
استعمار کاظہور معلوم انسانی تاریخ کے ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ سادہ الفاظ میں استعمار کے معنی یہ ہیں کہ ایک قوم یا ملک دوسری کسی قوم یا ملک کی آزادی سلب کرلے اور ’’اختیار‘‘ جو اِنسان کا شرف ہے، اجتماعی زندگی میں اِس شرف سے کسی قوم کو محروم کردے۔ آزادی سے محروم کردینے کایہ عمل کبھی ایک ملک دوسرے ملک کے ساتھ کرتا ہے اور کبھی ایک ہی ملک کے اندر کوئی طاقتور طبقہ اپنے ہی ملک کے دوسرے طبقات کی آزادی کو ختم کردیتا ہے اور انھیں غلام بنا لیتا ہے۔ دنیا عموماً بیرونی استعمار کی طرف زیادہ متوجہ رہی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ’’اندرونی‘‘ استعمار، جو ایک ہی ملک کے ایک طبقے کی جانب سے دوسرے طبقات کے خلاف ہوتا ہے، نظرانداز کیے جانے کے لائق نہیں ہے۔ اکثر اوقات یہ اندرونی استعمار اپنی شدت اور ظلم کے اعتبار سے بیرونی استعمار سے کچھ کم نہیں ہوتا۔
آزادی سلب کیے جانے کے اِس عمل کے ساتھ ساتھ عموماً محکوم قوموں کا استحصال بھی موجود ہوتا ہے۔ قریب ترین زمانے میں استعمار کی مثال یورپ کے طاقتور ممالک کا استعمار ہے۔ یورپ کے اِن ممالک نے صنعتی انقلاب سے قوت پاکر ایشیا اور افریقا کے ممالک کو غلام بنایا اور ایک عالمگیر نظامِ استعمار قائم کردیا جو بیسویں صدی کے وسط تک قائم رہا۔ پھر یہ غلام ممالک رفتہ رفتہ استعمار کے تسلّط سے آزاد ہوئے۔ اِس استعماری دور کے اندر اِن ممالک کا استحصال کیا گیا۔ اِن کے قدرتی ذخائر اور خام مال سے اِن ممالک کے اپنے باشندوں کو محروم کر دیا گیا اور اِن ذخائر پر یورپ نے قبضہ کرلیا۔ پھر سیاسی اور فوجی طاقت کے ذریعے یورپ نے اِن غلام ممالک کو اپنی تجارتی منڈی بنایا۔ مقامی صنعت کاروں اور کاریگروں کے لیے زمین تنگ کردی گئی اور اِن ممالک کے باشندے بیرونی صنعتی سامان خریدنے پر مجبور کردیے گئے۔ اِس طرح یورپ کا استعمار محض غلام قوموں کی اپنی آزادی سے محرومی کا نام نہیں تھا بلکہ اِس استعمار میں ہمہ گیر استحصال کا عنصر بھی پورے طورپر موجود تھا۔
قدیم استعمار
استعمار کی جو شکل موجودہ ٹیکنالوجی کے دور سے پہلے دنیا میں پائی جاتی تھی، وہ نوآبادیت (Colonialism) تھی۔ یورپ کا مذکورہ بالا استعمار نوآبادیت ہی کی نوعیت رکھتا ہے۔ نوآبادیت کے معنی یہ ہیں کہ کسی قوم پر براہِ راست فوجی طاقت کے ذریعے غلبہ حاصل کرلیاجائے اور اسے غلام بنالیا جائے۔ قدیم تاریخ میں طاقتور بادشاہوں کی ملک گیری اِسی استعمار کی ایک قِسم ہے۔
نوآبادیت کاردّعمل ہمیشہ آزادی کی تحریکات کی شکل میں ہوا ہے۔ یورپ کے استعمار سے نجات پانے کے لیے ایشیا اور افریقا کے ہر ملک میں آزادی کی تحریکیں برپا ہوئیں۔ ان تحریکوں نے مسلح بغاوت کی شکل بھی اختیار کی لیکن اکثر صورتوں میں مسلح بغاوتیں یورپ کی بالاتر فوجی طاقت کے مقابلے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ البتہ جب جنگ عظیم اوّل و دوم کے نتیجے میں یورپ کی استعماری طاقتیں کمزور ہوگئیں تو انہیں مجبوراً آزادی کے عوامی مطالبے کے آگے جھکنا پڑا جو پُرامن تحریکات کی شکل میں سامنے آچکا تھا۔ عوامی ردِعمل کی یہ لہر اس اِنسانی جذبے کی غمّازی کرتی ہے، جو ہر قوم میں اپنی آزادی کے حصول اور اس کے استقلال کے لیے پایاجاتا ہے۔ فوجی جبر اور طاقت اِس اِنسانی جذبے کو وقتی طور پر دبا تو سکتی ہے لیکن ختم نہیں کرسکتی۔
جدید قالب
بیسویں صدی میں ایشیائی اور افریقی ممالک آزاد ہوگئے، چنانچہ اِن ممالک کے عوام یہ توقع کرتے تھے کہ اب وہ آزادی سے مُتمتّع ہوسکیں گے لیکن فی الواقع ایسا نہ ہوسکا۔ قانونی اور رسمی آزادی کے باوجود حقیقی آزادی سے اکثر ممالک محروم رہے۔ اِس محرومی کی وجہ وہ طاقتور بلاک تھے، جو جنگِ عظیم دوم کے بعد ہی وجود میں آگئے تھے۔ روس اور امریکا کی سربراہی میں قائم اِن طاقتور بلاکوں نے تیسری دنیا کے ممالک پر براہِ راست فوجی تسلّط کے بجائے اپنا بالواسطہ تسلط قائم کرلیا۔ اِس تسلط کی نوعیت راست فوجی غلبے کی نہ تھی بلکہ تسلط کے لیے سیاسی اور ڈپلومیٹک ذرائع کا استعمال کیا گیا تھا۔ یہ نئے استعمار کا ظہور تھا۔
اِس نئے استعمار نے اپنا بالواسطہ تسلط جمانے اور برقرار رکھنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے، وہ درج ذیل ہیں:
الف) فوجی معاہدے، جن کے ذریعے ایک کمزور ملک کو دوسرے کمزور ملک کے خلاف استعمال کیا گیا۔
ب) فوجی اڈوں کا قیام
ج) معاشی معاہدے، جن کے ذریعے کمزور ممالک کو تجارتی منڈی بنایا گیا اور ان کے وسائل پر قبضہ کیا گیا۔
د) بین الاقوامی معاشی اداروں کے ذریعے کمزور ممالک کا استحصال۔
ہ) براہِ راست سفارتی دباؤ کا استعمال۔
و) بین الاقوامی اداروں، UNO (اقوام متحدہ) اور اس سے متعلق تنظیموں کے ذریعے کمزور ممالک پر سفارتی و سیاسی دباؤ۔
ز) انسانی حقوق اور بحالیٔ جمہوریت کے نام پر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت۔
روس کے انتشار کے بعد استعماری نظام ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ اِس دور میں دو طاقتور بلاکوں کی جگہ تنہا ایک طاقتور بلاک نے لے لی اور ’’یک قطبی نظام‘‘ وجود میں آگیا۔ استعمار کے اِس نئے دور میں استحصال پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بڑھ گیا۔ اس کی وسعت کے ساتھ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہوا اور نئی عالمی طاقت اور اس کے حلیفوں کے علاوہ دنیا کے باقی تمام ممالک اپنی آزادی سے بڑی حد تک محروم ہوگئے۔
محرّکات
ایک قوم دوسری قوم کو کیوں غلام بناتی اور اس کی آزادی کو کیوں سلب کرتی ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اِس کاجواب یہ ہے کہ کسی قوم کے اس طرزِ عمل کے محرکات وہی ہوتے ہیں، جو کسی فرد کو اپنی انفرادی حیثیت میں، ظلم و جبر کا طرزِ عمل اختیار کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ انسانی سماج میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دوسرے انسانوں پر اپنا تسلط جمانے کے درپے ہوتے ہیں، ان کی آزادی کو سلب کرتے ہیں، ان پر جبر کرتے ہیں اور اُن کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ غیراِنسانی طرزِ عمل، خواہ کسی فرد کا ہو یا کسی قوم کا، کچھ محرکات کی بِنا پر ظہور میں آتا ہے۔ یہ محرکات بنیادی طورپر تین ہیں:
الف) گھمنڈ کا جذبہ
ب) دوسرے انسانوں پر اپنا اقتدار جمانے اور اپنی مرضی چَلانے کی خواہش
ج) دوسروں کے مال اور وسائل و ذرائع پر قبضہ کرنے کی ہَوس
کوئی فرد جب اپنے اِن جذبات کو کنٹرول نہیں کرتا اور سماج میں بھی کوئی ایسی طاقت نہیں ہوتی جو اُسے قابو میں رکھ سکے، تو وہ ظالم و جابر بن جاتا ہے اور دوسرے کمزور اِنسانوں کا استحصال کرنے لگتا ہے۔ اِسی طرح جب کوئی قوم بحیثیت قوم گھمنڈ کرنے لگتی ہے، دوسری قوموں پر اقتدار کی خواہاں ہوتی ہے اور اُن کے استحصال کے درپے ہوتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر کوئی کنٹرول کرنے والی طاقت ایسی نہیں ہوتی جو اسے زیادتی سے باز رکھ سکے، تو استعمار ظہور میں آتا ہے۔ استعمار کی شکل کوئی بھی ہو، اُس کے محرکات یہی ہوتے ہیں۔
غرور وتکبر
گھمنڈ کا جذبہ جب کسی فرد میں پیدا ہوتا ہے تو وہ اِترانے لگتا ہے اور اپنی حدود میں نہیں رہتا بلکہ دوسرے اِنسانوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔ قارون کے متعلق قرآن مجید میں ہے:
’’واقعہ ہے کہ قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہوگیا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقتور جماعتوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔ ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا: ’’پھول نہ جا، اللہ تعالیٰ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ جو مال اللہ تعالیٰ نے تجھے دیا ہے، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے اپنا حصّہ فراموش نہ کر، احسان کر جس طرح اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ تعالیٰ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ تو اُس نے کہا: ’’یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے‘‘۔ کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے، جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے‘‘۔ (القصص:۷۶۔۷۸)
قارون کو اپنی دولت اور اپنے نام نہاد علم پر غرور تھا۔ اس طرح کا غرور آج مغربی قوموں میں بھی ہے، جو اپنی ٹیکنالوجی اور سائنس پر ناز کرتی ہیں اور اپنے باطل تصورات کو حق کے طورپر پیش کر کے اُن کو جبراً انسانیت پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔
بادشاہوں کی ملک گیری کے پیچھے ایک جذبہ گھمنڈ کا بھی ہوتا تھا۔ اِس جذبے کے تحت وہ مغلوب قوموں کو ذلیل کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید نے ملکہ سبا کا بیان نقل کیا ہے:
’’ملکہ سبا نے کہا کہ ’’بادشاہ جب کسی ملک میں گُھس آتے ہیں تو اُسے خراب اور اُس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں، یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں‘‘۔ (النمل:۳۴)
گھمنڈ کا جذبہ آخرت فراموشی کی طرف لے جاتا ہے اور آخرت فراموشی سے غذا بھی حاصل کرتا ہے۔ قومِ ثمود کو اِس گھمنڈ نے بلاضرورت عمارتیں بنانے پر آمادہ کیا۔ چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کو ان الفاظ میں تنبیہ کی:
’’کیا تم اُن سب چیزوں کے درمیان، جو یہاں ہیں، بس یونہی اطمینان سے رہنے دیے جاؤ گے؟ اِن باغوں اور چشموں میں؟ ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رَس بھرے ہیں تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو؟ اللہ سے، ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔ (الشعراء:۱۴۶۔۱۵۰)
غرور کی بنا پر گمراہ قومیں اپنے بے بنیاد فلسفوں اور نظریات کو عین حق گردانتی ہیں اور اُن کے مقابلے میں ہدایتِ الٰہی کو نظرانداز کرتی ہیں۔ اِس رویے کا انجام جہنم ہے۔ سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اِن سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کررہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے رَب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اُس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اِس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہوگئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ اُن کی جزا جہنم ہے، اُس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے‘‘۔ (الکہف:۱۰۳۔۱۰۶)
اقتدار طلبی
گھمنڈ کے علاوہ دوسرا محرک جو افراد کو ظلم و جبر کی طرف لے جاتا ہے اور طاقتور قوموں کو استعماری رویّے پر آمادہ کرتا ہے، وہ انسانوں پر اپنا اقتدار جمانے کی خواہش ہے۔ قرآن مجید ایسے افراد کا تذکرہ کرتا ہے جو اپنی نیک نیتی کا یقین دِلاتے ہیں، لیکن ان کی اصل نیت اُس وقت سامنے آتی ہے جب اُن کو عملاً اقتدار حاصل ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
’’انسانوں میں کوئی ایسا ہے جِس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے، مگر حقیقت میں وہ بدترین دشمن حق ہوتا ہے۔ جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتیوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو ہرگزپسند نہیں کرتا اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔ (البقرہ:۲۰۴۔۲۰۶)
فرعون کے ظالمانہ طرزِ عمل کا تذکرہ قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ اس کو اقتدار چھن جانے کا خوف تھا چنانچہ اُس نے اپنے ملک (مصر) کے اندر ہی باشندگانِ ملک کے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کے خلاف استعماری رویہ اختیار کر رکھا تھا۔
’’واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اوراس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنادیں اور ان ہی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دِکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا‘‘۔ (القصص:۴۔۶)
قومِ عاد پڑوسی قوموں کے ساتھ جابرانہ رویہ اختیار کرتی تھی۔ حضرت ہود علیہ السلام نے اِس پر تنبیہ کی ہے:
’’یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو، گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو جبّار بن کر ڈالتے ہو۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔ (الشعراء:۱۲۸۔۱۳۱)
مال و دولت کی ہوس
افراد کی طرح قوموں کو بھی دولت کا لالچ ہوتا ہے۔ مال و دولت اور قدرتی ذخائر کے حصول کے لیے قومیں استعماری رویہّ اختیار کرتی ہیں اور دوسری قوموں کے ذرائع و وسائل پر ناجائز قبضہ جماتی ہیں۔ قریبی دور میں استحصال کا یہ جذبہ استعمار کے ظہور کا سب سے قوی محرک رہا ہے۔
جب فرد کے اندر مال و دولت کی محبت حدِ اعتدال سے تجاوز کر جاتی ہے تو وہ آخرت کو بھول جاتا ہے اور کمزوروں کی دولت کو لوٹنے لگتا ہے۔ ایسے ہی کردار کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے:
’’ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم کے ساتھ عزت کا سلوک نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھِلانے پر نہیں اُکساتے اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کی محبت میں بُری طرح گرفتار ہو‘‘۔ (الفجر:۱۷۔۲۰)
یہ رویہ وہ گروہ بھی اختیار کرتے ہیں جو منصوبہ بند طریقے سے انسانی آبادیوں پر حملے کرتے ہیں تاکہ لوٹ مار کرسکیں۔ قرآن مجید نے اِس کردار کا تذکرہ کیا ہے:
’’قسم ہے ان گھوڑوں کی جو پھنکارتے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں، پھر (اپنی ٹاپوں سے) چنگاریاں جھاڑتے ہیں، پھر صبح سویرے چھاپے مارتے ہیں، پھر اس موقع پر گرد و غبار اڑاتے ہیں، پھر اسی حالت میں کسی مجمع کے اندر جا گھستے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِنسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے اور وہ خود اِس پر گواہ ہے اور وہ مال و دولت کی محبت میں بُری طرح مبتلا ہے۔ تو کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا، جب قبروں میں جو کچھ (مدفون) ہے، اسے نکال لیا جائے گا، اور سینوں میں جو کچھ (مخفی) ہے، اُسے برآمد کرکے اس کی جانچ پڑتال کی جائے گی؟ یقینا ان کا رب اس روز ان سے خوب باخبر ہوگا‘‘۔ (العادیات)
اصلاحِ حال کے لیے اقدام
استعمار ایک تلخ حقیقت ہے جو دنیا میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ استعمار کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ اصولی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مقابلے کا انداز وہی ہوگا جو سماج میں ظلم کے ازالے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔
کسی سماج میں افراد کے ظلم و جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے تین ضروری تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں:
الف) افراد کے ضمیر کی بیداری۔
ب) سماج کے اندر صالح اورمؤثر رائے عامہ کی تربیت
ج) نظامِ قانون اور نظامِ حکومت کا قیام جو زیادتی کرنے والے افراد کو قابو میں رکھ سکے۔
اِسی طرح پوری دنیا کی سطح پر دنیا کے ملکوں اور قوموں کو طاقتور ملکوں کے استعمار سے بچانے اور اِس استعمار کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تین طرح کے اقدامات ضروری ہیں:
الف) طاقتور قوموں کے افراد اور اربابِ اقتدار کے اِنسانی ضمیر کو جگانے کی سعی۔
ب) بین الاقوامی سطح پر صالح اور موثر عالمی رائے عامہ کی موجودگی جو استعمار کو غلط سمجھے اور استعماری روّیوں کو غلط قرار دے۔
ج) واضح بین الاقوامی قانون کی موجودگی اور مؤثر بین الاقوامی اداروں کا قیام و استحکام، جو طاقتور قوموں کو استعمار سے باز رکھ سکیں اور ان کا احتساب کرسکیں۔
ضمیر کی بیداری
ہر اِنسان کے اندر ضمیر موجود ہوتا ہے اور جب تک اِنسان اسے بالکل سُلا نہ دے، وہ انسان کو برائیوں پر متنبہ کرتا رہتا ہے۔ استعمار کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ طاقتور ممالک (جو اپنی طاقت کی بنا پر استعماری رویے کی طرف مائل ہوتے ہیں) کے عام باشندوں کے انسانی ضمیر کو جگایا جائے۔
’’انسان اپنے آپ کو خوب جانتاہے، خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے‘‘۔ (القیامہ:۱۴۔۱۵)
آج کے ذرائع ابلاغ (Communication) کی ترقی کے دور میں یہ ممکن ہو گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر انسانوں سے رابطہ قائم کیا جائے۔ امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طاقتور ملک کے سوچنے سمجھنے والے افراد سے ربط قائم کرے اور اربابِ حکومت کے استعماری رویوں کی نامعقولیت عام انسانوں پر واضح کرے۔ عام انسانوں کا ضمیر جاگے گا تو وہ حکومتوں کے رویّے کو ضرور متاثر کرے گا۔
عالمی رائے عامہ کی تربیت
دنیا میں طاقتور ممالک کم ہیں اور کمزور زیادہ۔ کمزور ممالک خود تو استعماری اور استحصالی رویّہ نہیں اختیار کرتے لیکن طاقتور ممالک کے استعمار کے آلہ کار بآسانی بن جاتے ہیں یا آلہ کار بن جانے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔
اِس صورت حال کو بدلنے کے لیے بین الاقوامی رائے عامہ کی تشکیل درکار ہے۔ یہ رائے عامہ محض افراد کی رایوں سے عبارت نہیں ہے بلکہ اس کی تشکیل کا مؤثر ذریعہ وہ بین الاقوامی فورم ہوسکتے ہیں جو کسی طاقتور ملک کا حلیف بننے کے بجائے حقیقی بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے وجود میں لائے گئے ہوں۔ ’’ناوابستہ تحریک‘‘ میں ایسا ہی فورم بن جانے کی صلاحیت موجود تھی مگر یہ تحریک اب عملاً ختم ہوچکی ہے۔ چنانچہ اب ضرورت ہے کہ مسلمان ممالک آگے بڑھ کر ایسے ادارے وجود میں لائیں، جو کمزور ممالک کے اور انصاف پسند حکومتوں کے نمائندے ہوں اور انصاف کی بنیاد پر بین الاقوامی امن کے لیے کام کریں۔ یہ ادارے ایک طاقتور بین الاقوامی رائے عامہ کا رول انجام دے سکیں گے۔
بین الاقوامی قانون کی بحالی
اِس وقت جو بین الاقوامی نظام دنیا میں موجود ہے، وہ محض کچھ ’’معاہدوں‘‘ اور ’’اعلانات‘‘ پر مشتمل ہے۔ مسلمان ماہرینِ قانون نے اسلامی تہذیب کے دورِ عروج میں مؤثر بین الاقوامی قانون مرتب کرنے کی جانب بعض اہم اقدامات کیے تھے۔ اس کام کی تجدید کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق مسلمان علما اور اسکالروں کو بین الاقوامی قانون مرتب کرنا چاہیے اور مسلمان ممالک کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ یہ قانون بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرلیا جائے۔
اِس وقت کے موجود ادارے… اقوام متحدہ (UNO) اور بین الاقوامی معاشی ادارے… یا تو غیر مؤثر ہیں یا خود استعمار اور استحصال کا آلہ بن گئے ہیں۔ مسلمان ممالک کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اِن اداروں کے متبادل ادارے تشکیل پاسکیں اور اُن کی رکنیت صرف مسلمان ممالک تک محدود نہ ہو۔ ان متبادل اداروں کا ڈھانچا اور اندازِ کار، استحصال اور استعمار کے ہر اثر سے پاک ہونا چاہیے اور خالصتاً انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔ رفتہ رفتہ اِن متبادل اداروں میں استعمار کے شکار خِطّے اور انصاف پسند ممالک شامل ہوسکتے ہیں اور پھر یہ بین الاقوامی نظام اتنا طاقتور بنایا جاسکتا ہے کہ موجودہ استعماری و استحصالی نظام کا مقابلہ کرسکے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘۔ نئی دہلی، جنوری ۲۰۱۵)
کسی بھی ملک کی تباہی میں اس ملک کے کرپٹ لوگوں کا ہاتھ ہے اور ہر ملک میں تقریبا ہر شخص اپنی اپنی ذمہ داریوں سے غافل مطلب کرپٹ ہے