
مراکش کو گذشتہ ایک عشرے کے دوران متعدد بیرونی چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ ان میں تجارتی شراکت داری میں کمزور شرح نمو، تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ اور علاقائی جغرافیائی، سیاسی تناؤ اور تنازعات نمایاں ہیں۔ ان ناموافق حالات کے باوجود مراکشی حکومت نے اپنا راستہ تبدیل نہیں کیا اور اس نے فوری استحکام پر توجہ دینے کے علاوہ قومی معیشت کی طویل المیعاد ضروریات پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔
اس اتھل پتھل کے دور میں حکومت کی متعیّنہ ترجیحات سے ملک اقتصادی استحکام کی راہ پر گامزن ہوا ہے۔ مثال کے طور پر توانائی کے شعبے میں دیا جانے والا زر تلافی (سبسڈی) ۲۰۱۲ء میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ۶ فیصد تک ہو چکا تھا اور یہ قومی خزانے کے لیے ایک بوجھ اور خطرہ بن گیا تھا۔ اس زر تلافی کے خاتمے سے مراکش کو آبادی کے کمزور طبقات کے لیے وضع کردہ سماجی پروگراموں کو مضبوط بنانے میں مدد ملی ہے۔ حکومت نے تعلیم، صحت اور عوامی خدمات کے دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے، جس سے لوگوں کوغربت کے گھن چکر سے نکالنے میں بھی مدد ملی ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد وشمار سے کیا جا سکتا ہے کہ ۲۰۰۰ء میں غربت کے خطِ لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کرنے والے مراکشیوں کی شرح ۱۵ فیصد تھی لیکن آج یہ شرح کم ہو کر صرف ۵ فیصد رہ گئی ہے۔
درحقیقت انتہائی غربت کا ملک سے قلع قمع کردیا گیا ہے۔ مزید برآں ایک نئے قانونی فریم ورک سے قومی مالیات پر نگرانی کے عمل کو مضبوط بنانے میں مدد ملی ہے، اور قومی قرضوں کو درپیش خطرے کو بھی محدود کردیا گیا ہے۔ حال ہی میں ایک قومی ٹیکس کانفرنس میں ایک شفاف ٹیکس نظام پر اتفاق کیا گیا ہے۔
حکومت طویل المیعاد اقتصادی مقاصد کے حصول کے لیے اہم اصلاحات کو بروئے کار لائی ہے۔ جیسا کہ اقتصادی شرح نمو میں اضافہ ہو اہے، معیشت کو متنوع بنایا گیا ہے اور عالمی معیشت سے اس کو مربوط بنادیا گیا ہے۔ مراکش کے مرکزی بینک نے مالیاتی استحکام کا ہدف حاصل کیا ہے اور اس نے مراکشی بینکوں کے براعظم افریقا میں پھیلاؤ میں بھی مدد دی ہے، جہاں وہ مالیات کے شعبے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
رواں سال کے اوائل میں ایک نئی مالیاتی مشمولہ حکمت عملی اختیار کی گئی تھی۔ اس کا مقصد مراکشی افراد اور فرموں کو مالیاتی خدمات تک زیادہ سے زیادہ رسائی مہیا کرنا تھا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری نے نئی صنعتوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بالخصوص آٹو موبائل اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری سے مراکش کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوری ۲۰۱۸ء میں حکومت نے قومی کرنسی درہم کو زیادہ لچک دار بنانے کے لیے اقدام کا آغاز کیا تھا تاکہ قومی معیشت کو بیرونی جھٹکوں سے بچایا جا سکے اور کرنسی کی مسابقانہ صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکے۔
ان کامیابیوں کے باوجود زیادہ شرح نمو کے حصول کے لیے ابھی ایک لمبا راستہ طے ہونا باقی ہے۔ سماجی اور علاقائی ناہمواریوں میں کمی کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر دیہی علاقوں میں بسنے والی ایک چوتھائی آبادی کو کسی سڑک تک براہ راست رسائی حاصل نہیں ہے۔ بنیادی مراکز صحت اس سے کم سے کم دس کلومیٹر دور واقع ہیں۔ مراکش کے نوجوانوں اور متوسط طبقے کو بہتر معیاری تعلیم اور ملازمتوں تک رسائی دینے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو تعلیم اور ملازمتوں میں مساوی مواقع مہیا کیے جانے چاہییں۔
ان اہم مسائل کے حل کے لیے وسیع البنیاد اقدامات درکار ہیں۔ مثلاً اس کے لیے ایک زیادہ فعال اور عدم مرکزیت کے حامل سرکاری شعبے کو فروغ دیا جائے۔ سرکاری خدمات کا معیار بہتر بنایا جائے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو فروغ دیا جائے۔ یہ کاروباری شعبے مستقبل میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں بھی انجن کا کام دیں گے۔
خوش قسمتی سے مراکش اصلاحات کے ایک نئے دور کے ذریعے ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہتر پوزیشن میں آ گیا ہے۔ اس وقت مراکش میں ترقی کے ایک نئے ماڈل کے بارے میں بحث جاری ہے اور حکام اصلاحات کے لیے ایک مشمولہ تدبیر پر عمل پیرا ہو رہے ہیں۔ اس کی وضاحت حالیہ ٹیکس کانفرنس میں بھی کی گئی ہے۔اس مشمولہ حکمتِ عملی کی ترجیحات میں بہتر تعلیم، کرپشن کے خلاف مسلسل جنگ،نئی ٹیکنالوجیز کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا، سرکاری سطح پر شفافیت میں اضافہ، اصلاح شدہ ٹیکس نظام، سول سروس اور لیبر مارکیٹ میں جدت اور کاروباری ماحول میں مسلسل بہتری شامل ہیں۔ ان اصلاحات سے مراکش کی معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ اس سے مراکش کا خطے اور براعظم افریقا میں سرکردہ بین الاقوامی شراکت دار کی حیثیت سے کردار بھی مضبوط ہوگا۔
اس تمام سفر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مراکش کا قریبی شراکت دار رہا ہے۔ اس نے حکومت کی ٹھوس پالیسیوں، اصلاحات اور طویل المیعاد ویژن کی حمایت کی ہے۔ دنیا کے ممالک عام طور پر بحران کے وقت ہی آئی ایم ایف سے رجوع کرتے ہیں لیکن مراکش کا معاملہ ذرا مختلف رہا ہے۔ اس نے حفظ ماتقدم کے طور پر مشکلات سے بچنے کے لیے مالیاتی فنڈ سے رجوع کیا تھا۔ آئی ایم ایف مراکش کے اقتصادی استحکام، ترقی اور عالمی معیشت سے ملکی معیشت کو مربوط بنانے کے لیے کوششوں میں حکام کے دوش بدوش رہا ہے۔ ہم نے دنیا کے دوسرے ممالک میں تجربات سے بھی مراکش میں اصلاحات کے عمل میں استفادہ کیا ہے۔ سرکاری مالیات، کرنسی کی شرح تبادلہ اور شعبہ مالیات میں اصلاحات کے لیے مشورے دیے ہیں۔ مراکشی معیشت پر ممکنہ طور پر اثرانداز ہونے والے غیر ملکی جھٹکوں سے نمٹنے کے لیے بھی مشورے دیے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مراکشی حکام نے اپنے اصلاحات کے پروگرام کی مضبوط ملکیت کا ادراک کیا ہے اور اس کو تسلیم کیا ہے۔ان کا یہ کردار اس شراکت داری کا ایک بنیادی ستون رہا ہے۔
اس تجربے میں خطے کے دوسرے ممالک کے لیے بہت سے اسباق پنہاں ہیں۔ مراکش کی طرح آئی ایم ایف اپنے رکن ممالک کی صرف بحران کے دور ہی میں نہیں، بلکہ ان کی زیادہ اور مشمولہ معیشی ترقی کے ہدف کے حصول میں بھی مدد دینے کو تیار ہے۔
(بحوالہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘۔ ۲۳ جولائی ۲۰۱۹ء)
Leave a Reply