
عرب دنیا میں بیداری کی لہر دوڑنے کے بعد تیونس میں زین العابدین بن علی کا اقتدار ختم ہوا۔ آمریت کا ایک دور اپنے اختتام کو پہنچا تو معاشرے میں سیاسی اور معاشرتی آزادی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ سات سرکردہ سَلَفی شخصیات کو جیل سے نکلنا نصیب ہوا تو انہوں نے الانصار الشریعہ تیونس (اے ایس ٹی) کی بنیادی رکھی۔ اس تنظیم نے ملک بھر میں سماجی خدمات کا سلسلہ شروع کیا۔ سوشل میڈیا کو بھی عمدگی سے بروئے کار لایا گیا۔
تیونس میں جب ایک نیا دور شروع ہوا تو القاعدہ نے اپنا طریق کار تبدیل کرلیا۔ طریقِ کار میں تبدیلی کو بہتر ڈھنگ سے منطبق کرنے کے لیے لازم تھا کہ حکمت عملی بھی تبدیل کی جاتی اور کی گئی۔ القاعدہ نے بنیادی طور پر دعوت کا کام شروع کیا۔ یہ کام الانصار الشریعہ تیونس کے پلیٹ فارم سے تھا۔ تیونس کے عوام کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ ملک میں رونما ہونے والی تبدیلی کی کوکھ سے مذموم مقصد جنم نہیں لیں گے۔ القاعدہ چاہتی تھی کہ اپنے بارے میں پائی جانے والی بیشتر غلط فہمیوں کو دور کرے اور اپنا ایسا سوفٹ امیج پیدا کرے جو عوام میں اس کے لیے بہتر کارکردگی کی راہ ہموار کرے۔ القاعدہ کے پلیٹ فارم سے یہ پیغام دیا جارہا تھا کہ وہ ہتھیاروں کے استعمال کو بالائے طاق رکھ کر تعمیر نو میں مصروف رہنا چاہتی ہے تاکہ بہتر انداز سے کام کرنے کی راہ میں حائل دیواریں گِرانا آسان ہوجائے۔
زین العابدین بن علی کا دور بدعنوانی سے عبارت تھا۔ لوگ اُس سیٹ اپ سے تنگ آچکے تھے۔ انہوں نے عرب دنیا میں اٹھنے والی بیداری کی لہر کا بھرپور فائدہ اٹھاکر زین العابدین بن علی کے اقتدار کو ٹھوکر مار دی۔ القاعدہ اور اس کے ہم خیال گروپس کے لیے یہ سنہرا موقع تھا جس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کی بھرپور کوشش شروع کی۔ القاعدہ چاہتی تھی کہ تشدد اور جبر کی راہ سے ہٹ کر عوامی سطح پر کچھ ایسا کرے جس سے لوگ اس کے بارے میں مثبت سوچیں۔ یہ پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی تھی۔ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو گلے لگاتے ہوئے عوام کی رائے کو مقدم سمجھنے کی طرف قدم بڑھایا جارہا تھا۔ الانصار الشریعہ تیونس نے ابتدا میں عوام کی مرضی کے مطابق کام کیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی تشدد کی راہ پر گامزن ہوتی گئی۔ اس تنظیم نے ایسا کیوں کیا؟ یہ سوال اب تک تشنہ طلب ہے۔ زین العابدین بن علی کے اقتدار کو ختم کرنے کے بعد عوام کی رائے سے جو حکومت قائم کی گئی، اس کے تحت ملک میں مجموعی طور پر اَمن تھا۔ مگر پھر تشدد پر مبنی واقعات رونما ہونے لگے۔ یہ سب کیسے ہوا، کوئی کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ابتدا میں چند سیکولر شخصیات کو قتل کیا گیا۔ بعد میں حالات بگڑے تو فوج سے ٹکراؤ تک نوبت جاپہنچی۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں اے ایس ٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہاتھوں آٹھ تیونسی فوجی قتل ہوئے۔ ان میں سے پانچ کے گلے کٹے ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد اگست ۲۰۱۳ء میں حکومت نے الانصار الشریعہ تیونس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اے ایس ٹی مجموعی طور پر عوامی رائے کا احترام کرنے والا گروپ تھا، مگر اس کے تحت کام کرنے والے بعض مقامی گروپوں نے اپنے طور پر ایسا بہت کچھ کرنا شروع کردیا جو کسی بھی اعتبار سے مرکزی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتا تھا۔ بعض مقامی عہدیدار اپنے طور پر ایسا بہت کچھ کر گزرتے تھے جو عوام کی نظروں میں تنظیم کو گرانے کے لیے کافی تھا۔ جب تک مرکزی قیادت کو کچھ معلوم ہو پاتا، تنظیم کو اچھا خاصا نقصان پہنچ چکا ہوتا۔
تیونس میں اے ایس ٹی کے مقامی عہدیداروں اور کارکنوں نے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ اپنے طور پر اور اپنی صوابدید کے مطابق کیا، مگر القاعدہ کی پالیسی مجموعی طور پر یہ رہی کہ عوام کی رائے کو ہر معاملے میں مقدم سمجھا جائے تاکہ تنظیم کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور وہ زیادہ خوش دلی کے ساتھ اس سے اشتراکِ عمل قبول کریں۔
القاعدہ نے تیونس میں بہتر انداز سے قدم جمانے کے لیے وہی طریق کار اختیار کیا، جو چین میں ماؤ زے تنگ نے اختیار کیا تھا۔ ماؤ زے تنگ چاہتے تھے کہ انقلاب کے لیے طاقت ضرور استعمال کی جائے اور جہاں ضرورت محسوس ہو، وہاں طاقت کو بھرپور انداز سے بروئے کار لانے سے گریز نہ کیا جائے، مگر ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ عوام میں تنظیم یا گروپ کے لیے حمایت کم نہ ہو یعنی ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا جائے جو عوام کو ناراض کرنے کی سمت جاتا ہو۔
القاعدہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اس کا سوفٹ امیج نہیں بن پایا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب اس نے عوام میں سرایت کرنے کی کوشش کی تو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ تیونس میں القاعدہ نے اپنے ہم خیال گروپوں کو ساتھ لے کر یہ تاثر دیا کہ وہ طاقت کے استعمال کو ہر حال میں اولیت دینے کی روش ترک کرچکی ہے اور اب عوام سے مطابقت پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
القاعدہ نے اپنے ابتدائی دور کی بہت سی غلطیوں سے سبق سیکھا اور اس بات کی پوری کوشش کی کہ لوگوں کو یہ تاثر ملے کہ وہ تبدیل ہوچکی ہے۔ اس نے اپنے مزاج میں نرمی اختیار کی۔ پالیسیوں میں معقولیت دکھائی دی تو لوگ اس کی طرف زیادہ اخلاص اور امید کے ساتھ متوجہ ہوئے۔
اعتدال کی راہ پر گامزن رہنے سے القاعدہ کو اتنا فائدہ ضرور پہنچا کہ اسے قبول اور گوارا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ القاعدہ نے اقلیت کو بھی بہتر انداز سے برتنے کی راہ پر گامزن ہونا شروع کیا۔
داعش … جارحیت کی راہ پر
القاعدہ کی تبدیل شدہ حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے داعش نے وہ راستہ منتخب کیا جس پر چل کر وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت بٹورنے کی کوشش کرسکتی تھی۔ یا کم از کم اس کی مرکزی قیادت کا تو یہی اندازہ تھا۔ اندازہ غلط نکلا۔ داعش نے شریعت کو بزور نافذ کرنے کی کوشش کی۔ جیسے جیسے اس کی عسکری قوت میں اضافہ ہوتا گیا، اس نے شرعی قوانین نافذ کرنے کی اپنی سی سعی شروع کی، جس کے نتیجے میں کچھ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس بات سے متاثر ہوئے کہ وہ شریعت کے نفاذ میں سنجیدہ ہے۔ داعش کی مرکزی قیادت نے یہ تاثر عام کرنے میں خاص دلچسپی لی کہ القاعدہ شریعت کے نفاذ کے معاملے میں زیادہ سنجیدہ نہیں۔ القاعدہ کی پالیسیوں کو کمزوری سے تعبیر کرتے ہوئے داعش کی مرکزی قیادت نے یہ کہتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی کہ القاعدہ شریعت کے نفاذ میں کسی طور کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اسے چھوڑ کر اب نئے لوگوں پر اعتبار کیا جائے، جو زیادہ تازہ دم ہوکر میدان میں اترے ہیں۔ القاعدہ کی حکمت عملی میں رونما ہونے والی تبدیلی کو داعش نے اُس کی کمزوری اور اپنی طاقت سے تعبیر کیا۔
داعش نے طاقت پاکر اس کے اظہار میں غیر معمولی دلچسپی لی، حدود کا نفاذ کیا۔ ہم جنس پرستی میں مبتلا افراد کو چھتوں سے پھینک دیا گیا۔ غداری کے مرتکب افراد کی گردنیں اڑائی گئیں۔ چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے اور زنا کار عورتوں کو سنگسار کردیا گیا۔
داعش کے نزدیک یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر طاقت ملی ہے تو اس کا بھرپور اظہار بھی کیا جائے۔ اس کا تھوڑا بہت فائدہ بھی پہنچا ہے۔ اس جارحیت پسندی ہی نے داعش کو کئی علاقے دلائے ہیں۔ جہاں جہاں داعش نے اپنی عسکری قوت کو منوایا ہے، وہاں اس نے شرعی قوانین نافذ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔
داعش کی مرکزی قیادت اب تک لچک دار رویہ اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ جہاں بھی ذرا سی گنجائش دکھائی دے، طاقت کے بھرپور استعمال کے ذریعے اپنی راہ ہموار کی جائے۔ داعش کی صفوں میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اعتدال کو پسند کرتے ہوں گے مگر اب تک انہیں اپنی بات منوانے کا موقع نہیں ملا۔ وہ اگر چاہیں تو بھی فی الحال ایسا کچھ نہیں کرسکتے، جس کی بنیاد پر تنظیم کی مرکزی پالیسی تبدیل کرنے کی راہ ہموار ہو۔
داعش کی مرکزی قیادت نے القاعدہ کی طرف سے اپنائی جانے والی لچک اور اعتدال پسندی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے حالات سے سمجھوتا کرتے ہوئے عوام کی رائے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا یعنی شریعت سے برتر سمجھنا اور ’’معقولیت‘‘ کو ہر شے پر مقدم رکھنا شروع کردیا ہے۔
داعش نے تمام معاملات کو صرف طاقت کے ذریعے درست کرنے کی راہ پر گامزن رہنا ترک نہیں کیا، اس لیے اس کے مسائل بھی کم نہیں ہو پارہے۔ پیچیدگیوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کئی علاقے اس نے طاقت کے بھرپور استعمال سے تیزی سے فتح کرلیے مگر اس کے نتیجے میں تنظیم کا اندرونی مزاج بہت بگڑ گیا ہے۔ نظم و ضبط کا فقدان اپنی جگہ، سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ داعش میں ہر سطح پر صرف لڑنے بھڑنے ہی کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ طاقت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے معاملات کو کسی نہ کسی طور درست رکھنے کے دیگر طریقوں پر غور کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
داعش کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات کے بارے میں کھل کر پروپیگنڈا کرتی ہے اور کسی بھی عسکری فتح کا ڈھول اس طور پیٹتی ہے کہ سب کو سب کچھ معلوم ہو رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں القاعدہ اب اپنے بارے میں زیادہ پروپیگنڈا نہیں کرتی۔ اس کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ بیشتر معاملات کی حقیقت چھپی رہے۔ اس معاملے میں اس نے اپنے آپ کو اب غیر معمولی حد تک low profile میں رکھنا شروع کردیا ہے۔
القاعدہ کا تعلق مختلف خطوں اور ممالک میں درجنوں گروپوں سے رہا ہے۔ کل تک وہ اس تعلق کو طشت از بام کرنے میں دلچسپی لیتی تھی یا کم از کم کوئی قباحت محسوس نہیں کرتی تھی، مگر اب اس کی حکمت عملی تبدیل ہوچکی ہے۔ وہ کسی بھی گروپ سے اپنے تعلق کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے تاکہ کہیں سے کوئی ایسا ردعمل سامنے نہ آئے، جس پر قابو پانا ممکن نہ رہے۔ القاعدہ کی مرکزی قیادت کسی بھی جنگجو گروپ سے مخاصمت مول لینے کے موڈ میں نہیں۔ یہ گویا سیاسی اندازِ فکر کی طرف مڑنے کا اشارا ہے۔ القاعدہ نے اپنے فکری ڈھانچے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں اس کا تنظیمی اور عسکری ڈھانچا بھی تبدیل ہوکر رہے گا۔
نئے جہادی دور کی ابتدا
حالات کی تبدیلی نے جہادیوں کو بھی تبدیل ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ جہادی تنظیموں کے اندرونی ڈھانچے میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ فکر و نظر کی تبدیلی سے کام کرنے کا ڈھنگ بھی بدل رہا ہے۔ القاعدہ نے خود کو بہت حد تک تبدیل کرلیا ہے۔ ایسے میں داعش کے سامنے بھی ایک یہی ڈھنگ کا آپشن رہ گیا ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر تبدیل کرتے ہوئے عسکریت پسندی سے گریز کی راہ پر گامزن ہو، اور سیاسی انداز اپنائے۔ اگر وہ سیاسی انداز اپنانے سے گریز کرتی رہی تو اس کے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔ مستقل لڑتے رہنا کسی بھی تنظیم یا گروپ کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ جلد یا بدیر اسے یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ معاملات کو سیاسی ڈھنگ ہی سے درست کیا جاسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اعتدال پسندی کی راہ پر گامزن ہوا جائے۔ معاملات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کی پالیسی اپنائے بغیر گزارا نہیں۔ القاعدہ نے یہ سبق سیکھ لیا ہے۔ اب داعش کے لیے بھی تقریباً لازم ہے کہ اعتدال پسندی کی راہ پر گامزن ہو تاکہ قتل و غارت کا سلسلہ تھمے اور تعمیر کی راہ نکلے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Islamic State vs. Al-Qaeda: The war within the Jihadist movement”. (“warontherocks.com”. Jan.13,2016)
Leave a Reply