بہت سارے والدین نے اپنے بچوں کو امریکا میں تعلیم حاصل کرنے سے منع کر دیا ہے‘ اُس خوف اور نفرت کے پیشِ نظر جو گیارہ ستمبر کے بعد سے وہاں سایہ کیے ہوئے ہیں۔ سمیرہ درانی جنہوں نے حال ہی میں یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں داخلہ لیا ہے کہتی ہیں کہ کینیڈا میں تعلیم کبھی بھی میری پہلی پسند نہیں تھی لیکن میرے والدین نے مجھے امریکا میں Apply کرنے سے منع کر دیا تھا۔ بہت سارے پاکستانی جو امریکا میں پڑھتے ہیں‘ گیارہ ستمبر کے بعد سے پیش آنے والے آئے دن ناخوشگوار واقعات کے قصے سنتے رہے تھے لیکن کم از کم کالج کی حد تک انہوں نے کبھی خود کسی ناخوشگوار واقعات کا کوئی تجربہ نہیں کیا تھا۔ ’’ابتدا میں یہ ضرور تھا کہ لوگ ہمیں اجنبی نگاہوں سے دیکھتے تھے لیکن باقی باتیں معمول کے مطابق تھیں‘‘۔ جیسا کہ یونیورسٹی آف ارکنساس مارکیٹنگ گریجویٹ بابر آصف کا کہنا تھا کہ خوف کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو کم کرنے کے لیے بہت ساری یونیورسٹیوں نے افغانستان‘ اسلام اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر خصوصی کورسز کا اہتمام کیا ہے۔ برطانیہ نے جغرافیائی‘ سیاسی اور ثقافتی اعتبار سے زیادہ آگہی کا ثبوت دیتے ہوئے اس معاملے میں سب سے زیادہ رواداری اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ رضا اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے طلبہ اسلام اور مشرق سے متعلق مغرب میں پائی جانے والی جستجو کی تسکین کے لیے ایک بیش قیمت واسطہ بن رہے ہیں۔ بقول ان کے کہ ’’لوگ بہت زیادہ اسلام میں دلچسپی لے رہے ہیں اور مجھے اس حوالے سے پہلے سے زیادہ سوالوں کا سامنا ہوتا ہے‘‘۔ دوسروں کے تجربات بہرحال اتنے خوشگوار نہیں ہیں۔ قدوائی ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کہ ایک مسلم لڑکی پر مجمعٔ عام میں کوئی چیز پھینکی گئی اور ایک دوسری لڑکی کو لوگوں نے گھیر لیا اور اسے پاکستان واپس جانے کے لیے کہا اگرچہ وہ لڑکی بھارتی شہری تھی۔ امریکا کی جنوبی بائبل بیلٹ ریاستوں کے بیشتر کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے لڑکوں کا تعلق اگرچہ مختلف ثقافتوں سے ہے تاہم انہیں زبردست امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد کی بدلی ہوئی دنیا میں وہ مسلمان طلبہ جو بیرونِ ممالک تعلیم حاصل کر رہے ہیں نہ صرف یہ کہ اپنے ملک کے نمائندہ ہیں بلکہ اپنے عقیدے کی بھی نمائندگی کر رہے ہیں۔ موثر نمائندگی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہے بالخصوص اُس خوف کے پیشِ نظر جسے جاہل اور موقع پرست قائدین یکساں طریقے سے پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ رضا کا کہنا ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد سے جس غیریقینیت کا ماحول یہاں حاوی ہے وہ یاددہانی کراتا ہے کہ کس طرح ایک زخمی جانور اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے۔ بقول رضا کہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں اور نامعقول رویے کا اظہار کر رہے ہیں‘ ایک ایسے معاشرے میں جو دشمنی پر اتر آیا ہو بہتر یہی ہے کہ ہر صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہا جائے۔ جونیئر طلبہ اور بلال زبیری جو کہ ایک پی ایچ ڈی گریجویٹ ہیں‘ امریکا میں گیارہ ستمبر کے بعد پیش آنے والے اپنے چند تجربات بیان کرتے ہیں:
میں MIT میں اپنے گریجویٹ کورس کو مکمل کرنے کے مرحلے میں تھا اور ایک ماہ بعد اپنے پی ایچ ڈی تھیسس کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوالات کی تیاری میں تھا۔ میرے ریسرچ ایڈوائزر جو کہ کیمسٹری کے ایک معزز دانشور ہیں‘ نے مجھے شہر میکسیکو میں آلودگی سے متعلق ایک ریسرچ مہم میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ میں امریکا‘ یورپ اور میکسیکو کے ۱۵۰ تحقیق کاروں کی ایک ٹیم میں شامل تھا۔ اسی موقع سے مجھے امریکی امیگریشن کے افسوسناک رویہ سے سامنا ہوا۔ بوسٹن سے ساڑھے چھ بجے صبح میکسیکو کے لیے نیوآرک ہوتے ہوئے میری فلائٹ تھی‘ پاکستان کے ایک مرد شہری ہونے کے ناتے میں نے بوسٹن میں آئی این ایس میں پہلے ہی اپنا نام رجسٹر کرالیا تھا اور مجھے یاد تھا کہ انٹرنیشنل فلائٹ میں مجھے ۵ سے ۶ گھنٹے پہلے روانگی ٹرمینل پر پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس روز میری فلائٹ تھی‘ ہدایت کے مطابق میں ساڑھے بارہ بجے شب ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ ایئرپورٹ بالکل سنسان تھا۔ صرف حفاظتی عملہ وہاں موجود تھا۔ میں سوچنے لگا کہ آخر کیوں مجھے اتنا سویر بلایا یہ جانتے ہوئے کہ صبح کی پرواز سے ۵ گھنٹے پہلے ایئرپورٹ کھلتا بھی نہیں ہے؟ یہ جان کر کہ INS کا دفتر بند ہے‘ میں نے ایئرلائن کو فون کیا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ پاکستانی شہری کو یہاں کیا کرنا چاہیے؟ فون پر ایک مرد نے پوری خوداعتمادی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر INS مجھ سے پوچھ تاچھ کرنا چاہیں گے تو وہ مجھے بوسٹن یا نیوآرک میں روکیں گے اور یہ کہ جو سب سے اہم کام کرنا ہے وہ یہ رجسٹر کرانا ہے کہ کب میری واپسی امریکا میں ہو گی۔ مزید اطمینان کے لیے میں نے یہی سوال ٹرانزٹ لائونج کے اسٹاف سے نیوآرک میں پوچھا اور انہوں نے بھی ٹھیک یہی جواب دیا۔ میں پُرسکون ذہن کے ساتھ میکسیکو شہر کے لیے روانہ ہو گیا۔ مجھے اس کا قطعاً کوئی علم نہیں تھا کہ میں نے INS کے ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے اور بورڈ کراس کرتے وقت ایکزٹ انٹرویو نہیں دیا ہے۔ چند دنوں بعد ہی ای میل کے توسط سے ایسے ہی ایک شخص کے متعلق مجھے معلوم ہوا جو ٹھیک اسی طرح کی صورتحال سے گزرا تھا۔ میں نے بوسٹن میں فوراً ہی وکلا کو فون کیا۔ خوش قسمتی سے میرا ایک لافرم سے رابطہ تھا اور میں نے انہیں صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ میکسیکو شہر میں مجھے کسی کاغذی امور کے اہتمام کی ضرورت ہے تاکہ INS افسروں کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ میری نیت INS کے کسی ضابطے کی خلاف ورزی کی نہیں تھی بلکہ INS کے مطالبات کی تکمیل میری ہرممکن کوشش تھی۔
میرے وکیل نے مجھ سے کہا کہ ساری باتیں اس شخص پر منحصر ہے جو مجھ سے انٹرویو کرے گا اور یہ کہ ہمیں درخواستِ ضمانت اور INS کے خلاف مقدمہ کی تیاری کرنی چاہیے تاکہ میری ممکنہ گرفتاری یا امریکا میں امتناعِ داخلہ کے مسئلے سے نمٹا جاسکے۔ جب میں اپنے دورے کے بعد نیوآرک ایئرپورٹ اترا تو مجھے سیل فون استعمال کرنے سے منع کر دیا گیا اور نہ ہی مجھے اپنے دوستوں اور وکلا سے رابطہ قائم کرنے کی اجازت دی گئی جو بڑی بے چینی سے میری آپ بیتی سننے کے لیے منتظر تھے۔ میں نے امیگریشن افسر کو اپنی روانگی کے وقت کے تجربات سے آگاہ کیا اور میں نے اپنے ایڈوائزر کا خط بھی دکھایا جس میں تصدیق تھی کہ میرے ایڈوائزر ذاتی طور سے INS سے رجوع کرنے کی میری کوششوں سے واقف ہیں۔ ان میں سے کسی خط کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑا اور مجھے ایک بھرپور تلاشی اور پوچھ گچھ کے لیے ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ اس مجرمانہ تفتیش کے بعد یہ ہوا کہ مجھے اپنا بیان بارہا دہرانا پڑا حالانکہ یہ لوگ ہمارے بیان کو قلمبند بھی کرتے جارہے تھے لیکن اس کے باوجود ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے نہ انہیں یاد ہے اور نہ ان پر انہیں یقین ہے۔ مجھے ایئرلائن سے مشورہ لینے پر میری سرزنش کی گئی اور بار بار یہ بات کہی گئی کہ مجھے امریکا میں داخلے کی اجازت نہیں ملے گی اس لیے کہ میں نے INS کے ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے اس کی بھی بہت کوشش کی کہ میں یہ اعتراف کر لوں کہ میں نے INS کے ضوابط کی خلاف ورزی دانستہ کی ہے۔ میں اپنے وکیل کے مشورے کا مشکور ہوں کہ میں نے کبھی اس الزام کو تسلیم نہیں کیا اور اس سارے عمل میں خاموشی اختیار کیے رکھا۔ جب افسر اپنے باس سے مل کر واپس آرہا تھا تو مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اب میں ڈپورٹ کر دیا جائوں گا لیکن اس نے یہ اعلان کیا کہ یہ میرا بہت ہی خوش قسمت دن ہے اس لیے کہ مجھے شک کا فائدہ دیتے ہوئے ملک میں داخلے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جو سب سے تکلیف دہ اور خراب بات ہے وہ یہ کہ میرے ڈپورٹ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ صرف ایک افسر اور اس کے باس پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ شکر ہے کہ مجھے پاکستان واپس نہیں بھیجا گیا ورنہ میں اپنے تھیسس کے دفاع کے لیے حاضر نہیں ہو پاتا‘ چند ہفتوں بعد ہی جس کا شیڈول تھا۔ مجھ سے بہرحال یہ کہا گیا کہ اس واقع کو بطور نوٹ میرے ریکارڈز میں شامل کر لیا گیا ہے اور اب INS کی آئندہ کسی بھی خلاف ورزی کے نتیجے میں میرا داخلہ امریکا میں ہمیشہ کے لیے ممنوع ہو گا۔ رجسٹریشن سوفٹ ویئر میں ایک اندراج کے رہ جانے سے ہمیں ازسرِ نو رجسٹریشن کے پورے عمل سے گزرنا پڑا اور اپنا نام‘ پتا‘ والدین سے متعلق معلومات‘ دوستوں سے متعلق معلومات‘ کریڈٹ کارڈز اور فنگر پرنٹ وغیرہ پھر سے ان کے حوالے کرنا پڑے جس میں میرے تقریباً ساڑھے تین گھنٹے ضائع ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں بوسٹن کے لیے اپنی فلائٹ نہ پکڑ سکا۔ اس مرحلے پر میں اس لیے خوش تھا کہ میں ڈپورٹ ہونے سے بچ گیا تھا۔ یہ آئیڈیا برا نہیں ہے کہ ایمرجنسی کے وقت وکیل کو فون کر لیا جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ بیشتر ہمارے طلبہ کو اس کا خیال نہیں ہوتا لیکن بحران کے وقت اگر وہ یہ کام کر لیں تو انہیں خوشی ہی ہو گی۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’نیوز لائن‘‘۔ کراچی۔ ستمبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply