کم از کم ایک نکتہ ایسا ہے جس پر امریکی صدر اور انہیں ہٹانے کے خواہش مند ری پبلکنز متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ امریکا کو عظیم تر مشرق وسطیٰ میں عسکری مہم جوئی سے گریز کرنا چاہیے اور یہ کہ اس قدر دور افتادہ خطے میں عسکری مہم جوئی سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
ایک اہم سوال جس کا کوئی جواب نہیں دیتا وہ یہ کہ امریکا جب مشرق وسطیٰ سے نکل جائے گا تب کیا ہوگا؟ اس سوال کا خوش فہمی پر مبنی ایک جواب تو یہ ہے کہ تمام ممالک مغرب کی لبرل ڈیموکریسی اپنالیں گے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ بیشتر ممالک اسلامی حکومتوں کی طرف نکل جائیں گے یا سول وار ہوگی۔ تیسرا ممکنہ جواب یہ ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کا احیاء ہوگا۔
پندرہویں صدی میں ترکوں نے بازنطینی سلطنت کو ہراکر جب اناطولیہ کے علاقے پر مشتمل سلطنت عثمانیہ قائم کی تب ان میں دم خم اتنا تھا کہ وہ وسطی یورپ بشمول بلغاریہ، سربیا اور ہنگری تک پہنچ گئے تھے۔
اسلامی دنیا کے لیے معیار قرار دی جانے والی سلطنتِ عثمانیہ بغداد سے بصرہ، کاکیشیا سے بحیرہ احمر اور کریٹ سے مغربی یوکرین تک پھیلتی گئی۔ یہ پھیلاؤ خاصا تیز رفتار تھا۔ ترکوں کی عسکری قوت کے سامنے کوئی بند باندھنا انتہائی دشوار تھا۔ سلیمان اعظم بڑے فخر سے سر اونچا کرکے کہہ سکتا تھا کہ وہ شہنشاہوں کا شہنشاہ اور زمین پر خدا کا سایہ ہے۔
اس کے بعد دو صدیوں تک ترکی کی طاقت گھٹتی گئی۔ انیسویں صدی میں ترکی کو یورپ کا مرد بیمار کہا جانے لگا۔ جو سلطنت کبھی شمالی افریقا تک پھیلی ہوئی تھی وہ اب سمٹ کر اناطولیہ کے علاقے تک محدود رہ گئی۔ سلطنتِ عثمانیہ کا بیشتر حصہ فرانس اور برطانیہ نے آپس میں بانٹ لیا۔ یہ سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ تھا۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں جدید ترک ریاست ابھری جو آئین کی رو سے سیکولر تھی۔
اب جو سوال لوگوں کے ذہن میں تیزی سے ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ترکی یورپی یونین کا رکن بن سکے گا یا نہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں ترکی نے کھل کر امریکا کا ساتھ دیا۔ تب ایسا لگتا تھا کہ ہر معاملے میں مغرب کی طرف دیکھنا ترکی کی عادت بن گیا ہے۔ یہی تو کمال اتا ترک کا خواب تھا کہ ترکی صرف اور صرف مغرب کی طرف دیکھے اور مشرق کی دیکھنے کا تصور بھی ذہن سے کھرچ کر پھینک دے۔
مگر ۲۰۰۳ء کے بعد سے ترکی میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ ہر معاملے میں مغرب کو منزل سمجھنے کی روش نے دم توڑ دیا ہے۔ آج کا ترکی صرف مغرب کو اپنانے کے موڈ میں نہیں۔ رجب طیب ایردوان نے ۲۰۰۳ء میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ترکی کو نئی راہ پر ڈالا۔ ان کی شخصیت میں لوگوں کو بہت کچھ دکھائی دیتا ہے، بہتوں کے نزدیک وہ جدید اسلامی تصورات کا چلتا پھرتا نمونہ ہیں۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے تیسری بار انتخاب جیتا ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔ براک اوباما نے صدر کا منصب سنبھالتے ہی غیرملکی دوروں میں جن ممالک کو ترجیح دی ان میں ترکی بھی شامل تھا۔
رجب طیب ایردوان ایک بھرپور اور پرکشش شخصیت ہیں۔ انہوں نے ملک کو تیزی سے ترقی کی راہ پر ڈالا۔ کرپشن پر قابو پایا اور فوج کے اختیارات کم کرنے میں نمایاں طور پر کامیاب رہے۔ ان کی شخصیت اور عزائم کا بھرپور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ طیب ایردوان ترکی کو ایک بار پھر اس راہ پر گامزن کرسکتے ہیں جو آگے جاکر اس ملک کو سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی کی منزل تک لے جاسکتی ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کا احیاء ایک طویل مدت سے ترک مسلمانوں کی آنکھوں کا خواب رہا ہے۔ استنبول کی میئر شپ کے زمانے میں طیب ایردوان نے ایک موقع پر چند اشعار پڑھ کر اپنے عزائم کا اظہار کردیا تھا۔ ان اشعار میں مساجد کو بیرکس، گنبدوں کو ڈھال اور میناروں کو نیزے سے مشابہ قرار دیا گیا تھا۔ یعنی ان کے ذہن میں اتاترک سے پہلے کا ترکی موجود ہے اور وہ ترکی کو علاقائی سپر پاور کے روپ میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔
طیب ایردوان نے اب تک عدلیہ، فوج اور پریس کو کنٹرول کرنے کے لیے جو کچھ کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ گزشتہ سال ترکی نے غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے امدادی کشتیوں پر مشتمل ایک دستہ بھیجا اور اب اس نے عرب دنیا میں عوامی انقلاب کی لہر اٹھنے پر خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ عوامی انقلاب کی لہر سے ایران کو فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے۔
حالیہ انتخابی فتح کے بعد اپنی تقریر میں طیب ایردوان نے اپنی اور اپنی پارٹی کی فتح کو پورے عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی فتح قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ ترکی نے حاصل کیا ہے وہ سبھی کو ملنا چاہیے۔ ایک مرحلے پر طیب ایردوان نے جمہوریت کو اسٹریٹ کار سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ جب منزل آتی ہے تو انسان اتر جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی منزل سلطنتِ عثمانیہ کا احیاء ہے؟ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ایردوان کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۱۹ ؍جون ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply