
حماس اور مصر کے درمیان برف پگھل رہی ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ مفاہمت کی جانب قاہرہ کی حالیہ پیش قدمی ضرور کسی مفاد کی بنیاد پر ہے۔ النجہہ (An-najah) یونیورسٹی، نابلس کے پروفیسرایراط نے ’’المانیٹر‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’مصر کی حماس سے مفا ہمت کی جانب پیش قدمی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فلسطینی صدر محمود عباس پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے حریف محمد دحلان سے بات چیت کریں اور انہیں اپنا جانشین بننے کے لیے تیار کریں‘‘(یاد رہے کے محمد دحلان کو محمودعباس پارٹی سے نکال چکے ہیں)۔
پروفیسر کہتے ہیں’’آنے والا وقت بتائے گا کہ مصر حماس شراکت داری صرف وقتی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جارہی ہے یا پھر اس کی کوئی تزویراتی اہمیت بھی ہے۔اور اسی سے پتا چلے گا کہ یہ تعلقات کس حد تک باہمی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔رفح کراسنگ کا مستقل کھلے رہنا اور غزہ کی طرف سے صنعا کی سیکیورٹی کی ضمانت ان باہمی مقاصد میں سرفہرست ہیں۔ایک بات جو بالکل واضح ہے وہ یہ کہ اس مفاہمت کے درپردہ جو فعال شخصیت ہے وہ محمد دحلان کی ہے،جو غزہ اور حماس دونوں کے لیے قابل قبول ہیں‘‘۔
حماس کو بھی اس بات کا علم ہے کہ قاہرہ حالیہ اقدامات سے دراصل حماس اور محمود عباس ،دو نوں محاذوں پر کامیابی حاصل کرناچاہتا ہے۔قاہرہ چاہتا ہے کہ حماس کے ساتھ فی الحال کسی بھی قسم کی محاذ آرائی سے بچا جائے ،جب تک کہ محمود عباس کے ساتھ دحلان کے معاملہ پر اختلاف ختم نہیں ہوجاتا۔
مصر کی جانب سے غزہ کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیے جانے والے حالیہ اقدامات عین اس وقت کیے جا رہے ہیں، جب قاہرہ کے ’’فتح‘‘کے ساتھ تعلقات خراب ہورہے ہیں۔ محمد دحلان کے معاملے پر مصری صدر سیسی اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان سرد مہری میں اضافہ ہوا ہے۔ حماس کی روایتی حریف ’’الفتح‘‘ اس وقت محمود عباس کی جانشینی کے معاملے پر اندرونی خلفشار کا شکار ہے (محمود عباس کی عمر۸۱ برس ہو چکی ہے)۔
الفتح کی انقلابی کو نسل کے معتمد ابو مقبول نے المانیٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے حماس قاہرہ مفاہمت میں محمد دحلان کے کردار پر بات کرنے سے انکار کر دیا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم ایسی ہر کوشش کا خیر مقدم کرتے ہیں جس سے عربوں اور فلسطینیوں کے تعلقات بہتر ہوں ،اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ فلسطین کی تقسیم کاخاتمہ ہوسکے،یعنی حماس اور الفتح کے درمیا ن فاصلے کم ہو سکیں، جو کہ ۲۰۰۷ ء سے مد مقابل ہیں‘‘۔
مصر نے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لیے خیرسگالی کے طور پر ۳۰ اکتوبر کو ہونے والی اکنامک کانفرنس میں شرکت کے لیے غزہ سے ۱۰۰ کاروباری افرد کو دعوت دی۔ اس دعوت کا مقصد رفح کراسنگ سے تجارتی اشیا اور افرد کی آمدورفت کو سہل بنانا بھی تھا۔
ایک طویل عرصے سے رفح کراسنگ پر مصر کی بے جا سختی فلسطینیوں میں مایوسی کا باعث بنی رہی ہے۔اس لیے حال ہی میں جب مصر نے عارضی طور پررفح کراسنگ کو طلبہ، بیمار افراد، غزہ سے باہر سے آئے افراد کے لیے کھولی تو اس اقدام کو سراہا گیا۔ ۱۶ سے ۲۳ اکتوبر کے درمیان تقریباً چار ہزار افراد نے غزہ سے رفح کراسنگ کو عبو ر کیا۔
مصر نے ۲۰ اکتوبر کو غزہ کے سات حجاج کرام کو بھی رہا کر دیا ،جنھیں ۲۴ ستمبر کو سعودی عرب سے واپسی پرممنوعہ اشیا ء رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
حماس قاہرہ تعلقات میں بہتری کا اندازہ اسرائیلی ویب گاہ المصدر کی اس خبر سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ حماس نے غزہ سے چاردہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے، جو مصری فوج پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔تفتیش کار ان سے داعش سے تعلقات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ گرفتاریوں کے حوالے سے سرکاری ذرائع نے کوئی اعدادوشمار جاری نہیں کیے۔ صنعا کی خراب صورتحال کے تناظر میں اس خبر کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔حال ہی میں یعنی ۱۴ اکتوبر کو داعش نے مصری فوج پر حملہ کر کے ۱۲ اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ دریں اثنا مصری فوج نے دعوی کیا ہے کہ غزہ کی سرحد کے قریب دہشت گردوں کی پناہ گاہ پر حملہ کر کے اسلحہ کا بڑا ذخیرہ تباہ کیا گیا ہے۔
اس طرح کے اقدامات سے لگتا ہے کہ دونوں طرف سے گرم جوشی دکھائی جا رہی ہے۔حماس کے ترجمان سمیع ابوزہری نے حال ہی میں المانیٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مصر سے بہتر تعلقات کے لیے مصری حکام اور حماس کے راہنماؤں میں رابطے رہے ہیں ،حماس چاہتی ہے کے مصر سے ایسے تعلقات قائم کیے جائیں جو فلسطینی عوام کے مفاد میں بھی ہو اور مصر کی تاریخی اہمیت اور کردار کو بھی برقرار رکھے۔ حماس قاہرہ سے مثبت اور بہتر تعلقات کی خواہش مند ہے ۔حال ہی میں حماس کی جانب سے ایک خیر سگالی کا وفد مصر بھیجنے کا فیصلہ ہوا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کے تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہیں‘‘۔
حماس اور مصر کے تعلقات کے استحکام کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے ،ان تعلقات کی پائیداری دوسرے بہت سے معاملات سے جڑی ہوئی ہے ،جن میں صنعا کا امن و امان، رفح کراسنگ کا کھلے رہنا اور محمد دحلان کا کردار بھی شامل ہے۔مصر اور حماس انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تعلقات کو بحال رکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہی تعلقات سیاسی و تزویراتی تعلقات میں بہتری کا باعث بنیں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The man behind potential breakthrough in Hamas-Egypt ties”. (“Al-Monitor”. Oct.31,2016)
Leave a Reply