
وفاقی جمہوریہ جرمنی کے بانیوں نے ملکی آئین میں یہ شق شامل کی تھی کہ جرمن سرزمین سے آئندہ کبھی بھی جنگ نہیں شروع کی جائے گی۔
دنیا بھر میں پولینڈ پر نازی جرمنی کے حملے کے ۷۵ سال مکمل ہونے کے موقع پر یادگاری تقریبات منعقد کی گئیں۔
اس روز دوسری عالمی جنگ کے ۷۵ سال مکمل ہونے پر جرمن دارالحکومت برلن میں وفاقی جرمن پارلیمان کی طرف سے عراق کے کرد جنگجوؤں کو جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ مقابلے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے کی متنازع تجویز کی منظوری محض ایک اتفاق ہے۔ ۱۹۴۵ء کے بعد سے اب تک کی جرمن تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جرمنی کسی جنگ میں شریک فریق کو اسلحہ فراہم کرے گا اور اس طرح کسی بحران میں مسلح مداخلت کرے گا۔
ہتھیاروں کی اس فراہمی پر جرمنی کے سیاسی حلقوں میں گہری تشویش کا باعث وہ سبق ہیں، جو نازی سوشلسٹ دور کے تجربات سے حاصل کیے گئے ہیں۔
وفاقی جمہوریہ جرمنی کے بانیوں نے ملکی آئین میں یہ شق شامل کی تھی کہ جرمن سر زمین سے آئندہ کبھی بھی جنگ نہیں شروع کی جائے گی۔ جرمن آئین کے مطابق ایسے اقدامات، جن کا مقصد اقوام کے مابین پرامن تعلقات کو نقصان پہنچانا ہو یا جو جارحانہ حملوں کی تیاری میں مدد گار ثابت ہوں، ملکی آئین کی کھلی خلاف ورزی ہوں گے۔
ایک طویل رستہ
محض جرمنی کے سیاسی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ جرمن عوام میں بھی آمر حکمران ہٹلر کے مظالم کو پہچاننے اور اپنی تاریخ کے اس تاریک باب کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے عمل میں کافی طویل وقت لگ گیا۔ دوسری جانب ۱۹۴۵ء کے بعد پسِ پردہ چلے جانے والے بہت سے نازی ایک بار پھر عدلیہ، تعلیمی اداروں یا سرکاری دفاتر میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو گئے۔
۱۹۵۰ء کے عشرے میں میڈیا کو کسی حد تک آزادی حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔ ۱۹۵۶ء میں ایک سیلف ریگولیٹری انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا، جس میں پبلشر اور صحافیوں کی تنظیموں کے نمائندے شامل تھے۔ اس ادارے نے میڈیا پر سے ریاست کا کنٹرول ختم کروانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
مشرقی اور مغربی جرمنی میں فرق
مغربی جرمنی میں ہٹلر کے دور کے بارے میں کھل کر عوامی بحث و مباحثے کا سلسلہ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں اس وقت شروع ہوا جب طلبہ تحریکیں فعال ہوئیں اور انہوں نے ناکہ بندیاں شروع کیں۔ ان طالبعلموں کی تنقید کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جرمنی میں ماضی سے نمٹنے کا طریقہ کار ناقص ہے۔
ادھر مشرقی جرمنی یا جرمن ڈیمو کریٹک ریپبلک میں دیوار برلن کے انہدام تک نازی دور کے بارے میں کھل کر بات چیت کا کوئی رواج نہیں تھا۔ اس وقت تک جرمن تاریخ کے اس تاریک باب کو سوشلسٹ اور اینٹی فاشسٹ نعروں سے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی اور نازی دور کے اسباق اور اس کے اثرات سے چشم پوشی کی جاتی رہی۔ اس کے علاوہ مشرقی جرمنی میں واحد سیاسی پارٹی پر مشتمل حکومت تھی اور حزب اختلاف کی آواز دبانے اور اپنا پرچار کرنے کے لیے جی ڈی آر حکومت وہی حربے استعمال کر رہی تھی، جو ہٹلر دور حکومت میں اپنائے گئے تھے۔
اسکولوں میں تعلیم و آگہی
آج کل یہ حقائق جرمن اسکولوں کے نصاب میں تاریخ کی لازمی تعلیم کا حصہ ہیں کہ یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کو عالمی تاریخ میں ظلم و تشدد سے عبارت وہ بدترین جنگ نازی سوشلسٹوں نے جرمن سرزمین سے شروع کی تھی، جس کے دوران چھ ملین یہودیوں سمیت ۵۰ سے ۶۰ ملین انسان مارے گئے۔
ماہرین کے مطابق تاریخ کے بارے میں دی جانے والی تعلیم آج کل کے جرمنی میں نازی نظریات کے مکمل خاتمے میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہوئی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی بھی جرمنی میں نیو نازی گروپ پائے جاتے ہیں، جو ہٹلر کے خیالات یا تصورات کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کھلے عام ہٹلر کے دورِ حکومت کو جائز یا حق بجانب کہنے والے کو تین سال تک کی سزائے قید کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کھلے عام جرمنی میں کئی ملین یہودیوں کی ہلاکت سے انکار کرنے والے کو تو پانچ سال تک کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔
(بشکریہ: ’’ڈی ڈبلیو داٹ ڈی ای‘‘۔ یکم ستمبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply