
ماؤ کی موت کے بعد غیر یقینی کے برسوں میں،چین کے صنعتی طاقت بننے سے بہت پہلے چینی معاشی طالبعلموں کا ایک گروپ شنگھائی سے باہر ایک پہاڑ پر جمع ہوا، نوجوان اسکالروں کے سامنے ایک ہی سوال تھا کہ ہم مغرب کی برابری کس طرح سے کرسکتے ہیں، یہ ۱۹۸۴ء کا موسم خزاں تھا اور دوسری جانب رونلڈ ریگن امریکیوں سے ایک بارپھر نئی صبح کا وعدہ کررہے تھے، اس دوران چین کئی دہائیوں بعد معاشی اور سیاسی بحران سے نکل آیا تھا، ملک میں ترقی ہوئی تھی مگر پھربھی چین کی تہائی آبادی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہی تھی۔ چین میں ریاست فیصلہ کرتی تھی کہ کون شخص کہاں کام کرے گا، کس کارخانے میں کیا بنایا جائے گا اور اس کی قیمت کیا ہوگی۔ کانفرنس میں شریک افراد درمیانی عمر کے وہ نوجوان تھے، جو مارکیٹ کو آزاد کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ معیشت کی تباہی سے خوفزدہ تھے، یہ سب کچھ کمیونسٹ پارٹی کو چلانے والی نظریاتی بیورو کریسی کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ رات گئے تک ان کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا، کارخانے ریاست کی جانب سے دیا گیا ہدف پورا کرنے کے پابند ہوں گے لیکن ان کارخانوں کو اضافی پیداوار کرکے من پسند قیمت پر فروخت کرنے کی اجازت ہوگی۔ یہ بہت چالاکی کے ساتھ معیشت کو ریاست کے اثر سے آزاد کرنے کی تجویز تھی، اس تجویز نے کمرے میں موجود پارٹی کے ایک ذمہ دار کو اپنی طرف متوجہ کرلیا، اس فرد کا معیشت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ۷۶ سالہ زنگیان کا کہنا ہے کہ ’’جب تک سب لوگ مسئلے پر تبادلہ خیال کرتے رہے میں چپ رہا، میں آج بھی سوچتا ہوں کہ ہم نے یہ کام کس طرح مکمل کیا‘‘۔
چینی معیشت نے ایک طویل عرصے تک بہت زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کی، آج کسی کو یاد نہیں کہ چین کے عالمی طاقت بننے کا عمل کتنا مشکل تھا، چین کے لیے یہ سفر اور اچھی امید رکھنا انتہائی مشکل تھا۔ زنگیان جو تجویز لے کر پہاڑ سے واپس آئے اس کو حکومت نے بہت جلد پالیسی کے طور پر اپنالیا، چین نے حیرت انگیز ترقی کی جانب پوری طاقت سے قدم بڑھانا شروع کردیے تھے۔ چین میں آج ذاتی مکان رکھنے والوں کی سب سے بڑی تعداد موجود ہے، اسی طرح انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں، کالج کے گریجویٹ اور ارب پتی افراد بھی سب سے زیادہ چین میں ہی ملیں گے، انتہائی غربت کی شرح گھٹ کر محض ایک فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے، تنہا اور انتہائی غریب چین آج امریکا کاسب سے بڑا حریف بن کر ابھرا ہے اور دونوں ممالک میں زبردست مقابلہ جاری ہے۔ صدر شی جن پنگ نے چین کی اندرونی سیاست پراپنی گرفت مضبوط کرنے اور بیرون ملک اپنے ایجنڈے کے فروغ کے لیے زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کیاہے،دوسری جانب صدر ٹرمپ نے چین کے خلاف تجارتی جنگ کا آغاز کردیا ہے جو نئی سرد جنگ کا سبب بن سکتی ہے،آج چین میں یہ سوال کم ہی کیا جاتا ہے کہ مغرب کی برابری کیسے کی جائے،بلکہ اب سوال کیا جاتا ہے کہ مغرب سے آگے کیسے بڑھا جائے اور امریکا کی جانب سے کیے گئے حالیہ چین دشمن اقدامات کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ تاریخ دانوں کے لیے یہ صورتحال کوئی نئی بات نہیں، وہ جانتے ہیں کہ ہر ابھرنے والی طاقت پہلے سے موجود طاقت کو چیلنج کرتی ہے، جس کے نتیجے میں ایک جیسے مسائل ہی جنم لیتے ہیں۔ کئی دہائیوں تک امریکا نے چین کو طاقتور بننے میں مدد کی ہے،امریکا نے چینی لوگوں اور اس کی قیادت کے ساتھ مل کر دنیا کی اہم ترین معاشی شراکت داری قائم کی، جس سے دونوں ممالک کو زبردست فائدہ ہوا۔ اس دوران ۸؍ امریکی صدور کو امید رہی کہ چین یقینی طور پر جدید دنیا کے قوانین تسلیم کرلے گا اور خوشحالی کے نتیجے میں سیاسی آزادی حاصل ہوگی جو چین کو ایک جمہوری ملک میں تبدیل کردے گی، یا پھر آمرانہ طرز حکمرانی چینی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دے گی۔مگر یہ دونوں امیدیں پوری نہ ہوسکیں اور چین کی کمیونسٹ قیادت نے عالمی توقعات کو پورا کرنے سے بار بار انکار کردیا، انہوں نے خود کو مسلسل مارکسسٹ قرار دے کر سرمایہ دارانہ نظام کی توہین کی، انہوں نے اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے بغیر کسی تبدیلی کے سختی اور دباؤ کا استعمال جاری رکھا، چینی قیادت نے ملک میں قوم پرستی کو بڑھاوا دیا لیکن دشمنوں سے گھرے ہونے کے باوجود جنگ سے گریز کیا، انہوں نے جدید دنیا کی کتابوں کے مطابق ناکام پالیسیاں اختیار کیں، لیکن پھر بھی مسلسل چالیس برس بغیر کسی وقفے کے ترقی حاصل کی۔
گزشتہ ستمبر کے اختتام پر چین نے سویت یونین سے زیادہ عمر پانے کا سنگ میل عبور کرلیا اور کمیونسٹ حکمرانی کے ریکارڈ ۶۹ برس مکمل ہونے کا جشن منایا، ہوسکتا ہے کہ چین بہت جلد دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے ساتھ ساتھ نئی سپر پاور بھی بن جائے، دنیا کو لگتا ہے کہ اس کے بعد چین تبدیل ہوسکتا ہے اور کئی معنوں میں بدل بھی چکا ہے، لیکن چین کی شاندار کامیابی نے دنیا کو بدل کررکھ دیا ہے، اس کے ساتھ ہی دنیا کے حوالے سے امریکی سوچ بھی بدل گئی ہے۔ اس بات کی کوئی سیدھی وضاحت موجود نہیں ہے کہ چین نے اتنی زبردست کامیابی کس طرح حاصل کی، پیش بینی، قسمت، صلاحیت، عزم اور سب سے اہم ترین خوف ہے، جس نے اس کامیابی میں اہم کردار ادا کیا، بحران کے احساس نے ماؤ کے جانشینوں کو کبھی کمزور نہیں پڑنے دیا، تیانمن اسکوائر کے قتل عام اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے چین کی کمیونسٹ قیادت کے رویے میں مزید شدت آگئی۔ ماؤکے چین کے بحران سے نکل آنے کے باوجود چینی کمیونسٹ دماغوں نے اپنے نظریاتی حلیف ماسکو کے انجام سے سبق سیکھا اور سوویت یونین کی تباہی کی وجوہات کا جائزہ لیا، انہوں نے دو سبق سیکھے، ایک یہ کہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے پارٹی میں اصلاحات کی ضرورت ہے، دوسرے یہ کہ ان اصلاحات میں جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چین ہمیشہ سے ہی بہتری کی طرف قدم بڑھانے اور پھر واپس لوٹ آنے کے درمیان ایک کشمکش کا شکار رہا ہے، چین میں تبدیلی کی جانب سفر کبھی بھی دیرپا نہیں رہا، ہمیشہ تباہی کے خوف سے راستہ بدل لیاگیا۔ بہت سے لوگوں کاکہنا ہے کہ پارٹی ناکام بھی ہوسکتی، کیوں کہ جبر اور آزاد خیالی کے درمیان کشیدگی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، جو چین جیسے بڑے ملک کی بقا کے لیے خطرناک ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ امریکا کی مخالفانہ کوششوں کے بعد چین اپنی ترقی کی رفتار برقرار رکھ پائے گا یا نہیں۔
کمیونسٹ پارٹی کاسرمایہ دارانہ نظام اپنانا
پہاڑ پر جمع معاشی طالب علموں میں سے کوئی بھی پیشگوئی نہیں کرسکتا تھا کہ چین کس طرح ترقی کی منازل طے کرے گا، پالیسی سازی میں بھی ان طالب علموں کا کردار انتہائی محدود تھا اور ملک کے حالات انتہائی خراب تھے، چین پوری دنیا سے کٹا ہوا تھا، ملک کو درپیش بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی کوئی تیاری بھی نہیں تھی، کامیابی کے لیے پارٹی کو اپنا نظریہ بھی تبدیل کرنا تھا اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ بھی۔ مثال کے طور پر زنگیان نے صحافت میں گریجویشن کی تھی، ماؤ کے پرتشدد انقلابی دور میں جب لاکھوں لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا، زنگیان آرمی کے ایک یونٹ میں مارکسزم کی تعلیم دیتا تھا، ماؤ کی موت کے بعد انہیں ریاست کی جانب سے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بھیج دیا گیا، ان کو پہلا کام کارخانوں پر تحقیق کرنے کا دیا گیا، انہیں پتا لگانا تھا کہ کارخانوں کو اپنے فیصلے خود لینے کے لیے مزید کون سے اختیارات چاہییں، زنگیان کو کارخانوں کا کچھ بھی تجربہ نہیں تھا، زنگیان نے اب تک صرف ایک معاشی پالیسی ساز کے طور پر شینزین شہر میں چین کی پہلی اسٹاک مارکیٹ کی بنیاد رکھنے میں مدد کی تھی۔ کانفرنس میں شریک نوجوانوں میں زوچیانگ بھی موجود تھے، جنہوں نے بعد کے ۱۵ برس تک چین کے مرکزی بینک کی قیادت کی، لوجیوی بھی موجود تھے، جنہوں نے چین کے فنڈ رکھنے والے خودمختار ادارے کی قیادت کی اور حال ہی میں وزیر خزانہ کے عہدے سے الگ ہوئے ہیں، ان میں زرعی پالیسی کے ماہر وانگ گشان بھی موجود تھے، جنہوں نے بعد کے برسوں میں تمام شرکا سے زیادہ ترقی کی۔ وانگ نے چین کے پہلے سرمایہ کاری بینک کی قیادت کی اور ایشیا میں مالی بحران کے دوران ملک کو بحران سے محفوظ رکھنے میں مدد کی، بیجنگ کے میئر کے طور پر انہوں نے ۲۰۰۸ء میں اولمپک کی میزبانی کی، وانگ حالیہ برسوں میں پارٹی میں بدعنوانی کے خلاف انتہائی مشکل اور اہم کریک ڈاؤن کے نگران بھی ہیں، اب ان کو چین کا نائب صدر بھی بنا دیا گیا ہے، یعنی شی جن پنگ کے بعد پارٹی کے دوسرے طاقتور ترین رہنما۔
کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے سرمایہ دارانہ نظام اپنانے کے عمل میں معاشی طالبعلموں کی کانفرنس میں شریک افراد کا اہم ترین کردار چین کی کامیابی کی کلید ہے، جس کی وجہ سے رکاوٹ بننے والے بیوروکریٹس ہی معاشی ترقی کا انجن بن گئے، جو سرکاری حکام طبقات کی جنگ اور قیمتیں کنٹرول کرنے میں مصروف تھے، وہ سرمایہ کاری اور نجی اداروں کوفروغ دینے لگے، ہر دن چین کے ضلع، شہر اور صوبے کے سربراہ کو نئے کاروبار شروع کرنے کے لیے معاہدے کرنے ہوتے ہیں۔جنوبی ضلع کی سربراہی کرنے والے یان کاکہنا ہے کہ کاروبار کے لیے اچھے خانساماں،بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی خواتین ملازمین، ڈرائیور، صفائی کرنے والے اور بیرون سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہنا ضروری ہوتا ہے۔ بیورو کریسی میں اصلاحات اہم ترین عمل ہوتا ہے، جس میں روس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
چین اور سوویت یونین میں اسٹالن طرز کی بیورو کریسی نے معاشی ترقی کو بری طرح متاثر کیا تھا، یہ افسران ناقابل احتساب طاقت کے ساتھ ہر تبدیلی اور اپنی مراعات میں کمی کی زبردست مزاحمت کرتے تھے۔ سوویت یونین کے آخری سربراہ میخائل گورباچوف نے سیاسی نظام کو آزاد کرکے معیشت پر بیورو کریسی کا تسلط ختم کرنے کی کوشش کی تھی، کئی دہائیوں بعد آج بھی چین میں سرکاری افسران کو پڑھایا جاتا ہے کہ روس کا یہ اقدام غلط کیوں تھا، یہاں تک کہ پارٹی نے اس موضوع پر ۲۰۰۶ء میں ایک ڈاکومینٹری سیریز بھی بنائی، جودیکھنے کے لیے ڈی وی ڈی کی شکل میں ترتیب وار ہر سطح کے سرکاری افسران کو فراہم کی گئیں۔ سیاسی آزادی دینے سے خوف زدہ اورملک میں نافذ نظام سے پریشان پارٹی نے دوسرا راستہ نکال لیا، چین نے معاشی طالبعلموں کی جانب سے پیش کردہ تجویز پر آہستہ آہستہ عمل کرنا شروع کردیا،جس کے بعد معیشت کو ترقی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیاگیا، لیکن پارٹی قیادت نے تجرباتی سوچ اپناتے ہوئے اصلاحاتی عمل کی رفتار سست رکھنے کا مطالبہ کیا،کسانوں کو اپنی پیداوار بڑھانے اور اپنی مرضی سے فروخت کرنے کی اجازت دی گئی، لیکن ریاست نے زمین کی ملکیت اپنے پاس ہی رکھی، جبکہ اسپیشل اکنامکس زونز میں سرمایہ کاری پر پابندیوں کا خاتمہ کردیا گیا، نجکاری کی پالیسی کو متعارف کراتے وقت ریاستی اداروں میں صرف اقلیت کے شیئر فروخت کرنے کی اجازت دی گئی۔ زو کاکہنا ہے کہ ’’اصلاحات کے خلاف مزاحمت موجود تھی، اپنے حمایتیوں اور مخالفین کو اصلاحات کے حوالے سے مطمئن کرنا ایک آرٹ ہے‘‘۔ ان اصلاحات کے حوالے سے امریکی معیشت دان کافی شک میں مبتلا رہے، ان کا کہنا تھا کہ بازاری طاقتوں کو انتہائی تیزی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ بیورو کریسی کو تبدیلی کی راہ روکنے کا موقع مل جاتا ہے۔
نوبل انعام یافتہ ملٹن فریڈمن نے ۱۹۸۸ء میں چین کے دورے کے بعد کمیونسٹ پارٹی کی حکمت عملی کے بارے میں کہا کہ’’یہ بدعنوانی اور نااہلی کا کھلا دعوت نامہ ہے‘‘۔لیکن چین کو بیورو کریسی کی مزاحمت کے خلاف لڑائی میں عجیب برتری حاصل تھی، چین کو زبردست معاشی ترقی ملک کے تاریک ترین دور کے بعد حاصل ہوئی تھی، ثقافتی انقلاب نے پارٹی کو سخت نظم وضبط میں جکڑ لیاتھا، جس کے نتیجے میں ماؤ کے جانشین ڈینگ کے لیے پارٹی کی قیادت کرنا بہت آسان ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی کے نوجوان افراد کوامریکا اور دیگر ممالک میں جدید معیشت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا، ان نوجوانوں میں سے کچھ کو یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا، کچھ کونوکریاں مل گئیں اور کچھ لوگوں کو مطالعاتی دوروں کا موقع مل گیا، جب یہ نوجوان واپس چین آئے تو پارٹی نے ان کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا اور ان کے ذریعے دیگر افراد کو سکھانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ اس دوران پارٹی نے تعلیم پر سرمایہ کاری کی، اسکولوں اور یونیورسٹیز تک لوگوں کی رسائی کو بڑھایا اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے۔ بہت سارے لوگ آج چینی نظام کی کمزوریوں پر تنقید کرتے ہیں۔ ٹیسٹ، رٹا لگوانے، سیاسی پابندیوں اور دیہی طلبہ کے خلاف امتیاز کی بات کی جاتی ہے، لیکن چین میں ہر سال سائنس اور انجینئرنگ میں گریجویٹ کرنے والوں کی تعداد امریکا، جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان کے مجموعی گریجوٹیس سے زیادہ ہے۔شنگھائی جیسے شہروں میں اسکول کے طلبہ دنیا بھر کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کامظاہرہ کررہے ہیں، لیکن پھر بھی بہت سے والدین کے نزدیک یہ کافی نہیں ہے، کیوں کہ ان کے پاس نیانیا پیسہ آیا ہے، روایتی طور پر تعلیم کو سماجی رتبہ بڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے،اسکول کی تعلیم مکمل کرتے ہی ریاستی کالجوں میں داخلہ امتحان دینے کے لیے زیادہ تر طلبہ ٹیوشن سنیٹروں میں رجسٹریشن کرالیتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق چین میں ٹیوشن سنیٹرز کی صنعت کی مالیت ۱۲۵؍ ارب ڈالر ہے، جو ملک کے فوجی بجٹ کی آدھی رقم بنتی ہے۔
چین میں تبدیلی کے عمل کی ایک اور وضاحت بیورو کریسی میں اصلاحات سے بھی کی جاسکتی ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین نے معاشی اصلاحات کو تو قبول کرلیا لیکن سیاسی اصلاحات سے انکار کردیا، لیکن حقیقت میں تو پارٹی ماؤ کی موت کے بعد ہی تبدیل ہوگئی تھی، چین منصفانہ انتخابات اور خودمختار عدالتوں سے محروم ہے کیوں کہ وہ اس کو اہمیت ہی نہیں دیتا۔ پارٹی نے ریٹائرمنٹ کی لازمی عمر بھی متعارف کروائی ہے، تاکہ نااہل حکام سے آسانی کے ساتھ جان چھڑائی جاسکے، مقامی قیادت کو ترقی اور بونس دینے کے لیے داخلی سطح پر رپورٹ تیار کرنے کا نظام بہتر بنایاگیا ہے، مقامی قیادت کا کام ہی معاشی اہداف پر توجہ مرکوز رکھنا ہوتا ہے، بظاہر معمولی نظر آنے والے اقدام کے ذریعے سیاسی نظام میں احتساب اور مسابقت کو فروغ دیا گیا، جس کے بہت زبردست نتائج نکلے ہیں۔ مشی گن یونیورسٹی کی سیاسی تحقیق کار یوان آنگ کا کہنا ہے کہ ’’چین نے آمرانہ نظام میں جمہوری کردار پیدا کرکے ایک منفردنظام تیار کیا ہے‘‘۔چین نے معاشی ترقی تو حاصل کرلی، لیکن حکام نے ترقی کے لیے بڑھتی ہوئی آلودگی،لیبر قوانین کی خلاف ورزی، ناقص غذا اور طبی سامان کی فراہمی کے مسائل کو نظر انداز کردیا۔ حکام کو صرف ٹیکس ریونیو بڑھانے، اپنے اور دوستوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے انعام دیا جاتا تھا، جس کے نتیجے میں حکام کی بڑی تعداد نے ریاستی خدمات سے الگ ہوکر اپنا کاروبار شروع کردیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کی اشرفیہ نے خوب دولت جمع کرلی، جس نے معیشت میں نجی کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ان کی حمایت کو بڑھا دیا، جبکہ پہلے سب کچھ ریاست کے کنٹرول میں تھا۔ ایک سرکاری افسر کے مطابق اب قومی پیداوار میں۶۰ فیصدسے زیادہ حصہ نجی شعبے کا ہے، نوکری پیشہ افراد کی ۸۰ فیصد سے زیادہ تعداد شہروں میں بستی ہے، ۹۰ فیصد ملازمتیں شہر میں پیدا ہوتی ہیں۔ بیورو کریسی کو راستے سے بالکل ہٹا دیاگیا ہے۔مشرقی چین میں گدے بنانے والے جیمس نی کا کہنا ہے کہ’’میں نے کسی بیوروکریٹ کو گزشتہ ایک برس سے نہیں دیکھا،میں نوکریاں پیدا کرتا ہوں، ٹیکس ریونیو بڑھاتا ہوں، مجھے کوئی پریشان کیوں کرے گا‘‘۔ حالیہ برسوں میں صدر شی جن پنگ نے نجی اداروں میں پارٹی کی اتھارٹی قائم کرنے پر زور دیا ہے، انہوں نے ریاستی کاروباری اداروں کو فروغ دینے کے لیے سبسڈی دی اور ان اداروں کو غیر ملکیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے رکاوٹیں برقرار رکھنے پر زور دیا۔ صدر شی نے امریکی کمپنیوں کے لیے چینی مارکیٹ تک رسائی کے بدلے ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی شرط لگانے کی بھی حمایت کی ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے صدر شی نے چین کو بہت زیادہ تبدیل کرنے کا جوا کھیلا، تاکہ چین دنیا کی معاشی سطح پر قیادت کر سکے اور مستقبل میں امریکا کی زیر انتظام چلنے والی انتہائی جدید ٹیکنالوجی کی صنعتوں کے طرز پر ادارے قائم کیے اور چلائے جاسکیں،لیکن صدر شی کے اقدامات نے واشنگٹن کو انتہائی مشتعل کردیا۔
(۔۔۔جاری ہے!)
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“The land that failed to fail”.(“New Yrok Times”. Nov. 18, 2018)
It is an excellent article, very well documented with open observations but ONE tHong is sure wrong. It is not 1984 when summit and strategic meeting was held. It must be lot earlier. I was a Ph. D. engineering student at Exeter University of UK. Suddenly years 1967 through 1969 saw a tremendous influx of Chinese students. What I noticed and observed everybody carried a camera and a note book. They took pictures of each and every piece of equipment avaiable in the depatment and drew a sketch with rough measurements at least. They never returned after the summer vacations of year 1969.