
مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک میں ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۲ء کے دوران عوامی بیداری کی لہر اُٹھی۔ تیونس سے شروع ہونے والا سلسلہ مصر، لیبیا اور مراکش تک پہنچا۔ سب سے زیادہ مصر متاثر ہوا، جہاں لوگ بڑے پیمانے پر تبدیلی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک سال سے بھی زائد مدت تک پورے ملک میں افراتفری کی کیفیت رہی۔ حسنی مبارک کا طویل اقتدار ختم ہوا اور انتخابات کے نتیجے میں اخوان المسلمون کی ہم خیال جماعت فریڈم اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کامیاب ہوکر ابھری۔ محمد مرسی صدر منتخب ہوئے۔ مگر پھر یہ ہوا کہ صورتحال کی نزاکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر کی منظم فوج نے عوام کی رائے پر شب خون مارا، منتخب حکومت کو ختم کرکے کٹھ پتلی حکومت قائم، محمد مرسی کو گرفتار کرکے غداری اور قتل و غارت کا مقدمہ چلایا۔ یہ سب کچھ انقلاب کو کچلنے کے لیے تھا۔ مصر میں خرابیاں اس قدر ہیں کہ ایک آدھ جمہوری حکومت ان پر قابو نہیں پاسکتی۔ لازم ہے کہ انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہیں، منتخب حکومتیں قائم ہوتی رہیں، لوگوں کو یقین رہے کہ ان کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ اسی صورت مصر کے معاملات کو درست کرنے، معیشت کو مستحکم کرنے اور عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا کے نوجوانوں نے عوامی بیداری کی لہر دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں میں بہت سے حسین خواب سجائے تھے۔ ان خوابوں کو عملی شکل دینا اب کسی کے لیے بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ راتوں رات بہت تبدیل ہوگیا یا کردیا گیا۔ جو لوگ ایک زمانے سے اقتدار کے ایوانوں پر قابض رہے ہیں، وہ بھلا یہ بات کیوں پسند کریں گے کہ ان کے سارے مزے ایک جھٹکے میں ختم ہوجائیں۔ وہ تو یہی چاہیں گے کہ ان کا اقتدار برقرار رہے اور انہیں حاصل اختیارات کی شمع روشن ہی رہے۔
مشرق وسطیٰ کو ’’انقلابات‘‘ سے کیا ملا؟ کیا ان کے خواب شرمندۂ تعبیر ہوئے؟ کیا ان کی امیدیں اور آرزوئیں پوری ہوئیں؟ مرادیں بر آئیں؟ کیا کسی بڑی مثبت تبدیلی کے آثار ہیں؟ کیا انقلاب نما بیداری سے کوئی حقیقی تبدیلی رونما ہوتی دکھائی دیتی ہے؟ ان سارے سوالوں کے جواب عوام کو درکار ہیں؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اب امریکا ایسا کیا کرسکتا ہے جس سے مشرقِ وسطیٰ میں بہتری آئے، امن اور استحکام کی راہ ہموار ہو اور عوام کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے؟
مصر اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں جب قتل و غارت شروع ہوئی تو بیشتر تجزیہ کاروں نے کہا کہ زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ دوسرے بہت سے ممالک اور خطوں میں بھی جمہوریت کی طرف لے جانے والا راستہ ایسے ہی کانٹوں سے بھرا ثابت ہوتا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قتل و غارت کا بازار کچھ دن گرم رہے گا، پھر استحکام آتا جائے گا اور ہر ملک نارمل ہوجائے گا۔ مگر وقت نے کچھ اور ثابت کیا۔ یہ بات سمجھنے میں لوگوں کو دیر نہ لگی کہ مصر مصر تھا، فرانس نہ تھا۔ اور خطے میں عوامی بیداری کی لہر کے حوالے سے واحد کامیاب ملک تیونس بھی تیونس ہی تھا، پولینڈ نہ تھا۔ وجوہ خواہ کچھ رہی ہوں، تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوامی بیداری کی لہر کے بعد کے مشرق وسطیٰ میں دو صدی پہلے کے یورپ یا دو عشرے پہلے کے مشرقی یورپ کے برعکس مزید سخت گیر آمریت کے تحت ابھرنے والا عدم استحکام پایا جاتا ہے۔
اگر یورپ کو ایک عجیب و غریب استثنا کے طور پر الگ کر دیجیے تو حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ بھی دیگر خطوں جیسا ہی ہے۔ دیگر خطوں کی طرح مشرق وسطیٰ میں بھی انقلابات برپا کرنے کی کئی کوششیں کی گئی ہیں۔ مگر ان کے نتیجے میں بھرپور عدم استحکام ہی رونما ہوا ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی اور خطے کے مقابلے میں مشرق وسطیٰ میں جمہوریت لانے کی تمام کوششیں ناکامی کے معاملے میں غیر معمولی شدت کی حامل رہی ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیا میں جو کچھ ہوا، وہ دراصل عراق اور شام کی صورتحال کے نتیجے میں زیادہ بگڑ گیا۔ عراقیوں اور امریکیوں نے مل کر عراق میں جو کچھ کرنا چاہا تھا، وہ بیک فائر کرگیا۔ ایک طرف تو عراق مکمل طور پر تباہی سے دوچار ہوا اور دوسری طرف شام بھی عدم استحکام کی زد میں آنے سے نہ بچ سکا۔ عراق میں جو کچھ ہوا، اس کے بعد شام میں خرابی کا پیدا ہونا فطری سا امر تھا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر جو کچھ کیا، اس کے بعد یہ سوچنا سادہ لوحی کی انتہا کے سوا کچھ نہ ہوتا کہ اب خطے میں مکمل امن اور استحکام کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
اس بات پر غور کرنے کی زحمت کم ہی گوارا کی گئی ہے کہ دیگر خطوں کے مقابلے میں مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت اور بالخصوص مغربی طرز کی جمہوریت کو اپنانا کیوں اس قدر دشوار ثابت ہوتا رہا ہے۔ بہت سے معاملات میں معاشرے اندرونی سطح پر انتہائی پُرتشدد رجحانات کے حامل رہے ہیں اور بعض معاملات میں معاشروں کے درمیان بھی تصادم کی کیفیت رہی ہے۔ عراق اور شام میں بڑے پیمانے پر تباہی کے نتیجے میں آئی ایس آئی ایس معرضِ وجود میں آئی اور خلافت بحال کرنے کا دعویٰ کردیا۔ عراق اور شام تو خیر جنگوں اور خانہ جنگی سے تباہ ہوئے ہیں مگر مصر، تیونس، لیبیا اور غیر عرب ترکی کیوں ان جیسا دکھائی دے رہا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش تجزیہ کاروں نے کم ہی کی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت اب تک ایک باضابطہ ادارے کی حیثیت سے کامیاب کیوں نہیں ہوسکی؟ یا ترکی جیسے معاشرے میں بھی جمہوریت زیادہ عمدگی سے جڑ پکڑتی کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ ان سوالوں کے جواب کسی کے پاس نہیں۔ آخر کہاں اور کون سی غلطی ہوئی جس کے نتیجے میں اس قدر خرابیاں پیدا ہوئیں؟
جب بھی عرب دنیا میں کسی بڑی تبدیلی کی بات کی جاتی ہے تو ۲۰۱۱ء کے واقعات کا حوالہ دیا جاتا ہے، جب عوامی بیداری کی لہر نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی بیداری کی اس لہر نے پورے خطے میں بہت کچھ تبدیل کردیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں عام آدمی ریاست، حکومتی نظام، موروثی حکمرانی اور انقلاب کا مفہوم نہیں جانتا۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایسے مواقع آتے رہے ہیں، جب لوگ اٹھے اور حکمرانوں سے اقتدار چھین لیا مگر یہ سب کچھ بس یہیں تک رہا۔ وہ کوئی بڑی تبدیلی یقینی بنانے میں ناکام رہے۔ بڑی طاقتوں نے ان ممالک میں بہت کچھ تبدیل کرنے کے دعوے کیے مگر کچھ بھی تبدیل نہ کیا جاسکا یا یوں کہیے کہ کچھ بھی تبدیل کرنے کی نیت ہی نہ تھی۔
انقلاب کی تعریف و توضیح میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر چند بنیادی نکات ایسے ہیں جو انقلاب کی ہر تاریخ میں مشترک ہیں۔ مثلاً یہ کہ کسی بھی معاشرے میں رونما ہونے والے انقلاب کے ذریعے طبقات کی ساخت میں تبدیلی رونما ہونی چاہیے اور ایسی حقیقی تبدیلیاں رونما ہونی چاہئیں، جن کے نتیجے میں انصاف سے محروم طبقات اپنا حق پانے میں کامیاب ہوں۔ اگر یہ مقاصد حاصل نہ ہوں تو پھر کسی بھی انقلاب کا سِرے سے کوئی فائدہ ہے ہی نہیں۔ بہت سے ممالک میں ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی انقلاب کے بغیر ہی طرزِ حکمرانی تبدیل ہوگیا جیسا کہ تیونس میں ہوا۔ اور بعض معاشرے ایسے بھی ہیں جن میں کسی بھی طرزِ حکمرانی کے تحت ملک چلانے والوں نے آپس میں گروپ تبدیل کرلیے جیسا کہ مصر میں ہوا۔ مصر میں جو قتل و غارت واقع ہوئی، اس کے نتیجے میں کوئی بھی ایسی تبدیلی رونما نہیں ہوئی جسے حقیقی قرار دیا جاسکے۔ صرف یہ ہوا کہ طرزِ حکمرانی برقرار رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے ایک گروپ پیچھے ہٹ گیا اور دوسرے گروپ نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
یہ لازم ہے کہ کسی خونیں انقلاب کا لازمی نتیجہ جمہوریت ہو۔ دنیا بھر میں ایسے انقلابات رونما ہوتے رہے ہیں جن کے نتیجے میں جمہوریت تو کیا آتی، مزید قتل و غارت اور زیادہ سخت گیر نوعیت کی آمریت کی راہ ہموار ہوئی۔ ۱۷۸۹ء کے فرانس کو حقیقی جمہوریت میں تبدیل ہونے کے لیے کم و بیش ڈیڑھ سو سال درکار تھے۔ عوامی سطح پر رونما ہونے والے انقلاب نے فرانس کو راتوں رات تبدیل نہیں کردیا۔ یہی حال ۱۹۱۷ء میں روس میں آنے والے انقلاب کا بھی تھا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں بادشاہت ضرور ختم ہوئی مگر اشتراکیت کے اصولوں پر مبنی ایسا نظامِ حکومت رائج ہوا جو کسی بھی اعتبار سے بادشاہت سے بہتر نہ تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہت میں تو پھر بھی لوگوں کو بہت کچھ کرنے کی آزادی میسر تھی، انقلاب کے بعد روس میں (جو اَب سوویت یونین تھا) عوام کو کچھ نہ ملا۔ جو کچھ وہ بادشاہت میں کرسکتے تھے، اس سے بھی گئے۔ افلاس ضرور تھا، پسماندگی ضرور تھی مگر اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا اختیار تو میسر تھا، پورے ملک میں کہیں بھی آزادانہ آ اور جا تو سکتے تھے۔ سوویت یونین کے قیام کے بعد اس خطے کے لوگوں کے لیے پوری آزادی کے ساتھ سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا۔ ۱۹۴۹ء میں چین کا انقلاب اور ۱۹۷۹ء میں ایران کا انقلاب بھی کچھ ایسا ہی ثابت ہوا۔ ان دونوں انقلابات کے نتیجے میں بھی عوام کے لیے مشکلات کا نیا دور شروع ہوا۔ نظریات کے نام پر عوام سے ان کی آزادی چھین لی گئی۔ یعنی جو آزادیاں ان انقلابات سے قبل عوام کو میسر تھیں، وہ بھی حاصل نہ رہیں۔
دنیا میں جہاں بھی انقلابات رونما ہوئے ہیں، جمہوریت تک پہنچنے سے پہلے معاشرے کو نئی مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ اقتدار پر قابض قوتیں نہیں چاہتیں کہ ان کا اقتدار داؤ پر لگے۔ اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ جو لوگ انقلاب برپا کرتے ہیں، وہ اگر ڈٹے رہیں تو مزاحمت کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ جن کے ہاتھ میں ملک کے وسائل اور اختیارات کا بڑا حصہ ہو، وہ مزاحمت تو کریں گے تاکہ ان کی کرپشن اور آسائشوں کی دکان بند نہ ہو۔ اگر انقلاب کے علمبردار ایک ایک کرکے منظر سے ہٹتے جائیں تو لوگوں کا حوصلہ بھی دم توڑتا جاتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے اب تک بار آور قرار دیے جانے کے قابل نہیں۔ عوامی بیداری کی لہر نے اب تک حقیقی تبدیلی کی راہ ہموار نہیں کی۔
مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک عوامی بیداری کی لہر کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔ پورے کے پورے معاشرے کہیں اٹک گئے ہیں۔ ایک طرف تو پرانی طرزِ حکومت ہے جس سے سب بیزار ہیں۔ اس طرزِ حکومت کو مسترد کرنے کے باوجود قبول اِس لیے کرنا پڑا ہے کہ کوئی نیا نظام سامنے نہیں لایا جاسکا ہے۔ مغرب کی لبرل جمہوریت کو گلے لگانا اِس لیے ممکن نہیں ہوسکا ہے کہ اس کے لیے انہیں بہت کچھ بدلنا اور چھوڑنا پڑے گا۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا۔ اس صورتحال کا فائدہ تیسری قوتیں اٹھا رہی ہیں۔ جس طرزِ حکومت کو مسترد کردیا گیا ہے، اس کا ملبہ موجود ہے اور اس ملبے کو برداشت بھی کرنا پڑا ہے۔ کوئی نیا نظامِ حکومت فی الحال دکھائی نہیں دے رہا۔ عوام پریشان ہیں کہ جو کچھ مسترد کردیا ہے، اسے قبول بھی کرنا پڑ رہا ہے اور کوئی نئی چیز دکھائی بھی نہیں دے رہی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں جن لوگوں نے پرانے نظامِ حکومت کو للکارا ہے، وہ بنیادی طور پر اسلام پسند ہیں۔ مگر ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان کے درمیان بھی مکمل اتفاق نہیں پایا جاتا۔ مصر، تیونس، لیبیا اور شام میں اسلام پسندوں کے جو گروپ سرگرم ہیں اور کوئی نیا نظامِ حکومت لانا چاہتے ہیں، ان کے خیالات میں بہت فرق ہے اور سلوک بھی مختلف ہے۔ سوال حکمتِ عملی کے فرق کا نہیں، مقاصد کا بھی ہے۔ اب تک یہ محسوس نہیں ہوسکتا کہ یہ لوگ متفق ہوکر، مل کر کچھ کرسکیں گے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Middle Eastern revolutions that never were”. (“the-american-interest.com”. Oct. 26, 2015)
Leave a Reply