
عرب دنیا میں ۲۰۱۱ء کے بعد سیاسی تبدیلیوں نے خطے میں اسلام پسندوں کی سیاست اور اُن کے بیانیے کے خدوخال تشکیل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان تبدیلیوں نے حکمتِ عملی اور سیاسی بیانیے کے میدان میں دور دراز کی اسلامی تحریکوں کو بھی متاثر کیا ہے۔درحقیقت یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بہت سے ممالک میں اسلامی تحریکیں بحران کا شکار ہیں۔یہ عوامی حمایت کی کمی کا بحران نہیں، نہ ہی اہمیت ختم ہونے کا بحران ہے۔بیشتر اسلامی تحریکیں بڑی حد تک حمایت برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے ممالک کے مستقبل کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔اس کے بر عکس یہ سیاسی شناخت کا بحران ہے ۔اس بحران نے اپنے ہی بیانیے پر گرفت رکھنے کی اسلام پسند گروہوں کی اہلیت کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے۔اسلام پسندوں کا یہ احساس درست ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر گرفت کھو رہے ہیں۔ وہ کون ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے، یہ واضح نہیں۔ اور اس کا سب سے زیادہ نقصان خود انہیں ہوا ہے۔مرکزی اسلامی تحریک اس وقت شناخت کے بحران میں ہے اور اس کے تباہ کن اثرات اسلام پسند تحریکوں کی اپنی بنیادی سیاسی حمایت کو متحرک کرنے کی اہلیت پر پڑے ہیں۔اسلام پسند بیانیے بڑی حد تک ارتجاعی بن چکے ہیں ۔اور یہ تحریکوں کے اپنے اندر اس بات پر گہرے اختلافات کا مظہر ہیں کہ سیاسی فعالیت دوبارہ کیسے حاصل کی جائے۔
گزشتہ پانچ برسوں میں کئی اہم وجوہات نے شناخت کے اس بحران کو مہمیز دی۔
۲۰۱۱ء ۔۲۰۱۲ء میں عرب دنیا کے کئی ممالک میں ظاہری سیاسی آزادی نے مصر، تیونس، یمن، بحرین، مراکش اور لیبیا جیسی جگہوں پر اسلامی بیانیہ تبدیل کرنے میں مدد دی ۔ ان ممالک میں اسلامی تحریک،حزبِ اختلاف کی ایک اصلاح پسند تحریک کے بجائے حکومت میں کردار رکھنے والی ایک ممکنہ طاقتور سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔اس عمل کے دوران اسلامی تحریکیں اپنے آپ کو تنظیمی اور نظریاتی،دونوں لحاظ سے دوبارہ بیان کرنے کے تکلیف دہ عمل سے گزریں۔اس کا مقصد یہی تھا کہ سیاست کے نئے اصولوں کے اندر رہ کر کھیلا جاسکے اور با اثر انداز میں حکومت کرنے کے لیے ایک جگہ حاصل کی جائے۔بعد ازاں ان سیاسی آزادیوں کی بڑے پیمانے پر بندش نے اسلامی تحریکوں کو مجبور کیا کہ وہ از سرِ نو جائزہ لیں۔وہ اس بات پر غور کریں کہ آیا جو تنظیمی اور نظریاتی تبدیلیاں کی گئیں،وہ حالات کے لحاظ سے مناسب تھیں یا نہیں۔ اس جائزے کے نتیجے میں تحریکوں کے اندر ریاست کے ساتھ سیاسی بر تاؤ کے معاملے پر اختلافات ہو گئے۔شام، لیبیا اور یمن کی خانہ جنگیوں نے بھی تشدد پسند جہادی سیاسی قیادت کے لیے مضبوط مواقع فراہم کیے، جس نے اسلام پسند سیاسی گروہوں کے بیانیوں کو چیلنج کیا اور عمل پذیر سیاسی تبدیلیوں کو مزید بے اعتبار کر دیا۔آخر کار ان خانہ جنگیوں میں نظریاتی طور پر ملوث مصنوعی سازشی جنگجوؤں کے ذریعے سُنی خلیجی ریاستوں اور ایران کے درمیان علاقائی مخاصمت ایک کھلے تصادم میں بدل گئی، جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تقسیم میں شدت آگئی۔اس کے بعد ’’سب کو ساتھ ملا کر چلنے‘‘ والے اسلامی بیانیوں پر قابو نہ رکھا جا سکا اور تنگ نظری پر مشتمل ’قریبی دشمن‘ والے بیانیے غالب آگئے۔
میرا مؤقف یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ سیاسی پیش رفت سے جنم لینے والے چار عوامل کے ملاپ نے دنیا بھر میں بیشتر اسلامی تحریکوں کے اندرونی اور عوامی دونوں قسم کے بیانیوں کو زبردست زک پہنچائی ہے۔ اور اسلامی سیاسی تحریکوں کے کمزور پڑنے اور بکھرنے کے عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔ خاص طور پروہ چار عوامل یہ ہیں:(۱)دوبارہ ابھرتاہوا استبدادی نظام،(۲) پر تشدد اور ڈرامائی جہاد (Theatrical Jihadism) کا جارحانہ پھیلاؤ، (۳)ریاست کے زیرِ نگرانی فرقہ وارانہ مداخلتیں، (۴) اسلامی تحریکوں کے اندر تنظیمی بحران۔ بیانیے پر گرفت کھو دینے کے نتائج بہت اہم ہیں کیونکہ واضح پیغام کا فقدان اِسلامی سیاسی کرداروں کے درمیان ٹوٹ پھوٹ کو فروغ دیتااور اِنتہا پسند نظریاتی بیانیوں کواُبھارتا ہے۔یہ چیز پھر اُن ممالک کے لیے، جہاں اسلامی تحریکوں کو عوامی حمایت حاصل ہے، مقامی سیاست اور سلامتی کے لیے دور رَس چیلنجز پیدا کرتی ہیں۔ذیل میں اسلامی تحریکوں کے بیانیوں کو در پیش اِن چاروں چیلنجوں کا باری باری جائزہ لیا گیا ہے۔
۱) دوبارہ ابھرتا ہوا استبدادی نظام
وہ ممالک جہاں نئی سیاسی آزادیاں متوقع تھیں یا حاصل ہو گئی تھیں، لیکن بعد ازاں واپس ہو گئیں، اِسلامی تحریکوں نے تیزی سے اور بار بار اپنے سیاسی بیانیوں کو تبدیل کیا۔
بیانیے کی تبدیلی کا سب سے عام نمونہ حکومت یا نظام کی نااہلی، بد عنوانی،اور طبقاتی کشمکش پر تنقید کے غالب بیانیے کو چھوڑ کر ایک تعمیری بیانیے کی تشکیل کا تھا، جو بتاتا تھا کہ بہتری کس طرح آسکتی ہے اور تحریک یہ بہتری کس طرح لائے گی۔ تاہم جب سیاسی حالات یا صلاحیت کی کمی نے تحریک کو مجبور کر دیا کہ وہ عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی اہلیت نہ رکھنے کو تسلیم کر لیں تو اس نئے تعمیری بیانیے نے بھی اپنی ساکھ کھو دی ۔اس کی وجہ سے لڑائی یا فرار کے ردِ عمل نے جنم لیا، جس نے بعدازاں دوبارہ ابھرتے ہوئے استبدادی نظام کے مقابل اسلام پسند بیانیوں پر گہرا اثر ڈالا۔متاثرہ تحریک کا بیانیہ یا تو حکومتی کرداروں کا اَور زیادہ ناقد بن گیا یا پھر اپنی روش میں زیادہ عملیت پسند اورکم نظریاتی ہوگیا۔
مصر میں اخوان المسلمون کا بیانیہ دو انتہاؤں کے درمیان تیزی سے جُھولتا رہا۔ کیونکہ ایک طرف اسے بڑی سیاسی کامیابی ملی اور دوسری طرف سیاسی نظام سے اس کی بے دخلی بھی شدید تھی۔چنانچہ وہ ’’لڑائی‘‘ کے ردِ عمل کی نمایاں مثال بن گئی اور حکومت پر مسلسل اور کڑی تنقید کرتی رہی۔بنگلا دیش کی جماعتِ اسلامی نے بھی اسی طرح بیانیے کو تبدیل کیا۔ حکومت کی طرف سے جماعت پر بڑھتے ہوئے جبر اور نمایاں راہنماؤں کی گرفتاریوں اور پھانسیوں کے بعد جماعت کا بیانیہ تبدیل ہو گیا۔ حکومت میں حصہ داری اور مرکزی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے بیانیے کی جگہ سیاسی نظام پر کڑی تنقید نے لے لی۔
دوسری جانب نسبتاً زیادہ عملیت پسند اور کم نظریاتی بیانیے کی طرف تبدیلی کی بہترین مثال تیونس کی النہضہ ہے۔اس کا بیانیہ حکومت پر تنقید سے تبدیل ہو کر تعمیری سوچ میں بدلا اور پھرجب اس کے سیاسی مواقع دھندلا گئے تو اس نے سیاسی عملیت پسندی کو اپنایا۔اردن کی جبہتہ العمل الاسلامی نے بھی حالیہ سالوں میں کم و بیش یہی روش اپنائی ۔پڑوس یعنی شام میں جاری جنگ کے تناظر میں حکومت پر تنقیداور تعمیری بیانیہ تبدیل ہو کر سیاسی عملیت پسندی کی شکل اختیار کر گیا۔
بیانیوں کے تیزی سے تبدیل ہونے کی ایک وجہ سیاسی نظام میں نئی اسٹریٹجک حیثیت اختیار کرنے کی ضرورت پر تحریکوں کے اندر تقسیم بھی ہے۔ ان سمتوں سے قطع نظر جو ان بیانیوں نے اختیار کی ہیں، دوبارہ ابھرتے ہوئے استبدادی نظام اور اس کے نتیجے میں بیانیے میں عدم استحکام نے اسلامی تحریکوں کے عوامی تاثر کو زبر دست نقصان پہنچایا ہے۔اس کی وجہ سے ان تحریکوں کے اپنے حلقوں کے اندراس بارے میں الجھن پیدا ہوئی ہے کہ ان تحریکوں کا اصل مشن کیا ہے۔
۲) پُر تشدد جہاد ازم
اگرچہ پُر تشدد جہادازم کی عوام کی نظر میں اہمیت ہمیشہ سے اسلامی تحریکوں کے سیاسی موقف کے لیے خطرہ رہی ہے۔ تاہم ۲۰۱۳ء کے بعد سے دنیا بھر میں جہادی سرگرمی میں ہونے والی پیش رفت نے اسلامی تحریکوں کے لیے اپنے بیانیوں پر قائم رہنا بہت زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔داعش کی طرف سے زمینوں پر قبضے اور خلافت کے قیام کے اعلان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پرلوگوں کو بھرتی کرنے کی زبردست کوششوں اور تشدد کی تھیٹری (Theatrical) مارکیٹنگ نے مرکزی اسلام پسند تحریکوں کو ایسی دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں کی گئی۔القاعدہ، بوکو حرام اور الشباب کی طرف سے تشدد کے مماثل مظاہروں نے میڈیا اسپیس کو پُر تشدد اسلام پسند پیغامات سے بھر دیا ہے۔
استبدادی حکومتیں اور سیاسی مخالفین عسکریت پسند مذہبی گروہوں کی جانب سے پیش کیے گئے تشدد کے جواز کو سامنے رکھ کر پُر امن اسلام پسند گروہوں کو بدنام کرنے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ تحاریکِ اسلامی مجبور ہو جاتی ہیں کہ اپنے بیانیے کا کافی حصہ اپنے نظریہ کو عسکری گروہوں کے نظریے سے ممتاز کرنے پر صَرف کریں اور سیاسی اغراض کے لیے پھیلائی گئی غلط معلومات کا توڑ کریں۔اس کے دو بنیادی اثرات جنہوں نے مرکزی اسلام پسندوں کی اپنے بیانیے کو قابو میں رکھنے کی اہلیت کو کمزور کیا یہ ہیں۔
پہلا یہ کہ پُر تشدد حملوں کی مذمت کرنے میں بیانیے کی جو توانائی خرچ ہو تی ہے، وہ اپنا اصل پیغام مرتب کرنے اور عوام کی نگاہ میں مثبت تاثر قائم کرنے کی کوشش سے توجہ بٹا دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۵ء میں النہضہ کے عوامی ابلاغ کا بڑا حصہ تیونس اور بیرونِ ملک، دونوں میں پُر تشدد اسلام پسند حملوں کی مذمت پر مشتمل تھا، نہ کہ اپنے نظریاتی اثاثے کے بیان پر۔یہی کہانی سینا میں ہونے والے جہادی حملوں کے تناظر میں مصر کی اخوان المسلمون کی ہے ۔دوسرا یہ کہ پُر تشدد اسلام پسندوں کے مقابلے میں اپنے بیانیے پر گرفت رکھنے کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے تحاریکِ اسلامی خود بخود اسلام پسندوں کی ایک فرضی قسم اختیار کر گئے ہیں۔ (یعنی تشدد پسند اور غیر تشدد پسند، دونوں کو اسلام پسند گردان کر ایک ہی شمار کیا گیا)۔ دوسرے ممکنہ نام اُن کے لیے نہیں استعمال کیے گئے جیسے مخالف سیاسی جماعتیں، غیر متشدد سرگرم کارکن وغیرہ۔ اس فرضی قسم کو مفاد پرست حکومتوں نے تقویت دی جو اکثر اوقات تشدد پسند اور غیر تشدد پسند اسلام پسندوں کے بارے میں ایک ہی سانس میں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔
۳) فرقہ وارانہ موڑ
شام کی خانہ جنگی نے، جو ۲۰۱۱ء میں شروع ہوئی، پُر تشدد جہادازم کو ایندھن فراہم کرنے کے علاوہ اسلام پسندوں کے لیے ایک مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ جنگ،عرب دنیا میں نظریاتی مفادات کی ایک وسیع پراکسی جنگ میں بدل گئی ہے ۔جس نے سُنی اور شیعہ اسلام پسندوں کے بیانیوں کے درمیان تصادم کو بڑھا دیاہے۔ سُنی اسلام پسندوں کوعرب خلیجی ریاستوں کی طرف سے اور شیعوں کو ایران کی جانب سے سیاسی اور معاشی غذا فراہم کی جاتی ہے۔ اگرچہ سیاسی اسلام کے بارے میں سُنی اور شیعہ تصورات کے درمیان موجود حقیقی خلیج کو پاٹا جا سکتا ہے، لیکن مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ متنازع ماحول میں یہ خلیج مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس میں مذہبی دلائل سے زیادہ سیاسی دلائل کا ہاتھ ہے، مگر مشرقِ وسطیٰ میں سُنی، شیعہ تصادم کے سیاسی جواز نے اسلام پسند گروہوں کے بہت سے نظریاتی دلائل کو متاثرکیا ہے۔
لبنان اور عراق میں شیعہ اسلام پسند گروہوں نے میدانِ جنگ میں عراق اور شام کے سُنی گروہوں کے خلاف جنگ لڑی ہے اور داعش کا نظریہ قطعی شیعہ مخالف ہے۔ سعودی حکومت کے خیال میں مقامی طور پر اس کا سب سے بڑا چیلنج بغاوت پر آمادہ شیعہ اقلیت ہے۔ اُس نے اِس اقلیت کے خلاف اپنی مہم کو سر کردہ شیعہ راہنما کو اپنی سرزمین پر پھانسی دینے کے درجہ تک پہنچا دیا ہے، جس کے جواب میں بین الاقوامی شیعہ ردِعمل بھی سامنے آیا ہے۔ بحرین میں سُنی بادشاہت نے شیعہ اسلام پسند تحریک الوفاق کے احتجاج کو سنی دنیا کے لیے ایران کی طرف سے کھڑے کیے گئے جغرافیائی سیاسی چیلنج کے طور پر پیش کیا ہے اور یمنی حکومت نے بھی اپنے ملک میں زیدی حوثی بغاوت کے خلاف لڑائی کو اسی انداز میں پیش کیا ہے۔ پراکسی قوتوں پر اثرو رسوخ قائم رکھ کر سعودی، ایران سرد جنگ نے شام اور یمن کی ریاستوں کی تباہی میں براہِ راست کردار ادا کیا ہے۔ یہ دونوں ناکام ریاستیں اسلامی عسکریت پسندی کا گڑھ رہی ہیں، جس کا اب بڑا حصہ انتہائی فرقہ وارانہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لبنان میں عوامی اور سیاسی تصادم بھی جزوی طور پر فرقہ وارانہ سیاسی پسندیدگیوں کا شاخسانہ ہے۔ اور فرقہ واریت پاکستانی سیاست کو بھی جکڑے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں اکثر عام لوگ ہی مرتے ہیں۔
اگرچہ فرقہ واریت کا زیادہ تر اظہار اسلام پسند عسکریت پسندی کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن یہ غیر متشدد اسلام پسند تحریکوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ خاص طور پر ان ممالک میں جو مذہبی طور پر تقسیم ہیں۔جیسے عراق، بحرین اور یمن۔عراق میں جماعتی سیاست سُنی سیاسی جماعتوں کو کنارے لگا نے کی پالیسی کے اثرات سے ابھی تک پوری طرح نہیں نکل پائی، جہاں کمزور سیاسی شمولیت ریاست کی تباہی کا ایک بنیادی محرک ہے۔ اسی کا عکس بحرین میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جہاں بادشاہت شیعوں کی بڑی آبادی کو سیاسی نظام میں شامل کرنے میں ناکام ہوئی اور اسی کی وجہ سے سیاسی نظام مفلوج ہوا۔ یمن میں سنی الاصلاح پارٹی، جو سیاسی تبدیلی کے موقع پر ایک نمایاں حیثیت حاصل کرنے جارہی تھی، زیدی سیاسی مخالفین کے ساتھ ایک فرقہ وارانہ مقابلے میں پھنس گئی۔ اس نے یمن کی سیاسی تباہی کو آسان کر دیا۔ مفاد پرستانہ فرقہ واریت، جو اَب بہت سی اسلام پسند جماعتوں میں نمایاں ہے، وسیع تر آبادی میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے، انہیں سیاسی تبدیلی کے تعمیری بیانیے کی تشکیل سے روکتی ہے اور اپنی ہی صفوںمیں عسکریت پسندی کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔
۴) اندرونی خطرات
ان تین بیرونی عوامل کے اثرات نے، جو اوپر زیرِ بحث آئے ہیں، اسلامی تحریکوں کے بیانیوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ لیکن اسلامی تحریکوں کے اپنے اندر قیادت کی ناکامی بھی موجود ہے جو اندرونی تقسیم کو اُبھارتی ہے۔کامیاب اسلامی تحریکیں، جیسے مصر کی اخوان المسلمون، پاکستان کی جماعتِ اسلامی یا الجیریا کی الجبہتہ الاسلامیہ الانقاذ، ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ ایک چھتری نما تحریک قائم کرنے میں کامیاب رہیں جس میں ایک متاثر کن مگر عمومی سیاسی بیانیے کے اندر رہتے ہوئے بہت سے نقطہ ہائے نظر اور سیاسی مفادات سما سکتے ہیں۔البتہ دباؤ میں ان چھتری نما تحریکوں میں نظریاتی اور حکمتِ عملی کے اختلاف پر تقسیم ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ کیو نکہ تحریک کو درپیش مسائل پرردِ عمل میں ارکان کا اختلاف ہوتا ہے۔ اس تقسیم کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ تحریک کے اندر سے مختلف مفادات اور ان کی حمایت کے لیے بیانیے ابھرتے ہیں، جو اصل پیغام پر ڈٹے رہنے کے مسئلے کو بڑھا دیتے ہیں۔
اسلامی تحریکوں کو حکومت کی طرف سے براہِ راست دبانے کی کوششیں، جیسا کہ مصر، بحرین اور بنگلادیش میں سامنے آئی ہیں، پُر امن اسلامی تحریک کے کارکنان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ آیا انہیں ریاست کے بنائے گئے قوانین پر عمل کرتے رہنا چاہیے، جبکہ وہ قوانین خصوصی طور پر انہیں سیاسی نظام سے بے دخل کرنے کے لیے بنائے گئے ہوں۔ بعض حمایتی، جماعتی موقف پر ہی قائم رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ حکومت کی اخلاقی کمزوری عیاں ہو گی اور جبر ختم ہوگا۔بعض ارکان کو اس حکمتِ عملی میں ناکامی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔کیونکہ حکومت کی طرف سے ملنے والے اشارے واضح ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ براہِ راست ٹکراؤ کی سیاسی حکمتِ عملی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ بعض دوسری مثالوں میں جہاں سیاسی رکاوٹوں یا غلط سیاسی فیصلوں کے نتائج کی وجہ سے اسلامی تحریکوں کو فعالیت کھونے کا ڈر ہوتا ہے، حکمتِ عملی میں اسی طرح کی تقسیم نظر آتی ہے۔ اسٹیٹس کو، کے حمایتی نرم رَوِش جبکہ بعض دوسرے خطرات کے باوجود زیادہ سرگرم بیانیے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
غیر یقینی صورتِ حال کے بعد استبدادی حکومتوں کا احیا، تشدد پسند جہادازم کا برق رفتار فروغ، اسلام کے اند ایک جارحانہ فرقہ وارانہ سیاست اور نظریے اور حکمتِ عملی پراسلامی تحریکوں کے اندرونی اختلافات کے مشترکہ نتیجے کے طور پر اسلامی تحریکوں کی شناخت پر اب ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ سیاسی اسلام میں بیشتر مرکزی کرداروں کی شخصی شناختیں مستحکم ہیں، مجموعی طور پر عرب دنیا اور اس سے باہر بھی اسلامی تحریکوں کی عوامی شناخت تیز رفتار تبدیلی کے عمل میں ہے۔ شناخت کی یہ ڈرامائی اور کثیر جہتی تبدیلی بیشتر مرکزی اسلامی تحریکوں کے لیے اچھی نہیں ہے۔ یہ ان کے اسلامی اخلاقی فریم ورک میں رہتے ہوئے ایک تعمیری معاشرتی تبدیلی کے طویل مدتی سیاسی اہداف کے لیے حقیقی چیلنج کھڑے کرتی ہے۔
اسلامی تحریکوں کے لیے بیانیہ (Narrative) بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ انہیں اپنی سیاسی بنیاد سے جوڑتا ہے، جس کے بغیر وہ اپنے سیاسی اور معاشرتی اہداف حاصل نہیں کرسکتے۔ ہر سیاسی تحریک کی طرح، اسلامی تحریکوں کے لیے بھی ایک ’سیاسی برانڈ‘ (Political Brand) اور ’تبدیلی کی کہانی‘ کی احتیاط کے ساتھ تعمیر، سیاسی سرگرمی کے لیے مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔ اور اسی لیے سیاسی مہمات میں وسائل کا بڑا حصہ اپنا برانڈ اور کہانی کو تعمیر کرنے پر خرچ ہوتا ہے۔ تاہم اسلامی دنیا کے بڑے حصے، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں مرکزی اسلام پسند جماعتیں اپنے اصل برانڈ پر گرفت کھو چکی ہیں اور ان کے بارے میں کہانیاں اتنی کثرت سے سنائی جاتی ہیں کہ جب وہ خود اپنی کہانی سناتے ہیں تو اس کا بڑا حصہ دوسروں، خاص طور پر حکومتوں، عسکریت پسندوں اور سیاسی مخالفین کی طرف سے ان کے بارے میں سنائی جانے والی غلط کہانیوں کی وضاحت پر مشتمل ہوتا ہے۔
یہ چیز اسلامی تحریکوں کی مستقبل کی کامیابی کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے۔ مستقبل قریب میں اسلامی تحریکوں کے تبدیل ہونے کا امکان نہیں۔ اسلامی تحریکیں کس حد تک اپنے بیانیے پر دوبارہ قابو پانے اور اس سے منطقی طور پر جُڑے سیاسی فوائد حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گی، اس کا انحصار بیدار مغز قیادت کے فیصلوں اور زمانہ حال میں موجود بے یقینی کے معاملات پرٹھوس نظریات قائم کرنے پر ہے، جیسے ’’تشدد کے استعمال پر موقف، انسانی حقوق پر رائے، دوسری اسلامی تحریکوں اور فرقوں کے ساتھ تعلقات، معاشرے میں مذہب کا کردار اور ریاست کے اصل کردار کے بارے میں نظریات‘‘۔
اگرچہ ماضی میں تحریکوں کے لیے آسان تھا کہ وہ ان میں سے بعض معاملات پر گو مگو کا شکار رہ کر بھی ایک موثر بیانیہ تشکیل دے سکیں،مگر اسلام ازم کی نئی دنیا میں ان معاملات پر مضبوط اور واضح موقف اہمیت کا حامل ہوگا۔ درحقیقت ایک اسلام پسند گروہ، جو حالیہ دنوں میں اپنے بیانیے کے لحاظ سے ان معاملات پر سب سے زیادہ مستقل مزاج رہا ہے، وہ داعش ہے۔ اور یہی گروہ بیانیے کو سمجھانے کے لحاظ سے سب سے زیادہ مؤثر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلامی تحریکوں کو قطعاً داعش کے برانڈ کی پیروی نہیں کرنی چاہیے، لیکن اگر وہ چاہتے ہیں کہ اپنے سیاسی نظاموں میں فعالیت کو قائم یا دوبارہ حاصل کرسکیں تو انہیں اپنے برانڈ کے بارے میں واضح تر اور زیادہ شفاف مؤقف کے ساتھ سامنے آنا ہو گا۔
(طاہرہ فردوس)
“The Islamist identity crisis”.
(“pomeps.org”. February 26, 2016)
Leave a Reply