بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اب تک پوری ریاست کو اُس طرح مٹھی میں نہیں لیا ہے جس طرح ترکی کے صدر ایردوان نے لے رکھا ہے پھر بھی دونوں کے درمیان چند ایک معاملے میں موازنہ تو کیا جاسکتا ہے۔ ایک حقیقت تو یہ ہے کہ رجب طیب ایردوان کم و بیش پندرہ سال سے اقتدار میں ہیں۔ اس اعتبار سے مودی اُن سے گیارہ سال پیچھے ہیں۔
سیاسی رہنماؤں کے درمیان موازنہ عام طور پر متوازن نہیں ہوتا۔ اس کا بنیادی سبب ہے کہ ان کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ ترک رہنما ایردوان بھارتی وزیر اعظم سے گیارہ سال پہلے ایوان اقتدار میں داخل ہوئے۔ دونوں کے حالات میں بہت فرق ہے مگر پھر بھی چند امور ایسے ہیں کہ ان کے درمیان موازنہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔
مودی اور ایردوان کا تعلق غریب گھرانوں اور چھوٹے شہروں سے ہے۔ ایردوان سیاست میں آنے سے قبل ایک چھوٹے سے شہر ریزے میں شربت اور پیسٹریز فروخت کیا کرتے تھے۔ نریندر مودی سیاست میں قدم رکھنے سے قبل وڈ نگر میں ٹی اسٹال چلانے میں والد کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ دونوں ’’سیلف میڈ‘‘ ہیں یعنی اپنے بل پر کچھ بنے ہیں اور آگے آئے ہیں۔ دونوں میں اپنے پس منظر اور محنتِ شاقہ کے حوالے سے غیر معمولی تفاخر پایا جاتا ہے۔ اور یہ اپنے پس منظر کے بارے میں بتاتے ہوئے کبھی نہیں شرماتے۔ دونوں ہی جسمانی طور پر فٹ ہیں اور اپنی صحت کا غیر معمولی خیال رکھتے ہیں۔
مودی اور ایردوان دونوں ہی مذہبی رجحان کے حامل ہیں۔ ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) اور مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی میں مذہبی رجحان غالب ہے۔ دونوں کا خیال ہے کہ مغرب کے تصورات سے متاثرہ سیکیولر جماعتیں ملک کا بھلا نہیں کرسکتیں۔ مگر اس کے باوجود دونوں نے انتخابی کامیابی کے لیے صرف مذہبی رجحان کا سہارا نہیں لیا بلکہ لادینی عناصر اور پلیٹ فارمز کو بھی اپیل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ دونوں کا بنیادی خیال یہ ہے کہ کاروباری برادری کو موزوں ماحول فراہم کرکے اور بدعنوانی کی جڑیں ختم کرکے وہ ملک کو تیزی سے ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں اور ایسے میں وہ لوگ بھی ساتھ آئیں گے جو سیاسی نظریات کے اعتبار سے تھوڑا بہت اختلاف رکھتے ہیں۔
ہر مستعد اور باصلاحیت رہنما اپنی قوم کو کسی نہ کسی حوالے سے کوئی وژن دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ کام کرنے کا بھرپور جذبہ پیدا ہو۔ ایردوان اور مودی نے بھی یہ نکتہ نظرانداز نہیں کیا ہے۔ ایردوان نے ترک عوام کو یقین دلایا ہے کہ اگر انہیں کام کرنے کا موقع ملتا رہا تو ایک سلطنتِ عثمانیہ کا احیاء ہوگا یا پھر وہی ماحول پیدا ہوگا۔ دوسری طرف نریندر مودی نے مستقبل کے حوالے سے قوم میں کام کرنے کی تحریک بیدار کرنے کی غرض سے فطری علوم و فنون کے حوالے سے بھارت کے شاندار ماضی کے حوالے دینے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ دونوں ہی لیڈر چاہتے ہیں کہ ان کے عوام کو ماضی کی شاندار کامیابیاں یاد رہیں۔ وہ مستقبل میں بہتر امکانات تلاش تو کرتے ہیں مگر ماضی کی کامیابیوں کو پس منظر میں رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ قوم کو یاد رہے کہ ماضی کیسا شاندار تھا اور اُسی سے تحریک پاکر کام کرنے کی صورت میں مستقبل بھی کیسا شاندار ہوسکتا ہے۔
ایردوان اور مودی نے اپنے آپ کو ایسے راہنما کے طور پر پیش کیا ہے جو ملک کی پس ماندگی اور پریشانی کو سمجھتے ہیں، اُسے تمام مشکلات سے نکالنے کا شعور اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے ماضی کو نظر انداز کرنے کے بجائے اُس کا سہارا لینے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ لوگوں کو یہ اندازہ ہو کہ اُنہوں نے اپنی درخشاں روایات کو نظر انداز نہیں کیا۔ دونوں ہی راہنما اپنے آپ کو قوم کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اُن کا غیر بیان شدہ بیانیہ یہ ہے کہ وہ سفید گھوڑوں پر بیٹھے ہوئے ہیرو ہیں، ہاتھ میں تیز دھار کی تلواریں ہیں اور وہ قوم کو پس ماندگی سے دوچار رکھنے والی ہر زنجیر کاٹ دیں گے۔
ایردوان نے پوری کوشش کی ہے کہ ترکی کے سابق سیکولر حکمرانوں کے مقابل قوم کے سامنے خود کو ایک ایسے راہنما کے طور پر پیش کریں جو نظریاتی اعتبار سے اجنبی یا بیرونی ہے۔ عوام کو انہوں نے احساس دلایا ہے کہ اب تک ان پر حکومت کرنے والے غیر تھے اور وہ (ایردوان) اپنے ہیں۔ یہی معاملہ مودی کا بھی ہے۔ انہوں نے قدم قدم پر قوم کو یہ بتانا چاہا ہے کہ کانگریس سیکولر عقائد کی حامل تھی۔ اس کے لیڈر سیکولر ہیں اس لیے اُن سے ہندو ازم کے معاملے میں زیادہ پرامید نہیں ہوا جاسکتا۔ دونوں راہنماؤں نے اپنی اپنی قوم کو یقین دلانا چاہا ہے کہ ماضی کی عظمت کو اگر بحال کرنے کا کسی کو خیال ہے تو اُنہی کو ہے۔ اُنہوں نے کسی بھی مرحلے میں ماضی کو نظر انداز نہیں کیا۔ دونوں نے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں اور متوسط طبقے میں اپنی جگہ بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ انہوں نے مذہب کا حوالہ دے کر لوگوں کو بہت حد تک جذباتی کیا ہے۔
ایردوان نے ۲۰۰۳ء میں پہلی بار اقتدار سنبھالا تب عالمی معیشت بہت اچھی حالت میں تھی۔ اس کا فائدہ ترکی کو بھی پہنچا۔ ایردوان نے بہتر معاشی امکانات سے مستفید ہوتے ہوئے ملک کو سیاسی اعتبار سے تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہونے کی ہمت اپنے اندر پیدا کی۔ انہوں نے ریاستی اداروں کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ملک میں عشروں تک اقتدار پر سیکولر قابض رہے تھے۔ اکثریت کو اس کا حق مل نہیں رہا تھا۔ ایردوان نے اکثریت کی حکومت کی بات کی۔ آمریت کے طویل دور میں بنیادی حقوق بُری طرح کچل کر رکھ دیے گئے تھے۔ ایردوان نے عام آدمی کو احساس دلایا کہ اُسے اپنے حقوق کے معاملے میں لاپروائی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایردوان نے وطن پرستی کا جذبہ مضبوط کرنے پر توجہ دی۔ ذرائع ابلاغ کو ملی ہوئی غیر ضروری آزادی سلب کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ ایردوان نے پوری قوم کو ایک لڑی میں پرونے کی بھرپور کوشش کی۔ قوم کو اُن کی پالیسیاں پسند آئیں اور تب سے اب تک وہ مسلسل اقتدار میں ہیں۔ اب ایردوان نے صدر کا منصب سنبھالاہے جس میں اختیارات مرتکز ہوئے ہیں۔
مودی نے ایردوان سے ایک قدم آگے جانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ہندو اکثریت کو باقی تمام ہندوستانیوں پر مسلط کرنے کی راہ اپنائی۔ انہوں نے مسلمانوں کو کچلنے، ایک طرف کرنے کی پالیسی اپناتے ہوئے ہندو ازم کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اور مسلمان ہی کیا، بھارت کی تمام مذہبی اقلیتیں اس وقت خود کو الگ تھلگ، کونے میں کھڑی ہوئی اور دیوار سے لگائی ہوئی محسوس کر رہی ہیں۔ مودی نے اقلیتوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں انہیں غدار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
مودی نے ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں صرف ہندو دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلمانوں سمیت کسی بھی اقلیت کے پنپنے کی زیادہ گنجائش نظر نہیں آرہی۔ ساری توجہ اقلیت مخالف ماحول پیدا کرنے پر مرکوز کرنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار کا گراف گرا ہے۔ مودی حکومت کو، بظاہر، صرف اس بات سے غرض ہے کہ کسی نہ کسی طور تمام اقلیتوں کو کچل کر رکھ دیا جائے۔ عام ہندوستانی (ہندو) کے ذہن میں یہ خیال دیا گیا ہے کہ اقلیتوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
ایردوان اور مودی نے بیرون ملک غیر معمولی مہم جُوئی کا مظاہرہ کرکے دراصل ملک میں اپنی جڑیں مضبوط تر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ایردوان نے فلسطینیوں اور بلقان کے مسلمانوں کے لیے جو کچھ اب تک کہا اور کیا ہے وہ امریکا اور یورپ کو بہت حد تک ناراض کرنے کا باعث بنا ہے۔ اس کا فائدہ ایردوان کو اندرون ملک ہوا ہے۔ معاملات قابو میں ہیں اور لوگ ’’اے کے پی‘‘ کے سوا کسی کو اپنا نجات دہندہ کے روپ میں نہیں دیکھتے۔ نریندر مودی بھی جب بیرون ملک بھارتیوں کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہیں تو اُن کا ہدف بھارت کی سرزمین پر بسے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ ایسی باتیں زیادہ کرتے ہیں جن سے ملک میں ان کی سیاسی پوزیشن زیادہ مستحکم ہو۔
ترکی کے معروف تجزیہ کار اور ایردوان پر ایک کتاب کے مصنف Soner Captagay کہتے ہیں کہ آدھا ملک اُن سے نفرت کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے جبکہ باقی آدھا ملک انہیں اپنے ہر مسئلے کا حل گردانتا ہے۔ کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ مودی کا بھی ہے۔
ترکی اور بھارت میں بہت سے حوالوں سے انتہائی فرق بھی ہے۔ مثلاً ترکی کی آبادی سوا آٹھ کروڑ ہے جو بھارت کی محض ایک ریاست (اتر پردیش) کی آبادی کے نصف سے بھی کم ہے۔ ترکی میں مسلمان ۹۸ فیصد ہیں۔ بھارت میں ہندو ۸۰ فیصد ہیں۔ اسلام ازم عالمگیر حقیقت ہے، ہندُتوا کے معاملے میں ایسا نہیں۔ ترکی کو کبھی نوآبادی میں تبدیل نہیں کیا گیا۔ اس پر کسی ملک نے کبھی قبضہ نہیں کیا۔ بھارت پر صرف قبضہ ہی نہیں کیا گیا، اُس کے ٹکڑے بھی کیے گئے۔ پہلے پاکستان اور پھر پاکستان سے مشرقی پاکستان کا الگ ہونا۔ یہ دونوں ممالک (پاکستان اور بنگلادیش) بھارت ہی کا حصہ تھے۔ ایک اور بڑا فرق یہ ہے کہ ترکی کم و بیش مکمل طور پر ایک ترقی یافتہ ملک ہے، جبکہ بھارت کو اس منزل تک پہنچنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ بھارتی جمہوریت کی نوعیت ایسی ہے کہ کوئی ایک جماعت پورے ملک کو ہاتھ میں نہیں لے سکتی۔
بھارت میں اب تک کوئی جماعت ریاستی اداروں کو کنٹرول کرنے میں اس حد تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے جس حد تک ترکی میں اے کے پی ہوئی ہے۔ بہر کیف، دونوں ممالک کے لیے چند ایک مشکلات بھی ہیں۔ مثلاً معاشی سطح پر مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ ترک لیرا کی طرح بھارتی روپیہ بھی چند ماہ کے دوران ۵ فیصد کی حد تک قدر سے محروم ہوا ہے۔ بھارت میں آئندہ موسم بہار میں عام انتخابات ہونے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Modi-Erdogan parallel”. (“project-syndicate.org”. June 7, 2018)
Leave a Reply