
ہم نقل مکانی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اگر ان تمام افراد کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے جو اپنے پیدائشی ملک سے باہر رہتے ہیں، تو ۲۴۰ ملین افراد کی دنیا کی پانچویں بڑی قوم تشکیل پا جائے گی۔ اگرچہ اس بارے میں تو بہت لکھا جارہا ہے کہ قومی سیاست میں تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کیسے تبدیل ہو رہی ہے، لیکن نقل مکانی کے جغرافیائی سیاست پر پڑنے والے اثرات پر کسی کی توجہ کم ہی ہے۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کی وجہ سے تین نئی اقسام کی عالمی طاقتیں وجود میں آرہی ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں۔ نئی استعماری طاقتیں، اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھنے والی طاقتیں، موقع پرست۔
نئی استعماری طاقتیں اٹھارہویں، انیسویں صدی کے یورپ کی یاد دلاتی ہیں، جب یورپ کے تارکینِ وطن نے دنیا بھر میں پھیل کر نہ صرف اپنے آپ کو فائدہ پہنچایا بلکہ آبائی ممالک کو بھی ترقی کی پٹڑی پر چڑھا دیا۔ بالکل اسی طرح اکیسویں صدی کی تیزی سے ہجرت کرنے والی قومیں اپنے آبائی ممالک کی ٹیکنالوجی، عالمی منڈیوں تک رسائی اور ان کے سیاسی موقف کو دنیا تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔
امریکی صحافی ہاورڈ فرنچ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح افریقا چینیوں کا دوسرا گھر بنا تھا، یہاں دس لاکھ سے زائد چینی آباد کاروں نے آکر افریقا کو ترقی دی۔ فرانس کی جتنی آبادی ہے، اس سے زیادہ چینی اپنے ملک سے باہر رہتے ہیں۔ اور ایسا تقریباً ہر براعظم میں ہو رہا ہے۔ چین کے آباد کار جب واپس چین آئے تو وہ بہت سے شعبوں میں مہارتیں حاصل کر چکے تھے۔ ان لوگوں کو چین میں ’’سمندری کچھوے‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور اب ان کا چین کی ٹیکنالوجی کی صنعت پر مکمل کنٹرول ہے۔
اسی طرح انڈیا کے پاس بھی ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ کامیاب ترین اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اعلی تعلیم سے آراستہ تارکینِ وطن ہیں۔ سیلیکون ویلی میں قائم ہر دس میں سے ایک کمپنی کا مالک بھارتی نژاد ہے۔ ’’مائیکرو سوفٹ‘‘ کے چیف ایگزیکٹو، ’’انٹیل پینٹیم‘‘ کے موجد، ’’موٹورولا‘‘ کے سابق چیف ٹیکنالوجی آفیسر اور ’’گوگل‘‘ کے چیف ایگزیکٹو بھی بھارتی نژاد ہیں۔
یہ سب بھارت کو کیسے فائدہ پہنچاتے ہیں؟ بھارت کو ستّر ارب ڈالر سالانہ ترسیلاتِ زر کی مد میں حاصل ہوتا ہے، جو کہ مجموعی قومی آمدن کا تقریباً چار فیصد بنتا ہے، اور یہ رقم بھارت کے تعلیمی بجٹ کے لیے مختص رقم سے بھی زائد ہے۔ بھارت سے امریکا جانے والوں کی تعداد میں اضافہ کے بعد دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی میں ایک واضح تبدیلی سامنے آئی ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات نے جغرافیائی سیاست پر اثرات بھی مرتب کیے ہیں، جس کا سب سے بڑا ثبوت دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا ایٹمی معاہدہ ہے، اس معاہدے نے ثابت کیا ہے کہ امریکا نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں برتاؤ کی پالیسی ختم کر دی ہے۔
جس تیزی سے لوگ ہجرت کر رہے ہیں، ہوسکتا ہے آنے والے وقت میں تارکینِ وطن ایک تسلیم شدہ ریاست کے بغیر ہی عالمی طاقت بن جائیں۔ ۳۵ ملین کرد، جو کہ اپنے آپ کو بغیر ملک کے قوم تصور کرتے ہیں، اس وقت یورپ میں سیاسی طور پر سرگرم ترین تارکینِ وطن مانے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ سویڈن اور جرمنی (جہاں ’’کرد‘‘ بڑی تعداد میں آباد ہیں) داعش سے لڑنے والے کرد عسکریت پسندوں کی بڑے پیمانے پر فوجی مدد کر رہے ہیں۔
نئی عالمی طاقتوں کی دوسری قسم وہ ہے جو دنیا بھر سے آنے افراد کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کتب خانے ایسی کتابوں سے بھرے پڑے ہیں، جن میں امریکا کی اس قابلیت کا ذکر گیا ہے کہ کیسے امریکا نے دنیا بھر سے آنے افراد کو اپنے اندر ضم کر لیا اور اپنے اس اقدام سے خوب فوائد حاصل کیے۔ اسی طرح انگولا اور برازیل نے بھی بڑی تعداد میں ہجرت کر جانے والے اپنے شہریوں کو واپس بلا کر آباد کیا ہے۔ لیکن اس ضمن میں آج کے دور کی جو دو مثالیں توجہ کے قابل ہیں، وہ ہیں داعش اور اسرائیل کی۔
تارکینِ وطن کو واپس لانا اسرائیل کے لیے بہت ضروری تھا۔ اسی لیے حکومت نے واپس پلٹنے والے تارکین وطن کو مفت سفر، زبان سکھانے کے لیے کورس، عملی زندگی میں مدد اور مفت مشاورت جیسی سہولیات فراہم کیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی آبادی میں اس کے قیام سے لے کر اب تک نو گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
امریکی مصنفین کی کتاب The Story of Israel’s Economic Miracle میں انہوں نے ایک بنیادی سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل، اکہتر لاکھ کی آبادی والا ملک، جس کی عمر صرف بانسٹھ سال ہو، جو دشمنوں سے گِھرا ہوا ہو اور مستقل حالتِ جنگ میں ہو، جس کے پاس کوئی خاص قدرتی وسائل بھی نہ ہوں، وہاں پُرامن اور ترقی یافتہ ممالک جیسے جاپان، چین، کوریا، انڈیا اور برطانیہ سے بھی زیادہ Start-up کمپنیاں وجود میں آرہی ہوں۔‘‘ اس کا جواب یقیناً نقل مکانی ہے۔
داعش کے رہنما شاید اس موازنہ سے ناخوش ہوں لیکن ان کی تنظیم جس تیزی سے دنیا کے نقشے پر ابھری ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ سبق تو اسرائیل سے حاصل کیے گئے ہیں۔ بے شک نام نہاد اسلامی ریاست (داعش) کو ابھی تک سرکاری طور پر کسی نے تسلیم نہیں کیا لیکن داعش کی تنظیمِ نو کی بنیاد نقل مکانی یا تبدیلیٔ وطن ہی ہے۔ سوفن گروپ کی تحقیق کے مطابق چھیاسی ممالک کے تقریباً تیس ہزار لوگوں نے داعش کے زیرِ قبضہ شام اور عراق کی جانب سفر کیا ہے۔
ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں کی تیسری قسم ’’موقع پرستوں‘‘ کی ہے جو اپنے جغرافیہ کا استعمال کر کے تارکینِ وطن سے تنگ آئے ہوئے پڑوسی ممالک سے مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں مثال ترکی کی ہے، جو کبھی یورپی یونین کی رکنیت کی بھیک مانگا کرتا تھا، لیکن آج وہ برسلز کے ساتھ تعلقات کے لیے اپنی شرائط پر بات کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں یورپی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں طیب ایردوان نے کھلے الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ تمام مہاجرین کو بلغاریہ اور یونان بھیج دیں گے۔ اسی طرح ایک اور موقع پرست نائیجر ہے۔ مغربی افریقا سے ہجرت کرنے والے نوے فیصد مہاجرین یہاں سے گزر کر اٹلی جاتے ہیں۔ اسی لیے نائیجر اب تک یورپی یونین کے امدادی بجٹ سے چھ سو ملین یورو حاصل کر نے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ معمر قذافی کے نقش قدم پر چل رہا ہے، جن کی یہ دھمکی بہت مشہور ہے کہ ’’اگر یورپ ہمیں بحیرۂ روم پار کرنے والے مہاجرین کو روکنے کی کوششوں کے عوض ادائیگی نہیں کرے گا تو سارا یورپ کالے لوگوں سے بھر جائے گا‘‘۔
اگر تسلیم شدہ عالمی طاقتیں جنہوں نے عالمگیریت اور تجارت سے فائدہ اٹھایا، وہ G-7 کے نام سے جانی جاتی ہیں، تو وہ ادارے، خطے اور ممالک جنہوں نے نقل مکانی سے فوائد سمیٹ کر ترقی کی (جن میں چین، انڈیا، کردستان، داعش، ترکی، اسرائیل اور نائیجر شامل ہیں) تویہ ایم۔۷ کہلائی جاسکتی ہیں۔ جیسا کہ اب آبادی پر کنٹرول کرنے کا فن ایک طاقت کی علامت بن گیا ہے، تو ایسے ممالک جو ایم۔۷ کے نقشِ قدم پر چلیں گے، ان کو جغرافیائی سیاست کے ذریعے بہت سے فوائد سمیٹنے کا موقع ملے گا۔ اس وقت مغرب کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح عوام کے دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے مہاجرین کو قبول کرے۔ لیکن ابھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہاجرین کی آمد سے ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے جی۔۷ ممالک مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں بند کر کے بلاواسطہ ایم۔۷ کو طاقتور بنانے میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The Migration Superpowers”. (“project-syndicate.org”. Apr.20, 2016)
Pakistan is also hosting about 3million refugees for the last 3.5 decades