
ترکی کے نامور فاضل ڈاکٹر فواد سیزگین جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، کو جامعہ امام محمد بن سعود الا سلامیہ ، ریاض نے خطاب کی دعوت دی ۔ انہوں نے وہاں عربی میں سات خطبات دیئے جنہیں جامع نے ۱۹۷۹ ء میں (اسی سال انہیں شاہ فیصل ایوراڈ بھی دیا گیا) ’’محاضرات فی تاریخ العلوم‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ان میں سے پہلے خطبے ’’مکانتہ المسلمین فی تاریخ العلوم‘‘ کا ایک اقتباس لاحظہ ہو۔
گزشتہ صدی کی پہلی دو تہائیوں کے آغاز سے ڈنمارک کے ایک فاضل او تونویگباور Otto) (Neugebuer کی اہم مساعی سامنے آئیں جن کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ یونانیوں کو تاریخ علوم میں اولیت حاصل نہیں بلکہ انہیں زمانہ ما قبل اسلام کی بعض اقوام کی کارگزاری ورثے میں ملی تھی۔ ہر وہ کوشش جو یونانیوں کے کارناموں کو ان سے پہلے کی دیگر اقوام سے مربوط کرنے کی جاتی ہے ، شدید مخالفت سے دو چار ہوتی ہے۔ کوئی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ یونانیوں کی حیثیت سے متعلق جس تصور کا وہ عادی ہے اس میں تبدیلی لائی جائے۔ حالانکہ تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ یونانی دور سے قبل اڑھائی ہزار برس کا زمانہ گزرا ہے جس میں مختلف ایسے کارنامے انجام دیئے گئے جن کے ہوتے ہوئے یونانیوں کا مقام تاریخ علوم کے وسط میں متعین ہوتا ہے نہ کہ آغاز میں۔
گزشتہ دو صدیوں کے دوران علوم عربیہ پر مستشرقین کی تحقیقات نے تاریخ علوم کے اس غلط تصور کو کسی حد تک متزلزل کیا ہے ۔ مگر وہ اس متواضعانہ اعتراف سے آگے نہیں بڑھتا ہے کہ عربوںنے قدیم یونانیوں اور احیائے علوم کے دور میں لاطینیوں کے مابین واسطہ بننے کی خدمت انجام دی۔
ایک اور بات اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ مسلمانوں کے علوم سے لاطینیوں کے استفادہ نے سرفہ وانتحال کی صورت پیدا کرلی ۔ اس کی وضاحت کئی محققین اپنے بہت سے تحقیقی مضامین میں کر چکے ہیں جن میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ کس طرح لاطینی علماء نے بعض بحثیں مسلمان علماء کی کتابوں سے اخذ کر کے خود اپنی طرف منسوب کر لی ہیں یا مکمل کتابیں اپنی زبانوں میں ترجمہ کر کے یہ دعویٰ کیا کہ یہ ان کی طبع زاد تصانیف یا ان کی اپنی تالیفات ہیں۔ اسی طرح بعض کتابیں عربی سے ترجمہ کر کے یہ کہا کہ یہ یونانی مشاہیر مثلاًارسطو، جالینوس ، روفوس وغیرہ کی ہیں اس روش اور اس کے دیگر مظاہر کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔ انہی کتابوں میں ابن النفیس کی وہ مشہور کتاب بھی ہے جس کو مائیکل سروٹ Servet نے اپنے نام منسوب کر لیا ۔ علائو الدین ابولحسن علی بن ابی الحزم ابن نفیس نے تیرھویں صدی میں سب سے پہلے انسانی جس میں دوران خون کا انکشاف کیا جسے غلط طور پر ہاروے کے نام منسوب کیا جاتاہے جو ابن نفیس کے ۳۰۰ سال بعد سولہویں صدی میں پیدا ہوا۔
آلات جراحی:
ابو القاسم الزہراوی بابائے سرجری، جراحی اور علم طلب وہ پہلا مسلمان جراح (سرجن) ہے جس نے دسویں صدی ہجری میں ۲۰۰ آلات جراحی ڈیزائن کیے اور بنائے جو آج بھی سرجن آپریشن کے دوران استعمال کرتے ہیں اور وہی پہلا سرجن ہے جس نے آپریشن کے بعد زخموں کو سینے ولا دھاگہ بنایا جو جسم میں ہی جذب ہو جاتا ہے۔ کلوروفام کے سب سے پہلے موجد بھی مسلمان سائنسدان تھے، جنہوں نے افیون کو الکحل کے ساتھ ملایا۔ کلوروفارم آپریشن سے پہلے مریض کو بے ہوش کرنے کے لیے سنگھائی جاتی ہے۔
ٹیکے کی ایجاد:
کہا جاتا ہے کہ فرانسیسی سائنس دان پاسٹر Paster نے ٹیکہ ایجادکیا۔ حالانکہ یہ بھی مسلمانوں کی ایجاد ہے ۔ ۱۷۲۴ء میں سلطنت عثمانیہ کے دارالخلافہ استنبول میں متعین برطانوی سفیر کی اہلیہ کے ذریعے یہ ایجاد یورپ پہنچی ۔ بلکہ ترک اپنے بچوں کو بعض مہلک امراض سے بچائو کے ٹیکے بھی لگاتے تھے جن سے یورپ ۵۰ سال بعد متعارف ہوا۔
پین کی ایجاد:
پین’قلم‘ کی ایجاد کا اعزاز بھی مسلمانوں کو حاصل ہے۔ مصر کے سلطان نے قلم بنانے والوں سے ایسے قلم کی فرمائش کی جس میں سیاہی بھری جائے اور اسے باربار دوات میں ڈبونے کی ضرورت نہ پڑے نیز وہ ہاتھ اور کپڑے خراب نہ کرے تو اس طرح فائونٹین پین ایجاد ہوا۔
الجبرا کی ایجاد:
یہ تو سب تسلیم کرتے ہیں کہ الجبرا خوارزمی نے ایجاد کیا۔ اس نے ابو یوسف یعقوب بن اسحاق الصاح الکندی کے ساتھ مل کر ترسیم اعداد کا نظام وضع کیا۔ لیکن اہل مغرب لاناقلہ کے انکشاف کا سہرا اطالوی ریاضی دان و پپو نا چے کے سر باندھتے ہیں جس نے ۳۰۰ سال بعد جا کر عربوں سے علم ریاضی سیکھا اور پھر اہل یورپ کو سکھا یا۔ اسی طرح ریاضیات کے میدان میں ابو عبداللہ محمد بن عیسیٰ الماھانی (م۔۲۶۷ھ) نے تیسری صدی ہجری کے وسط میں تیسرے درجے کی مساوات کا عددی حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔
ابوبکر محمد بن زکریا رازی (۲۴۰ھ۔ ۳۲۳ھ ) نے طب اور بصریات کے میدان میں اقلیدس (Euclid) ۲۹۵ ق م اور جالینوس (Galen) کے اس قول کو رد کیا کہ اشیاء کے دکھائی دینے کا عمل روشنی کے آنکھ سے نکل کر آنکھ کی طرف جانے سے عبارت ہے اس کے برعکس رازی نے کہا کہ دکھائی دینے کا عمل مادے سے آنکھ تک روشنی کی رسائی پر مبنی ہے کیونکہ آنکھ تو روشنی کا منبع نہیں ہے ورنہ اندھیرے میں بھی آنکھ دیکھ سکتی، اسی طرح ان کی یہ رائے ہے کہ آنکھ کی پتلی آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی کی مقدار کی مناسبت سے سکڑ سکتی یا پھیلتی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ تیز روشنی سے آنکھیں چند ھیا جاتی ہیں۔
اسی طرح علم ریاضی میں محمد بن محمد الحسن نصیر الدین طوسی (م۔ ۶۷۲ھ) نے علم المثلثات (Trigonometery) کو ایک مستقل علم کی حیثیت دی۔ اہل مغرب اس کا سہرا ریجو مونتاس کے سر باندھتے ہیں۔
تجربہ اور نظریہ:
طویل مدت سے راجر بیکن کو اس منج علمی کا بانی شمار کیا جاتا ہے جس کی رو سے طبیعیات ،کیمیا میں تجربے کو تحقیق کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن علم منطق کے فاضل مورخ پر انتل (C.Prantl) م ۱۸۹۳ ویڈیمان (E.Wiedemann) اور شرام (M.Schramm) جیسے ماہرین نے صراحت کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ اس علمی منج کے اولین بانی عرب ہیں۔ اس موضوع پر عربوں کو اولیت حاصل ہے جنہوں نے اس مسئلے پر توجہ دی کہ علوم طبیعی میں تحقیق کی بنیاد تجربہ ہے اور تجربے سے قبل نظریے کا ہونا لازمی ہے۔ (وہ تمام نتائج جو راجر بیکن سے منسوب کیے جاتے ہیں اس نے عربی کتب کے لاطینی ترجموں سے حاصل کیے تھے) پھر انہی تجربوں کی بنیاد پر انجینئر الجذاری نے بہت سی ایسی مشینیں اور آلات ایجاد کیے جو آج کے جدید مشینی دور کی بنیاد بنے۔ اس نے مشینی گھڑیاں ایجاد کیں اوریہ ہی سوٹ کیسوں اور بیگوں میں استعمال ہونے والے ہندسوں والے قفل کی ایجاد کا بانی ہے۔ اسے بابائے مشینی آلات کہا جاتا ہے۔
اسی طرح اقتصادیات کے میدان میں بینکوں کے جو چیک ہیں یہ عربی لفظ ’’صک‘‘ سے ماخوذ ہیں نویں صدی میں تاجروں میں ان ’’چیکوں‘‘ کا استعمال عام تھا کہ بغداد کے تاجر کوئی مال چین کے تاجر سے منگاتے تھے تو بجائے نقد رقم کے (جس کے لوٹ لیے جانے کا خطرہ بھی ہوتا تھا ) چیک لے لیتے تھے اور وہ چین میں بغداد کے تاجر کے نمائندے سے رقم وصول کر لیتے تھے چیک کے بدلے۔
فلسفۂ تاریخ:
اسی طرح فلسفہ تاریخ اور علم الاجتماع یعنی عمرانیات کے میدان میں ابن خلدون پہلا مفکر تھا جس نے اس موضوع کو مستقل حیثیت دی ۔ اس لیے مغربی مفکرین ان کو فلسفہ تاریخ کا بانی تسلیم کرتے ہیں۔انہوں نے تاریخ کو محض سیاسی واقعات اور فوجی مہمات پر مبنی قرار نہیں دیا بلکہ اس میں زندگی کے معاشرتی اور معاشی، پہلوئوں کو بھی شامل گردانا، گویا ہر وہ کام جو انسان نے معاشرے میں رہتے ہوئے سرانجام دیا۔ تاریخ کی روح سمجھا جانے لگا۔ تاریخ کے بارے میں ایساعالمگیر نظریہ نہ تو ان کے پیشروئوں میں ملتا ہے نہ ان کے بعد آنے والے مؤرخوں میں۔
ابن خلدون نے تاریخ کو آرٹ کے مضامین کے زمرے سے نکال کر سائنس کی سطح پر پیش کیا۔ آپ کے نظریات کے مطابق تاریخ کا وہی رتبہ ہے جو سائنس کا ہے۔ جس طرح صبر و استقلال کے ساتھ ایک سائنسدان اپنے مفروضات (Theories) کو تجربے کے ترازو میں تولتا ہے حتیٰ کہ وہ حقیقت کا سرغ لگا لیتا ہے اسی طرح مؤرخ کو بھی تلاش حقیقت کے لیے یہی اسلوب اختیار کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے تاریخی مواد کے لیے تنقیدی اصول اور قواعد مقرر کیے۔ ان کے تنقیدی اصولوں کی مثالیں مقدمے میں جا بجا ملتی ہیں جو انہوں نے اپنی تاریخ عالم کے دیپاچے کے طور پر رقم کیا ہے۔ صرف ایک تاریخی واقعہ کی حقیقت سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے تاریخ کے لیے جو تنقیدی اصول پیش نظر رکھے وہ کس قدر مفکرانہ بنیادوں پر قائم تھے۔ مثلاً اسرائیل کے بارے میں کہا جا تاہے کہ میدان بطحہ میںان کی فوج کی تعداد چھ لاکھ تھی۔ ابن خلدون اس کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان ؑ کے دور میں جو یہودی تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔ یہودیوں ہی کے تاریخی ماخذوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی فوج کی تعداد ۱۲ ہزار سے زیاہ نہیں تھی کہ اس زمانے میں جب وہ اقتصادی اور سیای لحاظ سے فروتر تھے۔ ۶ لاکھ فوج اکھٹی کرنا نا ممکن ہے کیونکہ حضرت موسیٰ اور اسرائیل کے درمیان چار پشتوں کا فرق ہے اور وہ قوم جسے فرعون نے ملک بد کر دیا تھاچار پشتوں کے بعد چھ لاکھ فوج تیار کرے۔ ]یہی کذب بیانی ان کی (یہودی کی) ہالوکاسٹ کے بارے میں ہے ۔ خ۔م[
ابن حزم وہ پہلا مسلمان سائنس دان اور جغرافیہ دان تھا جس نے گلیلیو سے بھی پانچ سو برس پہلے یہ انکشاف کیا کہ زمین گول ہے، ایک سیارہ ہے اور گھومتی ہے۔ عرب ماہرین فلکیات نے سب سے پہلے کرہ ارض کا محیط معلوم کیا جو آج بھی صحیح ہے۔ اس کا سہرا ارشمیدس کے سر باندھا جاتاہے۔ الداریسی نے صقلیہ کے بادشاہ راجر کی خدمت میں بارہویں صدی میں کرہ ارض کا نقشہ گلوب کی شکل میں پیش کیا جس پر تمام ممالک اور شہروں کے نام درج تھے۔
مسلمانوں نے ہوائی چکی ایجا د کی جس سے آٹا اور دالیں پیسی جاتی ہیں۔ جنگوں میں استعمال ہونے والی زرہ بکتر ایجاد کی جسے فوجی پہن کر نیزوں اور تلواروں کے وار سے اپنا بچائو کرتے تھے۔ نیز جنگی اغراض کے لیے بارود ایجاد کیا اور اس میں پوٹاشیم استعمال کیا جو آتش گیر ہے۔ راکٹ ایجاد کیاجسے جنگی کشتیوں پر داغا جاتاتھا تو یہ اس میں سوراخ کر دیتا تھا۔
(ماخوذ از ’’المجتمع‘‘ کویت۔ شمارہ: نومبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply