جدید مغربی فلسفے میں ایک رجحان ہے جسے نامیاتیت (Organicism) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق کائنات اور انسانی سماج ایک زندہ وجود ہے اور تمام اجزا الگ الگ اشیا یا افراد نہیں بلکہ اُسی ایک زندہ وجود کے حصے ہیں۔ برطانوی فلسفی تھامس ہابس نے کہا تھا کہ ریاست ایک سیکولر خدا ہے اور شہریوں کو اپنے اندر سموکر ایک زندہ وجود بنتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ویدانت کے قدیم فلسفوں کے ساتھ، ان جدید مغربی فلسفوں کا بھی اثر ان مفکرین نے قبول کیا ہے۔
اس نامیاتی فلسفے کے نتیجے میں فرد کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ مختلف سماجی گروہوں کی اہمیت بھی کم ہوجاتی ہے۔ اصل اہمیت اس بڑے ’نامیاتی وجود‘ کو حاصل ہوجاتی ہے جسے یہ لوگ راشٹر کہتے ہیں۔ افراد اور سماجی گروہ اس بڑے وجود کے اجز ا اور کل پرزے بن جاتے ہیں۔ ان کے انفرادی یا گروہی مفادات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ سنگھ کے افکار اور مواقف پر اس طرزِ فکر اور اس فکری اساس کی گہری چھاپ صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ نامیاتیت کے اس فلسفے کو تمام ہندوستانیوں کے مشترکہ فلسفے کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام سمیت کئی مذاہب کے عقائد اور تعلیمات سے یہ راست متصادم ہے۔ لیکن سنگھ کے مفکرین اسے ایک جوڑنے والے اور مشترکہ فلسفے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
(بحوالہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: جولائی ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply