
ایک ارب سے زائد آبادی پر مشتمل پڑوسی ملک بھارت جہاں کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے گزشتہ ماہ دنیا میں موبائل صارف کی سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف جنوری ۲۰۰۹ء میں ۴۱ء۱۵ ملین افراد نے وائرلیس سیٹ خریدے جو دنیا میں ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے دسمبر ۲۰۰۸ء میں بھارتی عوام نے ۸۱ء۱۰ ملین وائرلیس خریدے تھے جو جنوری میں ریکارڈ سطح تک پہنچ گئے۔ ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا (Trai) کی ویب سائٹ پر جاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری ۲۰۰۹ء میں مجموعی طور پر ۳۰ء۳۶۲ ملین وائرلیس کنکشن حاصل کیے گئے جبکہ گزشتہ سال اسی مہینے میں وائرلیس کنکشن حاصل کرنے والوں کی مجموعی تعداد ۶۳ء۲۳۳ ملین تھی۔ ایک ارب ۱۰ کروڑ نفوس پر مشتمل ملک میں اس وقت ۴۰۰ ملین (۴۰ کروڑ) افراد ٹیلی فون کے فکس لائن رکھتے ہیں۔
بھارت میں موبل فون بلنگ کی شرح نمو میں اضافہ کی بنیادی وجہ دنیا میں سیلولر فون کا سب سے سستا ٹیرف کا ہونا ہے جو فی منٹ دو سینٹ کے برابر ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں موبائل فون کا یہ انقلاب اصلاً شہروں تک محدود ہے تاہم ۷۰ فیصد آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔ Trai کا کہنا ہے کہ ۱۰۰ میں سے ۵۰ء۳۴ فیصد افراد ٹیلی فون کے مالک ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ اب بھی ایسے لوگوں کی ایک بڑی مارکیٹ ہے جن کے پاس ٹیلی فون کی لائن نہیں ہے اور یہ دیگر خطوں کے ممالک مثلاً یورپ اور شمالی امریکا سے مماثل ہے، جہاں مارکیٹ ایک طبقے تک محدود ہے۔ Trai کا کہنا ہے کہ ۱۲ سال قبل بھارت کے ۱۰۰ افراد میں سے صرف ۳ افراد موبائل فون کے مالک تھے جو ۲۰۰۵ء میں بڑھ کر ۱۱ ہو گئی۔
ریلائنس کمیونیکیشن بھارت کی دوسری بڑی رجسٹرڈ کمپنی ہے جس کے وائرلیس سیٹ سب سے زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں کی جنوری ۲۰۰۹ء میں شرح نمو ریکارڈ ۱ء۸ فیصد (۹۵ء۴ملین) رہی۔ جبکہ کمپنی کے ۲۹ء۶۶ ملین بنیادی صارف پہلے سے موجود ہیں۔ ریلائنس کمیونیکیشن کی مارکیٹ شرح میں اضافہ کی بنیادی وجہ صارف کو گلوبل موبائل کمیونیکیشن اور جی ایس ایم ٹیکنالوجی کے ساتھ رعایت فراہم کرنا ہے۔ جبکہ دیگر موبائل کمپنیاں مثلاً Bharti Airtel (جو بھارت کی سب سے بڑی موبائل کمپنی ہے) اور Vodafone Essar (جسے برطانیہ کی Vodafone کنٹرول کرتی ہے) کی شرح نمو جنوری میں ۳ سے ۴ فیصد رہی۔ Global Consultancy کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۲ء تک بھارت میں موبائل فون مالکان کی تعداد ۷۳۷ ملین ہو جائے گی۔
(بحوالہ: اے ایف پی۔ ۲۱ فروری ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: آفتاب احمد)
Leave a Reply