
ویلیم ڈال رِمپل (William Dalrymple) ایک زبردست داستان گو ہے۔ واقعہ اور اس کی تفصیل گویا اس کی آنکھوں دیکھی ہوں۔ وہ تاریخ کو زندہ کر دینے کی اپنے اندر زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔ باریک بینی سے تحقیق شدہ اس کا بنیادی کام خاص طور سے اہم ہے، اس لیے کہ مشرقی لوگوں اور مسلمانوں اور دوسری اقوام کے حوالے سے وہ مغرب کی غلط فہمیوں کو چیلنج کرتا ہے اور ان افکار کو بھی چیلنج کرتا ہے جنھیں ماضی کی استعماری کہانیوں نے دوام بخشا ہے اور اس طرح وہ قارئین کی عظیم تعداد تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اس نے اپنی پہلی لکھی ہوئی انعام یافتہ کتاب سفید مغل (White Mughals) میں بین النسلی شادیوں کی دریافت کے حوالے سے اور اس حوالے سے کہ ۱۶ویں صدی سے لے کر ۱۹ویں صدی کے اوئل تک ہندوستانیوں اور برطانویوں کے مابین جو چولی دامن کا رشتہ رہا ہے، اس نے کچھ نئے پہلو تلاش کیے ہیں۔ بہرحال جوں ہی مغل قوت ماند پڑی اور برطانوی قوم نے ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کر لیا تو سفید مغل یعنی ہندوستانی انگریز معدوم ہوتی نسل کا حصہ بن گئے۔ صنعتی انقلاب انجیلیت اور مقامی آبادی کو مہذب بنانے کے اپنے نئے مشن کے زیرِ اثر برطانوی ہندوستان میں ہندوستانیوں کے ساتھ اب کوئی برادرانہ تعلق قائم کرنے یا ان کی زبان اور روایات سے اپنے آپ کو آشنا کرنے کے خواہشمند نہیں رہے تھے۔ وہ زمانہ جبکہ بہادر شاہ ظفر گدی پر بیٹھا تھا، اُس وقت عظیم میکائونی نے یہ اعلان کیا کہ ’’کسی یورپی کتب خانے کی صرف ایک الماری ہندوستان اور عرب کے کل مقامی لٹریچر کی قیمت کے برابر ہے‘‘۔
ڈال رِمپل اس پس منظر میں اپنی نئی کتاب آخری مغل (The Last Mughal) میں اظہارِ خیال کرتا ہے۔ اس کی گفتگو بہادر شاہ ظفر کی الم زدہ شخصیت کے گرد گھومتی ہے اور نئی معلومات کا ایک خزانہ عطا کرتی ہے۔ پھر وہ ہندوستان میں انگریزوں کے قصے کو آگے لے جاتے ہوئے وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں انگریزوں اور ہندوستانیوں کے تعلقات میں ایک عظیم تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ ۱۸۵۷ء کا غدر۔ ڈال رِمپل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ نہ ہی یہ غدر تھا اور نہ جنگِ آزادی تھی بلکہ ’’یہ ایک بالکل مختلف قسم کی عوامی بغاوت اور مزاحمتی کارروائیوں کا ایک سلسلہ تھا جس کی شکل اور انجام علاقائی صورتحال اور علاقے کے عوام کے جذبات اور شکایات سے مشخص ہوتا تھا‘‘۔ اس سے بھی زیادہ یہ کتاب مغل دہلی کو ایک روشن اور عالی شان شہر کے طور پر بیان کرتا ہے اور یہاں کی ثقافت اور روایات کی پوری تفصیل فراہم کرتا ہے۔ وہ اس عظیم ادبی نشاۃِ ثانیہ کے متعلق بات کرتا ہے جو بہادر شاہ ظفر کے ذوق کی مرہونِ منت تھی۔ اس کے باوجود کہ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے لیے جو مغل بادشاہ کا خطاب تھا، اسے دہلی کے بادشاہ کے ذریعہ گھٹا دیا اور اس کا اقتدار لال قلعہ سے ماورا بہت ہی کم رہ گیا تھا۔ بہادر شاہ ظفر اردو کا ایک استاد شاعر تھا، اس کا نام تقریباً مبتلاے غلم کے مترادف تھا۔ یاس و قنوطیت پر مبنی اس کے اشعار جسے مرحوم احمد علی نے بہت ہی شاندار طریقے سے انگریزی میں منتقل کیا ہے، اس کی شخصیت کے غماز ہیں۔ ان اشعار میں کچھ کو ڈال رِمپل نے اس کتاب میں نقل کیا ہے: مثلاً
My life now gives no ray of light,
I bring no slace to heart or eye,
out of dust to dust again
of no use to anyone am I
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں
نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے
میں وہ ایک مُشتِ غبار ہوں
ڈال رِمپل یہ انکشاف کرتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر نے صوفیانہ اشعار فارسی، پنجابی اور برج بھاشا میں بھی کہے ہیں۔ وہ ایک ماہرِ فن خطاط تھا اور وہ ادب و فنِ تعمیر کی سرپرستی بھی کرتا تھا۔ عالمِ جوانی میں وہ اپنی شہ سواری، تیر اندازی اور شمشیر زنی میں مہارت کے لیے بہت مشہور تھا۔ ایسے وقت میں جبکہ ذوق اور غالب جیسے معروف شعرا بادشاہ کے استاد کہلانے کے لیے باہم رقابت کرتے تھے۔ بعد میں آنے والے انگریز رہائشیوں نے بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بہت نفرت و حقارت کا سلوک کیا۔ وہ اسے صرف اقتدار اور دولت کے تناظر میں دیکھتے تھے حالانکہ وہ ایک غریب اور نمائشی بادشاہ تھا جو اپنا سب کچھ کھو چکا تھا اور ان کی کھوئی ہوئی دولت اُنہی انگریزوں کے ہاتھ لگی تھی اور اسی دولت پر وہ عیش کر رہے تھے۔ ڈال رِمپل بہادر شاہ ظفر کی غدر کے دوران کی ایک متحرک تصویر فراہم کرتا ہے۔ جس وقت بغاوت کا آغاز ہوا، اُس وقت بادشاہ کی عمر ۸۲ برس تھی۔ سپاہی بڑی تعداد میں بادشاہ کی حمایت طلب کرنے کے لیے دہلی میں یکمشت گھس آئے۔ اس نے انھیں گنوار، غیرمہذب اور بداطوار خیال کیا۔ وہ تذبذب میں پڑ گیا لیکن اپنی وراثت دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش اس پر حاوی ہو گئی اور اس نے رضامندی ظاہر کر دی۔ بہادر شاہ ظفر کی حمایت کی وجہ سے بغاوت کو قانونی جواز ملا اور عوامی توجہ بھی حاصل ہوئی۔ لیکن بہادر شاہ ظفر بالکل اپنے کنٹرول میں نہیں تھا۔ اس کا خادم ظہیر دہلوی جس نے بعد میں داستانِ غدر کے عنوان سے ایک قیمتی یادداشت لکھی، اس نے بہادر شاہ ظفر پر طاری دہشت کا حال بیان کیا ہے۔ جب اُسے معلوم ہوا کہ باغیوں کا لشکر ان برطانوی خاندانوں کو جو قلعہ میں قید تھے، قتل کرنا چاہتے تھے، اُس نے اُن سے منت سماجت کی۔ اس نے ہندو مسلم سبھی باغیوں سے کہا کہ وہ اپنے مذہبی رہنمائوں سے دریافت کریں کہ کیا وہ بے بس عورتوں اور بچوں کے قتل کی اجازت دیں گے؟ اس نے پھر کہا کہ ’’اُن کے قتل کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔ لیکن آخرکار وہ اس کو روکنے میں ناکام رہا۔ پوری کتاب میں ایک حیرت انگیز ڈرامہ ہے، اس طرح کہ قصے کا رُخ باری باری سے برطانوی اور ہندوستانی تناظر میں بدلتا رہتا ہے۔ اس کتاب میں دہلی کے کئی باشندوں کی داستانیں شامل ہیں۔ مثلاً برطانیہ نواز حکیم احسان اﷲ خان اور بہادر شاہ ظفر کی چشم پوش اور اپنے مفاد پر نظر رکھنے والی بیوی زینت محل کی داستانیں۔ زینت محل کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ وہ اپنے برباد بیٹے جوان بخت کا انگریزی حکومت کے ساتھ الحاق کو یقینی بنانا چاہتی تھی۔
ڈال رِمپل ایسے ہندوستانی و برطانوی مورخین کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتا ہے جو تمام مغل شہزادوں کی تصویر ایک سست اور ناکارہ نسل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کی داستان میں شہنشاہ کا بیٹا مرزا مغل انتہائی فعال اور قابلِ تعریف شخص کے طور پر سامنے آتا ہے۔ وہ دہلی کے باغی فوجیوں اور انتظام و انصرام کا چارج سنبھالتا ہے۔ بہت سارے نقش کردہ خاکوں میں شہزادہ لوہارو اور مستقبل کا شاعر و نقاد آزاد کی جھلکیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ آزاد اپنے باغی پدر کو پھانسی کے پھندے میں لٹکتے دیکھتا ہے اور پھر اپنے گھر سے فرار ہونے پر مجبور ہوتا ہے۔ وہ فرار ہوتے وقت جو چیز اپنے گھر سے ساتھ لے جاتا ہے، وہ صرف ذوق کا ایک غیرمطبوعہ شعری مجموعہ ہے۔ غالب کا بیان کردہ آنکھوں دیکھا حال اور آزاد کے والد مولوی محمد باقر کی باغیوں کی حمایت میں لکھے گئے صحافیانہ مضامین بہت کثرت سے نقل ہوئے ہیں۔ کتاب تحمل و برداشت پر مبنی مغلوں کے مذہبی فلسفے اور اُن متعصب جہادیوں کے مابین فرق بھی واضح کرتی ہے جو باغیوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ہندوئوں کے خلاف اعلانِ جہاد کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ یہ وہ مصیبت تھی جس سے گریز کی بہادر شاہ ظفر نے ہر ممکن کوشش کی۔ باغیوں کے لشکر میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو تھے۔ دونوں نے وقت کی مروجہ زبان استعمال کی اور انگریزوں کے خلاف اپنی لڑائی کو عیسائیوں اور کافروں کے خلاف جہاد کا نام دیا اور یہ راز بعد میں کھلا کہ مشہور زمانہ Enfield رائفل کو واقعتاً سب سے پہلے گائے کی چربی سے صاف کیا جاتا ہے اور پھر سور کی چربی سے۔ برصغیر میں بہادر شاہ ظفر کا نام قیمتی ثقافتی و تاریخی ورثے کا مظہر ہے اور عظیم سانحے و المیے کا بھی۔ بہرحال برطانیہ میں شاید ہی اس کے متعلق لوگوں نے کچھ سنا ہو۔ اس پہلو سے William Dalrymple کی جستجو آمیز کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے جبکہ اس شورش و بغاوت کو ڈیڑھ سو سال کا عرصہ پورے ہونے جارہا ہے۔ اس کی کتاب وہ پہلی کتاب ہے جو اس جنگ کے بارے میں اردو اور انگریزی دونوں منابع سے معلومات اکٹھا کرتی ہے۔ ڈال رِمپل کا کہنا ہے کہ اس نے دریافت کیا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے غدر سے متعلق تاریخ نگاری کے دو متوازی دھارے ہیں۔ ایک انگریزی زبان میں ہے جس میں حتیٰ کہ آزادی کے بعد کے ہندوستانی مصنفین نے انگریزی منابع کو صرف استعمال کیا اور اس میں کہیں خلا محسوس ہوا تو ’’بھرتی کے مواد‘‘ سے اس کو پُر کیا۔ دوسرے وہ ہم عصر اُردو مصنفین ہیں، ہندوستان اور پاکستان کے جنھوں نے اردو اور فارسی کے قیمتی مواد پر اعتماد کیا۔ اس کا مقصد ان بنیادی اردو و فارسی منابع کو پہلی بار انگریزی پڑھنے والے لوگوں تک پہچانا تھا۔ اس نے بہت بڑی تعداد میں غیر دریافت شدہ اور غیراستعمال شدہ مواد کا بھی پتا لگایا یعنی ۲۰ ہزار اردو اور فارسی کے دستاویزات ایسے ہیں جو دستاویزات غدر کے عنوان سے نیشنل آرکائیوز آف انڈیا، بہادر شاہ ظفر کے قید خانہ رنگون کے ریکارڈز اور برٹش ریزیڈنسی دہلی کے غدر سے پہلے کے ریکارڈ میں موجود ہے اور جس کے متعلق یہ خیال کر لیا گیا تھا کہ انھیں لاہور کے پنجاب آرکاکیوز میں اس زمانے کے آس پاس تباہ کر دیا گیا تھا جبکہ اس کے افسر اور Sir John Lawrence ہوا کرتے تھے۔ جیسا کہ یہ کتاب عوامی بغاوت کے موضوع کے گرد گھومتی ہے لہٰذا ڈال رِمپل کلی طور سے برطانوی نژاد کرداروں کی مکمل تعداد کو زندہ کر کے دکھاتا ہے۔ یہ استعماری برطانوی حکام ہیں اور متعصب اناجیلی اور کچھ دیگر ہیں جو ہندوستان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کچھ پرانے ہندوستانی ہاتھ ہیں مثلاً Robert اور Harriet Tytler جو نئی نسل کے غرور اور اس کی بے حسی سے وحشت زدہ اور اس سے بھی بدتر صورتحال کا سوچ کر خوف زدہ ہیں۔ اس کے بعد برطانویوں اور ہندوستانیوں کی اولاد ہیں مثلاً نصف راجپوت کرنل James Skinners کے بچے۔ ڈال رِمپل ۱۸۵۷ء کے بہت سے ابہامات کی واضح نشاندہی کرتا ہے اور یہ انکشاف کرتا ہے کہ نسلی برتری کے پُرجوش نعروں کے باوجود بہت سارے برطانوی ہندوستانیوں کے ساتھ رشتہ داری رکھتے تھے، بشمول ریزیڈنٹ Sir Thomas Metcalf کے۔ اس نے نہ صرف تھومس کے دہلی کے ساتھ تعلقات کی پیچیدگیوں کو قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے بلکہ اس کے بددماغ بیٹے Theo کی خوفناک داستان کا بھی حال بیان کیا ہے جس نے برطانویوں کے ہاتھ باغیوں کی شکست کے بعد انصاف کے نام پر ایک قاتل گروہ کی سربراہی کرتے ہوئے بھیانک مظالم اور جرائم کا ارتکاب کیا۔ دوسرے زندگی سے بھی بڑے کردار ہیں مثلاً General Nicholson اور Sir John Lawrence جنھوں نے برطانیہ کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ڈال رِمپل برطانیوں کی دہلی میں ہولناک انتقامی کارروائیوں کے بیان سے گریز نہیں کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ غصے سے پاگل Lord Canning دہلی کو چٹیل میدان بنا دینا چاہتا تھا لیکن سر جان لارنس جس کی تدبیر سے دہلی پر دوبارہ قبضہ ممکن ہوا، نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا۔
ڈال رِمپل کہتا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں برطانیہ نے دہلی میں جو لوٹ مار اور قتل و غارت گری مچائی وہ نادر شاہ کی بدنامِ زمانہ قتل و غارت گری سے کہیں زیادہ بھیانک تھی۔ وہ غالب کو نقل کرتا ہے جو زندہ بچ رہ جانے والوں میں سے ایک تھے:
’’چوک مذبح خانہ ہیں اور گھر قید خانہ۔ دہلی کی خاک کا ہر ذرہ مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے۔ حتیٰ کہ اگر ہم اکٹھے بھی ہوتے تھے محض ہم اپنی زندگیوں پر رو سکتے تھے‘‘۔
کتاب کا آغاز رنگون میں بہادر شاہ ظفر کی بے نشان قبر میں تدفین سے ہوتا ہے جہاں بے چارگی کا سماں تھا اور اختتام اس کے مقدمے اور جلاوطنی کے المناک ایّام پر ہوتا ہے۔
ڈال رِمپل کی دہلی سے جو حد درجہ محبت ہے اور ماضی کے مغل دور سے اس کی جو الفت پائی جاتی ہے، وہ پوری کتاب میں ہر جگہ نمایاں ہے۔ اب وہ چار عظیم مغل شہنشاہوں پر اپنی کتابوں کا سلسلہ تصنیف کر رہے ہیں۔
(بشکریہ: ’’نیوز لائن‘‘ کراچی۔ شمارہ: دسمبر ۲۰۰۶ء۔ تبصرنگار: منیزہ شمسی)
Leave a Reply