
پاکستان ایک بار پھر لہو لہان ہے۔ خون مسلم کی ارزانی نہیں دیکھی جاتی اور پاکستان ہی کیوں۔عالم اسلام پر جہاں بھی نظر ڈالیے نزاعی کیفیت نظر آتی ہے جہاں ہم غیروں سے نبرد آزما نہیں اپنوں سے برسر پیکار ہیں۔ پاکستان کے حالات اس لیے تشویشناک ہیں کہ وہ پڑوسی ملک ہے،نیوکلیئر طاقت ہے اور وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کے اثرات ہندوستان پر ہی نہیں پورے خطے پر پڑتے ہیں۔ تقسیم وطن کے بعد ہندوستان نے سیکولرزم کی راہ اپنائی مگر ستیہ میو جیتے کی آڑمیں اسے ایک مذہبی رنگ بھی دے دیا۔ پاکستان دو قومی نظریے اور اسلام کے نام پر وجود میں آیا مگر اپنی شناخت بر قرار نہ رکھ سکا۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھا تھا جس میں ہر قوم و مذہب کے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ وہ ایک سیکولر بلکہ غیر مذہبی انسان تھے قومی اسمبلی میں کی گئی ان کی تقریر ان کے مزاج، ان کی افتاد اور ان کے نظریات کا آئینہ تھی۔ بد قسمتی سے پاکستان سیکولر بن سکا، نہ جمہوری، نہ اسلامی ۔ چوں چوں کا مربہ بن گیا۔ کسی زمانے میں سیاست بھلے ہی مذہب کی تابع رہی ہو آج کے سیاست دانوں نے اس کی آمیزش سے محلول تیار کیا ہے اس نے اچھے اچھوں کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ ہندوستان میں سیکولرزم اور جمہوریت کی جڑیں اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود آج بھی قدرے مضبوط ہیں۔ پاکستان میں ایسا نہیں۔ وہاں جمہوریت کبھی پنپ نہ پائی۔ وقفے وقفے سے جو منتخب حکومتیں معرض وجود میں آئیں وہ اپنی میعاد پوری کر سکیں نہ کوئی اچھا تاثر قائم کر سکیں۔ قتل وخوں ریزی رشوت اور لوٹ مار کی گرم بازاری رہی۔ ۱۹۵۸ء سے آج تک پاکستان عموماً فوجی آمروں کے زیر تسلط رہا ہے پرویز مشرف نے وردی اتار دی ہے لیکن ان کے تیور اب بھی فوجی آمروں جیسے ہیں۔ اگر ۸۰ کی دہائی سے جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں اسلام کے نام پر بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو بڑھا وا ملا تو آج یہ دونوں چیزیں خود پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔ ایک تیسرا عنصر جس نے پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا وہ پاکستان کی امریکہ نوازی یا امریکہ کی پاکستان نوازی ہے دونوں نے ایک دوسرے کو استعمال کیا ہے ۔۱۱/۹ کے سانحہ کے بعد پاکستان امریکہ کی ضرورت بن گیا ہے۔ جسے اب تک ۱۰ بلین ڈالر کی امداد دی جا چکی ہے ۔ اگر دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے تو محض اس لیے کہ اس کے سوتے پاکستان سے پھوٹتے ہیں۔ دہشت گردی نے ایک ایسے عفریت کی شکل اختیار کر لی ہے جس سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور دنیا ایک غیر محفوظ جگہ بن گئی ہے پرویز مشرف پر چار جان لیوا حملے ہو چکے ہیں۔ ان کی احتیاط اور سیکورٹی کا یہ عالم ہے کہ جس راستے سے انہیں اپنے محافظ دستوں اور ہیلی کاپٹروں کی نگرانی میں گزرنا ہوتا ہے اسے سیل کر دیا جاتا ہے۔ جہادی تنظیمیں یوں تو پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن حکومت کو سب سے زیادہ خطرہ شمال مغربی سرحد سے ہے ۔ وزیرستان مقامی اور غیر ملکی دہشت گروں کی پناہ گاہ بن چکا ہے ۔ امریکہ کی اسلام دشمنی نے عوام کو برافروختہ کر دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی پرویزمشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان سیاسی مفاہمت کو عوام کے ایک بڑے طبقے اور جہادی تنظیموں نے شک کی نظر سے دیکھا۔بینظیر بھٹو کی واپسی پر ہوئے دو خونیں دھماکے جن میں ۱۴۰ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے اسی ناراضگی کا مظہر تھے۔ عدلیہ کی برہمی مشرف کے لیے ایک تازیانہ ثابت ہوئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معزولی اور بحالی کو مشرف نے اپنے لیے ایک چیلنج سمجھا۔ انہیں اپنی گدی خطرے میں نظر آنے لگی۔ ۳ نومبر کو نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کا بنیادی مقصد عدلیہ کے پَرکترنا تھا۔ ایمرجنسی کے نفاذ پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اس کی افواہ کئی مہینوں سے گشت کر رہی تھی۔ اس غیر معمولی اقدام سے مشرف کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس نے حزب مخالف میں اتحاد کی راہ ہموار کر دی ۔ اس سلسلے میں مشرف کو سب سے بڑا دھچکا بینظیر بھٹو سے لگا جنہوں نے ان سے کی ہوئی سیاسی مفاہمت کو بالائے طاق رکھ دیا اور اپوزیشن اتحاد کی روح رواں بن گئیں۔
حزب مخالف کے اتحاد، عوام میں پھیلی بے چینی اور بین الاقوامی دبائو نے مشرف کو ایمرجنسی ہٹانے پر مجبور کر دیا لیکن وہ اس کے مضمرات سے بچ نہ سکے اور پاکستان کی سب سے زیادہ نا پسندیدہ شخصیت بن گئے ۔ ۸ جنوری کو ہونے والے الیکشن میںبینظیر کی جیت یقینی اور ان کا وزیر اعظم بننا طے تھا۔ یہ بات حکومت، فوج، آئی ایس آئی، جہادی اور مذہبی تنظیموں کو گوارا نہیں تھی جو بے نظیر کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ ان کا قتل انہی سارے عوامل کے پس منظر میں ہوا۔ خود بے نظیر نے اپنے سرپر منڈلاتے موت کے سائے کو محسوس کر لیا تھا۔ چنانچہ قتل سے دو مہینے پہلے انہوں نے امریکہ میں اپنے صلاح کار کو ای میل کے ذریعے اطلاع دی تھی کہ اگر پاکستان میں ان کا قتل ہوتا ہے تو اس کے پرویز مشرف ذمہ دار ہوں گے ۔ مشرف بھلے ہی ان کے قتل کی سازش میں ملوث نہ ہوں لیکن وہ اور ان کی حکومت بینظیر کو دی جانے والی ناقص سیکورٹی کے الزام سے بچ نہیں سکتے۔ سانحہ کے بعد حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے متضاد بیانات نے واردات کو پر اسرار بنا دیا ہے ۔طالبان اور القاعدہ کے انکار کے بعد شک کی سوئی آئی ایس آئی، فوج اور دیگرجہادی تنظیموں کی طرف گھوم گئی ہے۔اس لیے بین الاقوامی ایجنسی کے ذریعے انکوائری کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ تازہ خبروں کے مطابق امریکہ نے سانحہ کی مکمل تحقیقات میں مدد اور رہنمائی کی پیشکش کی ہے پاکستانی الیکشن کمیشن نے نظم و نسق کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے الیکشن ملتوی کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ نے التواء کی مخالفت کی ہے دونوں پارٹیاں قتل سے پیدا شدہ ہمدردی کی لہر کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ اس دوران آصف زرداری کی ایما پر بے نظیر کے ۱۹ سالہ بیٹے بلاول کو پیپلز پارٹی کا سر براہ مقرر کیا گیا ہے جو آکسفورڈ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہی عملی سیاست میں حصہ لیں گے ان کی غیر موجودگی میں بلاول کے والد آصف زرداری کارگزار سربراہ ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کے تازہ انکشاف کے مطابق بے نظیر کا قتل اس لیے ہوا کہ وہ مشرف حکومت اور آئی ایس آئی کے ذریعے انتخابات میں ہونے والی بد عنوانیوں کی سازش کا پردہ فاش کرنے والی تھیں اور راولپنڈی ریلی کے بعد پاکستان میں موجود دو امریکی ممبران پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں ۱۶۰ صفحات پر مشتمل ایک دستاویز پیش کرنے والی تھیں۔ پارٹی کے بمطابق بد عنوانیوں کا مقصد مشرف کی تائید کردہ مسلم لیگ (ق) کو انتخابی فائدہ پہنچانا تھا۔
بے نظیر بھٹو کے قتل نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور پاکستان کو ایک ایسے سیاسی اور آئینی بحران میں مبتلا کر دیا ہے جس سے نمٹنا مشرف کے لیے آسان نہ ہوگا۔ بے نظیر کا قتل کیا رنگ لائے گا؟ ان کی موت سے جو سیاسی خلا پید اہوا ہے کیا وہ پر ہو سکے گا؟ کیا اس سے امن اور جمہوریت کی بحالی میں مدد ملے گی یا پاکستان خانہ جنگی کی طرف جائے گا؟ آنے والے دنوں میں سیاسی حالات کیا رخ اختیار کریں گے ؟ کیا جہادی تنظیموں اور دہشت گردی پر قابوپایا جا سکے گا؟ ان سارے سوالات سے پاکستان اور اس کے عوام کا مستقبل وابستہ ہے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں آج بھی ’’بینظیر کیسے مریں‘‘ بحث کا موضوع ہے انہیں کس نے مارا؟ کسی کو اس کی پرواہ نہیں سانپ نکل جانے پر لکیر پیٹنے کی روایت اب بھی زندہ ہے ۔
(بحوالہ:روزنامہ’’ انقلاب‘‘ ممبئی،۳ جنوری۲۰۰۷ء)
Leave a Reply