
عرب دنیا میں بیداری کی لہر کو دوڑے ہوئے اب پانچ سال ہوچکے ہیں اور پانچ سال کے بعد عرب دنیا ایک بار پھر شدید انتشار کی لپیٹ میں ہے۔ ایران کی سخت گیر مذہبی قیادت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ پانچ برس کی مدت میں پانچ عرب ممالک کو بہت کامیابی سے غیر موثر کیا جاچکا ہے۔ عراق، شام، لبنان، لیبیا اور یمن کی جو حالت ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ ان پانچوں ممالک میں باضابطہ نظام حکومت تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ ہر طرف انتشار ہی انتشار ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا کچھ زیادہ حیرت انگیز نہ ہوگا کہ خطے کے مزید ممالک بھی جلد ہی شدید عدم استحکام سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
ان پانچوں ممالک کے غیر موثر ہونے کی وجوہ یکساں نہیں۔ عراق اور شام کو شدید عدم استحکام سے دوچار کرنے میں مغرب کی عسکری مداخلت نے مرکزی کردار ادا کیا۔ لبنان کو ناکام بنانے میں ایران نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جب ایرانی قیادت نے لبنان کے معاملات میں مداخلت کی تو معاملات تیزی سے بگڑے اور یہ ملک اپنے وجود کی معنویت سے محروم ہوگیا۔
عراق، شام، لبنان، لیبیا اور یمن پانچوں ہی کے معاملے میں ایک امر یکساں ہے۔ یہ کہ جب حالات بگڑے یا بگاڑے گئے، تب ریاستی ڈھانچا کمزور ہوتا چلا گیا اور اقتدار تقسیم ہوکر چند عسکریت پسند گروپوں تک محدود ہوگیا۔ بیشتر معاملات میں یہ عسکریت پسند گروپ کسی نہ کسی مسلک کے گرد گھومتے پائے گئے۔ آج پورا مشرقِ وسطیٰ اس عمل کی زد میں ہے۔ ہم اب عسکریت پسند گروپوں کے دور میں جی رہے ہیں۔
شام کا کیس لیجیے۔ یہ ملک کئی حصوں میں بٹ چکا ہے۔ جنوب اور مغرب میں صدر بشارالاسد کی حکومت ہے۔ مشرقی شام پر جہادی گروپوں کا کنٹرول ہے جو مرکزی حکومت کے اثر و رسوخ کو بالکل ختم کردینا چاہتے ہیں۔ شمال کے کئی علاقوں میں القاعدہ اور کُردوں کے مختلف گروپ فعال ہیں۔ شمال مشرقی اور جنوب مشرقی شام میں مغربی طاقتوں کے حمایت یافتہ القاعدہ اور دیگر سُنی عرب گروپ متحرک ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ بشار انتظامیہ کے زیر تصرف شام کا چالیس فیصد رقبہ طاقت کی نوعیت کے اعتبار سے عسکریت پسند گروپوں کے زیر تصرف علاقوں جیسا ہی ہے۔ بشارالاسد اب تک اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں اس لیے کامیاب رہے ہیں کہ ایک طرف تو انہیں روس اور اس کے ہم خیال ممالک کی تائید و حمایت حاصل رہی ہے اور دوسری طرف انہیں ملک میں انتشار پھیلانے والے گروپوں سے طاقت کشید کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ بشارالاسد نے ملک کی تقسیم در تقسیم ہی سے اپنے لیے طاقت حاصل کی ہے۔
شام میں ایرانی قیادت نے اپنی مرضی کا کھیل کھیلا ہے۔ ایران کے پاس دارانِ انقلاب اور القدس گارڈز نے صورت حال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے گروپ تشکیل دیے ہیں جو بشارالاسد کی حکومت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔ ایران کے پاس دارانِ انقلاب کو ایران کے علاقائی مفادات کے استحکام کے لیے عسکریت پسند گروپ تشکیل دینے کا ہنر آتا ہے۔ شام جن حالات سے دوچار ہے، اُن کے پیش نظر ایران کی فورسز زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
شام کی فوج میں اکثریت سُنّی عربوں کی تھی۔ یہ فوج صدر بشار کے لیے ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۲ء میں بہت حد تک غیر موثر ہوکر رہ گئی۔ صدر بشار کے لیے اپنی ہی فوج پر مکمل بھروسا کرنا ممکن نہ رہا۔ ایسے میں ایران کے پاس داران انقلاب نے میدان میں قدم رکھا اور بشارالاسد کے لیے نئے عسکریت پسند گروپ تشکیل دیے تاکہ وہ اپنا اقتدار کسی نہ کسی طور برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں۔ آج شام میں ایران کی تیار کردہ نیشنل ڈیفنس فورس اور عراق و لبنان کی سرزمین پر متحرک چند ایران نواز عسکریت پسند گروپ بشارالاسد کے اقتدار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مگر یہ بات بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ وہ صدر یا ریاستی سربراہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ جنگجو سردار یا ملیشیا لیڈر کی حیثیت سے اقتدار برقرار رکھ پائے ہیں۔
عراق آج باضابطہ طور پر تین حصوں میں بٹ چکا ہے۔ شمالی عراق میں کردوں کا کنٹرول ہے۔ انہوں نے تیل کے ذخائر اور پیداواری عمل پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ وسطی عراق میں سُنّی عرب گروپ متحرک و متصرف ہیں جبکہ جنوب میں شیعوں کا کنٹرول ہے۔ مغربی دنیا میں جنوبی عراق میں قائم شیعہ اکثریتی حکومت کو جائز حکومت سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے میں سب کچھ عسکریت پسند گروپوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ گروپ جو جی میں آئے، کر گزرتے ہیں۔ یہ عسکریت پسند گروپ عموماً اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں اور اِن کی مرضی القدس گارڈز کے سربراہ جنرل سلیمانی کی منشا کے سِوا کیا ہے۔
لبنان میں ایران اور شام کی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ نے مرکزی حکومت کو کمزور کرکے اپنا سِکّہ جمالیا ہے۔ ریاستی اتھارٹی انتہائی کمزور پڑچکی ہے۔ جن علاقوں میں کبھی مرکزی حکومت ہوا کرتی تھی، وہاں اب حزب اللہ ملیشیا کا راج ہے۔ ایران اور شام اب بھی لبنان کے معاملات کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مگر حزب اللہ کے لیے چند ایک مشکلات بھی ابھر رہی ہیں کیونکہ القاعدہ اور اس سے تعلق رکھنے والے گروپ کئی علاقوں میں ابھر چکے ہیں۔ ان کے سامنے آنے سے حزب اللہ کی طاقت میں یقینی طور پر کمی واقع ہوگی۔
یمن میں بھی ایران کی مداخلت نے معاملات کو خراب کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ریاستی اتھارٹی اور مرکزی حکومت کی طاقت کمزور پڑتی گئی ہے۔ ایران کی حمایت سے حوثی باغیوں کی ملیشیا انصار اللہ نے حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت یمن میں صورت حال انتہائی غیر واضح ہے۔ باغیوں کو کچلنے کے لیے سعودی عرب نے فضائی آپریشن شروع کیا ہے جس کے نتیجے میں باغیوں کی قوت میں کمی آئی ہے اور ان کے زیر قبضہ علاقوں کو واگزار کرانے میں خاصی مدد ملی ہے۔ جنوب میں القاعدہ اور دیگر سُنّی عرب گروپ تیزی سے اپنی پوزیشن مستحکم کر رہے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں حوثی باغیوں کی طاقت گھٹتی جارہی ہے۔ ایران کو یمن کے معاملات میں مرکزی کردار ادا کرنے سے روکنے کی کوششوں میں تیزی آرہی ہے۔ باغیوں پر بمباری کے ذریعے ایران کو مداخلت سے روکا جارہا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ کمک یا رسد کا راستہ روکنا ہے۔ باغیوں کے لیے اس حوالے سے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ ایران کو آبنائے باب المندب پر کنٹرول سے روکا جارہا ہے۔ اس اہم راستے پر کنٹرول کی صورت میں ایران کو خلیج عدن اور بحیرۂ احمر میں غیر معمولی وزن حاصل ہوسکتا ہے۔
لیبیا کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ مغربی قوتوں نے کرنل معمر قذافی کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے جو کوششیں کیں، اُن کے نتیجے میں ملک تباہی سے دوچار ہوچکا ہے۔ اب ملک میں دو حکومتیں ہیں۔ تبروک میں مصر کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہے اور ٹریپولی میں عسکریت پسند گروپوں نے اقتدار قائم کر رکھا ہے۔
عرب دنیا کے پانچ ممالک کا وجود عملاً ختم ہوچکا ہے۔ شدید انتشار ہے۔ کوئی مرکزی حکومت نہ ہونے سے عوام شدید الجھن میں مبتلا ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خلیج اور دیگر عرب علاقوں میں ایک زمانے سے قائم مطلق العنان حکومتوں کا دور لد چکا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ایران کو پہنچ رہا ہے کیونکہ اپنی فوج اور نیم فوجی دستوں کو بھرپور طاقت سے ہمکنار رکھ کر اس نے معاملات کو اپنے حق میں کیا ہے۔
مگر خیر ایسا نہیں ہے کہ ایران تمام معاملات پر قابض اور متصرف ہوچکا ہے۔ جن ممالک میں ایران نے مداخلت کی ہے، وہاں وہ اپنے گروپوں کے ذریعے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ چند ایک گروپوں نے اپنی بات ضرور منوائی ہے مگر مجموعی طور پر ایران ناکام ہی رہا ہے۔ وہ چند ایک وقتی فوائد اٹھا سکتا ہے۔ القاعدہ اور دیگر سُنّی گروپ بھی ایران کی راہ میں دیواریں کھڑی کر رہے ہیں۔ کردوں نے ایرانی پیش قدمی روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ایران اپنی مرضی کے مطابق سبھی کچھ حاصل کرتا جارہا ہے۔
جب انتشار اور طوفان کی کیفیت ختم ہوگی، تب کیا ہوگا؟ یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ یہ خطہ جو بھی شکل اختیار کرے گا، اُس سے کسی بھی فریق کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچ پائے گا۔ اب تک تو ایسا لگتا ہے کہ ایران اس صورت حال سے زیادہ فائدہ اٹھالے گا مگر تمام حقائق کو نظر میں رکھتے ہوئے سوچا جائے تو ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ صورت حال انتشار سے مزید انتشار کی طرف جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے آپ کو زیادہ مستحکم نہیں کر پائے گا۔ خطہ شدید عدم استحکام سے دوچار ہے اور شاید ایسا ہی رہے گا۔
“The Middle East: In the Shadow of the Gunmen”. (“meforum.org”. April 4, 2015)
Leave a Reply