
شام میں ڈھائی سال سے جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں اسرائیل غیر جانب دار رہنے کا راگ الاپتا آیا ہے اور دوسری طرف امریکا نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ شام میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے، اور اس حوالے سے بڑھک آمیز باتیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ مگر اب اچانک یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکا اور اسرائیل دونوں ہی یہ چاہتے ہیں کہ شام کے بحران میں اسرائیلی مفادات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ یہ گویا شام کی جنگ میں اسرائیلی فیکٹر کا معاملہ ہے۔
امریکا نے اس بات کا بہت ڈھنڈورا پیٹا ہے کہ وہ شام میں آمریت کا خاتمہ اور جمہوریت کا فروغ چاہتا ہے اور ساتھ ہی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے نام پر بشارالاسد انتظامیہ کے ان تمام ہتھکنڈوں کے خلاف بھی بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے، جن کا مقصد باغیوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو ہر قیمت پر کچلنا تھا۔ کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی اور اس حوالے سے بشار انتظامیہ کو سزا دینے کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تھا۔ امریکا چاہتا ہے کہ شام کے بحران کے حوالے سے اسرائیلی مفادات کسی بھی سطح پر متاثر نہ ہوں۔
پلان اے تو یہ تھا کہ شام میں حکومت تبدیل کردی جائے، اور ان لوگوں کو اقتدار دیا جائے جو امریکا یا شام سے امن معاہدے کے حوالے سے تیار بھی ہوں اور اسرائیل کے لیے قدرے نرم گوشہ بھی رکھتے ہوں۔ پلان بی یہ تھا کہ شام کی فوج سے تمام کیمیائی ہتھیار لے لیے جائیں۔ یہ ہتھیار ہی اسرائیل کے ایٹمی، کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں کے سامنے شام کا واحد ڈیٹرنٹ ہیں۔ پلان اے تو خیر ناکام ہوا مگر پلان بی مکمل طور پر کامیاب رہا۔
شام میں قتل و غارت بھی جاری ہے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ بھی۔ امریکا بظاہر شام کے دیرینہ حلیف ایران اور روس سے مل کر صورتِ حال کو جوں کی توں رکھنے کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جس کے نتیجے میں بیرونی تنازعات کے حوالے سے امریکا کی ساکھ مزید کمزور ہوجائے گی اور اس پر بھروسا کرنے والوں کی تعداد گھٹے گی۔
۲۴ ستمبر ۲۰۱۳ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران امریکی صدر براک اوباما نے واضح کردیا کہ امریکا کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اب کوئی سرد جنگ نہیں چل رہی۔ کوئی بھی گریٹ گیم جیتنا نہیں ہے۔ ایسے میں شام کے بحران میں امریکا کا بظاہر کوئی مفاد نہیں، سوائے اس کے کہ شام کے عوام کو تحفظ ملے اور ان کے تمام بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے۔ دوسرا مقصد شام کے کیمیائی ہتھیار ختم کرنا اور تیسرے شام کو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے سے روکنا ہے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ ان تمام اقوام کا خیر مقدم کرتے ہیں، جو شام کے بحران کا پرامن حل چاہتی ہیں۔
امریکا نے شام کے معاملے میں جو یو ٹرن لیا ہے، اس سے اوباما انتظامیہ کے حوالے سے پائے جانے والے تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو جانا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بحران کی ابتدا ہی سے امریکا کو شامی عوام کے مفادات کا ذرّہ بھر بھی احساس یا خیال نہ تھا۔ اس کی نظر صرف اس بات پر تھی کہ اسرائیل کے مفادات متاثر نہ ہوں اور اس کی سلامتی کے لیے کوئی بڑا خطرہ ابھر کر سامنے نہ آئے۔
امریکا نے روس کے ساتھ مل کر شام کے بحران کا جو پرامن حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اس پر شام کی اپوزیشن بھی متحد نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس اپوزیشن کو حکومت کے مقابل امریکا ہی نے کھڑا کیا تھا۔ شام کی اپوزیشن کو اب بھی ترکی اور خلیجی ریاستوں سے مدد مل رہی ہے، جس کے نتیجے میں فوج کے ساتھ اس کی لڑائی جاری ہے۔
شام کے بحران کے حوالے سے اسرائیل کی غیر جانب داری کا بھانڈا کسی نے نہیں، خود اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے پھوڑا۔ ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مارے جانے والے تین ہزار سے زائد اسرائیلی فوجیوں کی یاد میں منعقد کی جانے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شمعون پیریز نے کہا: ’’شام کے بحران سے سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچا ہے۔ شام کے صدر بشارالاسد نے اسرائیل سے معاملات درست کرنے سے انکار کیا۔ اسے سزا ملی ہے مگر نتائج پوری شامی قوم کو بھگتنا پڑ رہے ہیں‘‘۔
۶؍اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بیان کی روشنی میں جب یہ واضح ہوگیا کہ شام کے معاملے میں امریکا سامنے آکر کوئی کردار ادا نہیں کرے گا، معاملات جوں کے توں رہیں گے، بشارالاسد کی حکومت ختم نہیں کی جائے اور یہ کہ شام کے بحران کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کسی بھی کوشش کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی، تب اسرائیل اس بحران کے حوالے سے اپنے جذبات اور مفادات کا معاملہ پوشیدہ نہ رکھ سکا۔
اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب مائیکل اورن نے کہا کہ ان کا ملک شام میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے اور یہ کہ اس کی خواہش ہے کہ بشارالاسد کو اقتدار سے الگ کردیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے شام کے حوالے سے ہمیشہ اس امر کو ترجیح دی ہے کہ ایران کے حمایت یافتہ برے لوگوں پر ایران کی حمایت سے محروم برے لوگوں کو اقتدار ملے۔ اسرائیل کو جس محراب سے خطرہ ہے اس میں تہران، دمشق اور بیروت شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت چاہتی ہے کہ شام سے لاحق خطرات کا خاتمہ ہو جائے۔
شام کے بحران کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ اسرائیل کے وجود کو لاحق خطرات اس حد تک کم کردیے جائیں گے کہ اسرائیلی حکومت اور عوام کو کسی بھی قسم کی پریشانی سرے سے لاحق ہی نہ رہے۔ اپوزیشن کے نام پر جو لوگ ’’شام کے دوست‘‘ کہلاتے ہیں: وہ دراصل اسرائیل کے دوست ہیں۔
مرکزی حکمت عملی یہ ہے کہ شام کو عراق میں ایران کی حمایت یافتہ حکومت کی طرف سے حمایت سے محروم کردیا جائے۔ ساتھ ہی وہ فلسطینی تنظیمیں بھی بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف ہو جائیں جو فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کرتی آئی ہیں۔ اسرائیلی صدر بھی برملا کہہ چکے ہیں کہ شام کو اس حد تک کمزور ہونا چاہیے کہ اس کے پاس اسرائیل سے ’’غیر مشروط امن معاہدے‘‘ کے سوا کوئی آپشن نہ رہے۔ اور یہ امن معاہدہ گولان کی پہاڑیوں سے اسرائیلی قبضہ ختم کرانے کی بنیادی شرط ہے۔
مقاصد اس قدر ڈھکے چھپے تھے کہ شام میں جاری بحران کو مختلف مراحل میں مختلف نام دیے گئے۔ پہلے یہ کہا گیا کہ عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پھر یہ دعویٰ کیا گیا کہ مسلح اپوزیشن نے فوج کے خلاف مورچے سنبھال لیے ہیں۔ پھر کہا گیا کہ شام میں سنیوں نے علوی شیعوں کے خلاف مورچہ بندی کرلی ہے۔ اس کے بعد اس تنازع کو عرب و ایران کی ڈھکی چھپی جنگ سمجھا گیا۔ ایک مرحلے پر اس لڑائی کو شیعہ سنی تصادم کی تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی بھی کوشش کی گئی۔
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ امریکی سرپرستی میں کام کرنے والے ’’فرینڈز آف سیریا‘‘ اور اسرائیل مل کر شام کے حکمراں طبقے کے مفادات کا خیال رکھنے کو بے تاب ہیں جبکہ شام میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر بھی نہیں۔ امریکی صدر براک اوباما نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ امریکا کے لیے شام کی سلامتی پہلا ایشو ہے اور اس کے بعد اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا بھی اس کی ترجیحات میں نمایاں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے امریکا اپنی بھرپور عسکری قوت استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔
یونیورسٹی آف اوسلو کی ۱۹۹۷ء کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سردجنگ نے مصر اور اسرائیل کے درمیان وسیع اور جامع امن معاہدے کی راہ ہموار کی۔ ۱۹۹۳ء میں تنظیم آزادیٔ فلسطین اور صہیونی ریاست کے درمیان اور اس کے ایک سال بعد صہیونی ریاست اور اردن کے درمیان جامع امن معاہدہ ہوا۔ اسرائیل نے ۱۹۸۲ء میں لبنان پر لشکر کشی کے بعد اس پر ایسا ہی امن معاہدہ تھوپنے کی بھرپور کوشش کی مگر شام کی ریاستی قوت نے ایسے کسی بھی معاہدے کی راہ میں دیواریں کھڑی کردیں، اور اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
اسرائیل کے گرد واقع ریاستوں میں شام امن معاہدوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر، اردن اور پی ایل او سے اسرائیل کے امن معاہدے کی بقا کا دار و مدار بھی شام کی پالیسیوں پر ہے۔ شام کی حکومت اپنے اور عرب دنیا کے دیگر مقبوضہ علاقوں پر سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور فلسطینی مسئلے کا منصفانہ حل تلاش کرلیے جانے تک اسرائیل کو مطلوب امن کی راہ میں دیوار ہی ثابت ہوتا رہے گا۔ بعث پارٹی اور اس کے اقتدار کے واقع ہونے سے بہت پہلے ہی یہ شام کی قومی پالیسی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کا پلان اے دونوں ہی ممالک کے ایجنڈے پر نمایاں رہے گا یعنی شام میں حکومت یا نظامِ حکومت کی تبدیلی کے لیے کوششیں جاری رہیں گی۔
(“The Israeli Factor in the Syrian War Unveiled: The US-Israel Plan A”… “globalresearch.ca”. Oct. 14, 2013)
Leave a Reply