
سقراط (متوفی ۳۹۹ ق م) ایک عظیم دانش منداور فلسفی تھا۔ اس کا زمانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چار سو سال پہلے کا ہے ۔ وہ نہ صرف خدا پر ایمان رکھتا تھا بلکہ آخرت پر بھی کامل یقین رکھتا تھا۔ وہ ایتھنز (یونان ) میں رہتا تھا جہاں کے اکثر لوگ باطل عقائد اور گمراہ افکار میں غرق تھے۔ لیکن سقراط اس ماحول میں بھی حق بات کہنے اور اپنے معاشرے کو برائیوں سے بچانے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف رہا۔ اگرچہ وہ اپنی عمر کے حساب سے بہت بوڑھا ہو چکا تھا لیکن اس کی روح جوان تھی۔ وہ ایتھنز کے گلی کوچوں میں یا عام اجتماعات میں جا کر تقریریں کرتا اور لوگوں کو ایک خدا کی طرف بلاتا۔ اس کے مستحکم دلائل اور منطقی باتوں نے ایتھنز کے جوانوں پر اثر کرنا شروع کر دیا تھا اور نوجوان اس کی سمت دوڑے چلے آئے ۔ لیکن اسی شہر میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو سقراط کی باتوں کو بے دینی اور گمراہی کا باعث سمجھتے اور ان باتوں کو ملکی قوانین کی خلاف ورزی اور بغاوت قرار دیتے تھے اور ایتھنز جیسے شہر میں کہ جہاں جوانوں کی تربیت کو بہت اہمیت دی جاتی تھی وہاں سقراط کا یہ جرم (!) بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔
بالآخر اس یکتا پر ست فلسفی اور دانشمند کو عدالت کے کٹھہرے میں کھڑا کر دیا گیا اور وہاں’’عدالت‘‘ کے دعویداروں نے سقراط کو سزائے موت کا حق دار قرار دے دیا۔
افلاطون کا کہنا ہے کہ جب سقراط نے اپنا آخری دفاعی بیان دے دیا تو وہاں پر موجود جیوری نے اپنا فیصلہ سنایا، چنانچہ ۲۸۱ افراد نے سقراط کو قصور وار ٹھہرایا اور ۲۷۵ افراد نے اسے بے قصور سمجھا اور یوں سقراط فقط ۶ آرا کے فرق سے موت کا حقدار قرار پایا۔
اس حکم پر سقراط نے ایک بیان دیا جو یوں تھا۔
’’اے ایتھنز کے رہنے والو! تم نے در حقیقت اپنی بے صبری کی وجہ سے یہ ملامت اور تہمت اپنے سر لی ہے اور دوسروں کو اپنے اوپر انگلی اٹھانے کا موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ تمہیں سقراط جیسے دانشور کی موت پر ملامت کریں۔ گرچہ میں ہر گز ایک دانشمند نہیں ہوں لیکن صرف تم لوگوں کے فیصلہ کی وجہ سے مجھے دانشمند کہہ کر پکارا جائے گا۔ تم لوگ اگر تھوڑا صبر کر لیتے تو میںجو کہ بوڑھا ہوں اپنی طبعی موت مر جاتا اور تمہیں تمہارا مقصد حاصل ہو جاتا۔‘‘
فیصلہ قطعی تھا۔ سقراط کو سزا دینے سے پہلے کچھ دنوں کے لیے زندان میں لے جایا گیا لیکن ایک خاص رسم جو ایتھنز میں رائج تھی اس کی وجہ سے سقراط کی سزا کچھ تاخیر کا شکار ہو گئی ۔ وہ رسم یہ تھی کہ ایک کشتی کو کچھ خاص آداب و رسوم کے ساتھ ڈیلیوس بھیجا گیا تھا اور جب تک وہ کشتی واپس ایتھنز نہ آجاتی ، سقراط کی سزا پر عمل در آمد نہیں ہو سکتا تھا۔
اس دوران سقراط کے دوست اور شاگرد اس کے ساتھ ملاقات کو آتے اور وہ نہایت آرام و اطمینان سے ان سے گفتگو کرتا اور ان کے سوالوں کے جواب دیتا۔سقراط اگرچہ اپنے آپ کو ایک حتمی موت کے روبرو دیکھ رہا تھا لیکن اسے اس بارے میں ذرہ برابر بھی خوف اور ڈر نہیں تھا۔
قید خانے میں سقراط اور اس کے شاگرد اقریطون کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ملاحظہ فرمائیں:
سقراط: (صبح بسترسے اٹھتے ہوئے) اقریطون کیوں اتنی جلدی چلے آئے؟ کیاابھی علی الصبح نہیں؟
اقریطون: جی ہاں ابھی صبح ہوئی ہے ۔
سقراط: زندان کے محافظوں نے تمہیں اس وقت اندر کیسے آنے دیا؟
اقریطون: میرے اتنی بار آنے سے محافظوں سے دوستی سی ہو گئی ہے اس لیے مجھے کسی نے نہیں روکا۔
سقراط: تم ابھی ابھی آئے ہو یا بہت دیر سے یہیں تھے؟
اقریطون : بہت دیر سے یہیں ہوں۔
سقراط: پھر تم کیوں چپ چاپ میرے پاس بیٹھے رہے اور مجھے بیدار نہیں کیا؟
اقریطون: اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو بیداری میرے لیے ایک عذاب ہوتی لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں اس بات پر بھی حیران ہوں کہ آپ ان حالات میں ایک لمحہ بھی کیسے سو سکتے ہیں؟ اسی لیے میں نے بہتر سمجھا کہ آپ کو نہ چھیڑوں اور آرام و سکون کے یہ چند لمحے آپ سے نہ چھینوں۔ در حقیقت میں جب سے آپ سے ملا ہوں مشکلات کے مقابلہ میں ، آپ کے اطمینان و سکون نے مجھے حیرت زدہ کیے رکھا ہے ۔ لیکن اب جب کہ ان حالات میں آپ کو اتنامطمئن دیکھتا ہوں تو مجھے پہلے سے زیدہ حیرانی ہو رہی ہے۔
سقراط: اے اقریطون، عمر کے اس حصہ یعنی بڑھاپے میں موت سے ڈرنا مجھے زیب نہیں دیتا۔
اقریطون: ہم نے کتنے ہی ایسے بوڑھے دیکھے ہیں جو اپنی مشکلات پر بے تحاشہ گریہ و زاری کرتے ہیں۔
سقراط: تم ٹھیک کہتے ہو ۔ اب یہ بتائو کہ کیسے آنا ہوا؟
اقریطون: میں آپ کے لیے ایک بری خبر لایا ہوں گرچہ جانتا ہوں کہ آپ پر اس خبر کا کوئی اثر نہیں ہوگا لیکن آپ کے سب رشتہ داروں اور ہم دوستوں کو اس خبر نے بہت غمزدہ کر دیا ہے اور میرے لیے تو یہ زندگی کی سب سے بری اور تکلیف دہ خبر ہے ۔
سقراط: وہ خبر کیا ہے ؟ یقیناً وہ کشتی کہ جس کو پہنچنا تھا وہ ڈیلوس سے واپس آگئی ہے ۔
اقریطون: ابھی تک ایتھنز تو نہیں پہنچی لیکن بعض لوگوں کے مطابق وہ سونیوم تک آگئی ہے لہذا وہ آج یہاں پہنچ جائے گی اس لیے افسوس کہ اب آپ کو زندگی کو الوداع کہنا ہوگا۔
سقراط: اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو مجھے اس سے کوئی خوف نہیں۔
خدا کا یہ نیک بندہ جب لوگوں کو حق کی دعوت دیتا تو ہر چیز سے زیادہ خدا پر ایمان ، غیب پر ایمان اور روح کی بقاء کو بیان کرتا تھا لیکن جب سے اسے زندان میں ڈالا گیا تھا اور اسے یہ بتایا گیا تھا کہ اب تمہیں موت سے ہمکنار کر دیا جائے گاتو اس نے اپنے وقت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی ٹھان لی ۔ اس نے قید خانے کو ایک درس گاہ کی شکل دے دی تھی۔ جو لوگ قید خانے میں اس سے ملنے آتے وہ ان کے لیے علمی باتیں بیان کرتا اور مابعد الطبیعیات کے مسائل کو ان کے لیے حل کرتا۔ وہ پہلے سے زیادہ مطمئن نظر آتا۔ کبھی کبھی وہ ان علمی مباحث کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نصیحتیں بھی کرتا جاتا۔
بالآخر یہ دن گزر گئے اور وہ کشتی ڈیلیوس سے ایتھنز پہنچ گئی۔ اب وقت آ پہنچا تھا کہ سقراط کی موت کے حکم پر عمل درآمد کر دیا جائے۔
اقریطون نے پریشانی کے عالم میں سقراط سے کہا: ہم سے جتنا ہو سکا، آپ کی نصیحتوں کی پیروی کریں گے ۔ اب آپ یہ فرمائیں کہ ہم آپ کو کیسے دفن کریں؟
سقراط نے جواب دیا: اگر میں تمہاری دسترس سے باہر نہ چلا گیا اور تم مجھ پر قابو پا سکے تو جیسے چاہو مجھے دفن کرنا۔
اس کے بعد اس نے سب پر نظر ڈالی اور مسکرا کر کہا۔
میں اقریطون کو مطمئن نہیں کر سکا کہ میں سقراط ہی ہوں جو تم لوگوں سے ہم کلام ہے اور اپنی باتوں کو تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں وہ ہوں گا جو کچھ دیر بعد ایک لا ش کی صورت میں کہیں پڑا ہوگا۔ اس لیے وہ پریشان ہے کہ مجھے کیسے دفنائے! میں نے یہ ساری باتیں جو تم لوگوں سے کی ہیں تو میں یہی سمجھانا چاہتا ہوں کہ جب میں نے زہر کا پیالہ پیا تو میں یہاں نہیں رہوں گا اور تم لوگوں سے جدا ہو کر دوسرے دوستوں کی محفل میں جا پہنچوں گا۔ یہ بات اقریطون کی سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ یہ سمجھ رہا ہے ۔ کہ میں نے یہ ساری باتیں اپنے آپ کو اور تم لوگوں کو دلاسہ دینے کے لیے کی ہیں میرے جنازے پر ہرگز یہ نہ کہنا کہ سقراط کو لا رہے ہیں، سقراط کو لے جارہے ہیں۔ سقراط کو دفن کر رہے ہیں۔ یہ بات غلط ہے تم کو کہنا چاہیے کہ جس کو ہم خاک میں چھپا رہے ہیں وہ سقراط کا جسم ہے نہ کہ سقراط، بہرحال تم لوگ جیسے چاہو مجھے دفن کر دینا۔
وہ یہ بات کہہ کر اٹھا اور کمرے کے ساتھ بنے غسل خانہ میں چلاگیا۔ جب وہ نہا کر آیا تو اس نے اپنی بیوی اور بیٹے کو بلایا اور اقریطون کی موجودگی میں ان سے گفتگو اور نصیحتیں کیں اور ان سے الوداع کرنے کے بعد انہیں گھر کی طرف روانہ کر دیا۔
آفتاب غروب ہونے والا تھا جب وہ دوستوں کے پاس واپس آیا اور بستر پر بیٹھ گیا لیکن اسے اتنی فرصت نہیں ملی کہ وہ اپنے دوستوں سے کوئی بات کر سکتا اس لیے کہ زندان کا انچارج اندر آگیا تھا اور اس نے سقراط سے کہا تھا:
’’ میں نے اب تک یہاں لائے جانے والے قیدیوں کے بر عکس تم کو ایک بردبار اور بہترین شخص پایا ہے ۔ جنہوں نے تم کو زندان میں ڈلوایا ہے، تم اچھی طرح ان سے واقف ہو کہ انہوں نے مجھے کیا حکم دیاہے ؟ تمہیں چاہیے کہ صبر و تحمل سے اسے برداشت کرو۔ فی الحال خدا حافظ۔۔‘‘
اس نے اتنا کہا اور منہ پھیر کر رونے لگا اور پھر چلا گیا۔۔
سقراط نے اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے دعا کی : ’’خدا تمہاری حفاظت کرے۔‘‘
ذرا دیر بعد ایک اور شخص داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھا جس میں ایک تیز زہر تیار کیا گیا تھا۔ وہ یہ پیالہ سقراط کے پاس لایا۔ سقراط نے کہا ’’ مجھے بتائو کہ مجھے کیا کرنا ہے ۔ ‘‘
اس شخص نے کہا: ’’کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ جب تم یہ پیالہ پی لو تو چند قدم چلنا یہاں تک کہ تمہیں اپنے پیر بھاری محسوس ہونے لگیں اس کے بعد آکر بستر پر لیٹ جانا۔‘‘
سقراط نے اطمینان سے وہ پیالہ لیا۔ اس کے چہرے پر کسی طرح کی پریشانی اور اضطراب نہیں تھا جیسا کہ اس سے پہلے بھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے زندان کے محافظ سے پوچھا:
’’کیا تم مجھے اس بات کی اجازت دو گے کہ میں اس پیالہ میں سے ایک گھونٹ زمین پر پھینک دوں؟‘‘
محافظ نے جواب دیا: ’’جتنا زہر ایک آدمی کے لیے کافی ہو، ہم اس سے زیادہ زہر تیار نہیں کرتے۔‘‘
سقراط نے جواب دیا:’’ اچھا ٹھیک ہے‘‘ ۔ پھر ایک عجیب آرام و اطمینان سے پورا زہر پی لیا۔
سقراط کے دوست جنہوں نے ابھی تک اپنے آپ کو رونے سے روکا ہوا تھا وہ سقراط کو زہر پیتا دیکھ کر مزید تاب نہ لا سکے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔بعض دوستوں سے یہ منظر نہ دیکھا گیا تو وہ قید خانے سے باہر چلے گئے اور بعض وہیں اپنے دامن سے منہ چھپا کر زاروقطار گریہ کرنے لگے ۔ اس عظیم شخص سقراط نے ایسے میں بھی نہ صرف اپنے آپ کو رونے سے روکا بلکہ وہ آخری لمحات میں دوسروں سے یوں مخاطب ہوا:
’’میرے دوستو! یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے اپنے گھر والوں کو اسی لیے گھربھیج دیا تھا کہ وہ مجھے اس حال میں دیکھ کر روئیں نہیں۔ تم اپنے دل کو مضبوط رکھو۔‘‘
سقراط کے دوستوں کا کہنا ہے کہ سقراط کی زبانی جب یہ بات ہم نے سنی تو ہم بہت شرمندہ ہوئے اور ہم نے اپنے آنسوئوںکو روک لیا۔
سقراط زندان کے محافظ کی ہدایت کے مطابق تھوڑی دیر تک چلتا رہا، پھر بولا:’’ اب میرے پیر بہت بھاری ہو گئے ہیں‘‘۔ اس کے بعد وہ اپنے بستر پر آلیٹا۔
جس آدمی نے سقراط کو زہر کا پیالہ لا کر دیا تھا وہ اس کے پاس آیا اور اس نے سقراط کے پیروں کو شدت سے دبایا اور پھر پوچھا: ’’سقراط کیا تم کچھ محسوس کر رہے ہو؟‘‘
سقراط نے جواب دیا: ’’مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا۔‘‘
وہ شخص اپنا ہاتھ اور اوپر لایا اور پھر اس نے یہی سوال کیا:’’ کیا تم کچھ محسو س کر رہے ہو؟‘‘
سقراط نے پھر وہی جواب دیا: ’’مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔‘‘ پھر اس آدمی نے سقراط کے ساتھیوں سے کہا سقراط کا بدن ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔ جب یہ ٹھنڈک دل تک پہنچے گی تو سقراط تم سے ہمیشہ کے لیے دور چلاجائے گا۔ ذرا دیر گزری کہ سقراط نے ایک جنبش لی اور اس دنیا سے چلا گیا۔
{}{}{}
Leave a Reply