میئر دہشت گرد نہیں ہے!
یہ سمجھنے کے لیے کہ کس طرح حماس حکومت میں آسکی‘ البرہ کی سرخ بتیوں پر غور کیجیے۔ مغربی کنارہ شہر کے مصروف ترین چوراہوں پر بھی چند ہفتوں پہلے تک ٹریفک سگنلز نہیں تھے۔ لیکن جب حماس نے دسمبر کے میونسپل انتخابات میں فتح حاصل کی تو شہری حکام نے ایک اسرائیلی کنٹریکٹر سے نئی بتیاں خریدیں اور کام کرنے والوں کی ٹیمیں روانہ کیں‘ جنہوں نے فاضل اوقات کے ساتھ کام کر کے گزشتہ ہفتے کے اسمبلی انتخابات سے پہلے ان بتیوں کو نصب کر دیا گیا۔ یہ انتخابی کھیل تھا؟ شاید۔ لیکن مغربی کنارہ میں جہاں فتح کی برسوں کی بدنظم حکومت کے سبب اور انتفاضہ کی شورش کی وجہ سے کام بگڑ گئے تھے۔ لوگوں نے حقیر ترین کونسلوں کو بھی سراہا۔ حماس کا یہ تاثر کہ انہوں نے کام کو مکمل کروایا ہے۔ گزشتہ مقامی انتخابات میں غزہ اور مغربی کنارہ میں انتخابات جیت لینے کی وجہ بنا۔ بعض علاقے میں تو حماس نے ہر نشست پر فتح حاصل کی۔ جب ووٹروں نے یہ دیکھا کہ جہادی گروپ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں نہ کہ اپنی جیب بھرنے میں تو وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ حماس فتح کا مفید متبادل ہو سکتی ہے اور انہوں نے بالآخر حماس کو گزشتہ ہفتے ایک متوقع فتح سے ہمکنار کروایا۔ حماس کے ایک پارٹی ذمہ دار ۲۹ سالہ عمر حمائل جو گزشتہ دسمبر میں البرہ کے میئر کی حیثیت سے منتخب ہوئے‘ کا کہنا ہے کہ ’’گلیوں میں ہماری ایک ساکھ ہے۔ میڈیا ہمیشہ تشدد کے متعلق بات کرتا ہے۔ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ہم معاملات بھی چلا سکتے ہیں‘‘۔ حماس کی کچھ کر سکنے والی صلاحیت دہائیوں سے پروان چڑھ رہی ہے۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال فلسطین کی عمومی سیاست میں اس کی تزویراتی منتقلی سے پہلے ہی پارٹی خدمت خلق اور عوامی فلاح و بہبود کے اپنے ادارے چلا رہی تھی‘ جس میں میڈیکل کلینک‘ اسکول اور سوپ کچن کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ مقامی انتخابات جو کئی مہینوں تک جاری رہا‘ میں پارٹی کی کامیابی کے بعد ہی سے حماس کے ذمہ داروں نے اس کام پر اپنی توجہ مرکوز کر دی‘ جسے وہ ’’فلسطینی گھر کی صفائی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ مغربی بینک کے شہر قلقلیہ پر ذرا ایک نظر ڈالیں جہاں گزشتہ جون کے انتخابات میں اسلامی پارٹی چھا گئی۔ گزشتہ چند مہینوں میں حماس کے زیرِ اقتدار کونسل نے شہر کے قرضے چکا دیے‘ اس کے بجٹ کو متوازن کیا‘ تنخواہوں میں اضافہ کیا اور سڑکوں کی دوبارہ تعمیر شروع کر دی۔
’’ہم اپنے اصولوں سے وابستہ رہتے ہیں اور ہم وہ کرتے ہیں جو کہتے ہیں‘‘۔ یہ بیان ۵۵ سالہ شیخ محمد ابو ظہیر کا ہے جو یروشلم میں حماس کے ایک نہایت ہی بااثر رہنما ہیں اور گزشتہ ہفتے کی پارٹی امیدواروں کی قومی فہرست میں دوسرے نمبر کے رہنما ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی اور اسلحے کی ذخیرہ اندوزی کے الزامات کی بنا پر اسرائیلی جیل میں ۲۰ برس تک قید کی سزا کاٹی ہے۔ انہوں نے ووٹنگ سے پہلے ’’ٹائم‘‘ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم قبضے اور ظلم کے خلاف ہیں‘‘۔ یہ انتخاب سے پہلے حماس کے چند رہنمائوں کی جانب سے دیے گئے اس بیان کی وضاحت تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ہم مناسب وقت پر اسرائیل کے ساتھ گفت و شنید کر سکتے ہیں‘‘۔ حماس کو اپنے پیش رو کو پچھاڑنا بہت مشکل کام نہیں۔ البرہ میں حمائل کو صرف اس لیے شاباش مل رہی تھی کہ کام پر صحیح وقت پر پہنچ جاتے ہو۔ سابق شہری ذمہ داران تاخیر سے آتے تھے۔ لیکن حمائل ایک نئی روایت تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حمائل جو کہ ایک سابق کیمسٹری ٹیچر ہیں‘ فرماتے ہیں کہ ’’سچ یہ ہے کہ جب یہاں اسٹاف کام پر آتا ہے تو میں موجود ہوتا ہوں اور جب وہ گھر جارہے ہوتے ہیں تب بھی میں یہاں موجود ہوتا ہوں۔ اس کیفیت کو دیکھ کر وہ سمجھتے ہیں کہ احساسِ ذمہ داری واقعتا ایک حقیقت بن گئی ہے۔ حمائل کے نرم لہجے سے ان کے آہنی عزم کا اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ ان کے ملازمین نے یہ محسوس کیا ہے کہ ’’حمائل اپنی میز پر صبح ۸ بجے سے موجود ہوتے ہیں اور دیر تک کام کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ دفتر کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور لوگ جا چکے ہوتے ہیں‘ تب وہ کام میں مصروف ہوتے ہیں‘‘۔ حمائل کی اس جانفشانی کی تصدیق احمد ارقوب نے کی ہے جو کہ ایک سول سرونٹ ہیں اور ۱۹۸۰ء سے وہ ٹائون کے لیے کام کر رہے ہیں۔ فلسطینی مہاجرین کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم کی وجہ سے البرہ قدرے دولت مند ہے لیکن یہ شہر بھی مغربی بینک کے کئی عام مسائل میں شریک ہے‘ مثلاً کچروں کا ڈھیر‘ سڑکوں پر ناکارہ بتیاں‘ پانی کے پائپوں کا شکستہ ہونا اور بیروزگاری کی بلند شرح۔ حمائل کا پہلا کام یہ تھا کہ وہ میونسپل ملازمین سے کہیں کہ وہ ہر منصب کی ذمہ داریوں کی تفصیلات تیار کریں۔
حمائل کا کہنا ہے کہ ’’اس طریقے سے ہم تمام لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ لوگوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ لوگ قوم کی تعمیر میں مدد کیے بغیر تنخواہ کے چیک وصول کرتے رہیں‘‘۔ ان میں سے کوئی بات بھی حماس کو اس کے اسرائیل کی تباہی کے عزم سے باز نہیں رکھتی۔ لیکن بعض علاقوں میں مثلاً البرہ میں حماس کے ذمہ داران اپنی چھوٹی چھوٹی کارکردگیوں کے ذریعہ لوگوں کے دل جیتنے اور اپنا ہم نوا بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوتے ہیں۔ ابو ظہیر جن کی داڑھی سنتِ رسولؐ کی پیروی میں حنا رنگ ہے‘ فرماتے ہیں کہ ’’ایک ہاتھ مزاحمت میں مصروف ہے اور دوسرا تعمیر میں۔ یہ وہی بات ہے جس کا مطالبہ ہم سے قرآن کرتا ہے اور اسی اصول پر ہم عمل پیرا رہیں گے‘‘۔ سخت بیانی اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت کا اشتراک ۲۲ سالہ حیتم حماد جیسے ووٹروں کو جو کہ فلسطینی سکیورٹی فورس میں عہدہ دار ہے‘ مطمئن کرتا ہے۔ البرہ کے ایک کیفے میں کافی پر گفتگو کرتے ہوئے حماد کا کہنا تھا کہ ’’فتح نے میرے لیے کچھ بھی حاصل نہیں کیا‘‘۔ حماس اس لائق ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق دلائے یعنی روز مرہ کے حقوق مثلاً ایک اچھی ملازمت‘ صاف پانی۔ اگلی میز پر موجود ابو تیسیر جو کہ کیک بیچتا ہے‘ کا کہنا تھا کہ ’’فتح کے لوگ تو اپنی مائوں کو بھی بھول گئے۔ یہ پارٹی سوائے بلیک میلرز کی ایک بھیڑ کے کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ اب یہ بلیک میلرز حزبِ اختلاف میں ہیں اور اب یہ حماس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فلسطینیوں کی آرزوئوں کی تکمیل کرے‘ خواہ یہ آرزو بڑی ہو یا چھوٹی۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ شمارہ۔ ۶ فروری ۲۰۰۶ء)