لیجیے پورے ایک سال کے بعد میں ایک بار پھر آپ حضرات کے لیے رمضان کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ وہ پیغام ہے تقویٰ اور صبر کا، رحمت اور مغفرت کا، تلاوت کا، عبادت کا اور رضاے الٰہی کا۔ میں ایک ماہ آپ حضرات کی مہمانی میں رہوں گا اور دیکھوں گا کہ آپ کے روزے کیسے گزرتے ہیں۔ آپ کی عبادت و تلاوت کا کیا حال ہے۔ آپ کتنا وقت عبادت میں صرف کرتے اور اپنے حقیقی مالک کی یاد میں گزارتے ہیں۔ پھر میں آپ سے اجازت لے کر رخصت ہوں گا اور دوسرا چاند میری جگہ لے گا۔ عید کا مبارک چاند اور نیا چاند اور عید توخود رمضان کا انعام ہے۔ اگر رمضان نہ ہوتا تو عید نہ آتی۔ اگر مشقت نہ ہوتی تو راحت کا بھی لطف نہ آتا۔ شب بیداری نہ ہوتی تو نیند کا بھی پورا مزہ نہ آسکتا۔ اگر بھو ک نہ ہوتی تو راحت کا بھی لطف نہ آتا۔ شب بیداری نہ ہوتی تو نیند کا بھی پورا مزہ نہ آسکتا۔ اگر بھوک نہ ہوتی تو کھانا بھی اچھا نہ معلوم ہوتا۔ اس لیے عید اپنی تمام مسرتوں اور لذتوںکے باوجود رمضان کی رہین منت ہے اور اس طرح میں رمضان ہی کا سفیر نہیں بلکہ عید کا بھی سفیر ہوں۔
ہاں تو میں آپ کے لیے زہد، مجاہدہ اور صبر کا پیغام لایا ہوں۔ میں بھوک، پیاس اور شب بیداری کا سفیر ہوں اور کھانے پینے اور دوسری دنیاوی لذتوں سے آپ کا ہاتھ روکنے کے لیے آیا ہوں۔ اس لیے اگر میری آمد سے آپ حضرت کو گرانی ہو اور آپ واپس جائو کے نعروں کے ساتھ میرا استقبال کریں اور مجھ کو بھوک اور پیاس کا پیامبر اور مشقت و تکلیف کا قاصد کے ناموں سے نوازیں گے تو مجھ کو مطلق تعجب نہ ہوگا۔
آپ نے میرا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ کئی آدمی مسجدوں اور اپنے مکانوں کی چھتوں پر کھڑے میری ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھے۔ گویا انہوں نے اس بیکراں نیلے آسمان میں مجھ کو شکار کرنے کے لیے اپنی نگاہوں کا ایک جال سا بچھا دیا تھا۔ جب انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو ان کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے اور مسرت و خوشی کے الفاظ زبانوں سے بے ساختہ نکلنے لگے۔ یوں معلوم ہوا جیسے وہ تھوڑی دیر کے لیے بھول گئے ہوں کہ میں کس ذمہ داری اور کن مطالبات کو لے کر آیاہوں۔ میرے خیال میں ایسے آدمی کا اس زندہ دلی اور گرم جوشی سے استقبال کرنا جو پُرمشقت اور تلخ کام لے کر آیا ہو بڑی بات ہے۔ حقیقت میں یہ ایمان کا کرشمہ ہے اور ایمان ہی کی طاقت ہے جو ایک شاق چیز کو آسان کر دیتی ہے اور دشمن کو دوست بنا دیتی ہے۔
آپ نے نبی اکرمr کی یہ حدیث سنی یا پڑھی ہو گی کہ انسان کے ہر اچھے عمل میں دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اضافہ کیا جاتا ہے سوائے روزے کے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنت میںایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے قیامت کے دن اس سے صرف روزہ دار داخل ہو ں گے۔ اور جب وہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا اور پھر اس میں کوئی داخل نہ ہوگا۔ اور فرمایا کہ جس نے ایمان کے ساتھ اور طلب اجر کی نیت سے روزہ رکھا اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ اگر یہ حدیثیں نہ ہوتیں جن کی طمع آپ اپنے اندر پاتے ہیں یا مختصر الفاظ میں اگر ایمان آپ کے قلب میں پیوست نہ ہوتا تو بخدا یہ روزہ کبھی آپ کے لیے آسان نہ ہوتا۔ اس لیے کہ انسان چھوٹی لذت کو بڑی لذت کی امید میں ہی چھوڑ سکتا ہے اور مختصر راحت کسی بڑے یا طویل آرام کے یقین کی وجہ سے ترک کر سکتا ہے اور حقیقت میں روزہ دار کو جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ خود روزہ کو بھی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ بلکہ روزہ دار کے لیے دو ایسی راحتیں رکھی گئی ہیں کہ کسی دوسرے کے لیے نہیں ہیں۔ ہمارے نبیr نے فرمایا کہ روزہ دار کے لے دو خوشیاں ہیں جب افطار کرے گا اس وقت اس کو خوشی حاصل ہو گی اور جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے پر خوش ہو گا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ نماز، زکوۃ کوئی بڑی چیز اور اس کا زندگی پر کوئی اثر نہیں۔ میں اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ محسن کی ناشکری کروں اور صاحبِ فضل کے فضل سے انکار کروں۔ جب کہ آپ جانتے ہیں کہ میرے اور ان احکام و غیرہ میں کتنا برا درانہ اور مخلصانہ رشتہ ہے۔ لیکن اگر اجازت دیجیے تو میں یہ کہوں گا کہ میں دین کے ایک شعبے کی زیادہ واضح اور طاقت ور نما ئندگی کرتا ہوں۔ اور وہ ہے اطاعت اور قربانی کا شعبہ۔ میں جس کو بھی دیکھتا ہوں یہی نظر آتا ہے کہ لوگوں نے اپنے منہ پر تالے لگا لیے ہیں۔ اور گویا طلوع فجر سے لے آفتاب ڈوبنے تک انہوں نے کھانے پینے کی چیزوں تک کو ہاتھ لگانے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ طرح طرح کے لذیذکھانے ان کے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں اور گویا ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں بلکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے منہ میں پانی آنے لگتا ہے اور ہونٹ ان کے مزے کے لیے بے قرار ہو جاتے ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جو آپ کے اور ان لذیذ کھانوں کے درمیان حائل ہوتی ہے اور آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔ پانی آپ کے سامنے موجود ہوتا ہے اور آپ اس کی طرف ہاتھ بڑھا نہیں سکتے۔ اور اپنی پیاس بجھا نہیں سکتے۔ خدا کا حکم ہی تو ہے کہ جو آپ کو اس سے باز رکھتا ہے۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ یہ اطاعت وقربانی کتنی بڑی ہے اور یہ فدائیت کا کیسا نمونہ ہے۔ میں نے اقتدار جلال کے بہت سے نمونے دیکھے ہیں اور اطاعت و فرما نبرداری کے بہت سے مناظر کا مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن میں آپ سے کہتا ہوں کہ میں نے بہت سے ایسے آدمیوں کو دیکھا جو دن کو جرائم سے دست کش ہو جاتے ہیں اور رات کو دوبارہ اس میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اور ظاہری طور پر اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہیں حالاں کہ حقیقت میں نافرمان ہوتے ہیں ایسے لوگ جو حاکموں کو دھوکا دیتے ہیں اور پولیس کی آنکھ میں خاک ڈالتے ہیں بلکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جانہ ہو گا کہ یہ لوگ خود اپنے ساتھ خیانت کرتے ہیں لیکن اس موقع پر جس اطاعت فرمانبرادری اور وفاداری و جاں نثاری جس اخلاص، صبر اور ثابت قدمی کے نمونے دیکھے وہ میں نے کسی دنیاوی اقتدار و عزت کی وجہ سے نہیں دیکھے۔
ایک آدمی ہے جس کو پیاس نے بے تاب کر رکھاہے۔ پانی کے بھرے ہوئے گلاس سامنے رکھے ہیں لیکن مجال نہیں کہ کہ وہ ان کو ہونٹوں سے لگا لے۔ ایک مسلمان باورچی ہے جو روزہ رکھے ہوئے دن بھر طرح طرح کے کھانے تیار کرتا ہے اور گرمی و تپش برداشت کرتا ہے وہ چاہتا تو اس میں سے کچھ لے کر کھا سکتا تھا۔ لیکن محض ایمان اس کو اس چیز سے باز رکھتا ہے کہ تھوڑے سے چٹخارے کے لیے اپنے رب کو ناراض کر بیٹھے۔ جب سورج ڈوب جاتا ہے اور روزے دار خدا کا نام لے کر روزہ افطار کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔
’’پیاس دور ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں اور ان شاء اللہ اجر ثابت ہو گیا‘‘۔
اس سوسائٹی کا اصل مرض کھانے کا حد سے بڑھا ہوا شوق ہی تو ہے جس نے بہت سے مادی و اخلاقی امراض سوسائٹی میں پیدا کر دیے۔ یہ سب بے صبری، حرص اور لالچ کا نتیجہ ہے۔ میں ہر سال اسی مقصد کے لیے تو آتا ہوں کہ اس شدت اور بے صبری میں کچھ تخفیف کر سکوں اور لوگوں میں کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معاملے میں اعتدال کا ذوق پیدا ہو۔ اس لیے کہ یہی وہ چیز ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ میری آمد کے ساتھ آپ لوگوں پر فرض کرتا ہے۔ جس نے ایک مہینے کے روزے رکھ لیے اس کی خواہشات میں اور اس کی ذہنی بھوک میں ضرور تھوڑی بہت کمی آنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف کھانے پینے ہی سے نہیں روکا گیا بلکہ ہر قسم کے فسق و فجور سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ غیبت، جھوٹ، چغل خوری، لڑائی فساد تمام بری باتوں سے روکا گیا ہے۔ رسول اکرمr کا ارشاد ہے کہ ’’اگر کوئی روزہ سے ہو تو وہ نہ بری بات کہے نہ لڑے جھگڑے۔اگر کوئی اس کو گالی دے یا اس سے لڑائی کرنے پر آمادہ ہو تو اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے جھوٹ اور بری بات کہی اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی بھی کوئی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا اور اپنی بات ختم کر لی۔ اب رخصت ہونا چاہتا ہوں۔ اجازت دیجیے خدا حافظ۔
{}{}{}
Leave a Reply