
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا میں جو کچھ ہوا وہ بہت سوں کے لیے بے حد بھیانک تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس سے لوگوں کو زیادہ خوف محسوس ہوا۔ القاعدہ نے صرف یہی ثابت نہیں کیا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر حملے کرنے کی صلاحیت اور سکت رکھتی ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے دل و دماغ پر القاعدہ کے اثرات بہت گہرے ہیں اور اگر مسلمانوں کی جانب سے القاعدہ کی حمایت کا تاثر عام ہوا ہے تو ہماری ذمہ داری بڑھ گئی کہ اس تاثر کو ختم کریں۔ دنیا بھر میں ایک ارب پچاس کروڑ سے زائد مسلمان ہیں جو ۱۵۰ ؍ممالک میں بسے ہوئے ہیں۔ اگر ان میں بیشتر جہادی کلچر میں دلچسپی لینے لگیں تو یورپ بجا طور پر اسے تہذیبوں کے تصادم سے تعبیر کرے گا اور یہ تصادم ناگزیر طور پر خون اور آنسو سے لبریز ہوگا۔
القاعدہ کے حوالے سے خدشات بے بنیاد نہیں تھے۔ نائن الیون نے اسلام کے ایسے انقلابی اور پرتشدد ورژن کو بے نقاب کیا جو عرب دنیا میں پروان چڑھتا رہا اور لندن سے جکارتہ تک برآمد کیا گیا تھا۔ مسلم دنیا میں رائے عامہ کے جائزوں سے امریکا اور یورپ کے لیے شدید نفرت اور القاعدہ کے لیے حمایت کا اظہار ہوا۔ بیشتر مسلم ممالک میں اس رجحان کی زیادہ پروا نہیں کی گئی اور ایسا اس سوچ کی بنیاد پر تھا کہ مسلمانوں میں جو لوگ امریکا اور یورپ سے شدید ناراض ہیں وہ کبھی اپنی حکومتوں کی طرف خشمگیں نظروں سے نہیں دیکھیں گے۔ سعودی عرب اور انڈونیشیا جیسے بڑے اور وسیع ممالک زیادہ ہدف پذیر دکھائی دیے۔
نائن الیون کو آٹھ سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے مگر جو خوف اس وقت پیدا ہوا تھا اس کا کچھ اب بھی حصہ برقرار ہے۔ امریکا میں ری پبلیکنز کو اندازہ ہے کہ جہادیوں کے بارے میں جذبات کو ہوا دیتے رہنے سے انتخابی فتح کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ مبصرین اور تجزیہ نگار آج بھی مسلم دنیا سے پس ماندگی اور درندگی کی مثالیں تلاش کرکے دنیا کو ڈراتے رہتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اسلامی دنیا میں اعتدال پسند عناصر نے انتہا پسندوں کے خلاف چھیڑی ہوئی جنگ میں قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اب یہ خدشہ موجود نہیں کہ کوئی بھی مسلم ملک کسی بھی نوع کی مزاحمت کیے بغیر خود کو انتہا پسندوں کے حوالے کردے گا۔ بیشتر مسلم ممالک میں حکمرانوں نے اپنے اقتدار اور معاشروںکو مستحکم کیا ہے اور انتہا پسندوں کو الگ تھلک کیا جاچکا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلامی دنیا میں حقیقی جمہوریت یا لبرل ازم کو فروغ ملا ہے۔ بہر حال، جدید، سیکولر قوتیں مستحکم ہوکر معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے چکی ہیں اور انہیں بڑے پیمانے پر حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں، انتخابی نتائج اور عمیق مطالعے سے اس رجحان کے پروان چڑھنے کی تصدیق ہوتی ہے۔
ہمیں کسی بڑی سیاسی تبدیلی پر نظر نہیں رکھنی ہے بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے چند انتہا پسندوں کی نگرانی کرنی ہے۔ اس کے باوجود واشنگٹن کی قومی تعمیر نو مشینری اب بھی افغانستان اور عراق میں سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور دوسری جانب یمن اور صومالیہ میں مزید بہت کچھ کرنے کو کہا جارہا ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا مٹھی بھر انتہا پسندوں کو ان کے خطرناک اور مذموم عزائم سے باز رکھنے کے لیے وہ سب کچھ کافی ہے جو ہم کر رہے ہیں؟ چند انتہا پسند تو مغربی جمہوری معاشروں کی پیداوار ہیں۔ وہاں تو قومی تعمیر نو سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ اگر ہمیں ذہن کے بجائے میدان میں دشمن سے بہتر طور پر لڑنا ہے تو اسلامی دنیا میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کو سمجھنا ہوگا۔
ایک وقت تھا جب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے آبائی وطن سعودی عرب سے زیادہ پریشان کوئی بھی ملک نہ تھا۔ سعودی عرب نے مسلم دنیا میں فلاحی منصوبوں کے لیے دل کھول کر عطیات دیے ہیں اور وہابی عقائد کی ترویج کے لیے کم خرچ نہیں کیا۔ غیر معمولی سخاوت ہی نے اب سعودی عرب کو مصر کی جگہ اسلامی دنیا کا غیر اعلانیہ سربراہ بنادیا ہے۔ ۱۹۷۹ء کے بعد سے سعودی عرب نے اپنی سرزمین پر پروان چڑھنے والے اسلام پسند عناصر کو خوب مستحکم کیا۔ انہیں وزارتیں بھی دی گئیں۔ جن لوگوں نے نائن الیون کے بعد سعودی عرب کا دورہ کیا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پڑے لکھے سعودیوں اور حکمراں خاندان سے تعلق رکھنے والی سرکردہ شخصیات نے بھی اس بات کی تردید کی کہ سعودی عرب کا کوئی بھی باشندہ نائن الیون میں ملوث تھا! جن لوگوں نے حقیقت کو تسلیم کیا وہ بھی یہ کہے بغیر نہیں رہے کہ چند عرب باشندوں میں عرب اسرائیل تنازع کے حوالے سے اسرائیل کی جانب امریکی خارجہ پالیسی کے جھکائو کے باعث شدید غصہ پایا جاتا تھا۔
نائن الیون پر امریکا کا ابتدائی رد عمل تو یہ تھا کہ القاعدہ کو کنٹرول کرنے پر توجہ دی جائے۔ اس تنظیم کو اس کے گڑھ افغانستان سے نکال دیا گیا اور جہاں بھی اس کے ارکان گئے ان کا تعاقب کیا گیا۔ ان کے رقوم کی فراہمی کے ذرائع ختم کیے گئے اور اس کے ارکان یعنی جنگجوئوں کو تلاش کرکر کے قتل کیا گیا۔ امریکی کی اس لڑائی میں دوسرے بہت سے ممالک بھی شریک ہوگئے۔ کوئی ملک نہیں چاہتا تھا کہ اس کی سرزمین پر انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ ملے۔
ایک اور بحث بھی چھڑ گئی کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد کی صورت حال کے لیے سب سے طاقتور بیان امریکا یا کسی اور ملک کے صدر کی جانب سے سامنے آیا نہ کسی دانشور کے مضمون کی صورت میں دکھائی دیا۔ یہ بیان اقوام متحدہ کی جانب سے ڈیویپلمنٹ پروگرام کی رپورٹ تھی جو ۲۰۰۲ء میں جاری کی گئی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمگیریت کے دور میں کہ جب لسانی اور ثقافتی تنوع عام ہے، معاشرے کُھل رہے ہیں اور رواداری کو گلے لگایا جارہا ہے، عرب دنیا خاصی پیچھے ہے۔ حقائق کی مدد سے اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ عرب دنیا میں سیاست، معاشرت اور دانشوری شدید بے ثمری کی حالت میں ہے۔ یہ رپورٹ عرب دانشوروں نے مرتب کی تھی۔ اس میں حقائق کی بنیاد پر بات کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا میں سرکردہ سیاست دانوں کی تقاریر اور اہلِ دانش کے تجزیوں نے عرب دنیا کو غور و فکر کرنے کی تحریک دی۔ اس کا نتیجہ بالکل ویسا تو خیر نہیں نکلا جیسا مغرب چاہتا تھا۔ عرب دنیا نے پوری ایمانداری سے یہ تو تسلیم نہیں کیا کہ وہ پس ماندہ ہے، پیچھے رہ گئی ہے تاہم اتنا ضرور ہوا کہ عرب دنیا کے حکمرانوں نے جدید دور کے تقاضوں کو نبھانے کے بارے میں سنجیدگی اختیار کی اور وہ دور لَد گیا جب وہ دو کشتیوں میں سوار ہوکر صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ امریکی صدر جارج واکر بش نے مسلم دنیا میں ایسے منصوبے شروع کیے جن کا مقصد اعتدال پسند عناصر کو مستحکم کرنا، سول سوسائٹی کو ابھرنے کا موقع فراہم کرنا اور رواداری کو فروغ دینا تھا۔ ان تمام کوششوں کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ دبئی سے قاہرہ تک حکام اب تک بند چلی آرہی معشیتوں کو کھولتے جارہے ہیں۔ کبھی کبھی یہ تبدیلیاں بہت چھوٹی ثابت ہوئی ہیں تاہم اہم بات یہ ہے کہ حالات اب درست سمت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
تبدیلی کی راہ ہموار کرنے والی صورت حال اندازے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی۔ نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن اور اس کے نائب ایمن الظواہری کی جانب سے جو وڈیو ٹیپ سامنے آئیں ان میں القاعدہ کے منصوبوں کے بارے میں بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے۔ کوئی بھی حکومت انہیں کھل کر کام کرنے کا ماحول نہیں دینا چاہتی تھی۔ القاعدہ کے لیے رقوم کی فراہمی اور منتقلی، جنگجوئوں کی بھرتی اور نقل و حرکت اور دیگر امور مشکل بنا دیے گئے۔ صورت حال تبدیل ہوئی تو القاعدہ نے مقامی سطح پر بھرتیاں شروع کیں اور بین الاقوامی اہداف کے بجائے مقامی اہداف منتخب کیے۔ انڈونیشیا میں نائٹ کلب اور ہوٹل، اُردن میں شادی کی تقریب، کاسابلانکا اور استنبول میں کیفے اور مصر میں تفریحی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ القاعدہ کا نیٹ ورک انہی حکومتوں کے لیے خطرہ بن گیا جنہوں نے اسے پناہ اور پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا تھا۔
۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء کے دوران سعودی عرب کو ایسے بہت سے حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں صرف غیر ملکیوں ہی کو نہیں بلکہ سعودی حکومت کے اہم ترین اداروں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ سعودی وزارت داخلہ کے علاوہ تیل کی وزارت کے کمپائونڈ میں بھی دہشت گردی کی گئی۔ سعودی بادشاہت کو اندازہ ہوگیا کہ انہوں نے ایک ایسی منفی قوت کو پروان چڑھایا تھا جو اَب خود ان کی اپنی بقاء کے لیے خطرہ بن رہی تھی۔ ۲۰۰۵ء میں اعتدال پسند عبداللہ بن عبدالعزیز نے بادشاہ کا منصب سنبھالا اور جہادی نظریہ ترک کرنے کے لیے اہم اقدامات شروع کیے۔ علماء کو حکم دیا گیا کہ پرتشدد واقعات اور بالخصوص خود کش حملوں کے خلاف بیانات دیں۔ تعلیمی نظام کو علمائے دین کے ہاتھ سے لے لیا گیا۔ دہشت گردوں کو تعلیم، ملازمت اور نفسیاتی علاج کے ذریعے بحالی میں مدد دی گئی تاکہ وہ دوبارہ معاشرے کے لیے کارآمد ثابت ہوسکیں۔ مرکزی کمان کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے مجھے بتایا ’’سعودی عرب نے القاعدہ سے نمٹنے کے لیے طاقت سے بھی کام لیا تاہم ساتھ ہی ساتھ دہشت گردی ترک کرنے والوں کو تعلیم اور روزگار کی سہولت بھی فراہم کی گئی تاکہ وہ دوبارہ مرکزی دھارے میں شامل ہوسکیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے سعودی اقدامات مثبت پیش رفت کا درجہ رکھتے ہیں لیکن انہیں میڈیا میں زیادہ نمایاں طور پر پیش نہیں کیا گیا۔‘‘
جہادی نظریے اور کلچر سے نمٹنے میں سب سے زیادہ کامیابی شاید دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا کو حاصل ہوئی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں ایسا دکھائی دیتا تھا کہ انقلاب پسند اسلامی گروپوں سے حکومت کو طویل مدت تک لڑنا پڑے گا۔ جماعتِ اسلامیہ نے غیر معمولی قوت پیدا کرلی تھی۔ مگر صرف آٹھ برسوں میں جماعتِ اسلامیہ کی قوت قابل ذکر حد تک گھٹادی گئی ہے اور اب مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں تیزی سے ابھر رہی ہیں۔ سوہارتو کا دور ختم ہونے کے بعد اب ملک میں جمہوریت بھی پھل پھول رہی ہے۔ اسٹاک ہوم کے سینٹر فار ایسیمٹرک تھریٹ اسٹڈیز کے میگنس رینز ٹارپ نے دہشت گردی سے نمٹنے میں انڈونیشیا کی کامیابی کے حوالے سے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ انہوں نے اس نکتے کو تفصیل کے ساتھ اور نمایاں طور پر اجاگر کیا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے میں صرف سرکاری مشینری یعنی فوجی قوت اور دیگر اقدامات پر اکتفا کافی نہیں بلکہ سول سوسائٹی کو بھی متحرک کرنا پڑتا ہے اور سماجی و ثقافتی اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھنے والی شخصیات کو بھی میدان میں لانا پڑتا ہے۔ (یہ طریقہ جنوب مشرقی ایشیا، ترکی اور بھارت جیسے کُھلے معاشروں میں زیادہ کارگر ہے جبکہ سعودی عرب جیسے بند معاشروں میں اس کی افادیت زیادہ یقینی نہیں۔)
دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملے میں عراق کا معاملہ ذرا پیچیدہ ہے۔ ۲۰۰۳ء میں اتحادیوں کی لشکر کشی کے بعد ابتدائی مرحلے میں چند ایسی غلطیاں ہوئیں جن کے باعث صورت حال بگڑتی گئی اور مشرق وسطیٰ کے قلب میں زبردست انتشار پیدا ہوا۔ القاعدہ نے عراق میں بہت کچھ کرنا چاہا مگر ناکام رہی۔ القاعدہ نے عسکری میدان میں کامیابی حاصل کی تاہم سیاسی اعتبار سے کمزور ہوتی گئی۔ اس نے اپنا ایجنڈا بھی تبدیل کرلیا اور سُنّیوں کی حمایت پانے کے لیے شیعوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں شیعہ سُنّی خانہ جنگی کو ہوا ملی۔ سُنّیوں کو شیعوں سے لڑانے کے لیے القاعدہ نے ایسی سفاکی دکھائی کہ دیکھنے والوں کے دل دہل کر رہ گئے۔ سُنّی اکثریت کے صوبے انبار میں القاعدہ نے وہ کچھ کیا جو لوگوں کو شیعہ اقتدار کو ترجیح دینے کی تحریک دینے لگا۔ انبار میں سگریٹ پینے والوں کی انگلیاں کاٹنے کے واقعات بھی ہوئے۔
نائن الیون کے بعد سے مغربی مبصرین مسلم اعتدال پسندوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ جہادی کلچر ترک کردیں، خود کش حملوں کے خلاف فتوے دیں اور القاعدہ کی مذمت کریں۔ اسلامی دنیا کے اعتدال پسندوں نے مغرب کی بات ۲۰۰۶ء کے بعد زیادہ شدت سے مانی ہے۔ ۲۰۰۷ء میں سعودی عالم سلمان العودے نے (جو اسامہ بن لادن کے چند نمایاں استادوں میں شمار ہوتے ہیں) ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے خود کش حملوں اور تشدد کا کلچر پیدا کرنے اور پوری مسلم دنیا کو تباہی کے راستے پر گامزن کرنے پر اسامہ بن لادن کو شدید نکتہ چینی کا ہدف بنایا۔ اسی سال سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں انہوں نے تمام سعودیوں کو ہدایت کی کہ وہ بیرون ملک جہاد میں حصہ نہ لیں۔ انہوں نے عرب نوجوانوں کو چلتے پھرتے بم میں تبدیل کرکے سیاسی اور عسکری مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے پر اسامہ بن لادن اور عرب حکومتوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ القاعدہ کی ہی ایک نظریاتی شخصیت عبدالعزیز الشریف نے بھی القاعدہ کی جانب سے دہشت گردی کی شدید مخالفت کی اور جنگجوئوں کو مشورہ دیا کہ وہ دہشت گردی سے گریز کریں۔ عبدالعزیز الشریف طویل مدت تک ایمن الظواہری کے معاون رہے ہیں اور انہوں نے اب اپنے نظریات سے رجوع کر لیا ہے۔
اسلامی دنیا میں قاہرہ کی جامعۃ الازہر کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس ادارے نے بھی متعدد مواقع پر جہادی کلچر کی مذمت کی ہے۔ القاعدہ کی بنیاد بننے والے نظریات کی ترویج و اشاعت پر یقین رکھنے والے ادارے دارالعلوم دیو بند (بھارت) نے بھی ۲۰۰۸ء سے خود کش حملوں کی مذمت کو شعار بنایا ہے۔ ان میں کوئی بھی ادارہ امریکا نواز یا لبرل نہیں ہوگیا تاہم انہوں نے جہادی کلچر کو ترک کرنے پر ضرور زور دیا۔
اس نکتے پر غور کیجیے کہ جہادی کلچر کی مخالفت کرنے والوں میں وہ لوگ پیش پیش ہیں جو انقلابی مسلمانوں کے ساتھ رہے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ سال پکڑے جانے والے پانچ امریکی جہادیوں اور کرسمس کے موقع پر ایمسٹرڈیم سے ڈیٹرائٹ جانے والے طیارے کو تباہ کرنے کی کوشش کرنے والے فاروق عبدالمطلب کے والدین نے صورتِ حال سے پریشان ہوکر خود ہی حکومت کو مطلع کیا۔ یہ ایسا اقدام تھا جس کی بھرپور تعریف کی جانی چاہیے تھی مگر میڈیا نے اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ یہ ’’نرم قوت‘‘ کی برتری کا کیس ہے۔ اگر ان سب کے والدین کو یقین ہوتا کہ امریکا کسی جواز کے بغیر ان کے بچوں پر غیر حقیقی مقدمہ چلائے گا اور اذیت دینے کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتار دے گا تو وہ کبھی اپنے بچوں کی سرگرمیوں کو رپورٹ نہ کرتے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کبھی کسی چیچن باپ نے اپنی انقلابی اولاد کو ولادیمیر پوٹن کی حکومت کے حوالے کیا ہوگا۔
مسلم دنیا سے متعلق رائے عامہ کے جائزے تیزی سے عام ہوتے جارہے ہیں۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر فواز جرجز نے چند برسوں کے دوران مسلم دنیا میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ اُردن، پاکستان، انڈونیشیا، لبنان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اب ایسے لوگوں کی تعداد تیزی سے گھٹتی جارہی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے دفاع کے لیے خود کش حملے اور تشدد پر مبنی دیگر طریقے درست ہیں۔ اب رائے عامہ کے جائزوں میں بیشتر افراد یہ کہتے ہیں کہ اس نوعیت کے واقعات کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ۲۰۰۵ء تک اُردن میں ۵۷ فیصد افراد خود کش حملوں کو درست گردانتے تھے۔ اب ان حملوں کو درست قرار دینے والوں کا تناسب صرف ۱۲ ؍فیصد رہ گیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں انڈونیشیا میں ۷۰ فیصد افراد خود کش حملوں کو درست قرار دیتے تھے۔ اب ان حملوں کو کسی بھی حالت میں درست قرار دینے والوں کا تناسب ۱۵ ؍فیصد سے بھی کم ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکا میں ایسے لوگوں کا تناسب ۲۴ فیصد ہے جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خود کش حملے کبھی کبھی بلا جواز نہیں ہوتے۔ خود کش حملوں کو یکسر مسترد کرنے والوں کا تناسب ۴۵ فیصد تک ہے۔
یہ بدلی ہوئی صورت حال اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتی کہ مذہب کو زندگی کے بیشتر امور میں اولیت دینے کا رجحان کمزور پڑگیا ہے یا رجعت پسندی میں کوئی نمایاں کمی آگئی ہے، مگر ہاں جہادی کلچر کے خلاف اس قدر جلد اور اس قدر نمایاں کامیابی کی توقع کم ہی لوگوں نے کی ہوگی۔
افغانستان، پاکستان اور یمن استثنائی معاملات ہیں۔ افغانستان میں جہادی کلچر کے ساتھ ساتھ لسانی معاملہ بھی ہے۔ پشتونوں کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ انہیں تمام بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی حکومت اس وقت وہاں ہے جہاں ۰۴۔۲۰۰۳ء میں سعودی عرب تھا۔ اب پاکستانی حکمرانوں کو اندازہ ہو رہا ہے کہ جن انتہا پسندوں کو انہوں نے پروان چڑھایا تھا وہ قومی وجود کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ یمن میں ریاستی مشینری کمزور ہے اور انتہا پسندوں سے عمدگی سے لڑنے کی صلاحیت اور سکت نہیں رکھتی۔ اصول تو یہ ہے کہ جن ممالک میں دہشت گردی سے لڑنے کی صلاحیت اور سکت نہیں ان میں القاعدہ پروان چڑھتی رہے گی۔
دشمن کی نوعیت اب تبدیل ہوچکی ہے۔ القاعدہ کے نام سے کبھی حکومتوں پر لرزہ طاری ہو جایا کرتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ کبھی اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے وڈیو پیغامات سے حکومتیں پریشان ہو جاتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ القاعدہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے پیغامات کو اب مضحکہ خیز قرار دیا جاتا ہے۔ القاعدہ یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ کسی بھی بڑے کاز کی چیمپئن ہے جبکہ در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ گزشتہ سال جب عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہوئی تو اسامہ بن لادن نے بینکروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان تمام باتوں کو بیان کرنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ دہشت گردوں کو ڈھونڈ کر نشانہ بنانے سے متعلق کوششوں میں نیم دلانہ رویہ اپنایا جائے۔ القاعدہ آج بھی ایسے سفاک قاتلوں کا ٹولہ ہے جو مزید بھرتیاں کرکے دہشت گردی کے ذریعے مہذب معاشرے کو شدید نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اب القاعدہ کا وہ طلسم دم توڑ چکا ہے جو مسلم دنیا کے مغرب مخالف نوجوانوں کو تیزی سے اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔ اس کی افرادی قوت کم ہی نہیں ہوئی ہے، بلکہ بکھر بھی گئی ہے اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
آج کا امریکا مسلم دنیا سے تہذیبی نوعیت کے تصادم میں نہیں الجھا ہوا بلکہ عسکری محاذ پر اور خفیہ معلومات کے میدان میں چند ایک مقامات پر آپریشن ہو رہے ہیں۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے اسے سیاسی، سفارتی اور ترقیاتی مدد کی ضرورت ہے۔ ہمارے چند اتحادی ہیں اور ہمیں ان کی مدد بھی کرنی چاہیے۔ ہمارا ہدف چند دہشت گرد اور جنگجو گروپ ہیں جن میں مٹھی بھر جنونی ہیں۔ اگر امریکا افغانستان اور یمن میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے مکمل کروائے تو اس بات کی کیا ضمانت دی جاسکتی ہے کہ جنونیوں کا منظر عام پر آنا بند ہو جائے گا؟ ایسے لوگوں پر فتح پائی جاسکتی ہے نہ انہیں دلائل کے ذریعے قائل کیا جاسکتا ہے۔ ان کا ایک ہی علاج ہے۔۔۔ گرفتار کیا جائے یا قتل کردیا جائے۔ القاعدہ نظریاتی محاذ ہار چکی ہے اور اب اس دیوار میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔
(بحوالہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۲ فروری ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply